جنگ آزادی ہند اور اٹک
جنگ آزادی ہند 1857ء | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1912 کا ایک نقشۂ ہندوستان جو جنگِ آزادی کو بیاں کرتا ہے۔ اس خطے میں دلی ،جھانسی،میرٹھ، گوالیار مشارکین ظاہر ہے۔ | |||||||||
| |||||||||
مُحارِب | |||||||||
سلطنت مغلیہ |
برطانوی فوج
Kingdom of Nepal | ||||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||||
بہادر شاہ ظفر نانا صاحب بخت خان جھانسی کی رانی تانتیا توپی بیگم حضرت محل Ishwori Kumari Devi, Rani of Tulsipur |
Commander-in-Chief, India: جارج انسن ( مئی 1857 تک) Sir Patrick Grant سر کولن کیمبل (اگست 1857 سے) جنگ بہادر[2] |
اسباب
ترمیمہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ۔ انگریزوں نے اس جنگ کو غدر کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ ایڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جوکارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں مین بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔
اٹک کے واقعات
ترمیمماہنامہ حکایت کے 1990میں شائع ہونے والے شمارے میں جنگ آزادی کی یہ داستان بیان کی ہے۔ ڈاکٹر فیاض حسین بخاری لکھتے ہیں کہ سید صاحب شاہ بخاری کو مولوی احترام الدین فرید کوٹی کا پیغام جہاد ملا۔ اگلے ہی روز انھوں نے مدرسے کے سامنے ایک مجمع میں اعلان جہاد کر دیا۔ چند ہی دنوں میں سید صاحب شاہ کے پاس 400مجاہدین اکھٹے ہو گئے ان میں سے پچاس سے زیادہ ان کے شاگرد تھے۔
چھوڑ کرجون 1857میں مجاہدین کے قافلے کی قیادت کرتے ہوئے کِسراں سے لاہور کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ قافلہ سخت جاں چند دنوں کی مسافت کے بعد ہی لاہور پہنچ گیا۔ لاہور میں مولوی احترام الدین فرید کوٹی کے ہاں بھی لگ بھگ 150حریت پسند جمع تھے۔ ان مجاہدین کی منزل دہلی تھی جہاں آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزو ں سے آزادی کی جنگ لڑی جا رہی تھی مگر یہ سفر کٹھن اور دشوار ہی نہیں پرخطر بھی تھا کیونکہ لاہور سے دہلی جانے والے تمام راستوں پر کڑی نگرانی کا سلسلہ جاری تھا اور نہ صرف انگریز بلکہ ان کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والے مقامی افراد بھی مجاہدین کی بو سونگھتے پھرتے تھے۔تمام تر خطرات کے باوجود مجاہدین کا یہ قافلہ اگست 1857میں دہلی کے لال قلعہ تک پہنچ گیا جہاں مغل بادشاہ بہادر ظفر کے زیر سایہ فوج کی قیادت روہیلہ سردار بخت خان کر رہے تھے۔ سید صاحب شاہ بخاری نے کئی معرکوں میں شجاعت کا مظاہرہ کیا تو انھیں فوج کی ایک ٹکڑی کا کمانڈر بنادیا گیا اور یہ دستہ پگڑی والے کے لشکر کے نام سے مشہور ہو گیا۔ سید صاحب شاہ بخاری اور ان کی کمان میں موجود مجاہدین کو دہلی کے مشہور اجمیری دروازے کی حفاظت پر مامور کیا گیا۔ اُدھر انگریز فوج کے جنرل نکلسن جن کا شمار نہایت قابل فوجی افسروں میں ہوتا تھا،کو اب دہلی کا قبضہ واپس لینے کی ذمہ داری انھیں سونپی گئی تھی اور وہ اپنی فوج کیساتھ دہلی کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔
جنرل جان نکلسن کی موت
