شاعر جمالی
شاعر جمالی کا پورا نام سید نظرالحسنین تھا۔ آپ کے والد کا نام سید شوکت علی اور و الدہ کا نام حامدہ بیگم ہے۔ شاعر جمالی کی پیدائش 15 جون 1943ء کو شہر بہرائچ کے مردم خیز محلہ، قاضی پورہ میں ہوئی تھی۔ آپ نے ایم۔ اے۔(اردو)تک کی تعلیم حاصل کی اور جون پور میں محکمہ صحت میں ہیلتھ سپر وائزر ہوئے اور جون پور سے ہی ریٹائر ہوئے۔ شاعر جمالی کے والد، والدہ اور بھائی وٖغیر ہ نے بعد میں شہر بہرائچ سے نانپارہ جاکر وہیں سکونت اختیار کر لی جس کی وجہ سے شاعر جمالی اکثر نانپارہ آیا کرتے اور شاعر شارق ربانی کے مکان کے قریب واقع اپنے والد اور والدہ کی رہائش گاہ پر ٹھہرتے تھے۔
شاعر جمالیؔ | |
---|---|
پیدائش | سید نظرالحسنین 15 جون1943ء محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ اتر پردیش بھارت |
وفات | 18اکتوبر2008ء فیض آباد اتر پردیش بھارت |
آخری آرام گاہ | نانپارہ ضلع بہرائچ اتر پردیش بھارت |
پیشہ | سرکاری ملازمت سے ریٹائر |
زبان | اردو |
قومیت | بھارتی |
شہریت | بھارتی |
تعلیم | ایم۔اے۔(اردو) |
موضوع | نعت ،غزل |
اہم اعزازات | اردو اکادمی ایوارڈ |
ادبی خدمات
ترمیمشاعر جمالی کی زندگی کا زیادہ حصہ جون پور میں ہی گذرا۔ شاعر جمالی نے آل انڈیا مشاعروں کے علاوہ بیرونی ممالک کے مشاعروں جیسے دوہا قظر،، دبئی ،ابو ظہبی،وغیرہ میں بھی شرکت کی اور کافی شہرت حاصل کی۔’’شاعراور ادیب شارق ربانی کا کہنا ہے کہ شاعر جمالی بہترین غزلیں کہتے تھے اور اردو ادب کی باکمال شخصیت تھے۔‘‘ شاعر جمالی کو ان کے شعری مجموعہ ’’لہجہ‘‘ پر اردو اکادمی ایوارڈ مل چکا ہے اور ادبی خدمات کے لیے انھیں ’’پوروانچل رتن اعزاز ‘‘ نظیر بنارسی ایوارڈ اور آل انڈیا کامل ایووارڈ سے بھی نوازا گیا۔
تصانیف
ترمیمشاعر جمالی کے تین شعری مجموعے ہیں۔
- کرب
- صحیفہ
- لہجہ
ادبی شخصیات سے رابطہ
ترمیمشاعر جمالی کے راحت اندوری ،بشیر بدر ،انور جلال پوری ،اظہار وارثی ،اثر بہرائچی ،معراج فیض آبادی ،احمد نثار ،اسلم آلہ آبادی،عالم غازی پوری، شارق ربانی وغیرہ سے قریبی تعلقات تھے۔
وفات
ترمیمشاعر جمالی کا انتقال 18 اکتوبر 2008ء کو ایک آل انڈیا مشاعرہ میں شرکت کے لیے جاتے وقت فیض آباد ریلوے اسٹیشن پر ہوا تھا اور تدفین نانپارہ میں ہوئی تھی، جس میں کثیر تعداد میں مقامی اور بیرونی ادبی شخصیات نے بھی شرکت کی۔
نمونہ کلام
ترمیمسر جو میرا اب تمہارے پتھروں کی زد پہ ہے | سن رہا ہوں اس کا بھی الزام میرے قد پہ ہے | |
کون ظالم کون ہے مظلوم اس کا فیصلہ | حشر میں ہوگا مگراب حشر کی آمد پہ ہے | |
آسماں سے پھر لہو کی بارشیں ہونے کو ہیں | اک کبوتر آج پھر بیٹھا ہو ا بر گد پہ ہے | |
لاش اس کی کھا گئے مل جل کے کالے بھیڑئے | اور اسکی ماں سمجھتی ہے کہ وہ سر حد پر ہے | |
اپنے اندر جھانکنے کی ان کو فرصت ہی کہاں | جن کی چشم معتبر دنیا کے نیک و بد پہ ہے | |
جنگ کس نے جیت لی اور ہوگئی کس کو شکست | انحصار اس فیصلے کا جنگ کے مقصد پہ ہے | |
اب مجھے سچائی کی عظمت کا اندازہ ہوا !! | اب مری گردن یزیدی خنجروں کی زد پہ ہے | |
دیکھیے تو ساری دنیا ہی مہذب ہو چکی | سوچئے تو یہ ابھی تہذیب کی ابجد پہ ہے | |
تاجروں نے اس کا سون لے لیا مٹی کے مول | بحث فنکاروں میں اب تک اسکے خال و خد پہ ہے |
دوسری غڑل
زمیں پہ پھینک دے مجھ کو کہ آسمان میں رکھ | ترا صحیفہ ہوں تو چاہے جس جہان میں رکھ | |
فلک کو رنگ بدلنے میں دیر لگتی نہیں | زمین پر بھی نظر اپنی ہر اڑان میں رکھ | |
خبر نہیں تجھے کب چھوڑنا پڑے ساحل | ہوا کو باندھ کے تو اپنے بادبان میں رکھ | |
جوان تو بھی ہے میں بھی ہوں شب ہے ایسا کر | خدا کے نام کی تلوار درمیان میں رکھ | |
سکوں ملے گا تو اندر کا شخص جاگے گا | سفر تمام نہ کر جسم کو تکان میں رکھ | |
خبر ہے گرم کہ طوفان آنے والا ہے | قدم نہ بھول کے گرتے ہوئے مکان میں رکھ | |
لہو بہے گا تو صدیوں پہ پھیل جائے گا | لہو بہانے سے پہلے یہ بات دھیان میں رکھ | |
ہمارے دور نے ہم کو یہی سکھایا ہے | ہو دل میں زہر مگر چاشنی زبان میں رکھ |
حوالہ جات
ترمیم- ہندوستان اخبار میں شائع مضمون (2014)
- لحجہ( شعری مجموعہ شاعر جمالی1997)