جامعہ قرویین یا مسجد قرویین (عربی: جامعة القرويين ) مراکش کے شہر فاس میں واقع ایک جامعہ اور (کاسا بلانکا کی مسجد حسن ثانی کے بعد) ملک کی دوسری سب سے بڑی مسجد ہے۔ 859ء میں قائم ہونے والی یہ جامعہ مسلم دنیا کے اہم تعلیمی مراکز میں سے ایک ہے اور دنیا کی سب سے قدیم جامعہ ہے جہاں آج تک تعلیم دی جاتی ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز اسے "اب تک موجود دنیا کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ" قرار دیتا ہے۔

جامعہ قرویین
جامعة القرويين
ⵜⵉⵎⵣⴳⵉⴷⴰ ⵏ ⵍⵇⴰⵕⴰⵡⵉⵢⵢⵉⵏ
شعار جامعہ قرویین
شعار جامعہ قرویین
 

معلومات
بانی فاطمہ الفہری   ویکی ڈیٹا پر (P112) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاسیس 859؛ 1165 برس قبل (859)
نوع مدرسہ اور غیر پیشہ ورانہ علوم کے لیے اعلیٰ تعلیم کا مرکز (859ء تا 1963ء)
1963ء سےریاستی جامعہ
محل وقوع
إحداثيات 34°03′52″N 4°58′24″W / 34.064444444444°N 4.9733333333333°W / 34.064444444444; -4.9733333333333   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہر فاس
ملک ادریسی سلطنت (موجودہ مراکش)
شماریات
منتظمین 708 (2012)
اساتذہ 1,025 (2012)
طلبہ و طالبات 8,120 (2012) (سنة ؟؟)
رنگ سفید
ویب سائٹ uaq.ma
Map
مسجد قرویین

جامعہ قرویین نے قرون وسطیٰ میں یورپ اور اسلامی دنیا کے درمیان میں ثقافتی ور اکادمی تعلقات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے معروف غیر مسلموں میں یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون (1135ء تا 1204ء) سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ معروف جغرافیہ دان محمد الادریسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے فاس میں کچھ عرصہ گزارا تھا اور اس دوران میں القرویین میں تعلیم حاصل کی۔ یورپ کو عربی اعداد اور صفر کا نظریہ دینے والے پوپ سلویسٹر ثانی نے بھی اس جامعہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔

تاریخ

ترمیم

مسجد قرویین کو محمد الفہری نامی ایک دولت مند تاجر کی صاحبزادی فاطمہ الفہری نے 859ء میں تعمیر کروایا تھا۔ الفہری خاندان نویں صدی کے اوائل میں تیونس کے شہر قیروان سے فاس ہجرت کر گیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ فاطمہ الفہری اور ان کی بہن مریم الفہری نے وراثت میں والد سے بڑی دولت پائی اور مریم نے اپنے حصے میں آنے والی تمام دولت مسجد کی تعمیر پر خرچ کر دی۔ اور مسجد کو اپنے آبائی شہر کا نام دیا۔ یہ واقعہ مسلم تہذیب میں عورتوں کے کردار اور ان کی قربانیوں کا عکاس ہے اور موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا بھرپور جواب بھی۔ ب 1349ء میں بنو مرین کے سلطان ابو انس فارس نے مسجد کے ساتھ کتب خانے کا اضافہ کیا جہاں نادر قلمی نسخے رکھے گئے جن میں امام مالک کی موطا المالک، سیرت ابن اسحاق، 1602ء میں سلطان منصور ذہبی کی جانب سے جامعہ کو دیے گئے نسخۂ قرآن اور ابن خلدون کی کتاب العبر (Al-'Ibar) شامل ہیں۔ یہاں 4000 سے زايد ايسى كتابيں اور نسخے موجود ہیں جو دنىا میں اور کہیں بهى نہیں ہیں۔ جائے عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ جلد ہی یہ مسجد دنیا بھر کے علوم کا مرکز بن گئی۔ 1957ء میں شاہ محمد پنجم نے ریاضی، طبیعیات، کیمیا اور غیر ملکی زبانوں کے علوم بھی متعارف کرائے۔ جامعہ میں قرآن اور فقہ کے علاوہ صرف و نحو، منطق، ادویات، ریاضیات، فلکیات، کیمیا، تاریخ، جغرافیہ اور موسیقی کی تعلیم دی جاتی ہے۔

مسجد

ترمیم

مختلف حکمرانوں نے قرویین مسجد میں توسیع کی اور بالآخر یہ شمالی افریقہ کی سب سے بڑی مسجد بن گئی جس میں 20 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہو گئی۔ اصل میں مسجد صرف 30 میٹر طویل تھی۔ اس میں پہلی بڑی توسیع زیناتا قبیلے نے 956ء میں کی۔ تاریخی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اندلس میں اموی خلیفہ عبدالرحمٰن الثالث نے اس توسیع کے لیے کثیر رقم بھیجی۔ اس توسیع میں اس میں مینار کا اضافہ بھی کیا گیا۔

موحدین کی حکومت میں مسجد میں مزید توسیع ہوئی۔ 1135ء میں امیر علی بن یوسف نے مسجد میں 18 سے 21 صفوں کی توسیع کی ہدایت کی جس سے مسجد کا رقبہ تین ہزار مربع میٹر ہو گیا۔

اِس وقت مسجد میں دو مینار ہے جن میں ایک قدیم اور ایک برج النفارہ نامی نیا مینار ہے۔ قدیم مینار فاس میں قدیم ترین اسلامی یادگار ہے۔

اس مسجد کا طرز تعمیر قرطبہ کی جامع مسجد سے ملتا جلتا ہے۔

اس مسجد میں غیر مسلموں کے داخلے کی ممانعت ہے تاہم وہ باہر سے مسجد کا دلکش نظارہ دیکھ سکتے ہیں۔