صابر جمالی اصل نام محمد صابر کی پیدائش 26جنوری1936ء کو شہر بہرائچ کے محلہ چاند پورہ میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام منشی سالار اور والدہ کا نام حشمت جہاں تھا۔ آپ بہرائچ کے مشہور استاد شاعر بابا جمال ؔ بہرائچی کے شاگرد رشید ہیں۔

محمد صابر صابر جمالی
صابر جمالی
پیدائشمحمد صابر
26جنوری1936ء
محلہ چاندپورہ نزد ٹھاکر ٹیپرہا کوٹھیبہرائچ اتر پردیش بھارت
پیشہ،شاعری ، تجارت
زباناردو
قومیتبھارتی
نسلبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیمادیب
مادر علمیجامعہ اردو علی گڑھ
دورترقی پسند شاعری
موضوعنعت ،غزل
ادبی تحریکترقی پسند تحریک

حالات

ترمیم

صابر جمالی نے اپنی ابتدائی تعلیم مکتب مسعودیہ جامع مسجد شہر بہرائچ سے حاصل کی۔ بعد میں آپ نے جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کی سند حاصل کی ۔

ادبی خدمات

ترمیم

صابر جمالی ایک کہنہ مشق شاعر ہے۔ آپ کے استاد ضلع اور شہر بہرائچ کے مشہور استاد شاعر بابا جمال الدین جمالؔ بہرائچی تھے۔ بابا جمال کا شاعری کا اسکول روز شام کو شہر کے شاہی گھنٹہ گھر پارک میں لگتا تھا۔ جہاں بابا جمال اپنے شاگردوں کے کلام کی اصلاح کرتے تھے۔ بابا جمال کے شاگروں کی بہت لمبی لسٹ ہیں جس میں شاعر جمالی ،صابر جمالی،نعمت بہرائچی،رزمی بہرائچی،نجمی جمالی بہرائچی وغیرہ بہت مشہور ہوئے۔ صابر جمالی نے شاعری کی ہر اصناف حمد،نعت،غزل،منقبت،نظم،قطعہ میں اپنی شاعری کی ہے۔ آپ کا کوئی شاعری مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ آپ آج بھی ادبی نشتوں اور مقامی مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں۔

ادبی سخصیات سے رابطہ

ترمیم

صابر جمالی کا تمام ادبی سخصیات سے رابطہ سے رابطہ رہا جن میں خاص طور پرمحسن زیدی،وصفی بہرائچی،اظہار وارثی، اثر بہرائچی ،جواد وارث،ڈاکٹر سعید عارفی ،عبرت بہرائچی،کامل بہرائچی،نعمت بہرائچی،شاعر جمالی ،شوق نیپالی،اطہر رحمانی، وغیرہ سے آپ کا رابطہ رہا۔

نمونہ کلام

ترمیم
آو بتلائیں تم کو ہے کیا دوستی راستی کا ہے اک فلسفہ دوستی
جس میں صحرا بھی گلشن نظر آئے گا ہے محبت کا وہ آئینہ دوستی
ڈگمگائی ہے جب کشتی زندگی دوستو بنگئی نا خدا دوستی
منزلیں کیوں نہ چومیں حو اس کے قدم ہر قدم جس کی ہے رہنما دوستی
ہیں ازل تا ابداس کی رعنائیاں ا بتدا دوستی ،انتہا دوستی
نفرتوں کے بھی تاریک ماحول میں دے رہی ہے صدا پہ صدا دوستی
ہے تقاضا محبت کا صابر یہی جس طرح بن پٹرے تو نبھا ودستی

[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرہ شعرائے ضلع بہرائچ
  • تذکرہ شعرائے ضلع بہرائچ از نعمت بہرائچی
  • اردو ویکی پیڈیا کے لیے انٹرویو