سقوطِ خلافت، آج مسلمانوں میں کتنے لوگ جانتے ہوں گے کہ آج سے ٹھیک پچاسی سال پہلے 28 رجب کو انگریزوں کی گہری سازش کے نتیجے میں مسلمانوں کی خلافت کا خاتمہ ہوا۔ مسلمانوں پر اغیار کی تہذیب کے جواثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جا رہے جن کی وجہ سے وہ ضروریاتِ دین سے بڑی تیز رفتاری سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں اس کے پیش نظر مسلمانوں کے حاشیہ خیال سے بھی یہ بات محوہوچکی ہے کہ خلافت کا احیاءاور استحکام بھی ان کے بنیادی دینی فرائض میں شامل ہے۔

وجوہات خلافت

ترمیم

اللہ تعالٰیٰ نے مسلمانوں کو دنیا میں اپنا خلیفہ نامزد کیا ہے، خلیفہ ہونے کامطلب دینی، سیاسی اور سماجی ہر طرح کے امور کی نگہداشت، ارتقا، استحکام اور قیامِ عدل کی مساعی کوبروئے کار لاناہے۔ اس کی عظیم الشان ذمہ داری اللہ تعالٰیٰ نے بوساطت پیغمبر آخرالزماں مسلمانوں کے دوشِ ناتواں پر ڈالی ہے۔ قرون اولیٰ کے مسلمان اس حقیقت کا گہرا شعور وعرفان رکھتے تھے اسی لیے انھوں نے قیام خلافت کے لیے جان توڑ کوششیں کیں، ہر دوسری بات پر اس بات کو ترجیح دی۔ عدل وقسط کے تحقیق کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ اس کے نتیجے میں ایک عالمی خلافت کا قیام عمل میں آیا جو مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد واتفاق قائم رکھنے کی کوشش کرتی تھی۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی تھی۔ مساجد، مدارس، سرایوں اور مسافرخانوں کا قیام روبہ عمل لاتی تھی، عوام الناس کو تحفظ دیتی تھی، معاشرے کو فواحش منکرات اور بے حیائی سے پاک کرتی تھی۔ زکوٰة کا نظام قائم کرکے اس کی تقسیم کا نظم کرتی تھی۔ علمائے کرام کے وظائف مقرر کرتی تھی، جہاد فی سبیل اللہ کے لیے ساز و سامان اور ہتھیاروں کی فراہمی ممکن بناتی تھی، حدود کوقائم کرتی تھی، خواتین کی عزت وناموس کی حفاظت کرتی تھی۔ لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کوشاں تھی، سرحدوں کی حفاظت کا انتظام کرتی تھی۔

اسلامی خلافت تمام دنیا کے لوگوں کے لیے پیغامِ رحمت ہے۔ خلافت سے جوبرکتیں حاصل ہوتی ہیں ان کااحصاءممکن ہی نہیں حتیٰ کہ جب خلافت منہج نبوی پر برقرار نہ رہی بلکہ بہت کچھ بے اعتدالیوں کا شکار ہو گئی تب بھی اس کے ذریعے خیر وبرکت کے چشمے جاری تھے۔

سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں جب یورپ نے دنیا کے باشندوں کو غلام بنانا شروع کیا تو اس وقت انھوں نے اپنی تمام ترطاقت مسلمانوں کی خلافت کومٹانے میں لگادی۔ یورپ نے اپنی زبان، تہذیب، کلچر، معتقدات اوررسومات کو ساری دنیا پر جبراً نافذ کرنے کی کوشش کی حتیٰ کہ اس سلسلے میں انھوں نے عام انسانی اور اخلاقی قدروں کو بھی پامال کرنے سے گریز نہ کیا۔ افریقہ اور ایشیاءکے کمزور ملکوں کے باشندوں کو غلام بنا کر جانوروں کی طرح بیچنے کی تجارت کو فروغ دیا۔ انسانوں کے درمیان نفرت کے بیج بودیے۔ جنگ وتشدد کے شعلے بھرکائے۔ یورپ کے ان ناپاک عزائم کی تکمیل میں اسلام ہی سب سے بڑی رکاوٹ تھی اور اسلام عبارت ہے قیام خلافت سے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک خلافت قائم رہتی تب تک یورپ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل نہ کر سکتا تھا۔ لہٰذا انھوں نے خلافت کی جڑوں کو کھودنا شروع کیا۔ ترکی کی عظیم سلطنت کو، جس کی تعمیر وترقی میں صدیوں تک مسلمانوں نے اپنا خونِ جگر لگایا تھا ،ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ اسلامی مرکز کے عین قلب میں ممسوخ یہودیوں کی ناجائز ریاست کاقیام عمل میں لایا۔

