ماہر القادری

شاعر، صحافی اور نقاد

ماہر القادی (پیدائش: 30 جولائی، 1906ء - وفات: 12 مئی 1978ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر، صحافی، محقق اور نقاد تھے۔

مولانا ماہر القادری
پیدائشمنظور حسین
30 جولائی 1906(1906-07-30)ء
بلند شہر، برطانوی ہندوستان
وفات12 مئی 1978(1978-05-12)ء
جدہ، سعودی عرب
آخری آرام گاہجنت المعلیٰ، مکہ مکرمہ، سعودی عرب
قلمی نامماہر
پیشہشاعر، صحافی، نقاد، محقق
زباناردو
قومیتپاکستان کا پرچمپاکستانی
نسلمہاجر قوم
نمایاں کاممحسوساتِ ماہر
نغماتِ ماہر
جذباتِ ماہر

حالات زندگی ترمیم

ماہر القادری 30 جولائی، 1906ء کو کیسر کلاں ضلع بلندشہر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام منظور حسین تھا[1]۔ انھوں نے عملی زندگی کا آغاز حیدر آباد دکن سے کیا، پھر بجنور چلے گئے۔ جہاں مدینہ بجنور اور غنچہ کے مدیر رہے[2]۔ زندگی کا بڑا حصہ حیدرآباد دکن، دہلی، بمبئی میں گذرا اور پھر مستقل قیام کراچی میں رہا۔ چند ماہ ملتان میں بھی گزارے۔ اس کے علاوہ سیر و سیاحت کا با رہا اتفاق ہوا۔ 1928ء میں ریاست حیدرآباد کے مختلف محکموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ قیام حیدرآباد کے دوران میں جب نواب بہادر یار جنگ کی تقاریر کا طوطی بولتا تھا، نواب بہادر یار جنگ نے قائد اعظم محمد علی جناح سے ان کا تعارف یوں کرایا میری تقریروں اور ان (ماہرالقادری) کی نظموں نے مسلمانانِ دکن میں بیداری پیدا کی ہے۔[3]

1943ء میں حیدرآباد سے بمبئی منتقل ہو گئے۔ وہاں فلمی دنیا میں کچھ عرصہ گزارا۔ کئی فلموں کے گیت لکھے جو بڑے مقبول ہوئے۔ اپنے فلمی تعلق پر وہ کبھی نازاں نہ رہے۔ اس پر ان کا تبصرہ ان کے الفاظ میں سنیے چند دن فلمی دنیا سے بھی تعلق رہا۔ فلمی دنیا میں میرے لیے شہرت اور جلب منفعت کے بعض زرّیں مواقع حاصل تھے، مگر اللہ کا بڑا فضل ہوا کہ میں اس دلدل سے بہت جلد نکل آیا۔ اس چند روزہ فلمی تعلق پر آج تک متاسّف ہوں۔[3]

قیام پاکستان کے بعد انھوں نے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی اور علمی جریدے فاران کا اجرا کیا جو ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد تک جاری رہا۔[3]

تصانیف ترمیم

مولاناماہر القادری کے شعری مجموعوں میں ظہورِ قدسی (نعتیہ مجموعہ)، طلسمِ حیات، محسوساتِ ماہر، نغماتِ ماہر، نقشِ توحید اور جذباتِ ماہر شامل ہیں[2]۔ 1954ء میں ماہر القادری نے حج کے مشاہدات و تاثرات پر کاروان حجاز کے نام سے کتاب تحریر کی۔-[4]

ادارت ترمیم

  • ماہنامہ فاران

ماہر القادری کے فن و شخصیت پر کتب ومقالہ جات ترمیم

  • ماہر القادری حیات اور ادبی کارنامے (پی ایچ ڈی مقالہ)، عبد الغنی فاروق، پنجاب یونیورسٹی،1990ء؎

