حامد امروہوی
بیرسٹر حامد علی خاں المعروف حامد امروہوی (پیدائش: 16 دسمبر 1861ء - وفات: 12 ستمبر 1918ء ) ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے شاعر اور قانون دان تھے۔
حامد امروہوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: حامد علی خاں) |
پیدائش | 16 ستمبر 1861ء بریلی ، اتر پردیش ، برطانوی ہند |
وفات | 12 ستمبر 1918ء (57 سال) لکھنؤ ، اتر پردیش |
شہریت | برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، بیرسٹر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، انگریزی |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمحامد امروہوی کے بزرگ عہد سلطنتِ مغلیہ میں اعزاز و احترام کے ساتھ مناصبِ جلیلہ پر فائز رہے ہیں۔ ان کا خاندان عرصہ دراز سے امروہہ میں سکونت پزیر تھا اور اس خاندان میں طبابت کا سلسلہ کئی پشتوں سے نہایت نیک نامی اور شہرت کے ساتھ جاری رہا۔ ان کے مورثِ اعلیٰ مولانا شیخ سماء الدین سلطان بہلول لودھی کے زمانے میں رونق افروز تھے۔ سکندر لودھی اور ابراہیم لودھی کے عہد میں ان کے مورث نصیر الدین شیخ الاسلام کے جلیل القادر عہدے پر فائز تھے۔ اسی طرح حکیم قوام الدین خان حکیم علوی خاں کے شاگرد اور ان کے بیٹے حکیم امام الدین خان عالمگیر ثانی کے عہدے میں شاہی طبیب تھے اور حکیم الملک کے خطاب سے نوازے گئے تھے۔ حامد امروہوی کے پڑ دادا حکیم غلام علی خاں دلی چھوڑ کر امروہہ جا بسے اور معالجات کی بدولت اچھی شہرت حاصل کی۔ اسی طرح ان کے دادا حکیم ابو علی خاں نے بھی خاندانی اعزاز کو قائم و برقرار رکھا۔ ان کے والد ماجد حکیم امجد علی خاں جو جنگ آزادی ہند 1857ء میں شاہجہاں پور میں تحصیلدار تھے اور بعد میں ڈپٹی کلیکٹر بھی رہے صاحبِ اخلاق حسنہ تھے، جو 1900ء میں وفات پا گئے۔ حامد امروہوی 16 ستمبر 1861ء کو بریلی (روہیلکھنڈ)، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام حامد علی خاں تھا، حامد امروہوی کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ حامد امروہوی نے عربی، فارسی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپریل 1880ء میں لندن ، انگلستان سے بیرسٹری کی سند حاصل کی۔ 2 نومبر 1885ء کو اپنے وطن واپس لوٹ آئے اور لکھنؤ میں پریکٹس شروع کی۔ شعر کہنے کا ذوق ابتدا ہی سے تھا۔ شاعری میں شیخ علی حزیں لکھنوی تلمیذ مظفر علی اسیر لکھنوی کے شاگرد تھے۔ نثر نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ لکھنؤ میں میر نفیس جیسے صاحب کمال سے حامد امروہوی کے مراسم تھے اور میر نفیس بھی ان کے معترف رہتے تھے۔[1] انگریزی میں بھی شاعری کرتے تھے۔ منشی پریم چند کے صاحبزادے منشی نوبت رائے نظر سے منظوم مراسلت ہوتی تھی، کئی مراسلے دیوانِ نظر میں بھی موجود ہیں۔ جوش ملیح آبادی بھی آپ کے حسنِ اخلاق کے معترف تھے۔[2]
وفات
ترمیمحامد امروہوی 12 ستمبر 1918ء کو لکھنؤ میں وفات کر گئے۔ وہ تال کٹورا کی کربلا میں مدفون ہوئے۔مرقدِ حامد علی خاں صلحِ کل[3]
نمونۂ کلام
ترمیمغزل
جب تک کہ تجھے یاد مرا نام نہ آیا | او بھولنے والے مجھے آرام نہ آیا | |
دولت کو نہ کر جمع پچھتائیگا منعم | کسی کام وہ زر جو ترے کام نہ آیا | |
اللہ ہی نگہبان ہے اس دل کا کہ جس پر | تونے بھی دھرا ہاتھ تو آرام نہ آیا | |
کیا خوب بسر عمرِ دو روزہ ہوئی حامد | صد شکر کسی کا کوئی الزام نہ آیا[4] |
شعر
بدلی ہزار شکل مگر شکل تھی وہی | الٹا جو لفظ درد کو تب بھی وہ درد تھا |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ لالہ سری رام، خمخانہ جاوید، امپیرئیل بکڈپو پریس دہلی، جلد دوم، ص 375
- ↑ مصباح احمد صدیقی، شعرائے امروہہ، رام پور رضا لائبریری، رام پور، ص 127
- ↑ یادگارِ حامد، مرتبہ: مولانا صفی لکھنوی، نظامی پریس لکھنؤ، ص 14
- ↑ شعرائے امروہہ، ص 128