سید صادقین احمد نقوی (پیدائش: 30 جون 1923ء– وفات: 10 فروری 1987ء) پاکستان کے شہرہ آفاق مصور، خطاط اور نقاش تھے جنہیں صادقین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُن کی وجہ شہرت اسلامی خطاطی اور مصوری ہے۔

صادقین نقاش
The artist

معلومات شخصیت
پیدائش 30 جون 1923ء
امروہہ، متحدہ صوبہ جات آگرہ و اودھ، برٹش راج،
موجودہ امروہہ ضلع، بھارت
وفات 10 فروری 1987ء
(عمر: 63 سال 7 ماہ 11 دن شمسی)
کراچی، سندھ، پاکستان
قومیت پاکستانی
عملی زندگی
پیشہ مصور ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی ،  پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فن خطاطی   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک اسلامی خطاطی
اعزازات
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خاندان

ان کے والد سیّد سبطین احمد نقوی کا گھرانہ خطاطی کے حوالے سے بہت پہلے سے مشہور تھا، 1940ء کی دہائی میں وہ ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہو چکے تھے، ان کی شخصیت میں پوشیدہ فنکارانہ صلاحیتوں کو سب سے پہلے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی نے شناخت کیا۔

ابتدائی حالات

30 جون 1920ء کو ہندوستان کے ممتاز علمی شہر امروہہ (اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔[1] ابتدائی تعلیم آبائی شہر امروہہ ہی میں حاصل کی، بعد ازاں آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد آپ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آ گئے۔

حالات زندگی

1940ء کی دہائی میں وہ ترقی پسند ادیبوں اور فن کاروں کی تحریک میں شامل ہو چکے تھے۔

(ترقی پسند ادیبوں کی تحریک میں شمولیت ثابت نھی ہے۔ براہ مہربانی قابل تصدیق حوالہ درج کر دیں)

آخری ایام

زندگی کے آخری دنوں میں جب وہ فریئر ہال کی دیوار پر پینٹنگ میں مصروف تھے، اچانک گر پڑے اور 10 فروری 1987ء کو کراچی کے ایک اسپتال میں خالقِ حقیقی سے جا ملے، سخی حسن کا قبرستان ان کی آخری آرام گاہ ہے۔

خدمات

 
فریئر ہال، کراچی کی چھت میں صادقین کی مصوری
 
فریئر ہال، کراچی کی چھت میں صادقین کی مصوری

ان کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1954ء میں کوئٹہ میں ہوئی تھی جس کے بعد فرانس، امریکا، مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ایسی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ مارچ 1970ء میں آپ کو تمغا امتیاز اور 1985ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ آپ کو سب سے پہلے کلام غالب کو تصویری قالب میں ڈھالنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ آپ کی خطاطی و مصوری کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد، فریئر ہال کراچی، نیشنل میوزیم کراچی، صادقین آرٹ گیلری اور دنیا کے ممتاز عجائب گھروں میں موجود ہیں۔

ان کی دیوار گیر مصوری کے نمونوں (میورلز) کی تعداد کم وبیش 35 ہے جو آج بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان، فریئر ہال کراچی، لاہور میوزیم، پنجاب یونیورسٹی، منگلا ڈیم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف جیولوجیکل سائینسز، اسلامک انسٹی ٹیوٹ دہلی اور ابو ظہبی پاور ہاؤس کی دیواروں پر سجے شائقینِ فن کو مبہوت کر رہے ہیں، صادقین نے جناح اسپتال اور پی آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے لیے بھی ابتدا ہی میں میورلز تخلیق کیے تھے جو پُر اسرار طور پر غائب ہو چکے ہیں۔[2]

صادقین نے قرآنِ کریم کی آیات کی جس مؤثر، دل نشیں اور قابلِ فہم انداز میں خطاطی کی وہ صرف انہی کا خاصہ ہے، بالخصوص سورہ رحمن کی آیات کی خطاطی کو پاکستانی قوم اپنا سرمایۂ افتخار قرار دے سکتی ہے، غالب اور فیض کے منتخب اشعار کی منفرد انداز میں خطاطی اور تشریحی مصوری ان ہی کا خاصہ ہے، انھیں فرانس، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کی جانب بھی سے اعزازات سے نوازا گیا۔

شاعری

ان کی شاعری کی کتابیں ہیں

  • رقعات صادقین
  • رباعیات صادقین

اعزازات

تاثرات

صادقین کی خطاطی اور مصوری اتنی منفرد اور اچھوتی تھی کہ ان کے دور ہی میں ان کے شہ پاروں کی نقل ہونے لگی تھی اور بہت سے مصوروں نے جعلی پینٹنگز بنا کر اور ان پر صادقین کا نام لکھ کر خوب مال کمایا جبکہ خود صادقین نے شاہی خاندانوں اور غیر ملکی و ملکی صاحبِ ثروت افراد کی جانب سے بھاری مالی پیشکشوں کے باوجود اپنے فن پاروں کا بہت کم سودا کیا۔

حوالہ جات

  1. Bio-bibliography.com - Authors
  2. "صادقین"۔ ہفت روزہ اخبار جہاں۔ 27 اگست تا 2 ستمبر 2012 صفحہ 3 

بیرونی روابط برائے مطالعہ