آئین ہند

بھارت کا آئین و دستور
(بھارت کا آئین سے رجوع مکرر)

آئین ہند (ہندی: भारत का संविधान زبان) جمہوریہ بھارت کا دستور اعلیٰ ہے۔[3] اس ضخیم قانونی دستاویز میں جمہوریت کے بنیادی سیاسی نکات اور حکومتی اداروں کے ڈھانچہ، طریقہ کار، اختیارات اور ذمہ داریوں نیز بھارتی شہریوں کے بنیادی حقوق، رہنما اصول اور ان کی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا ہے۔ آئین ہند دنیا کا سب سے اچھا تحریری دستور ہے[4][5][6] اور آئین ہند کی مجلس مسودہ سازی کے صدر بھیم راؤ رام جی امبیڈکر کو عموماً اس کا معمار اعظم کہا جاتا ہے۔[7]

آئین ہند
اصل عنوانभारतीय संविधान (سنسکرت: Bhāratīya Saṃvidhāna)[ا]
جغرافیائی علاقہ بھارت
منظوری آئین26 نومبر 1949؛ 75 سال قبل (1949-11-26)
تاریخ نفاز26 جنوری 1950؛ 74 سال قبل (1950-01-26)
حکومتآئینی پارلیمانی سماج وادی غیر مذہبی جمہوریہ
شعبہ جاتتین (عاملہ، مقننہ اور عدلیہ)
چیمبربھارتی پارلیمان (راجیہ سبھا اور لوک سبھا)
عاملہوزیر اعظم بھارت-led cabinet responsible to the لوک سبھا، بھارتی پارلیمان
عدلیہبھارتی عدالت عظمیٰ، بھارتی عدالت ہائے عالیہ کی فہرست اور ضلعی عدالتیں
حکومتی تقسیمUnitary (Quasi-federal)
منتخب کنندگانہاں، براے صدارتی و نائب صدارتی انتخابات
انٹرینچمنٹ2
ترامیم103
آخری ترمیم12 جنوری 2019 (103rd)
مقامسنسد بھون، نئی دہلی، بھارت
مصنفDr بھیم راؤ رام جی امبیڈکر
Chairman of Drafting Committee

سر Benegal Narsing Rau
Constitutional Advisor to مجلس دستور ساز[1] Surendra Nath Mukherjee
Chief Draftsmen of Constituent Assembly of India[2]

اور دیگر ارکان مجلس دستور ساز
دستخطمجلس آئین ساز کے 284 اراکین
سابقہGovernment of India Act 1935
قانون آزادی ہند 1947ء

آئین ہند کے مطابق بھارت میں دستور کو پارلیمان پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ اسے مجلس دستور سازو نے بنایا تھا نہ کہ بھارتی پارلیمان نے۔ آئین ہند کی تمہید کے مطابق بھارتی عوام نے اسے وضع اور تسلیم کیا ہے۔[8] پارلیمان آئین کو معطل نہیں کر سکتی ہے۔

آئین ہند کو مجلس دستور ساز نے 26 نومبر 1949ء کو تسلیم کیا تھا اور 26 جنوری 1950ء کو نافذ کیا تھا۔[9] آئین ہند گورنمٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935ء کو بدل کر ملک کا بنیادی سرکاری دستاویز بنا اور بھارت ڈومینین جمہوریہ ہند بن گیا۔ آئینی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے آئین ہند کے معماروں نے برطانوی پارلیمان کی دفعات کو آئین ہند کی دفعہ 395 میں کالعدم قرار دے دیا۔[10] آئین ہند کے نفاذ کو بھارت بطور یوم جمہوریہ بھارت کو مناتا ہے۔[11]

آئین ہند بھارت کو آزاد، سماجی، سیکیولر [12][13] اور جمہوری ملک بناتا ہے جہاں عوام کے لیے انصاف، مساوات اور حقوق کو یقینی بناتا ہے اور سب مذہبی برادری کو فروغ دینے پر ابھارتا ہے۔[14]

