درشہوار سید سندھ کے مشہور سیاست دان جی ایم سید کی بیٹی اور شاہ عبد اللطیف بھٹائی پر PhD کرنے والی پہلی سندھی خاتوں تھی۔ درشہوار سید 21 مارچ 1940ء کو دادو کے شہر سن میں پیدا ہوئیں۔ درشہوار سید ادیب اور محقق ہونے کے علاوہ ایک سماجی کارکن تھیں۔ درشہوار لطیف چیئر کے سربراہ بنیں تو اس نے شاہ جو رسالو کے اردو، فارسی، عربی اور انگریزی ترجمے بھی شایع کرائے۔[2]

درشہوار سید
معلومات شخصیت
پیدائش 21 مارچ 1940ء
سن، دادو
وفات دسمبر 26، 1997(1997-12-26) (عمر  57 سال)
جناح ہسپتال کراچی
آبائی علاقے سن، سندھ
والدین جي ايم سيد (والد)
عملی زندگی
تعليم phD
مادر علمی جامعہ ایڈنبرگ
یونیورسٹی آف سسیکس
جامعہ کراچی
تنظیم آل سندھ وومیں ایسوسیئیشن
وجہ شہرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی پر تحقعق
اعزازات
شاہ لطیف گولڈ میڈل
پیر حسام الدیں راشدی ایوارڈ
انٹرنشنل سچل کانگریس ایوارڈ[1]

ابتدائی زندگی اور تعلیم ترمیم

درشہوار سید 21 مارچ 1940ء کو سن، دادو میں پیدا ہوئیں اور جی ایم سید کی آخری اولاد تھیں۔ درشہوار کی پیدائش کے وقت جی ایم سید سیاسی میدان میں سرگرم تھے، اس لیے ان کی رہائش کراچی میں تھی۔ درشہوار پانچھ برس کی تھی تو پاکستاں وجود میں آیا۔ جب ان کی عمر تعلیم حاصل کرنے کی ہوئی تو ان کی تعلیم خاندان کے لیے مسئلا بن گئی۔ سندھ میں زیادہ تر اساتذہ سندھی ہندو تھے جو تقسیم ہند کے بعد بھارت ہجرت کرگئے، اس لیے ان کے آبائی شہر کا اسکول بھی بند ہو گیا، اس لیے درشہوار کو کراچی میں تعلیم کے لیے جانا پڑا اور اس نے ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف کانوینٹ اسکول سے حاصل کی۔ درشہوار نے 1967ء میں بی ای کا امتحاں سینٹ جوزف کالیج کراچی سے پاس کیا اور فلسفہ میں ایم ای جامعہ کراچی سے 1972ء کو کی۔[3] سید خانداں سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کے خاندان نے اس کی تعلیم پر اعتراضات کیے لیکں اس کے والد نے تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی۔[2][3]

علامۂِ فلسفہ ترمیم

درشہوار جب ایم ای کے لیے پڑھ رہیں تھیں تو ان کے والد نے خواہش ظاہر کی کہ انھیں phD کرنی چاہیے۔ جب ایم ای مکمل ہوئی تو حسام الدین راشدی کے کہنے پر درشہوار کو فارسی سیکھنے کے لیے جامعہ سندھ میں داخل کیا گیا، اس وقت ان کے بھائیوں نے ان کی مزید تعلیم کی مخالفت کی لیکں والد کی اسرار پر درشہوار وہاں پڑھنے لگیں۔ 1974ء کو درشہوار مزید تعلیم کے لیے لندن گئیں۔ وہاں اسے نے یونیورسٹی آف سسیکس کے شعبہ سائوتھ ایشیا اسٹیڈیز سے Comparative history Religion دوسری ایم ای کی ڈگری حاصل کی۔ 1978ع کو اسے شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری پر phD کے لیے جامعہ ایڈنبرگ میں داخلا لیا اور 1984ء میں phD مکمل کی۔ ان کی phD کے نگراں مشہور جرمن اسکالر آنامیری شمل تھیں۔[4]