اس زمانے میں مسلمانوں کی خاصی تعداد لذت پرستی اور عیش کوشی میں مست حرام تھی۔ وہ دینی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے بھی پسماندہ تھے۔ لہٰذا ان کے خلاف یورپ کا ہر وار کارگر ثابت ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے 1924ء میں اپنے ایک زرخرید ایجنٹ مصطفی کمال پاشا کے ذریعے خلافت کا خاتمہ کر دیا ۔

چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا

سادگی اپنوں کی دیکھ اور اروں کی عیاری بھی دیکھ

دردمند اصحابِ علم و فضل نے انگریزوں کی اس سازش کے خلاف اقدام کیا۔ انھوں نے ساری دنیا میں خلافت کے حوالے سے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے ایک تو مسلمانوں کی بے حسی اور دوسرے مسلمانوں میں ہی ایک ایسے گروہ، جس کو یورپ اعلیٰ مراعات کے عوض خرید چکا تھا، کی موجودگی کی وجہ سے یہ تحریک عالمی صورت اختیار نہ کرسکی اور نتیجتاً خلافت کی بازیافت بھی نہ ہو سکی۔

برصغیر ہند و پاک میں شیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبداللہ سندھی وغیرہ حضرات نے تحریک خلافت چلائی۔ یہ ایک مستحسن کوشش تھی تاہم اس کا طریقہ کار، بعد کے مطالعہ کی روشنی میں، مربوط، منظم اور دینی مقتضیات سے پوری طرح ہم آہنگ نہ تھا۔[1]

