گوتم بدھ

بدھ مت کے بانی
(سدھارتھ گوتم سے رجوع مکرر)

گوتم بدھ کو بدھا اور بدھ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ان کا اصل نام سدھارتھ تھا۔ یہ 563 قبل مسیح یا 480 قبل مسیح میں پیدا ہوئے۔[3][4] ان کا باپ ایک ریاست، جو علاقہ اب موجودہ نیپال میں شامل ہے، کا راجا تھا اس ریاست کو کپل وستو کہا جاتا تھا۔ گوتم بدھ بدھ مت مذہب کے بانی ہیں۔[5]

تتھاگت ،بھگوان   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گوتم بدھ
گوتم بدھ مراقبہ میں۔

معلومات شخصیت
پیدائش 563 قبل مسیح یا 480 قبل مسیح
لمبنی (موجودہ علاقہ نیپال)[1]
وفات 483 قبل مسیح یا 400 قبل مسیح (عمر 80 سال)
کشی نگر، اتر پردیش، بھارت
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش بھارت
نیپال   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت شکیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ یشودھرا   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد راہل   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد شدھودن
والدہ مایا
بہن/بھائی
نند ،  نندا   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ الارا کلاما   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص بمبیسار   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ بھکھّو ،  فلسفی ،  مذہبی بانی ،  مذہبی رہنما ،  مصنف ،  سماجی مصلح [2]،  نفسیاتی معالج [2]،  ماہر نفسیات [2]،  واعظ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ماگدھی ،  پالی ،  سنسکرت   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلسفہ ،  مذہب ،  امن ،  عقل   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت بانی بدھ مت
تحریک ہشت پہلو راستہ ،  نروان ،  دھرم   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات

ترمیم

اب سے تقریباً 25 سو برس پیشتر قدیم برہمنوں کے عہد کے اختتام پر کوشل کی طاقتور سلطنت کے کچھ مشرق میں ساکیہ کشتری آباد تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی قوم تھی۔ سدھوون ان کا راجا تھا۔ کپل وستو اس کی راجدھانی تھی۔ یہ شہر بنارس سے سو میل کے قریب شمال میں واقع تھا۔ سدھوون بڑا بہادر جنگجو راجا تھا اور چاہتا تھا کہ میرے بعد میرا بیٹا گوتم بھی ایسا ہی بہادر اور جنگجو ہو۔ اس نے اسے سپہ گری کے سب فن سکھائے مثلاً نیزہ بازی، تیر اندازی اور شمشیر زنی۔ گوتم جب 18 برس کا ہوا تو ایک خوبصورت شہزادی مسماۃ یشورا سے اس کی شادی ہوئی اور شادی کے دس سال بعد ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ گوتم جب پيدا ہوا تو نجوميوں نے اس كے باپ كو بتايا تھا كہ یہ بچہ بڑا ہو كر يا تو بادشاہ بنے گا يا پھر سادھو مگر جو بھی بنے گا اس جيسا دنيا ميں كوئی اور نہ ہو گا۔ اگر بادشاہ ہوا تو بہت بڑا بادشاہ ہوگا اور اگر سادھو بنا تو رہتی دنيا تک اس كا نام رہے گا۔