پس منظر

ترمیم

برصغیر 1857ء سے 1947ء تک برطانوی راج کے زیر نگیں تھا۔ آئین ہند نے 26 جنوری 1947ء کو نافذ ہونے کے بعد قانون آزادی ہند ایکٹ، 1947ء کو کالعدم قرار دے دیا۔ آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی بھارت اب تاج برطانیہ کا ڈومینین نہیں رہا اور ایک آزاد جمہوری ملک کہلایا۔ دفعات 5، 6، 7، 8، 9، 60، 324، 366، 367، 379، 380، 388، 391، 392، 393 اور 394 26 نومبر 1949ء کو ہی نافذ ہو گئی تھیں جبکہ مکمل دستور 26 جنوری 1950ء کو نافذ ہوا۔[15]

سابق دستور سازی

ترمیم

آئین ہند کے کئی ماخذ ہیں۔بھارت کی حالات اور ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین کے معماروں نے سابق دستوروں اور ایکٹوں سے بہت کچھ مدد لی ہے جیسے حکومت ہندوستان ایکٹ 1858، قانون مجالس ہند، 1861ء، قانون مجالس ہند، 1892ء، منٹو مارلے اصلاحات 1909ء، حکومت ہند ایکٹ 1919ء، حکومت ہند ایکٹ،1935ء اور قانون آزادی ہند 1947ء۔ قانون آزادی ہند نے سابق مجلس دستور ساز کو دو حصوں میں منقسم کر دیا۔ ان میں سے ہر ایک کے الگ الگ ملکوں کے لیے دستور سازی کے آزاد اختیارات تھے۔[16]

مجلس دستور ساز

ترمیم

آئین ہند کا مسودہ مجلس دستور ساز نے تیار کیا۔مجلس دستور ساز کے ارکان کو صوبائی اسبملیوں کے منتخب ارکان نے منتخب کیا۔[17] اولا مجلس کے ارکان کی تعداد 389 تھی لیکن تقسیم ہند کے بعد ان کی تعداد 299 کردی گئی۔آئین کو بننے میں کل تین سال لگے اور اس دوران میں 165 ایام پر محیط 11 اجلاس منعقد کیے گئے۔[4][16]

رکنیت

ترمیم

مجلس دستور ساز کے اہم ارکان میں بھیم راو امبیڈکر، سنجے فاکے، جواہر لعل نہرو، چکرورتی راجگوپال آچاریہ، راجندر پرساد، ولبھ بھائی پٹیل، کنہیا لال مانیک لال منشی، گنیش واسودیو ماوالانکار، سندیپ کمار پٹیل، ابو الکلام آزاد، شیاما پرساد مکھرجی، نینی رنجن گھوش اور بلونت رائے مہتا تھے۔[4][16] مجلس دستور ساز کے ارکان میں کل 30 نمائندے درج فہرست طبقات و درج فہرست قبائل کے تھے۔ اینگلو انڈین کی نمائندگی فرینک انتھونی کر رہے تھے۔[4] پارسی کی نمائندگی پی ایچ مودی کر رہے تھے،[4] کرچین اسمبلی کے نائب صدر ہریندر کمار مکرجی غیر اینگلو انڈین عیسائیوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ گورکھا قبیلے کی نمائندگی اری بہادر گورنگ کر رہے تھے۔ ججوں میں اللادی کرشن سوامی ایر، بینیگال نرسنگ راو، کے ایم منشی اور گنیش ماولنکر بھی اسمبلی کے رکن تھے۔[4] خواتین میں سروجنی نائیڈو، ہرشا مہتا، درگا بائی دیش مکھ، امرت کور اور وجیا لکشمی پنڈت اسبمبلی کی رکن تھیں۔[4] مجلس کے پہلے صدر سچندا نند صرف دو دن کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ بعد میں راجندر پرساد صدر مقرر ہوئے۔ مجلس کا پہلا اجلاس 9 دسمبر 1946ء کو منعقد ہوا۔[4][17][18]

مسودہ سازی

ترمیم

ایک سول ملازم ، بین الاقوامی عدالت انصاف کے پہلے بھارتی جج اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے صدر بینیگال نرسنگ راو 1946ء میں مجلس کے قانونی مشیر منتضب کیے گئے۔[19] انھوں نے فروری 1948ء میں ابتدائی مسودہ تیار کیا۔ وہی آئین ہند کے بنیادی دھانچے کے بانی کہلائے۔[19][20][21]