موتمر اسلامیان خلا فت کمیٹی

ترمیم

ترکی خلیفہ کے ساتھی شریفِ مکہ کی شکست کے بعد۔ محمد بن عبدالوہاب کے پیروکاروں نے مقدس ہستیوں کی قبریں مسمار کر دیں تو عالم اسلام میں بیچینی اور بڑھی۔ مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں پر قبضے کے بعد ابن سعود نے خلیفہ بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ حجاز کا انتظام سنبھالنے اور جدید دور کے مسائل کو حل کرنے کے لیے انھوں نے 13 تا 19 مئی 1926 کے درمیان ساری دنیا کے مسلمان رہنماﺅں پر مشتمل ایک موتمر اسلامی طلب کی جس میں تیرہ اسلامی ملکوں نے شرکت کی۔ موتمر میں اسلامیان ہند کے ایک وفد نے بھی شرکت کی جس کے سب سے ممتاز شخصیت مولانا محمد علی جوہر تھے۔ اگرچہ یہ موتمر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن اتحادِ اسلامی کی تحریک میں اس کو ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مسلمانوں کا پہلا بین الاقوامی اجتماع تھا جسے ایک سربراہ مملکت نے طلب کیا تھا۔ بالآخر خلافت کمیٹی کا ایک وفد حجاز روانہ کیا گیا۔ وفد میں دیگر افراد کے علاوہ نامور صحافی ظفر علی خان بھی شامل تھے۔ جنھوں نے ارکانِ وفد کی مخالفت کے باوجود ابن سعود سے تنہائی میں ملاقات کی اور واپس آ کر خلافت وفد سے الگ رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے دو جملے ملاحظہ ہوں۔ ’((خالص دینی زاویہ نگاہ سے عبد العزیز ابنِ سعود میرے نزدیک دنیائے اسلام کا بہترین فرد ہے۔۔۔ وہ ایک روشن ضمیر مدبر، الوالعزم جرنیل، خدا کا سپاہی، معاملہ فہم حکمران، پرجوش مذہبی مبلغ اور قوم کا سچا خادم ہے۔‘ )) اس رپورٹ کے بعد مسلمانانِ ہند میں پھوٹ پڑ گئی۔ خلافت کمیٹی اور مجلسِ احرار پنجاب کے راستے الگ ہو گئے۔ مولانا ظفر علی خان نے نیلی پوش تنظیم بنا لی۔ مولانا داود غزنوی کے خانوادے کی آلِ سعود سے یاد اللہ کے ڈانڈے بھی اسی مناقشے سے ملتے ہیں۔ ابن سعود کی کھلی حمایت پر مورخ رئیس احمد جعفری کے مطابق، ظفر علی خان کو بھاری معاوضہ ملا۔ اسی رقم کی تقسیم پر جھگڑے میں مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک نے روزنامہ زمیندار سے الگ ہوکر سنہ 1927ء میں ’روزنامہ انقلاب‘ نکالا تھا۔ مملکت سعودیہ کے قیام میں سیاسی سرپرستی برطانیہ بہادر کی تھی۔ سنہ 1948ء میں سعودی عرب جہاں سے الگ ایک جزیرہ نما تھا۔ سعودی عرب کی مسکین اور پسماندہ حکومت کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ یہی حج ٹیکس تھا۔ پچاس کی دہائی میں تیل کی آمدنی شروع ہوئی تو حج ٹیکس بھی ختم ہوا۔ عرب کے صحراؤں میں تیل نکلنے سے دولت کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ اور ہمارے پا کستانی میٹرک فیل ہزاروں کی تعداد میں کام آئے۔ پیسہ وافر، سیاسی حقوق زیرو، قانون نامعلوم۔ سعودی عرب میں پاکستانی مزدوروں کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں سعودی عرب کی کھلی مداخلت بھی شروع ہوئی۔ شاہ فیصل کی سیاسی بصیرت کا تقاضا تھا کہ پاکستان سے آنے والے ہزاروں نیم تعلیم یافتہ مزدوروں کو درہم و دینار کے علاوہ وہابی نظامِ کی افیون مفت بانٹی جائے۔[2]

چونکہ انہدام جنت البقیع میں محمد بن عبد الوہاب اور اہل سعود نے دین اسلام کو جواز بنا یا اسلامی تعلیمات کے زیر اثر یہ کام سر انجام دیا۔ مگر اس کے برعکس خانہ خدا اور روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے بعد انھوں نے نظام خلافت کی بجائے بادشاہت کو اپنایا؟ یہاں دین کا جذبہ کیوں سرد پڑھ گیا؟ حالانکہ مو تمر عالم اسلامی کے قیام کے بعد اسلامی ممالک کامشورہ بھی یہی تھا کہ خانہ خدا پر اسلامی طرزحکومت ہو۔ اور اس کا نظام کسی بادشاہ کے ما تحت نہ ہو۔ مجلس شوراءخلیفہ کا انتخاب کریں۔ مگر حکومت سعودیہ نے یہ تجویز رد کر دی۔

یہ ثابت ہو گیا کہ اگر مفادات غالب آجائیں تونظام خلافت کو ترک کرکے بادشاہت اور مملوکیت کواپنایا جاسکتاہے اور اگر مفاد ات دین دوستی میں ہوتو آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبروں پربلڈوزر چلاکر قبر پرستی کا بہا نا بنا کر واویلا کرکے اپنے آپ سچا مسلمان ثابت کیا جائے۔ اس کے ذریعے سارے عرب کا غلام بنا یاگیا اس کے بعد اب یہ سارے اسلام کو غلام بنا نا چاہتے ہیں۔