اس لیے اس كے باپ نے اس كو بادشاہ بنانے كے لیے اسے سپہ گری کے سب فن سکھائے مگر قدرت نے سدھارتھ كو سادھو بنانا تھا۔ گوتم بچپن ہی سے غور و فکر اور سوچ بچار میں رہا کرتا تھا۔ زبان کا میٹھا اور دل کا نرم تھا۔ تمام مخلوقات پر ترس کھاتا اور رحم کرتا تھا۔ شکار کو چلا ہے تیر چلے پر چڑھا ہوا ہے شست لگا لی ہے، کچھ کچھ کمان بھی تان لی ہے، مگر دیکھتا ہے کہ بھولا بھالا ہرن بے خبر بے کھٹکے ننھے ننھے دانتوں سے پتلی پتلی گھاس کی پتیاں کھا رہا ہے بس وہیں کمان کو چھوڑ دیا ہے اور فکر میں ڈوبا ہوا ہے! افسوس! اس معصوم جانور نے میرا کیا بگاڑا ہے؟ یہ کسی کو ستاتا ہے جو میں اسے ماروں؟ تیر ترکش میں ڈال لیا ہے۔ اور واپس گھر چلا گیا ہے۔ گھڑ دوڑ میں شامل ہے، گھوڑے کو ہوا کر رکھا ہے، اغلب ہے کہ بازی جیتے گا مگر منزل پر پہنچنے سے ذرا پہلے گھوڑے کے ہانپنے اور زور زور سے سانس لینے کی طرف دھیان جا پڑا ہے، بس وہیں رک گیا ہے اور پشیمان ہے افسوس! کیا تفریح کی خاطر اس بے گناہ وفادار جانور کو ایسا ستانا روا ہے؟ تفریح جائے مگر گھوڑے کو دکھ دینا واجب نہیں ہےـ گھڑ دوڑ سے علاحدہ ہے اور گھوڑے کو چمکارتا دلاسا دیتا ایک طرف لے گیا ہے۔ ایک روز بہار کے موسم میں باپ نے کہا کہ آؤ باہر چلو، دیکھو درختوں اور کھیتوں پر کیا جوبن چھایا ہوا ہے۔ باپ بیٹا آہستہ آہستہ چلے جاتے تھے جدھر دیکھتے تھے بہار کا عالم تھا۔ باغ ہی باغ نظر آتے تھے۔ کونٹیں چل رہی تھیں۔ زمین پر ہری ہری گھاس کا فرش تھا۔ ہری بھری کھیتیاں لہلہا رہی تھیں۔ درختوں کی شاخیں میوے کے بوجھ سے جھکی جاتی تھیں۔ گوتم اس منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پھر کیا دیکھتا ہے کہ ایک کسان ہل چلا رہا ہے بیل کمزور ہے اس کی پیٹھ پر زخم ہے۔ کسان تک تک کر رہا ہے اور اس کو لکڑی سے مارے چلا جاتا ہے اور بیل ہے کہ بچارا درد کا مارا بیٹھا جاتا ہے۔ پھر کیا دیکھا کہ باز نے کبوتر پر جھپٹا مارا اور اسے کھا گیا۔ آگے بڑھ کر اسی قسم کی ایک اور بات دیکھی۔ ایک کبوتر مکھیوں پر ٹھونگ مارتا ہے اور دانے سے چبا رہا ہے۔ ان سب باتوں نے باغ اور بہار کے تماشے کا مزہ تلخ کر دیا۔ دل میں یہ خیال آیا کہ دنیا ہیچ ہے جی کا بیری جی ہے۔ کیسا تماشا؟ چل اپنے گھر۔

اس کے کچھ دنوں بعد گوتم نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرد پیرانہ سال ہے جو بڑھاپے کی کمزوری سے نہ چل سکتا ہے۔ نہ کھڑا ہو سکتا ہے اور کوئی خواب ہی میں گوتم سے کہتا ہے کہ ایک دن تو بھی ایسا ہی بوڑھا اور بے کس ہو جائے گا۔ پھر دیکھا کہ کوئی بیمار ہے درد سے کراہ رہا ہے اور وہی آواز کہ رہی ہے کہ اے گوتم! ایک دن تو بھی بیمار ہوگا اور اسی طرح درد سے کراہے گا۔ پھر دیکھا کہ ایک شخص زمین پر پڑا ہے، موت سے ٹھنڈا ہو چکا ہے اور جسم کے اعضا لکڑی کی طرح سخت ہو چکے ہیں اور وہی آواز کہہ رہی ہے کہ گوتم! ایک دن تجھے بھی مرنا ہے۔

