زینب انصاری کا قتل
زینب انصاری ایک 6،[2] 7،[3] یا 8[4] سالہ پاکستانی شہر قصور کی رہائشی بچی تھی جسے عمران علی نامی شخص نے اغوا کرکے جنسی زیادتی کا کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد اس کو قتل کر کے لاش کو کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ سماجی روابط کی ویب گاہ اور ذرائع ابلاغ پر اس خبر کے پھیلنے کے بعد شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔[4][5][6] 14 دن بعد 23 جنوری کی شام کو وزیر اعلٰی شہباز شریف نے دیگر قانونی اداروں کے نمائندے کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں عمران علی ارشد نام کے زینب انصاری کے ایک پڑوسی کو بطور مجرم شناخت کر لینے کا اعلان کیا۔ اس کی گرفتاری ڈی این اے جانچ اور جھوٹ پکڑنے کی جانچ سے ممکن ہوئی۔[7]
زینب انصاری | |
---|---|
بچی زینب | |
مقام | قصور، پنجاب، پاکستان |
تاریخ | 4 جنوری 2018ء |
حملے کی قسم | جنسی زیادتی اور قتل |
زخمی | جنسی حملہ (زنا بالجبر) اور ممکنہ طور پر لواطت؛ اعصاب کی اکڑن؛ زبان بری طرح سے مرجھا گئی اور زخمی ہوئی کیوں کہ اسے دانتوں کے بیچ رکھ کر دبا دیا گیا؛ مٹی، فضلات کا مادہ اور خون جسم پر ملا۔ |
متاثر | زینب امین انصاری |
مرتکبین | عمران علی نقشبندی[1] |
تحقیقات | ڈی این اے نمونے اور سی سی ٹی وی تصاویر جمع کیے گئے۔ |
تفتیش کنندہ | ڈاکٹر قرۃ العین عتیق، ڈی ایچ کیو، ایم ایل او |
واقعات
زینب انصاری کے ماں باپ عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب روانہ ہوئے تھے۔ اس وجہ سے وہ اپنی خالہ کے یہاں رہ رہی تھی۔ 4 جنوری 2018ء کو جب وہ قرآن پڑھنے مدرسے کے لیے گھر سے روانہ ہوئی جو اس کے گھر کے قریب ہی تھا، وہ مفقود الخبر (غائب) ہو گئی۔ اس کے خالو محمد عدنان نے قصور ضلعی پولیس دفتر میں شکایت درج کروائی۔ سی سی ٹی وی کی ویڈیو فوٹیج دیکھنے کے بعد زینب کے خاندان والوں کو پتہ چلا کہ وہ کسی نامعلوم داڑھی والے شخص کے ساتھ جا رہی تھی جو سفید کپڑوں اور صدری پہن کر اس کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔ مزید پتہ چلا کہ وہ قصور کے پیر والا سٹڑک پر جا رہے تھے۔ اس ویڈیو کی تلاش میں خاندان کو ارباب مجاز سے کوئی مدد نہیں ملی، یہ ان کی ذاتی کوشش سے حاصل کی گئی تھی۔ 9 جنوری کو شہباز خان روڈ پر زینب کی لاش کچرے کے ڈھیر پر پائی گئی۔ طبی معائنہ سے پتہ چلا کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور اسے گلا کھونٹ کر مار دیا گیا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ وہ قتل سے پہلے جبری قید اور اذیتیں جھیل چکی ہے۔[2] اس کی نماز جنازہ طاہر القادری نے پڑھائی۔
احتجاج
قصور میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جس میں ایک پولیس تھانے میں داخل ہونے پر دو افراد پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہوئے۔[3][8][9][10] چار پولیس اہلکار جنھوں نے مبینہ طور پر مظاہرین پر فائرنگ کی "ان کو گرفتار کر لیا گیا اور تحقیقات جاری ہیں۔"[11]
تحقیقات و گرفتاری
عمران علی کی تصویر | |
علاقائی نام | عمران علی ارشد |
---|---|
پیدائش | 18 اپریل 1994ء |
وفات | اکتوبر 17، 2018 کوٹ لکھپت جیل، لاہور | (عمر 24 سال)
وجۂ وفات | پھانسی کی سزا |
اقامت | قصور |
قومیت | پاکستانی |
دیگر نام | عمران علی نقشبندی |
پیشہ | بے روزگار، نقابت و نعت خوانی[12] |
سالہائے فعالیت | 2015ء تا 2018ء |
مجرمانہ الزام | جنسی ہراسانی، قتل، دہشت گردی |
مجرمانہ سزا | 4 بار سزائے موت، عمر قید اور جرمانہ |
قتل | |
متاثرین | زینب انصاری اور سات دیگر بچیاں |
تاریخ | 2015ء تا 4 جنوری 2018ء |
دورانیہ قتل | 2015ء–2018ء |