خادم حرمین کہلانے کی وجہ

ترمیم

مو تمر عالم اسلامی کے قیام کے بعد اسلامی ممالک کامشورہ بھی یہی تھا کہ خانہ خدا پر اسلامی طرزحکومت ہو۔ اور اس کا نظام کسی بادشاہ کے ما تحت نہ ہو۔ مجلس شوراءخلیفہ کا انتخاب کریں۔ مگر حکومت سعودیہ نے یہ تجویز رد کر دی۔ جب امت میں خلافت کی خواہش عام ہوئی تو حکومت سعودیہ نے بادشاہ کے لفظ کی بجائے اپنے لیے خادم حریمین شریفین کا لقب متعارف کرانے کی کو شش کی تاکہ بادشاہت سے لوگوں کا دیان ہٹ جائے۔

عظیم مسلم علماء کی خرید

ترمیم

جب وہابیوں کا قبضہ مکہ اور مدینہ پر ہو گیا تو انھوں نے دین کی تجارت شروع کی اور مسلم دنیا کے بڑے علماءجو حج کے لیے آتے ان کے توحیدخالص کی دکان سے استفا دہ کرتے۔ اور ان کے فقہ کا سودا مفت اپنے وطن لے جا تے۔ قارئین کرام کے لیے قابل توجہ ہے کہ وھابیت اور آل سعود کے پروگراموں میں سے ایک پروگرام یہ بھی ہے کہ تمام دنیا اور اسلامی ممالک کے خائن اور ایجنٹ مولفین کے قلم کو لاکھوں ڈالروں کے بدلے خرید لیا جائے۔ اسی طرح انھوں نے حج کے موقع کا خاص فائدہ اٹھایاجبکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ عظیم مسلم علماءبھی فریضہ حج کے لیے مکہ میں جمع ہوتے ہیں۔ اس موقع پر یہ لوگ ان علماءسے روابط پیدا کرکے ان کو ہر ممکن طریقے سے اپنا ہم نوا بناتے ہیں اور ان کے ذریعے سے اپنا نصاب ساری دنیا میں مشہور کرواتے ہیں۔ جب ایک مفتی اپنا عقیدہ تبدیل کرتا ہے تو اس کے ذیلی علماءبھی اس کی تقلید کرتے ہیں۔ اسطر ح یہ فقہ ساری اسلامی دنیا میں عام ہو گیا۔ ایک مفتی کا عقیدہ تبدیل کرکے اس عالم کے زیر اثر سارے علاقے کے لو گوں کے عقیدے تبدیل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ پاکستان اور ہند کے کچھ علماءکی مثا لیں۔[3]

1719ء میں باپ کی وفات پر شاہ ولی اللہ نے اپنی حیثیت سنبھالی۔ حج کے سفر نے شاہ ولی اللہ کی سوچ پر طاقتور اثرات مرتب کیے۔ انھوں نے مکہ اور مدینہ المنورہ کے مقدس شہروں میں انتہائی سر کردہ اور معزز اساتذہ اور اس دور کے محققین حدیث کے ساتھ سال گزارا جنھوں نے ان کی قابلیت کو تسلیم کیا اور اپنے مخصوص حلقہ میں شامل کر لیا۔ انھیں عربی زبان پر اس قدر عبور حاصل تھا۔ شاہ ولی اللہ کی تحریک کو مدرسہ رحیمیہ دار العلوم دیوبند کا پیش خیمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ دار العلوم دیوبند کا بنیادی مقصد شاہ ولی اللہ کی تحریک کو جاری و ساری رکھنا مقصود تھا۔ بانی دار العلوم محمد قاسم نانوتوی مولوی مملوک علی کے شاگرد خاص تھے جبکہ مولوی مملوک علی کے استاد شاہ ولی اللہ کے فرزندِ ارجمند شاہ عبد العزیز تھے۔[4]