14 اگست 1947ء کو ایک اجلاس رکھا گیا۔[17] راو کے مسودہ کو زیر غور لایا گیا، اس پر بحث کی گئی اور آٹھ رکنی ٹیم نے اس میں ترمیم کی۔ 29 اگست 1947ء کو بنی اس ٹیم کے صدر بھیم راو امبیڈکر تھے۔[4][18] 4 نومبر 1947ء کو کمیٹی نے مجلس کو نظر ثانی شدہ مسودہ پیش کیا۔[18] مودہ پر غور کرتے ہوئے مجلس نے اس میں ہوئی 7,635 ترامیم میں سے 2,473 ترامیم کر رد کر دیا۔[16][22] آئین کو نافذ کرنے سے قبل 165 دنوں کی مدت میں مجلس نے 11 اجلاس منعقد کیے۔[4][16] 26 نومبر 1949ء کو آئین کو تسلیم کر لیا گیا،[4][16][18][21][23] اور 284 ارکان نے دستخط کیے۔،[4][16][18][21][23] اسی دن کو قومی یوم قانون کے طور پر منایا جاتا ہے۔[4][24] اسے یوم آئین ہند بھی کہا جاتا ہے۔[4][25] اس دن کو آئین کی اہمیت اور امبیڈکر کے خیالات کی تشہیر کے لیے بھی منایا جاتا ہے۔[26]

مجلس کا حتمی اجلاس 24 جنوری 1950ء کو منعقد ہوا۔ تمام ارکان سے آئین کے دونوں نسخوں (ایک ہندی، ایک انگریزی) پر دستخط کیے۔[4][16][21] اصلی نسخہ ہاتھ سے لکھا ہوا ہے جس کا ہر صفحہ شانتی نکیتن کے کلاکاروں کے نقش و نگار سے مزین ہے۔ ان میں بیو ہر رام منوہر سنہا اور نند لال بوس شامل ہیں۔[18][21] اس میں] پریم بہاری نارائن رائیزادہ نے اپنے فن خطاطی کا مظاہرہ کیا۔[18] اس کی طباعت دہرہ دون میں ہوئی اور سروے آف انڈیا نے فوٹو لتھروگرافی کی۔ اصلی نسخہ کے پروڈکشن میں پانچ برس لگ گئے۔ دو دن کے بعد 26 جنوری 1950ء کو یہ نسخہ بھارت کا قانون بن گیا۔[18][27] مجلس دستور ساز کا خرچ تقریباً ₹6.3 کروڑ ( 63 ملین) بتایا گیا ہے۔[16] نفاذ کے بعد دستور مین کئی دفعہ ترمیم کی جا چکی ہے۔[28] آئین کا اصلی نسخہ سنسد بھون نئی دہلی میں ہیلیم سے بھرے ڈبے میں محفوظ رکھا گیا ہے۔[18]

دوسرے قوانین کے اثرات

ترمیم

ڈھانچہ

ترمیم

بھارت کا آئین کسی بھی آزاد ملک کا سب سے بڑا دستور ہے۔[4][5][6] نفاذ کے وقت اس میں 22 ابواب، 8 درج فہرستیں اور 395 دفعات تھیں۔[16] کل 145000 الفاظ کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا تحریری دستور تھا۔ سب سے بڑا تحریری دستور آئین البانیا تھا۔[29][30] آئین ہند میں تمہید اور 448 دفعات ہیں۔[18] تمام دفعات 25 حصوں میں منقسم ہیں۔[18] کل 12 درج فہرستیں ہیں [18] اور 5 زائدے ہیں۔[18][31] اب تک کل 103 ترامیم کی جا چکی ہیں۔ حالیہ ترمیم 14 جنوری 2019ء کو ہوئی تھی۔[32]

آئین کی دفعات کو درج ذیل 25 حصوں میں منقسم کیا گیا ہے:

