راج ناراین باسو ((بنگالی: রাজনারায়ণ বসু)‏)؛ (1826ء – 1899ء) ایک ہندوستانی مصنف اور بنگالی نشاۃ ثانیہ کے نقیب تھے۔ وہ چوبیس پرگنہ کے بورل گاؤںمیں پیدا ہوئے اور اس وقت کے کلکتہ کی معروف تعلیم گاہوں ہیئر اسکول اور ہندو کالج میں تعلیم حاصل کی۔ بیس برس کی عمر میں انھوں نے برہمویت کو اپنایا[1] اور سبک دوشی کے بعد انھیں "رشی" کے اعزازی خطاب سے نوازا گیا۔ مصنف کی حیثیت سے انیسویں صدی کے بنگالی نثر نگاروں میں راج ناراین کا مقام نمایاں تھا۔ راج عموماً برہمو سماج کے مشہور رسالے "تتو بودھنی پتریکا" میں لکھا کرتے تھے۔[2] برہمویت کے دفاع کی بنا پر انھیں "بابائے ہندوستانی قوم پرستی" کا خطاب بھی ملا۔[3][4]

راج ناراین باسو
রাজনারায়ণ বসু

معلومات شخصیت
پیدائش 1826
بورل، چوبیس پرگنہ، بنگال، برطانوی ہند
وفات 1899
مدناپور، مغربی بنگال، بنگال پریزیڈنسی، برطانوی ہند
قومیت ہندوستانی
عملی زندگی
مادر علمی پریزیڈنسی یونیورسٹی، کولکاتا
ہیئر اسکول  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ تصنیف و تالیف
مادری زبان بنگلہ  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان بنگلہ،  انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت سنسکرت کالج  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش اور ابتدائی زندگی ترمیم

راج ناراین باسو 7 ستمبر 1826ء کو مغربی بنگال کے سابق ضلع چوبیس پرگنہ کے گاؤں بورل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نندا کشور باسو راجا رام موہن رائے کے شاگرد اور بعد میں ان کے معتمد بھی ہو گئے تھے۔ راج ناراین بچپن ہی سے خاصے ذہین تھے، ان کی ابتدائی تعلیم کلکتہ کے معروف ادارے ہیئر اسکول میں ہوئی۔ چودہ برس کی عمر تک انھوں نے وہاں تعلیم حاصل کی اور جب تک رہے اساتذہ کے درمیان میں اپنی ذہانت و فطانت کی بنا پر معروف رہے۔

کیریئر ترمیم

راج ناراین اپنے معاصر شاعر مائیکل مدھوسودن دت کے مخالف تھے۔ مدھوسودن ہی نے بنگالی زبان میں آزاد نظم کو متعارف کرایا تھا۔ ان دونوں شخصیتوں کا بنگالی ادب میں کلاسیکی مغربی عناصر کو متعارف کرانے میں اہم کردار ہے۔[1] راج ناراین نے کچھ دنوں تک ایشیا کے پہلے نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کو پڑھایا بھی ہے۔ دیویندر ناتھ ٹیگور کی درخواست پر انھوں نے اپنشدوں کے انگریزی تراجم میں تین برس صرف کیے۔ ینگ بنگال کے رکن کی حیثیت سے ان کا اعتقاد تھا کہ تعمیر قوم کا عمل بنیادی سطح سے کیا جانا چاہیے۔[1]

چنانچہ اپنے اسی موقف کو عمل جامہ پہنانے کے لیے ایشور چندر ودیا ساگر کے سنسکرت کالج میں شعبہ انگریزی میں پڑھانے کے بعد وہ مدناپور منتقل ہو گئے تاکہ ایک ضلعی قصبے میں تعلیم دیں۔ وہ مدناپور ضلع اسکول کے صدر مدرس تھے، بعد میں یہی اسکول مدناپور کالج کا محرک بنا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ Ghulam Murshid (2012)۔ "Basu, Rajnarayan"۔ $1 میں Sirajul Islam، Ahmed A. Jamal۔ Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ایڈیشن)۔ Asiatic Society of Bangladesh 
  2. Samaresh Devnath (2012)۔ "Tattvabodhini Patrika"۔ $1 میں Sirajul Islam، Ahmed A. Jamal۔ Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ایڈیشن)۔ Asiatic Society of Bangladesh 
  3. "The Brahmo Samaj and the shaping of the modern Indian mind By David Kopf", page 315, https://books.google.com/books?id=IUcY_IRKDHQC&pg=PA315
  4. "Makers Of Indian Literature Prem Chand By Prakash Chandra Gupta", back cover, https://books.google.com/books?id=DuoHFioSmBoC&pg=PT1

بیرونی روابط ترمیم