زاہد حسن ابراہیمی
زاہد حسن ابراہیمی (پیدائش: 1918ء – وفات: 27 مارچ 1988ء؛ معروف بہ مولانا زاہد حسن) ایک ممتاز ہندوستانی عالم دین، شیخ طریقت اور مجاہد آزادی تھے۔ انھوں نے 1946ء تا 1952ء دیوبند حلقۂ انتخاب سے ایم ایل اے کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ دار العلوم دیوبند کے فاضل اور حسین احمد مدنی کے تلمیذ رشید و حلقہ بگوش تھے۔ انھوں نےجمعیۃ علماء ہند کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے تقریباً پچاس سال سیاسی، ملی، اصلاحی، اور تربیتی خدمات انجام دیں۔[1][2]
زاہد حسن ابراہیمی | |
---|---|
ایم ایل اے دیوبند حلقۂ انتخاب | |
برسر منصب 1946 – 1952ء | |
پیشرو | شیخ ضیاء الحق خان بہادر راجوپوری |
ذاتی | |
پیدائش | 1918ء |
وفات | 27 مارچ 1988 سول ہسپتال، سہارنپور، اتر پردیش | (عمر 69–70 سال)
مدفن | آبائی قبرستان، موضع ابراہیمی، سرساوہ، ضلع سہارنپور، اتر پردیش |
مذہب | اسلام |
فقہی مسلک | حنفی |
تحریک | جمعیۃ علماء ہند |
سیاسی جماعت | کانگریس پارٹی |
اساتذہ |
گنگوہ میں جامعہ احمد العلوم خانپور، گنگوہ کی طرف سے 2023ء میں "مولانا زاہد حسن گرلز انٹر کالج" کے نام سے ایک گرلز کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔[3]
ابتدائی و تعلیمی زندگی
ترمیمولادت و خاندان
ترمیمزاہد حسن ابراہیمی 1918ء کو موضع ابراہیمی، نزد قصبہ سرساوہ، ضلع سہارنپور، یوپی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق گوجر قبیلے کے کٹھانہ شاخ سے تھا۔[4][5]
تعلیم و تربیت
ترمیمانھوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنی پھوپی کے یہاں موضع شاہ پورہ، نزد چلکانہ، ضلع سہارنپور میں ایک مکتب سے کیا۔ پھر ان کے دادا قلندر بخش نے ان کا داخلہ جامع مسجد قصبہ سرساوہ میں کرا دیا، جہاں انھوں نے سید شیر شاہ ہری پوری سے ناظرۂ قرآن اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر ہری پوری ہی سے موضع آہبہ، نزد قصبہ نانوتہ میں فارسی اور عربی اول کی تعلیم حاصل کی۔[6]
سنہ 1934ء میں انھوں نے دار العلوم دیوبند میں عربی دوم کے سال میں داخلہ لیا اور 1360ھ مطابق 1941ء میں وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔[7][5]
ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں حسین احمد مدنی، اصغر حسین دیوبندی، عبد السمیع دیوبندی، محمد ابراہیم بلیاوی، اعزاز علی امروہی، محمد شفیع دیوبندی، عبد الحق اکوڑوی، محمد ادریس کاندھلوی، محمد طیب قاسمی، ریاض الدین بجنوری اور ظہور حسن دیوبندی شامل تھے۔[8]
ان کے رفقائے درس میں سید محمود حسن پٹھیڑوی، عظیم الدین انبہٹوی، اصغر مجاہد پوری، خالد سیف اللہ گنگوہی اور محمد نعیم دیوبندی شامل تھے۔[9]
1941ء میں فراغت کے بعد انھوں نے مفسر قرآن احمد علی لاہوری کی خدمت میں حاضر ہو کر بھی اکتسابِ فیض کیا۔[10][5]
عملی زندگی
ترمیمتدریسی زندگی