  • تمہید-[33] الفاظ سماج وادی، سیکیولر اور سالمیت کو 42ویں ترمیم میں 1976ء میں شامل کیا گیا تھا۔[34][35]
  • حصہ 1[36]- بھارت کی ریاستیں اور یونین علاقے
  • حصہ 2[37]- شہریت
  • حصہ 3- بنیادی حقوق
  • حصہ 4[38]-مملکت کی حکمت عملی کے ہدایتی اصول
  • حصہ 54 الف- بنیادی فرائض
  • حصہ 5[39]- یونین
  • حصہ 6[40]- ریاست
  • حصہ 7[41]- پہلے فہرست بند کے حصہ ب میں مندرج ریاستیں ( محذوف)
  • حصہ 8[42]- یونین علاقے
  • حصہ 9[43]- پنچایت
  • حصہ 9 الف [44]- میونسی پالیٹی
  • حصہ 9 ب-معاون انجمنیں [45]
  • حصہ 10- درج فہرست اور قبائلی رقبے
  • حصہ 11- یونین اور ریاستوں کے مابین تعلقات
  • حصہ 12- مالیات، جائداد، معاہدات اور مقدمات
  • حصہ 13- بھارت کے علاقے کے اندر تجارت، بیوپار اور لین دین
  • حصہ 14- یونین اور ریاستوں کے تحت ملازمتیں
  • حصہ 14 الف- ٹریبیونل
  • حصہ 15- انتخابات
  • حصہ 16- بعض طبقوں سے متعلق خصوصی توضیعات
  • حصہ 17- زبانیں
  • حصہ 18- ہنگامی حالات سے متعلق توضیعات
  • حصہ 19- متفرق
  • حصہ 20- آئین کی ترمیم
  • حصہ 21- عارضی، عبوری اور خصوصی توضیعات
  • حصہ 22- مختصر نام، تاریخ نفاذ، مستند ہندی متن اور تنسیخات

فہرست بند

ترمیم

فہرست بند میں وہ امور بین کیے گئے ہیں جو افسر شاہی سرگرمی اور حکومتی پالیسیوں سے متعلق ہیں۔

  • پہلا فرست بند ( دفعہ 1 تا 4)- بھارت کی ریاستیں اور علاقے، ان کی سرحدوں میں تبدیلی اور ان سے متعلق قوانین۔
  • دوسرا فہرست بند ( دفعہ59(3)، 65(3)، 75(6)، 97, 125, 148(3)، 158(3)، 164(5)، 186 اور 221)- بھارتی افسر شاہوں، ججوں اور بھارتی ناظر حسابات و محاسب عام کی تنخواہیں۔
  • تیسرا فہرست بند (5(4)، 99, 124(6)، 148(2)، 164(3)، 188 اور 219)- حلف کی قسمیں-حلف یا اقرار صالح کے نمونے۔
  • چوتھا فہرست بند ( دفعہ 4(1) اور 80(2))- راجیہ سبھا میں نشستوں کی تقسیم
  • پانچواں فہرست بند (دفعہ 244(1))- درج فہرست رقبوں اور ردج فہرست قبیلوں کے نظم و نسق اور ان کی نگرانی کے متعلق توضیعات۔
  • چھٹا فہرست بند (دفعہ 244 (2) اور 275 (1))- آسام، میگھالیہ، تریپورہ اور میزورم کے ریاستی قبائلوں کے نظم و نسق کے بارے میں توضیعات-
  • ساتوان فہرست بند ( دفعہ 246)- یونین فہرست، ریاستی فہرست اور متوازی فہرست۔
  • آٹھواں فہرست بند ( دفعہ 344(1) اور 351)- زبانیں۔
  • نواں فہرست بند ( دفعہ 31 ب) - بعض ایکٹ اور دساتیر العمل کا جواز۔
  • دسواں فہرست بند (دفعہ 102(2) اور 191 (2))- دل بدل کی بنیاد پر نا اہلیت کی نسبت توضیعات-
  • گیارھواں فہرست بند ( دفعہ 243 (G)- پنچایت کے اختیارات، اتھارٹی اور ذمہ داریاں۔
  • بارھواں فہرست بند (دفعہ 243 (W))- میونسی پولٹیوں کے اختیارات، اتھارٹی اور ذمہ داریاں۔

ضمیمے

ترمیم
  • ضمیمہ 1- آئین (جموں اور کشمیر) حکم ، 1954
  • ضمیمہ 2 -
  • ضمیمہ3-
  • ضمیمہ 4-
  • ضمیمہ 5-