ملک | پاکستان |
حکومتِ پنجاب نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی[7] جس نے 14 دن تک اس پر کام کیا۔ تفتیش کے دوران میں قصور میں 600 افراد کے ڈی این اے کی جانچ کی گئی۔
23 جنوری 2018ء کو باقاعدہ وزیر اعلیٰ نے پریس کانفرنس کر کے اعلان کیا کہ ایک نوجوان عمران علی ارشد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جس کا ڈی این اے آٹھ قتل کی کئی بچیوں کی لاشوں و کپڑوں سے سو فیصد میل کھاتا ہے۔ اس ملزم سے ابتدا میں پولیس نے اس سے تفتیش کی گئی تھی اور چھوڑ دیا گیا تھا۔ تاہم اس کو دوسری مرتبہ چند روز قبل گرفتار کرنے کے لیے پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا تو وہ گھر پر موجود نہیں تھا۔ عمران علی کو لاہور کے قریب واقع شہر پاکپتن سے گرفتار کیا گیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ایک عہدے دار کے مطابق عمران کو اس کا ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا جبکہ ابتدائی تفتیش کے بعد سے وہ زیرِ نگرانی تھا۔ گرفتاری کے بعد اس کے ڈی این اے کے نمونے لیے گئے جن کا موازنہ تفتیش کے دوران میں حاصل ہونے والے ممکنہ قاتل کے ڈی این اے سے میچ کیا گیا۔ عمران قصور شہر میں کورٹ روڈ کا رہائشی اور سات سالہ زینب انصاری کا محلے دار ہے۔ تفتیش کے دوران میں عمران نے تمام آٹھ بچیوں پر جنسی حملوں اور قتل کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ملزم کے مطابق وہ اس فعل میں تنہا شامل تھا اور اس کا کوئی ساتھی نہیں تھا۔[12] تفتیش کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے 1150 افراد کا ڈی این اے ٹسٹ کیا۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق دنیا میں تیسری مرتبہ ایک ساتھ 1150 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیشی عمل کے دوران میں 20 مشتبہ افراد کے پولیس گرافک ٹیسٹ کرائے گئے۔ زینب قتل کیس کے ملزم کی شناخت کے 3 لاکھ تصاویر کا جائزہ لیا گیا۔ زینب کے قاتل تک پہنچنے کے لیے 6 ہزار موبائل فونز کال ٹریس کی گئیں، جب کہ ضلع بھر سے مردم شماری کی لسٹوں سے 60 ہزار افراد سے تفتیش ہوئی۔ موبائل فونز کی لوکیشن چیک کرنے کے لیے 3 جدید ترین آئی سی سی سی گاڑیاں 24 گھنٹے ضلع قصور میں رہیں۔ ڈھائی کلومیٹر کے دائرے میں 1200 خاندانوں کے افراد سے پوچھ گچھ کی گئی۔
- عمران نے 23 جون سال 2015 کو صدر قصور کے علاقے میں عاصمہ بی بی زیادتی کے بعد قتل کیا تھا۔ ملزم عمران کا ڈی این اے کمسن عاصمہ کے ساتھ میچ کر گیا۔
- 4 مئی 2016 کو زیادتی کے بعد قتل ہونے والی تہمینہ کے ساتھ ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا۔
- 8 جنوری 2017 کو زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کمسن بچی عائشہ آصف کے ساتھ بھی ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا۔
- 24 فروری 2017 کو قتل ہونے والی ننھی بچی ایمان فاطمہ کیس میں ملزم عمران کا ڈی این اے میچ کر گیا ۔
- 11 اپریل 2017 کو معصوم نور فاطمہ کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے کیس کا ڈی این اے بھی ملزم عمران کے ساتھ میچ کر گیا۔
- 8 جولائی 2017 کو ننھی لائبہ کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے کیس کا ڈی این اے بھی ملزم عمران کے ساتھ میچ کر گیا۔
- 12 نومبر 2017 کو معصوم کائنات بتول کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے کیس کا ڈی این بھی ملزم عمران کے ساتھ میچ کر گیا۔
- 4 جنوری 2018 کو زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے کیس کا ڈی این اے بھی ملزم عمران کے ساتھ میچ کر گیا۔
مقدمہ و سزا