تبصرہ نگاری ترمیم

فن تبصرہ نگاری پر آپ خصوصی عبور حاصل تھا۔ فاران میں اہل علم و اہل ادب کی کتابوں پر بے لاگ تبصرے کیاکرتے تھے۔ ان کے تبصروں کے مجموعے جماعت اسلامی ہند کے ادارہ مرکزی مکتبہ اسلامی سے ماہر القادری کے تبصرے کے بعنوان دو جلدوں میں طبع ہو چکے ہیں جس کے مرتب طالب الہاشمی ہیں۔

نمونۂ کلام اردو ترمیم

غزل

دل میں اب آواز کہاں ہے ٹوٹ گیا تو ساز کہاں ہے
آنکھ میں آنسو لب پہ خموشی دل کی بات اب راز کہاں ہے
سرو و صنوبر سب کو دیکھا ان کا سا اندا ز کہاں ہے
دل خوابیدہ، روح فسردہ وہ جوشِ آغاز کہاں ہے
پردہ بھی جلوہ بن جاتا ہے آنکھ تجلی ساز کہاں ہے
بت خانے کا عزم ہے ماہر کعبے کا در باز کہاں ہے

غزل

چشمِ نم پر مسکرا کر چل دیئےآگ پانی میں لگا کر چل دیئے
ساری محفل لڑکھڑاتی رہ گئیمست آنکھوں سے پلا کر چل دیئے
میری امیدوں کی دنیا ہل گئیناز سے دامن بچا کر چل دیئے
مختلف انداز سے دیکھا کئےسب کی نظریں آزما کر چل دیئے
گلستاں میں آپ آئے بھی تو کیاچند کلیوں کو ہنسا کر چل دیئے
وجد میں آ کر ہوائیں رہ گئیںزیرِ لب کچھ گنگنا کر چل دیئے
وہ فضا وہ چودھویں کی چاندنیحسن کی شبنم گرا کر چل دیئے
وہ تبسم وہ ادائیں وہ نگاہسب کو دیوانہ بنا کر چل دیئے
کچھ خبر ان کی بھی ہے ماہر تمہیںآپ تو غزلیں سنا کر چل دیئے

غزل

کچھ اس طرح نگاہ سے اظہار کر گئےجیسے وہ مجھ کو واقف اسرار کر گئے
اقرار کر دیا کبھی انکار کر گئےبے خود بنا دیا کبھی ہشیار کر گئے
کچھ اس ادا سے جلوۂ معنی کی شرح کیمیرے خیال و فکر کو بے کار کر گئے
اللہ رے ان کی جلوۂ رنگیں کی فطرتیںسارے جہاں کو نقش بہ دیوار گئے
وعدہ کا ان کے ذکر ہی ماہرفضول ہےتم کیا کرو گے وہ اگر انکار کر گئے

نمونہ کلام فارسی ترمیم

غريب شہر ساماني نداردجنون دارد ، بياباني ندارد
ره غم غمگساري را بجويدخوشا دردي كه درماني ندارد
محبت فارغ از رسم و تكلفاسيرِ عشق زنداني ندارد
مبين الفاظ در اشعارِ ماہرحديثِ شوق پاياني ندارد

وفات ترمیم

ماہر القادری 12 مئی، 1978ء کو جدہ کے ایک مشاعرہ کے دوران انتقال کر گئے اور مکہ مکرمہ میں جنت المعلیٰ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔[2][1]

مزید دیکھیے ترمیم

پاکستانی فارسی گو شعرا

بیرونی روابط ترمیم

سیری در ادبیات فارسی هند و پاکستانآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ichodoc.ir (Error: unknown archive URL)

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، لاہور، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2006ء، ص 674
  2. ^ ا ب پ پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 462
  3. ^ ا ب پ "ماہر القادری،، اردو ڈائجسٹ لاہور، دسمبر 2015ء"۔ 05 جولا‎ئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2016 
  4. ماہرؔ القادری، سید ابو الہاشم، روزنامہ دنیا لاہور، 28 فروری 2014ء