پیشہ ورانہ زندگی ترمیم

لندن سے واپسی پر درشہوار نے جامعہ کراچی میں ملازمت اختیار کی۔ وہاں پاکستاں اسٹڈی سنیٹر میں 1985ء سے 1991ء تک لیکچرار اور اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کیا۔[5] 1991ء میں درشہوار کو شاہ لیطف چیئر کا سربراہ مقرر کیا گیا، جہان اس کے 5 سالوں تک خدمات سر انجام دیں۔[2]

سماجی کام ترمیم

درشہوار نے آل سندھ وومیں ایسوسیئیشن نامی ایک سماجی تنظیم بنائی۔ اس تنظیم کا مقصد کراچی کے دیہی علائقے کہ خواتیں کو ہنر سکھانا، تعلیم کے بنیادی مراکز کھولنا اور بیماروں کی مدد کرنا تھی۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم سندھ کے دیگر شہروں میں بھی سرگرم تھی، نوابشاہ میں سیلاب کے دوراں اس تنظیم نے امدادی کیمپ لگائے اور متاثر لوگوں کے لیے کھانے کی اشیا کا انتظام بھی کیا۔[2][3]

کتابیں اور ادبی خدمات ترمیم

درشہوار پانچھ کتابوں کی مصنف تھیں۔ اس علاوہ وہ سندھی ادبی بورڈ اور سندھی زبان کے با اختیار ادارے کی گورننگ باڈی میں بھی شامل تھیں۔[6]

  • شاہ لطیف کی شاعری اور فکر (phD تھیسز)
  • شاہ لطیف کی موسیقی
  • تحقیق کا طریقار
  • شاہ لطیف کی کہانیاں[2]
  • ڈونگر سے ڈوریندیوں (درشہوار اور جی ایم سید کے خطوط: مرتب ضیا شاہ اور منیر شاہ)[7]

اعزاز ترمیم

درشہوار سید کو ادبی اور علمی خدمتوں کے لیے کیئی اعزازت سے نوازا گیا، 1988ء کو اس کی phD تھیسز The Poetry of Shah Latif شایع ہونے پر حکومت سندھ نے نقد انعام دیا۔ ارنسٹ ٹرمف کے نام سے قائم آنامیری شمل انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے 1985ء کو گولڈ میڈل سے نوازا گیا، اس کے علاوہ پیر حسام الدین راشدی اور عالمی سچل کانگریس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔[3]

وفات ترمیم

درشہوار سید، کچھ عرصے سے کراچی کی مڈ ایسٹ ہسپتال میں گردے میں تکلیف سبب داخل تھیں، وفات کے ایک دن پہلے اسے جناح ہسپتال کراچی منتقل کیا گیا، جہاں وہ 26 ڈسمبر 1997ء کو انتقال کرگیں۔ وفات کی خبر پر اس کا آبائی شہر سن بند ہو گیا۔ سندھی زبان کے با اختیار ادارے اور سندھی ادبی بورڈ کے دفاتر ایک دن کے لیے بند کی گئیں۔[6] درشہوار کو سن میں سپردخاک کیا گیا۔[8]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. وفیات پاکستانی اہل قلم خواتین از خالد مصطفی
  2. ^ ا ب پ ت ٹ مرجان سندھو۔ "شاھ لطیف پر phD کرنے والی پہلے سندھی خاتوں جیجی درشہوار سید"۔ روزنامہ عوامی آواز۔ روزنامہ عوامی آواز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جوں 2018 
  3. ^ ا ب پ ت یوسف سندھی (2016)۔ سندھی ادب: ایک سو سندھی ادیب۔ سچائی اشاعت گھر، دڑو / حیدرآباد 
  4. "orrespondence between GM Syed"۔ The News۔ The News۔ 23 June 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2018 
  5. Laura A. Ring (2006)۔ Zenana: Everyday Peace in a Karachi Apartment Building۔ Indiana University Press۔ صفحہ: 99–۔ ISBN 0-253-21884-5۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2018 
  6. ^ ا ب صفحۂ اول[مردہ ربط]، روزنامہ کاوش، ہفتہ 27 ڈسمبر 1997
  7. "ڈونگر سے ڈوریندیوں"۔ encyclopediasindhiana.org۔ انسائیکلوپیڈیا سندھیانا۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2018 
  8. صفحۂ اول[مردہ ربط]، روزنامہ کاوش، اتوار 28 ڈسمبر 1997ء