بھارت میں مذہبی آزادی ایک بنیادی حق ہے جس کی ضمانت بھارتی آئین کی شق نمبر 25-28 میں دی گئی ہے۔[1] جدید بھارت کا آغاز 1947ء سے ہوتا ہے اور بھارتی آئین میں 1976ء میں ترمیم کے مطابق ملک کو سیکولر ریاست قرار دیا گیا۔[2] جس کے مطابق ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق اپنی زندگی گزانے کا پورا حق حاصل ہے۔ البتہ، مذہبی تشدد اور فسادات کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں، خاص طور پر، دہلی میں 1984ء کے سکھ مخالف فسادات، کشمیر میں 1990ء میں ہندو مخالف فسادات، گجرات میں 2002ء کے مسلم مخالف فسادات اور 2008ء میں مسیحی مخالف مسادات۔ بڑے پیمانے پر مذمت کے باوجود دہلی میں 1984ء کے سکھ فسادات کے بعض مجرموں کو عدالت میں نہیں لایا گیا ہے۔[3][4][5][6]

بھارت مذہب کے لحاظ سے سب سے زیادہ متنوع ممالک میں سے ایک ہے، دنیا کے اہم مذاہب میں سے 4 مذاہب ہندو مت، جین مت، بدھ مت اور سکھ مت کا آغاز یہاں سے ہوا۔ اگرچہ ہندو مت 80 فی صد آبادی کا مذہب ہے، بھارت کے بعض خطے بعض دیگر مخصوص مذاہب والوں کی اکثریت کے بھی ہیں، جموں و کشمیر مسلم اکثریت والی، پنجاب سکھ اکثریت والی، ناگالینڈ، میگھالیہ اور میزورم مسیحی اکثریت والی ریاستیں ہیں اور بھارتی ہمالیائی ریاستوں جیسا کہ سکم اور لداخ، اروناچل پردیش اور ریاست مہاراشٹر اورمغربی بنگال میں دارجلنگ ضلع میں بدھ مت کی اکثریت آبادی ہے۔ ملک میں مسلمان، سکھ، مسیحی، بدھ مت، جین مت اور زرتشتیت کی آبادیاں اہمیت کی حامل ہیں۔ اسلام بھارت میں سب سے بڑا اقلیتی مذہب ہے اور بھارت میں مسلمان آبادی کل آبادی کے 14 فیصد ہیں، اس طرح بھارت دنیا بھر میں مسلم آبادی والا تیسرا بڑا ملک ہے۔

راجنی کوٹہری، بانی مرکز برائے مطالعۂ ترقی پزیر معاشرے کے بقول، "بھارت بنیادی طور روادار اور ایک تہذیب کی بنیادوں پر تعمیر ملک ہے۔"[7]

بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت جہاں مذہبی آزادی کا ذکر ہے وہیں اسی آرٹیکل کی شق 2 بی کے تحت سکھ مت، بدھ مت اور جین مت والوں کو ہندو مت کا حصہ قرار دے کر ان کی مذہبی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ اس شق کے باعث ان تینوں مذاہب کے پیروکاروں کو زبردستی Hindu Succession Act, 1956, Hindu Marriage Act, 1955, Hindu Adoptions and Maintenance Act, 1956, Hindu Minority and Guardianship Act جیسے قوانین ماننے پر مجبور کیا گیا ہے جو ان کے مذاہب سے متصادم ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بھارتی اقلیتیں 68 برس سے اس آرٹیکل میں ترمیم کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. article 15 of India Constitution
  2. "THE CONSTITUTION (FORTY-SECOND AMENDMENT) ACT, 1976"۔ http://indiacode.nic.in۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2015  روابط خارجية في |website= (معاونت)
  3. Paul R. Brass (2005)۔ The Production of Hindu-Muslim Violence in Contemporary India۔ University of Washington Press۔ صفحہ: 65۔ ISBN 978-0-295-98506-0 
  4. * "India: Communal Violence اور the Denial of Justice"۔ Human Rights Watch۔ 1996 
  5. "India: No Justice for 1984 Anti-Sikh Bloodshed"۔ Human Rights Watch۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018 
  6. "Thousands call for justice for victims of 1984 Sikh massacres – Amnesty International India"۔ Amnesty International India۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018 
  7. Rajni Kothari (1998)۔ Communalism in Indian Politics۔ Rainbow Publishers۔ صفحہ: 134۔ ISBN 978-81-86962-00-8۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2018 

بیرونی روابط

ترمیم