آئین اور حکومت

ترمیم

بھارت کی عاملہ، مقننہ اور عدلیہ اپنا اختیار آئین سے حاصل کرتی ہیں اور آئین کے ہی پابند ہیں۔[46] حکومت بھارت کا پارلیمانی نظام آئین کی مدد سے چلتا ہے جہاں عاملہ براہ راست مقننہ کو جواب دہ ہے۔صدر بھارت آئین کی دفعہ 52 اور 53 کے تحت عاملہ کا سربراہ ہے۔ دفعہ 60 صدر کو آئین کی حفاظت کرنے، دیکھ بھال کرنے اور دفاع کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ دفعہ 74 وزیر اعظم بھارت کو کابینہ بھارت کا سربراہ نامزد کرتی ہے اور وہی صدر کو اس کے آئینی فرائض کی انجام دہی میں مشورہ دیتا ہے۔ دفعہ 75(3) کے تحت کابینہ لوک سبھا کو جواب دہ ہے۔

آئین ہند فطری طور پر فیڈرل ہے اور روحانی طور پر وحدانی ریاست ہے۔ یہ تحریری آئین فیڈریشن، دستور عظمی، سہ درجے والا حکومتی ڈھانچہ (مرکز، ریاست اور علاقائی)، اختیارات کی تقسیم، دو ایوانیت، آزاد عدلیہ اور وحدانی خصوصیات جیسے ایک دستور، ایک شہریت، منظم عدلیہ، قابل ترمیم دستور، مضبوط مرکزہ حکومت، مرکزی حکومت کے زیر نگرانی ریاستی گورنر کی نامزدگی، آل انڈیا سول سروسز جیسی خصوصیات کا حامل ہے۔ ان تمام خصوصیات کا یہ مجموعہ بھارت کو نیم فیڈرل حکومت بنایا ہے۔[47]

آئین ریاست اور یونین علاقہ کو حکومت بنانے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ آئین صرف مرکزی حکومت صدر اور وزیر اعظم کو عہدہ دیتا ہے، باقی ریاسوں اور یونین علاقہ میں سے ہر ایک کو گورنر، لیفٹنینٹ گورنر اور وزیر اعلیٰ کا عہدہ فراہم کرتا ہے۔ اگر کسی ریاست میں ہنگامی حالات پیدا ہوجائیں اور ریاستی حکومت آئین کے مطابق حکومت کرنے میں ناکام رہے تو آئین کی دفعہ 356 صدر کو ریاستی حکومت کو برخواست کرنے اور براہ راست وہاں کی حکومت اپنی ذمہ لینے کا اختیار دیتی ہے۔ اس اختیار کو صدر راج کہا جاتا ہے۔حالانکہ ماضی میں صدر کا غلط استعمال بھی ہوا ہے جب بہت ہی معمولی وجہ کی بنیاد پر ریاست کی حکومت کو برخواست کر دیا گیا تھا۔ پھر ایس آر بومائی برخلاف یونین آف انڈیا معاملہ کے بعد دعالت نے صدر راج کو تھوڑا مشکل بنا دیا ہے کیونکہ ریاست کو جائزہ کا حق دے دیا ہے۔[48][49][50] آئین کی 73ویں اور 74ویں ترمیم سے دیہی علاقوں میں پنچایت راج او شہری علاقوں میں نگر پالیکا کا تعارف کرایا گیا۔[18] بھاتیی آئین کی دفعہ 370 جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیتی ہے۔