ترمیمجنرل جان نکلسن بہادر ہونے کیساتھ ساتھ نہایت ظالم اور سفاک انسان تھا۔ اس نے سیالکوٹ اورپشاور سمیت کئی علاقوں میں بغاوت کرنے والے مقامی سپاہیوں کو بغیر ٹرائل کے نہایت بے رحمانہ انداز میں مار دینے کا کلچر متعارف کروایا۔ اجمیری دروازے کے معرکے میں سید صاحب شاہ بخاری کے دستے نے جنرل نکلسن کو گھائل کر دیا اور وہ بعد ازاں انہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا۔قبل ازیں جنرل نکلسن نے 14ستمبر 1857کو نئی حکمت عملی کے تحت انگریز فوج اور اس کے زیر سایہ لڑنے والے مقامی لشکر کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے پانچ مختلف اطراف سے بیک وقت حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سب سے شدید حملہ اجمیری دروازے پر کیا گیا اور اس کی حفاظت پر مامور سید صاحب شاہ کے دستے نے انگریز فوج کی توقعات سے کہیں بڑھ کر مزاحمت کی۔ انگریز میجر جیک فصیل پر چڑھ آیا مگر اس سے پہلے کہ وہ بندوق سیدھی کرتا، سید صاحب شاہ کے دستے میں شامل ایک جوان نے اسے مار گرایا۔ اٹک کے مٹھیال قبیلے سے تعلق رکھنے والے مجاہدین نہایت بے جگری سے لڑے اور ایک موقع پر انگریز فوج کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔[3]
سید صاحب شاہ نے جوانوں کا حوصلہ بڑھایا اور انھیں للکارتے ہوئے کہا، میرے مجاہد ساتھیو! تم بہت دور سے آئے ہو، تم پہاڑوں سے شہادت کا عزم لے کر آئے ہو۔ پیٹھ مت دکھانا۔ اجمیری دروازے پر لڑنے والے مٹھیال قبیلے کے پرعزم جوانوں نے تو پیٹھ نہ دکھائی مگر غدار فصیل سے باہر ہی نہ تھے بلکہ قلعے کے اندر بھی موجود تھے۔ ان غداروں نے فصیل کو اندر سے توڑ دیا تو انگریز فوج کا دستہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ والے مجاہدین تو اب بھی اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے لیکن اب انگریز فوج کی عددی برتری کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔مجاہدین ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کرنے لگے اور آخر میں بچے کھچے مجاہدین نے قریبی مسجد کا رُخ کر لیا۔
بچھے کچھے مجاہدین جو مسجد میں موجود تھے انھیں گرفتار کرنے کے لیے انگریز فوج کا افسر مٹکاف ایک دستہ لے کر آگے بڑھا تو سید صاحب شاہ بخاری نے ایک بار پھر منادی کی کہ کون ہے جو مسجد کی حرمت پر قربان ہونا چاہتا ہے ؟کئی جانباز جا م شہادت نوش کرنے کے لیے آگے آگئے۔یہ سب مجاہدین نہتے تھے ان کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا مگر جب یہ آگے بڑھے تو انگریز فوجیوں نے خوفزدہ ہوکر فائر کھول دیا۔
گولیوں کی باڑ میں کئی مجاہدین نیچے گر کر تڑپتے نظر آئے مگر ان بہادر جانبازوں نے انگریز فوجیوں کو توڑے دار بندوقیں دوبارہ لوڈ کرنے کا موقع نہ دیا۔یوں نہتے اور غیر مسلح مجاہدین نے انگریز فوج کے اس دستے کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔اب ایک سکھ رجمنٹ کو بھیجا گیا تاکہ مسجد میں پناہ لینے والے مجاہدین کو نکالا جا سکے ۔[4]
سید صاحب شاہ بخاری شہید ہو گئے بلکہ ان کے ساتھ اٹک سے آئے بیشتر مجاہدین آزادی کی جدوجہد میں قربا ن ہو گئے۔مکھڈ شریف ،کِسراں اور اٹک کے دیگرعلاقوں سے آئے ان مجاہدین میں سے اکا دکا ہی زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔انہی میں سے ایک مرشد حسین مٹھیال تھے جو پہلے لکھنؤ گئے مگر جب معلوم ہوا کہ آزادی کے متوالوں کو ہر جگہ شکست ہو چکی ہے تو شکستہ دل کیساتھ کِسراں لوٹ آئے۔یہاں جب حیدر شاہ ،جو تب کم سن تھے ،نے اپنے باپ کے بارے میں پوچھا تو مرشد حسین مٹھیال کی آنکھیں بھیگ گئیں۔[5]
مزید پڑھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ File:Indian revolt of 1857 states map.svg
- ↑ The Gurkhas by W. Brook Northey, John Morris. ISBN 81-206-1577-8. Page 58
- ↑ "سید صاحب کسراں"
- ↑ "سید صاحب شہادت"
- ↑ سن اشاعت 1900۔ ماہنامہ حکایت