ترمیمابراہیمی نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ سراج العلوم، دمجھیڑہ، ضلع سہارنپور سے کیا۔ 1384ھ (مطابق 1964ء) میں انھوں نے اسی بستی کے دوسرے حصے میں مدرسے کی از سر نو بنیاد رکھی۔ وہ وہاں تدریسی خدمات بھی انجام دیتے رہے۔ ان کے زمانے میں تجوید و فارسی اور عربی دوم کی تعلیم ہوتی تھی۔ طلبہ کی ایک جماعت کو ان سے فارسی سے مشکاۃ المصابیح تک کی کتابیں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ 1978ء کے بعد وہ دیگر سیاسی، ملی اور سماجی مصروفیات کی بنا پر تدریسی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔[11]
اس کے علاوہ وہ جامعہ احمد العلوم خانپور، گنگوہ کے تاحیات سرپرست و نگراں رہے۔ وہاں کے بعض طلبہ کو ان سے مشکاۃ المصابیح پڑھنے کا شرف حاصل رہا۔[12]
بیعت و خلافت
ترمیمتعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے اپنے استاذ حسین احمد مدنی کے ہاتھ پر بیعت کر لیا اور سترہ سال تک ان سے سلوک و تصوف کے منازل طے کرتے رہے؛ پھر حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد ابراہیمی نے اپنا تعلقِ بیعت عبد القادر رائے پوری سے قائم کیا اور ان کی طرف سے خلعتِ خلافت سے نوازے گئے۔ انھیں محمد زکریا کاندھلوی اور اسعد مدنی کی طرف سے بھی اجازتِ بیعت حاصل تھی۔[13][5]
ان کے خلفا و مجازین میں عبد القیوم رائے پوری، محمد قاسم میواتی، محمد طیب قاسمی زاہدی، گلزار بوڑیوی اور رکن الدین کیرانوی وغیرہ شامل ہیں۔[14]
سیاسی و سماجی زندگی
ترمیمتعلیمی زندگی ہی میں وہ اپنے استاذ حسین احمد مدنی کی مجاہدانہ زندگی سے متاثر ہو کر جمعیۃ علماء ہند کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے تھے اور فراغت کے بعد سے انھوں نے 44 سال تک جمعیت سے وابستہ رہ کر گراں قدر سیاسی و سماجی خدمات انجام دیں۔[15]
وہ طویل عرصے تک جمعیۃ علماء سہارنپور کے نائب صدر، پھر آزادی کے بعد سے تادم حیات ضلعی جمعیت کے صدر رہے۔[16]
انھوں نے مسلمانوں کی معاشرتی مسائل کے حل کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے زیر سایہ جامع مسجد سہارنپور میں شرعی پنچایت کا قیام فرمایا، جس کا نام امارت شرعیہ ہند کے قیام کے بعد محکمہ شرعیہ قرار پایا، اور اس زاویے سے انھوں نے تقریباً 30 سال ملی خدمات انجام دیں۔[17]
1946ء میں کانگریس پارٹی اور مسلم لیگ پارٹی کے درمیان ہونے والے انتخابات میں ان کے استاذ حسین احمد مدنی نے دیوبند انتخابی حلقے سے انھیں مسلم لیگی امیدوار شیخ ضیاء الحق خان بہادر راجوپوری کے خلاف بطور امیدوار کھڑا کیا؛ نتیجۃً بہ حیثیت ایم ایل اے ان کا انتخاب عمل میں آیا اور 1952ء تک اس منصب پر رہ کر انھوں نے سیاسی و سماجی خدمات انجام دیں اور اس کے بعد انھوں نے خود کو سیاست سے علاحدہ کر لیا۔[18][5]
1977ء اور 1980ء میں انھوں نے دوبارہ کانگریس کی ٹکٹ پر پارلیمانی انتخاب لڑا؛ مگر حالات کی خرابی اور خود پارٹی کی بعض غلطیوں کے سبب انھیں کامیابی نہ ملی۔[19][5]
وہ قیام و تحریک مدارس کے پرزور داعی تھے۔ ان کی تحریک سے چالیس سے زائد مدارس کا قیام عمل میں آیا۔[20]
وفات