آئین اور مقننہ

ترمیم

ترامیم

ترمیم

آئین کے کسی حصہ میں اضافہ کرنے، کچھ حذف کرنے یا تبدیلی کرنے کے لیے پارلیمان کو ترمیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔[51] دفعہ 368 میں ترمیم کی تفصیل درج ہے۔ترمیمی بل دونوں ایوانوں سے کل ارکان میں سے دو تہائی ارکان کی منظوری ضروری ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ دو تہائی ارکان ایوان میں حاضر ہوں۔ دستور کے فیڈرل طبیعت والی دفعات میں ترمیم کے لیے بھی صوبائی مققنہ کی اکثریت کا ووٹ ضروری ہے۔ دفعہ 245 اور (مالی بل) کے علاوہ کسی بھی بل کے لیے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کا مشترک اجلاس ضروری نہیں ہے۔ جب پارلیمان کا کام کاج نہیں چل رہا ہو تب صدر کسی بھی بل کو دفعہ 123، باب 3، آئین میں ضروری ترامیم کے تحت اپنے مقننہ اختیار کو حاصل کر کے ممتاز نہیں کر سکتا ہے۔ صدر کو یہ اختیار 24ویں ترمیم میں دفعہ 368 الف میں دیا گیا ہے۔[51] جولائی 2018ء تک آئین میں 124 ترامیم پارلیمان میں پیش کی جا چکی ہیں جن میں 103 ترمیمی قانون بنے ہیں۔252 ترمیم کے اتنے سخت قوانین کے بعد بھی آئین ہند دنیا کے سب سے زیادہ ترمیم کیے جانے والے دستوروں میں سے ایک ہے۔[52] 2000ء میں جسٹس مانے پلی راو وینکٹا چلیا کمیشن بنائی گئی جس کا مقصد آئین کو اپڈیٹ کرنا تھا۔[53] حکومت ہند قانونی اصلاحات کے لیے مختصر مدتی قانونی کمیشن کو متعین کرتی رہتی ہے تاکہ حکومت قانون کے مطابق چلتی رہے۔

حدود

ترمیم

کیشو نند بھارتی بمقابلہ ریاست کیرلا معاملہ میں بھارتی عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا کہ ترمیم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچہ کو نہیں بدلا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی کوئی بھی ترمیم کالعدم قرار دی جائے گی۔حالانکہ آئین کا کائی بھی حصہ ناقابل ترمیم نہیں ہے: بنیادی ڈکٹرائن آئین کے کسی بھی پروویزن کو محفوظ نہیں کرتا ہے۔ڈاکٹرائن کے مطابق آئین کی بنیادی خصوصیات کو ختم یا کمزور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آئین کی بنیادی خصوصیات کو پوری طرح سے متعارف نہیں کرایا جا سکا ہے۔[46] اور یہ بھی متعین نہیں ہے کہ آیا عدالت عظمی آئین کے بنیادی ڈھانچہ یا بنیادی خصوصیات میں کوئی فیصلہ کے سکتا ہے۔[54] کیشو نند اور ریاست کیرلا میں مندرجہ آئین ہند کی ذیل خصوصیات قرار پائیں:[55]

  1. آئینی برتری
  2. جمہوریت اور جمہوری طرز حکومت
  3. فطری طور پر سیکیولر ہونا
  4. اختیارات کی تقسیم
  5. فیڈرل ہونا[55]

اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ پارلیمان اس کے بنیادی ڈھانچہ میں ترمیم نہیں کرسکتی ہے۔ ایسی کسی بھی ترمیم کو عدالت عظمی یا کوئی عدالت عالیہ کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ایسا صرف ان حکومتوں میں ممکن ہے جہاں پارلیمانی نظام حکومت ہو اور عدالت پارلیمان کے اختیارات میں محاسب کا کام کرتی ہے۔ کولگ ناتھ بمقابلہ ریاست پنجاب قضیہ میں عدالت عظمی نے کہا کہ ریاست پنجاب آئین کے بنیادی ڈھانچہ نے جو بنیادی حقوق متعین کردئے ہیں ریاست پنجاب ان سے کسی کو محروم نہیں کرسکتی ہے۔[56] اسی ضمن میں زمینی ملکیت اور اختیار پیشہ بنیادی حقوق قرار پائے۔[57] بعد میں 1971ء میں 24ویں ترمیم کر کے اس فیصلے کو بدل دیا گیا۔[57]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Wangchuk، Rinchen Norbu (22 جنوری 2019)۔ "Two Civil Servants who Built India's Democracy, But You've Heard of Them"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-22
  2. Wangchuk، Rinchen Norbu (22 جنوری 2019)۔ "Two Civil Servants who Built India's Democracy, But You've Heard of Them"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-22
  3. Original edition with original artwork – The Constitution of India۔ New Delhi: Government of India۔ 26 نومبر 1949۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-03-22
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ ز ژ س ش ص ض "Preface, The constitution of India" (PDF)۔ Government of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-05
  5. ^ ا ب Pylee، Moolamattom Varkey (1994)۔ India's Constitution (5th rev. and enl. ایڈیشن)۔ نئی دہلی: R. Chand & Company۔ ص 3۔ ISBN:978-8121904032۔ OCLC:35022507
  6. ^ ا ب Nix، Elizabeth (9 اگست 2016)۔ "Which country has the world's shortest written constitution?"۔ ہسٹری (امریکی ٹی وی نیٹ ورک)۔ A&E Networks۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-24
  7. "The Constitution of India: Role of Dr. B.R. Ambedkar"۔ 2015-04-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ خبر}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  8. "Constitutional supremacy vs parliamentary supremacy" (PDF)۔ 2015-12-08 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-12
  9. "Introduction to Constitution of India"۔ Ministry of Law and Justice of India۔ 29 جولائی 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ 2008-10-14
  10. Swaminathan، Shivprasad (26 جنوری 2013)۔ "India's benign constitutional revolution"۔ The Hindu: opinion۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-18
  11. Das، Hari (2002)۔ Political System of India (Reprint ایڈیشن)۔ نئی دہلی: Anmol Publications۔ ص 120۔ ISBN:978-8174884961
  12. WP(Civil) No. 98/2002 (12 ستمبر 2002)۔ "Aruna Roy & Ors. v. Union of India & Ors." (PDF)۔ Supreme Court of India۔ ص 18/30۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-11-11 {{حوالہ ویب}}: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہے: |dead-url= (معاونت)صيانة الاستشهاد: أسماء عددية: مصنفین کی فہرست (link)
  13. "Preamble of the Constitution of India"۔ Ministry of Law & Justice۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-03-29[مردہ ربط]
  14. Menon، V.P. (15 ستمبر 1955)۔ The story fo the integration of the India states۔ Bangalore: Longman Greens and Co {{حوالہ کتاب}}: الوسيط |accessdate بحاجة لـ |مسار= (معاونت)
  15. "Commencement"
  16. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ "The Constituent Assembly Debates (Proceedings):(9th دسمبر،1946 to 24 جنوری 1950)"۔ The Parliament of India Archive۔ 2007-09-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2008-02-22
  17. ^ ا ب پ Krithika، R. (21 جنوری 2016)۔ "Celebrate the supreme law"۔ دی ہندو۔ N. Ram۔ ISSN:0971-751X۔ OCLC:13119119۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-24
  18. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ ز Yellosa، Jetling (26 نومبر 2015)۔ "Making of Indian Constitution"۔ The Hans India۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-24
  19. ^ ا ب Laxmikanth، M.۔ "INDIAN POLITY"۔ McGraw-Hill Education۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-04-06 – بذریعہ Google Books
  20. DelhiNovember 26، India Today Web Desk New؛ نومبر 26، 2018UPDATED:؛ Ist، 2018 15:31۔ "Constitution Day: A look at Dr BR Ambedkar's contribution towards Indian Constitution"۔ India Today۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-04-06 {{حوالہ ویب}}: الوسيط |first3= يحوي أسماء رقمية (معاونت)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: زائد رموز اوقاف (link) صيانة الاستشهاد: أسماء عددية: مصنفین کی فہرست (link)
  21. ^ ا ب پ ت ٹ "Denying Ambedkar his due"۔ 14 جون 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-04-06
  22. "Constituent Assembly of India Debates"۔ 164.100.47.194۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-04-06
  23. ^ ا ب Dhavan، Rajeev (26 نومبر 2015)۔ "Document for all ages: Why Constitution is our greatest achievement"۔ ہندوستان ٹائمز۔ OCLC:231696742۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-24