حاجی صاحب ترنگ زئی کا حج

ترمیم

حاجی صاحب خود عالم دین اور محرنگ زئی سلسلہ قادریہ نقشبندیہ کے روحانی پیشوا بھی تھے۔ دار العلوم دیوبند کی شہرت سنی تو تحصیل علم کے شوق میں دیوبند پہنچ گئے جہاں ان کی ملاقات شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا حسین احمد مدنی سے ہوئی۔ اسی سال ان علمائے کرام کے ساتھ آپ فریضہ حج ادا کرنے کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ دوران حج ان کی ملاقات مولانا حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے رہی۔ اس دوران بشمول مولانا عبد الرشید گنگوہی ان تمام حضرات نے ہندوستان واپس جانے کے بعد انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے ناظم مولانا محمود حسن صاحب بنائے گئے، جب کہ حاجی صاحب ترنگ زئی کو اس منصوبے کے تحت امیر جہاد مقرر کیا گیا اور ان کو صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔ یہ منصوبہ بھی دراصل سید احمد شہید کی تحریک جہاد کا تسلسل تھا۔[5]

تقریبا 3برس اس سفر میں صرف ہوئے 2جون 1821ئ یکم شوال 1236ھ نماز عید کے بعد رخت سفر باندھا۔ چار سو مرد، عورتیں اور بچے آپ کے ہمراہ تھے۔ منزل بمنزل قیام کرتے ہوئے۔ یہ قافلہ حج بیت اللہ اور زیارت مدینہ منورہ سے مشرف ہوکر 30 اپریل 1824 ئ کو واپس آ گیا۔ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق تحریک جہاد جو تحریک محمدیہ بھی کہلاتی ہے کے بانی سید احمد شہید جب حج کرنے سعودی عرب گئے تھے تو وہاں وہ بھی وہابی تحریک سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے سرحد میں اسلامی حکومت قائم کرنے بھی کوشش کی تھی وہ بھی وھابی نقطہ نظر کے حامی تھی اور کسی بھی رسم کو نہیں مانتے تھے ان کا علاقے میں کافی اثر رسوخ تھا اور لوگ ان سے متاثر تھے۔ فریضہ حج سے واپسی کے بعد سید احمد شہید نے جہاد کا آغاز کیا۔ انکا جہاد صرف سکھوں کے خلاف تھا اور انگریزوں سے کوئی سرو کار نہیں رکھا۔[6]

تاریخ اسلامی میں آج پہلی بار پچاسی سال کی طویل مدت مسلمانوں پر اس حالت میں گذری کہ ان کا کوئی خلیفہ نہیں۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ بنی اسرائیل میں ان کے انبیاءکارِ سیاست انجام دیتے تھے، ایک نبی گذرجاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا۔ چونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا لہٰذا اب کثرت سے خلفاءہوں گے۔ (بخاری مسلم) اس طرح آپ نے اپنے بعد خلفاءکی بشارت دی۔ یہ حدیث صراحتاً اس بات کی دلیل ہے کہ خلافت کا قیام ہمیشہ رہے گا اور اگر کسی وجہ سے کسی زمانے میں خلافت کا ادارہ قائم نہ ہو تو بھی مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ احیائ خلافت کے لیے کوششیں انجام دیں او راس سلسلے میں کسی قسم کی مداہنت کا اظہار نہ کریں۔

دوروسطی میں شیعوں کے ایک فرقہ اسماعیلیوں نے جب خلافت کو منہدم کرنے کے لیے منگولوں سے ساز باز کی اور خانہ کعبہ سے حجر اسود کو چرا لے گئے بلکہ اس کی توڑ پھوڑ بھی دیا اور سالہاسال تک اس کو اپنے قبضے میں رکھا(گو بعد میں وہ ان کے قبضے سے چھڑا لیاگیا)تب بھی مسلمانوں میں اتنی روح باقی تھی کہ انھوں نے خلافت کو منہدم ہونے نہ دیا۔ اس غربت کے زمانے میں خلیفہ موجود تھا اور اس کا نام خطبہ پڑھاجاتا تھا مگر افسوس بعد کے زمانے میں مسلمان انگریزوں کی طاقتور سازش کے سامنے ٹک نہ سکے۔