10 فروری کو پولیس کی جانب سے ملزم کے خلاف چالان پیش کیا گیا اس دوران میں استغاثہ کی جانب سے پچاس سے زائد گواہان کی فہرست پیش کی گئی اور تیس سے زائد گواہان نے عدالت میں بیان قلم بند کروائے۔ تاہم استغاثہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے فرانزک سائینس پر مبنی شواہد مجرم کو سزا دلوانے میں بنیادی ثابت ہوئے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 27-بی کو جب قانونِ شہادت آرڈیننس 1984 کے آرٹیکل 164 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو عدالت فرانزک شہادت یا دیگر جدید آلات کی مدد سے مہیا کی جانے والی شہادت کی بنیاد پر ملزم کو سزا دے سکتی ہے۔ فیصلے کی دستاویز میں نمبر 26 پر عدالت نے لکھا ہے کہ 'وہ استغاثہ کی جانب سے پیش کی جانے والی فرانزک شہادتوں کے اصلی ہونے یا ایسی شہادت کی سچائی پر مکمل طور پر مطمئن ہے۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق مقتولہ بچی کے جسم اور کپڑوں سے لیے جانے والے ڈی این اے کے نمونے مجرم عمران علی کے ڈی این اے کے نمونوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ عدالت نے مزید لکھا کہ موقعے کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا تاہم مضبوط سرکمسٹینشل ایویڈینس یا واقعاتی ثبوت ریکارڈ پر موجود ہے جس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ملزم عمران علی ہی نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔' اور یہ کہ استغاثہ نے ڈی این اے رپورٹ تشکیل دینے والوں کے ذریعے اس کو ثابت کیا۔ استغاثہ کے ایک وکیل نے بتایا کہ انھوں نے جو فرانزک ثبوت فراہم کیے ان میں ڈی این اے کے نمونوں کی میچنگ پر مبنی رپورٹ سب سے اہم تھی۔ اس کے علاوہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل ہونے والی فوٹیج میں نظر آنے والے مجرم عمران علی کے چہرے کی تصاویر کو اس قدر بہتر بنایا گیا کہ ان کا مجرم کے چہرے سے میچ ہونا ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے جو گواہان پیش کیے ان میں وہ لوگ شامل تھے جنھوں نے عدالت میں جمع کروائے جانے والے تمام تر ثبوتوں کی ذاتی طور پر تصدیق کی جس کے بعد ان پر جرح بھی کی گئی۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ میڈیکل شہادت نے بھی استغاثہ کے مؤقف کی ہر اعتبار سے تائید کی۔
استغاثہ کے ایک وکیل نے بتایا کہ انھوں نے جو فرانزک ثبوت فراہم کیے ان میں ڈی این اے کے نمونوں کی میچنگ پر مبنی رپورٹ سب سے اہم تھی۔ اس کے علاوہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل ہونے والی فوٹیج میں نظر آنے والے مجرم عمران علی کے چہرے کی تصاویر کو اس قدر بہتر بنایا گیا کہ ان کا مجرم کے چہرے سے میچ ہونا ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے جو گواہان پیش کیے ان میں وہ لوگ شامل تھے جنھوں نے عدالت میں جمع کروائے جانے والے تمام تر ثبوتوں کی ذاتی طور پر تصدیق کی جس کے بعد ان پر جرح بھی کی گئی۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ میڈیکل شہادت نے بھی استغاثہ کے مؤقف کی ہر اعتبار سے تائید کی۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجرم کے عمل سے علاقے میں خوف وہراس پھیلا اور نقصِ امن کے حالات پیدا ہوئے۔ اس وجہ سے ان پر استغاثہ کی طرف سے لگایا جانے والا دہشگردی کا الزام بھی ثابت ہوتا ہے۔ انھیں انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت بھی سزائے موت سنائی گئی۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجرم کے عمل سے علاقے میں خوف وہراس پھیلا اور نقصِ امن کے حالات پیدا ہوئے۔ اس وجہ سے ان پر استغاثہ کی طرف سے لگایا جانے والا دہشگردی کا الزام بھی ثابت ہوتا ہے۔ انھیں انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت بھی سزائے موت سنائی گئی۔ عدالت نے مجرم عمران علی کو چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور سات برس قید کی سزا سنائی۔ اس پر اکتیس لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا جبکہ قتل کے مقدمے میں عدالت نے اسے زینب کے لواحقین کو دس لاکھ حرجانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔[13]