  24. Patnaik، Biswaraj (26 جنوری 2017)۔ "BN Rau: The Forgotten Architect of Indian Constitution"۔ The Pioneer۔ بھونیشور: Chandan Mitra۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-24
  25. "Archived copy"۔ 20 فروری 2012 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جون 2013 {{حوالہ ویب}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: آرکائیو کا عنوان (link)
  26. "Celebrating Constitution Day"۔ دی ہندو۔ Internet Desk۔ N. Ram۔ 26 نومبر 2015۔ ISSN:0971-751X۔ OCLC:13119119۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-26{{حوالہ خبر}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: دیگر (link)
  27. "Archived copy"۔ 11 مئی 2011 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2014 {{حوالہ ویب}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: آرکائیو کا عنوان (link)
  28. "Some Facts of Constituent Assembly"۔ Parliament of India۔ National Informatics Centre۔ 11 مئی 2011 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2011۔ On 29 اگست 1947, the Constituent Assembly set up a Drafting Committee under the Chairmanship of B. R. Ambedkar to prepare a Draft Constitution for India {{حوالہ ویب}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  29. "نومبر 26 to be observed as Constitution Day: Facts on the Constitution of India"۔ India Today۔ 12 اکتوبر 2015۔ 2015-11-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-11-20
  30. "Original unamended constitution of India, جنوری، 1950"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-04-17
  31. "THE CONSTITUTION (AMENDMENT) ACTS"۔ India Code Information System۔ Ministry of Law, Government of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-12-09
  32. Bahl، Raghav (27 نومبر 2015)۔ "How India Borrowed From the US Constitution to Draft its Own"۔ دی کوینٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-24
  33. Sridhar، Madabhushi۔ "Evolution and Philosophy behind the Indian Constitution (page 22)" (PDF)۔ Dr.Marri Channa Reddy Human Resource Development Institute (Institute of Administration)، Hyderabad.۔ 2015-06-16 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-22
  34. Lockette، Tim (18 نومبر 2012)۔ "Is the Alabama Constitution the longest constitution in the world?Truth Rating: 4 out of 5"۔ The Anniston Star۔ Josephine Ayers۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-24
  35. "Constitution of india"۔ وزارت قانون و انصاف، حکومت ہند۔ 2016-03-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-02-23
  36. "NOTIFICATION" (PDF)۔ egazette.nic.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-16
  37. Baruah، Aparijita (2007)۔ Preamble of the Constitution of India: An Insight and Comparison with Other Constitutions۔ New Delhi: Deep & Deep۔ ص 177۔ ISBN:81-7629-996-0۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-11-12
  38. Chishti، Seema؛ Anand، Utkarsh (30 جنوری 2015)۔ "Legal experts say debating Preamble of Constitution pointless, needless"۔ The Indian Express۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-11-12
  39. "Forty-Second Amendment to the Constitution"۔ Ministry of Law and Justice of India۔ 28 اگست 1976۔ اخذ شدہ بتاریخ 2008-10-14
  40. Part I
  41. Part II
  42. Part IV
  43. Part VI
  44. Part V
  45. Part VII
  46. ^ ا ب Part VIII
  47. Part IX
  48. Part IXA
  49. http://indiacode.nic.in/coiweb/amend/amend97.pdf
  50. Menon، N.R. Madhava (26 ستمبر 2004)۔ "Parliament and the Judiciary"۔ The Hindu۔ 2016-11-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-11-21
  51. ^ ا ب M Laxmikanth (24 جولائی 2013)۔ "3"۔ Indian Polity (4th ایڈیشن)۔ McGraw Hill Education۔ ص 3.2۔ ISBN:978-1-259-06412-8
  52. Rajendra Prasad، R.J.۔ "'Bommai verdict has checked misuse of Article 356'"۔ Frontline۔ شمارہ Vol. 15 :: No. 14 :: 4–17 جولائی 1998۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-11-09 {{حوالہ خبر}}: |issue= يحتوي على نص زائد (معاونت)
  53. Swami، Praveen۔ "Protecting secularism and federal fair play"۔ Frontline۔ شمارہ Vol. 14 :: No. 22 :: 1–14 Nov. 1997۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-11-09 {{حوالہ خبر}}: |issue= يحتوي على نص زائد (معاونت)
  54. "Pages 311 & 312 of original judgement: A. K. Roy, Etc vs Union Of India And Anr on 28 دسمبر، 1981"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-08-23
  55. ^ ا ب name="amendments"
  56. Krishnamurthi، Vivek (2009)۔ "Colonial Cousins: Explaining India and Canada's Unwritten Constitutional Principles" (PDF)۔ Yale Journal of International Law۔ ج 34 شمارہ 1: 219۔ 2016-03-04 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ رسالہ}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت) "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 2016-03-04 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-04-06
  57. ^ ا ب Dhamija، Dr. Ashok (2007)۔ Need to Amend a Constitution and Doctrine of Basic Features۔ Wadhwa and Company۔ ص 568۔ ISBN:9788180382536۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-06-17