ترمیمایک تعلیمی و اصلاحی دورے سے واپسی پر، سرساوہ سے موضع ابراہیمی جاتے ہوئے، گھوڑی سے گر کر شدید زخمی ہو گئے۔ ان کے دماغ کی رگ پھٹ گئی، جس کے بعد انھیں علاج کے لیے سہارنپور سول ہسپتال سہارنپور منتقل کیا گیا؛ مگر وہ جاں بَر نہ ہو سکے اور 8 شعبان 1408ھ مطابق 27 مارچ 1988ء بروز اتوار صبح 8 بجے سول ہسپتال، سہارنپور میں انتقال کر گئے۔ ان کا جنازہ موضع ابراہیمی لایا گیا، جہاں دار العلوم دیوبند کے سابق اساتذہ شمیم احمد دیوبندی اور محمد الیاس جمنا نگری نے ان کو غسل دیا۔ نماز عصر کے بعد ان کے فرزند محمد طیب قاسمی مرحوم نے نماز جنازہ پڑھائی، اور پھر انھیں آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔[21]
پسماندگان میں دو بیٹیوں کے علاوہ پانچ بیٹے: مولانا محمد عارف قاسمی (رکن شوریٰ مظاہر علوم جدید)، مفتی محمد طیب قاسمی مرحوم، مولانا محمد اشفاق قاسمی، حافظ محمد ساجد زاہدی، مفتی محمد اسجد حسینی قاسمی (ناظم دار القرآن، دار العلوم دیوبند) ہیں۔[22]
حوالہ جات
ترمیممآخذ
ترمیم- ↑ "مولانا زاہد ابراہیمی ؒہمیشہ قوم وملت کے لیے سرگرم اور متفکر رہتے تھے:مولانا سید ارشد مدنی"۔ روزنامہ خبریں۔ 21 فروری 2022ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 ستمبر 2024ء
- ↑ "मदरसा कंजुल उलूम टिटौली मे हयात ए जाहिद कार्यक्रम हुआ आयोजन" [مدرسہ کنزالعلوم ٹڈولی میں حیات زاہد کانفرنس کا انعقاد]۔ دینک بھاسکر (بزبان ہندی)۔ 20 فروری 2022ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 ستمبر 2024ء
- ↑ "सहारनपुर: मौलाना जाहिद हसन गर्ल्स इंटर कॉलेज की रखी संगे बुनियाद" [سہارنپور: مولانا زاہد حسن گرلز انٹر کالج کی رکھا گیا سنگ بنیاد]۔ لائیو ہندوستان (بزبان ہندی)۔ 26 دسمبر 2023ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 ستمبر 2024ء
- ↑ الماجری 2022, p. 37.
- ^ ا ب پ ت ٹ ث محمد ساجد کُھجناوری (1–15 جنوری 2022)۔ مدیران: اسعد مختار، احسن مہتاب۔ "صاحب عزیمت حضرت مولانا زاہد حسن قاسمی"۔ فکر انقلاب کا خصوصی شمارہ ”بیاد اکابر دار العلوم دیوبند“ (جلد دوم)۔ دہلی: آل انڈیا تنظیم علماء حق فکر انقلاب۔ 10 (228): 247–251
- ↑ الماجری 2022, pp. 57–59.
- ↑ الماجری 2022, pp. 61، 68، 365.
- ↑ الماجری 2022, pp. 68–81، 366.
- ↑ الماجری 2022, pp. 90–96.
- ↑ الماجری 2022, p. 68.
- ↑ الماجری 2022, pp. 99–100.
- ↑ الماجری 2022, p. 100.
- ↑ الماجری 2022, pp. 108–109، 115، 118.
- ↑ الماجری 2022, pp. 140–141، 151.
- ↑ الماجری 2022, pp. 157–158.
- ↑ الماجری 2022, p. 284.
- ↑ الماجری 2022, pp. 160، 284.
- ↑ الماجری 2022, pp. 161، 177.
- ↑ الماجری 2022, pp. 177–179، 285، 349.
- ↑ الماجری 2022, pp. 197–199.
- ↑ الماجری 2022, pp. 312–313، 388–389.
- ↑ الماجری 2022, pp. 43–49.
کتابیات
ترمیمعبد الخالق قاسمی الماجری (2022)۔ حیات زاہد (پہلا ایڈیشن)۔ ٹڈولی، نزد گنگوہ، ضلع سہارنپور: شعبۂ نشر و اشاعت مدرسہ اسلامیہ عربیہ کنز العلوم