پھانسی
عمران علی نے سزا کے خلاف پہلے لاہور ہائی کورٹ میں اور بعد میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جو مسترد کر کے خارج کر دی گئی اور صدر مملکت پاکستان نے بھی رحم کی درخواست مسترد کر دی تھی جس کے بعد 12 اکتوبر 2018ء کو انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم کی سزائے موت کا حکم نامہ جاری کر دیا اور عمران کو 17 اکتوبر بروز بدھ کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔[14]
رد عمل
وزیر اعلٰی شہباز شریف نے کہا:
جتنا ظلم اور زیادتی ہوئی ہے وہ ناقابل بیان ہے اور لمحہ بہ لمحہ اس کیس کی نگرانی کر رہا ہوں ۔ واقعہ میں ملوث درندہ صفت ملزم قانون کی گرفت سے بچ نہیں پائے گا۔ کمسن بچی کے خاندان کو انصاف دلانا میری ذمہ داری ہے اور جب تک مجرم کو کٹہرے میں نہیں لائیں گے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے"[15]
نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے ٹوئٹر پر لکھا، "ایسے واقعات کو روکنا ضروری ہے۔ حکومت اور متعلقہ ادارے ایسے واقعات کے خلاف اقدام کریں۔"[16][17] عمران خان، سربراہ پاکستان تحریک انصاف اور کرکٹ کھلاڑی، نے ٹویٹ کی، "بچی کے اغوا اور قتل کی مذمت کی اور کہا کہ ننھی زینب کے قتل نے ثابت کر دیا کہ معاشرے میں بچے کتنے غیر محفوظ ہیں۔"[18]
مذہبی و سیاسی رہنما طاہر القادری اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ کے ایک سیاسی حریف "نے مطالبہ کیا مقامی حکومت کو ختم کر دیا جائے، ان کے پاس زینب انصاری کے قتل کے بعد اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے'"۔[18]
کرن ناز، نیوز اینکر سما ٹی وی نے 10 جنوری کو بطور احتجاج اپنی بیٹی کو گود میں لے کر پروگرام کیا۔[19] سندھ کی صوبائی اسمبلی میں، نامور فنکاروں عائشہ عمر، نادیہ حسین، فیصل قریشی اور دیگر 12 جنوری کو مع نائب اسپیکر شہلا رضا مستقبل میں ایسے سانحوں کو روکنے کے لیے انصاف اور قوانین بنانے کا مطالبہ کیا۔[20] ماہرہ خان، علی ظفر، عمران عباس نقوی، ماورہ حسین، صبا قمر اور کرکٹ کی نامور شخصیات وسیم اکرم اور شعیب اختر نے اس واقعہ کے متعلق ٹویٹ کیا، ظالمانہ عصمت دری اور قتل کی مذمت کی، اس درندگی کی مذمت کے لیے #زینب_کے_لیے_انصاف کا ہیش ٹیگ استعمال کیا جا رہا ہے۔[21]
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ↑ وسیم ریاض (2018-01-23)۔ "'Zainab's murderer has been arrested'"۔ DAWN.COM (بزبان امریکی انگریزی)۔ 23 جنوری 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2018
- ^ ا ب "6-year-old Zainab's autopsy suggests child endured rape, captivity before murder"۔ Dawn۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2018
- ^ ا ب "Parents of raped and murdered girl, 7, seek justice"۔ الجزیرہ۔ 10 جنوری 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2018
- ^ ا ب Alina Polianskaya (10 جنوری 2018)۔ "Zainab Ansari killing: Two people died in Pakistan protests over the alleged rape and murder of eight-year-old girl"۔ The Independent۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2018