اس کے کچھ عرصے بعد گوتم ماں، باپ، بیوی، بچے، راج پاٹ کو چھوڑ کر گھر سے نکل گیا۔ اب اس کی عمر 30 سال کے قریب تھی۔ اپنے لمبے لمبے بال، جیسے کہ کشتری رکھا کرتے تھے، منڈوا ڈالے۔ محلوں میں جو قیمتی لباس و زیورات پہنا کرتا تھا اتار دیے اور فقیروں کے سے پھٹے پرانے چیتھڑے پہن لیے۔ سات برس تک بن میں جوگ اختیار کر کے اس فکر و تلاش میں پھرا کہ دنیا میں جو دکھ درد اور گناہ ہے اس سے کس طرح رہائی ہو۔ راجگڑھ کے قریب جو مگدھ کی راجدھانی تھی، جنگل میں دو برہمن عبادت گزار رہتے تھے۔ گوتم ان کے پاس گیا لیکن وہ اس کو دنیا کے غم و اندوہ سے بچنے اور سچی خوشی حاصل کرنے کی راہ نہ بتا سکے۔ پھر پٹنہ سے جنوب کو گیا کے پاس گھنے جنگلوں میں چلا گیا۔ 6 برس برابر تپسیا (بمعنی عبادت/ریاضت) کی، فاقے کیے اور جسم کو مارا۔ آخر معلوم ہوا کہ ابدی خوشی حاصل کرنے کا طریقہ یہ بھی نہیں ہے۔ بدھ گیا کا مندر اس بات کی یادگار ہے کہ یہاں گوتم بدھ نے 6 برس تپسیا کی تھی۔

آخر وہ دن آیا کہ گوتم بدھ نے راحت و تسکین حاصل کی۔ گوتم بدھ گيا ميں ایک املی کے پیڑ کے نیچے دھیان دھرے بیٹھا تھا، اس کے دل میں ایک قسم کی روشنی محسوس ہوئی، دل کو اطمينان سا آگيا۔ معلوم ہو اکہ فاقے اور جسم کو ایذا دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ دنیا اور عقبی، میں خوشی اور راحت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیک اور پاک زندگی بسر کر۔ سب پر رحم کر اور کسی کو مت ستا۔ گوتم کو یقین ہو گیا کہ نجات کا سچا راستہ یہی ہے۔

اب گوتم نے بدھ یعنی عارف کا لقب اختیار کیا، بن سے نکلا اور دنیا کی تعلیم و تلقین کی غرض سے دیس بدیس پھرنا شروع کیا۔ پہلے کاشی یعنی بنارس پہنچا۔ یہاں مرد عورت سب کو دھرم سنایا۔ تین مہینے کے قیام میں 60 چیلے جمع کیے اور ان کو روانہ کیا کہ جاؤ ہر طرف دھرم کا چرچا کرو۔ پھر راج گڑھ گیا۔ یہاں راجا پرجا سب اس کے دھرم کے پیرو بنے۔ پھر کپل وستو میں گیا جہاں اس کا بوڑھا باپ راج کرتا تھا، وطن سے رخصت ہونے کے وقت وہ شہزادہ تھا، اب جو واپس آیا تو زرد لباس' ہاتھ میں کاسئہ گدائی، سر منڈا جوگی تھا، باپ، بیوی، بیٹے اور ساکیہ قوم کے سب مرد عورتوں نے اس کا وعظ سنا اور چیلے ہو گئے۔ اس کے 45 برس کے بعد یعنی 80 برس کی عمر تک بدھ دیو نے جابجا پھر کر اپنے مت کو پھیلایا۔ اس طرح سے سارا مگدھ اور کوشل یعنی بہار اور صوبہ جات متحدہ آگرہ و اودھ میں یہ مت عام ہو گیا۔

نگار خانہ

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Lumbini, the Birthplace of the Lord Buddha"۔ UNESCO۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 ستمبر 2013 
  2. http://www.budaedu.org/en/budaedu/
  3. L. S. Cousins (1996), "The dating of the historical Buddha: a review article", Journal of the Royal Asiatic Society (3)6(1): 57–63.
  4. https://en.wikipedia.org/wiki/Gautama_Buddha#CITEREFNorman1997، صفحہ 53
  5. بدھ کا تعارف