مسلمان اس وقت بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ فلسطین، چیچنیا، کشمیر، افغانستان، عراق وغیرہ ممالک میں ان کے ساتھ جو کچھ پیش آ رہاہے اس سے ہر شخص واقف ہے۔ مسجد اقصیٰ،مسجد قرطبہ او ربابری مسجد ہنوز اغیار کے قبضہ ناجائز میں بلک رہی ہیں اور مسلمانوں کواپنے تحفظ کے لیے دہائی دے رہی ہیں۔ مسلمانوں کی جان ومال عدم تحفظ کا شکا رہے۔ مسلمان مسلکوں ،جماعتوں اور تنظیموں میں بٹ چکے ہیں۔ یہ جماعتیں آپس میں بر سر پیکار ہیں۔ اغیار ان کے درمیان اختلاف کو ہوا دے رہے ہیں۔ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار وں کو آزما رہے ہیں۔ ملّی شیرازہ بکھر چکاہے۔ سودی لعنت مسلط ہے ،مسلمانوں کے جوان دشمنانِ خدا کی تہذیب اپنا رہے ہیں، اسلامی تہذیب سے متنفر ہیں،لذت پرستی اور زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی ہوس ان پر سوا رہے۔ جفاکشی، محنت اور سخت کوشی سے وہ بہت دور ہیں۔ مہلک رسموں میں گرفتار ہیں۔ ان حالات میں ایک ہی چیز مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کرواسکتی ہے۔ ان کے درمیان اتحاد واتفاق قائم کرسکتی ہے، ان کے مسائل حل کرسکتی ہے اور وہ ہے خلافت۔

خلافت کی بنیاد آنجناب نے اپنے دست مقدس سے ڈالی ہے۔ اس کی آبیاری سیدنا حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہمااور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے خونِ مقدس سے کی ہے۔ اسی کو اپنے اصل منہج پر دوبارہ قائم کرنے کے لیے حضرت حسین بن علی ؑنے اپنی جان دی۔ اسی کو بے اعتدالیوں سے بچانے کے لیے حضرت عمر بن عبد العزیز کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ اسی کا خواب حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک نے دیکھا تھا۔ خلافت اسلام کی امانت ہے۔ اس امانت کو ہم گنوا چکے ہیں۔ اس کو دوبارہ یافت ہم پر فرض ہے۔ ورنہ کل محشر کے دن سلف صالحین کے سامنے ہم سر اٹھانے کے قابل نہ ہوں گے۔ شرم سے ہماری آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ بہت سے لوگ مسلمانوں کی موجودہ حالت سے ناا مید ہو چکے ہیں۔ وہ احیاءخلافت کو کارِ محال سمجھتے ہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس معاملے میں انھیں شرح صدرعطا کرے۔ خلافت ضروردوبارہ قائم ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث میں اس کی بشارت دی ہے۔ ثم تکون الخلافة علی منھاج النبوة کا مڑدہ جان فزا احیاءخلافت کی تائید کر رہاہے۔ بس اک ذرا کوشش کی ضرورت ہے، اجتماعی کوشش کی ضرورت ،جومنظم ہو، مرتب ہو، پرخلوص ہو، جس میں ساری امت شامل ہو،جس کی پشت پر مسلمانوں کے بہترین دماغ اور دردمند دل ہوں، جو محکم اور مستحکم علم سے روشنی حاصل کرتی ہو جس میں اسلاف کا قلب وجگر شامل ہو ۔[1]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "یومِ سقوطِ خلافت"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2011 
  2. "پاکستانی خیمے میں سعودی اونٹ"۔ 20 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 فروری 2011 
  3. وھابیت کا تحلیلی اور تنقیدی جائزہ (حصه 5)
  4. شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
  5. "حاجی صاحب ترنگ زئی:ایک تاریخ ساز کردار"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 فروری 2011 
  6. سیّد احمد شہیداور ان کی تحریک کا اندازِ فکر