- ↑ "Zainab murder: Riots in Pakistan's Kasur after child rape and killing"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2018
- ↑ "Chilling last moments of eight-year-old girl who was raped and murdered before being dumped on a pile of rubbish: CCTV shows girl being led away by mystery man in Pakistan"۔ Daily Mail۔ 10 جنوری 2018۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2018
- ^ ا ب "قصور: سات سالہ بچی زینب سے'جنسی زیادتی اور اس کے قتل کا اہم مشتبہ ملزم گرفتار'"۔ بی بی سی اردو۔ 23 جنوری 2018ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2018ء
- ↑ "Pakistan mob angered by rape, murder of girl attacks police"۔ CTV۔ 10 جنوری 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2018
- ↑ Amanda Erickson (10 جنوری 2018)۔ "A 7-year-old Pakistani girl was raped, strangled and left in a dumpster"۔ واشنگٹن پوسٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2018
- ↑ "Kasur: Two dead in protests, Tahir ul-Qadri leads Zainab's funeral prayer"۔ Daily Times۔ 10 جنوری 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2018
- ↑ Govt Of The Punjab (11 جنوری 2018)۔ "All the four accused policemen who opened fire on protestors in Kasur yesterday have been arrested and being interrogated. JIT, comprising officials from Police & intelligence agencies, are working on Zainab murder case & will locate the main accused soon IA. #JusticeForZainabpic.twitter.com/A44Gvpizna"۔ Twitter (بزبان انگریزی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2018
- ^ ا ب "قصور واقعے کا ملزم عمران علی کون ہے؟"۔ عمردراز ننگیانہ اور حنا سعید۔ بی بی سی اردو۔ 23 جنوری 2018ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2018
- ↑ عمر دراز ننگیانہ۔ "زینب کیس: مجرم عمران علی کو چار بار سزائے موت کا حکم"۔ بی بی سی اردو۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 فروری 2018
- ↑ زینب قتل کیس: عمران کی پھانسی 17 اکتوبر کو، گرفتاری سے انجام تک - BBC News اردو
- ↑ "Justice for Zainab: Riots erupt in Kasur after 7-year-old's rape, murder"۔ ڈان۔ 10 جنوری 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2018
- ↑ Malala Yousafzai (10 جنوری 2018)۔ "Heartbroken to hear about Zainab – a 7 year old child abused and brutally killed in Kasur, Pakistan. This has to stop. Gov and the concerned authorities must take action. #JusticeForZainab"۔ Twitter (بزبان انگریزی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2018
- ↑ "Father lashes out at cops over Pakistani girl's rape, murder" (بزبان انگریزی)۔ CBS News۔ 11 جنوری 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2018
- ^ ا ب "Rape and murder of seven-year-old girl shocks Pakistan"۔ Mail Online۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2018
- ↑ "Pakistani anchor goes on air with daughter to protest minor's brutal rape and murder"۔ Times of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جنوری 2018
- ↑ "Speedy trial needed for justice in Kasur-like tragedies: Ayesha Omar"۔ Geo TV۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جنوری 2018
- ↑ "Justice for Zainab: Ali Zafar, Mahira Khan condemn the brutal rape and murder of the 8-year old girl"۔ Times Now News۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جنوری 2018