صبا اکبر آبادی

اردو زبان کے پاکستانی شاعر

صبا اکبرآبادی (پیدائش: 14 اگست، 1908ء - وفات: 29 اکتوبر، 1991ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، صحافی، مترجم اور ناول نگار تھے۔ انھیں شاعری میں نعت اور مرثیہ گوئی میں شہرت حاصل تھی۔

صبا اکبر آبادی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: خواجہ محمد امیر ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 14 اگست 1908ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 29 اکتوبر 1991ء (83 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اسلام آباد ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن سخی حسن ،  کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  صحافی ،  مترجم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

صبا اکبرآبادی 14 اگست، 1908ء کو آگرہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[2][3]۔ ان کا اصل نام خواجہ محمد امیر تھا۔ صبا اکبر آبادی کی شاعری کا آغاز 1920ء سے ہوا۔ شاعری میں ان کے استاد خادم علی خاں اخضر اکبر آبادی تھے۔ 1927ء میں وہ شاہ اکبر داناپوری کے صاحبزادے شاہ محسن داناپوری کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے اور اسی وسیلے سے انھیں تصوف کی دنیا سے شناسائی ہوئی۔ 1928ء میں انھوں نے ایک ادبی ماہنامہ آزاد نکالا۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے رعنا اکبر آبادی کے رسالے مشورہ کی ادارت بھی سنبھالی۔[3]

تقسیم ہند کے بعد انھوں نے حیدرآباد (سندھ) اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کی اور بہت جلد یہاں کی ادبی فضا کا ایک اہم حصہ بن گئے۔ انھوں نے مختلف النوع ملازمتیں بھی کیں اور تقریباً ایک سال محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی رہے۔[3]

ادبی خدمات

ترمیم

صبا اکبر آبادی کے شعری مجموعوں میں اوراق گل، سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغ بہار، خونناب، حرز جاں، ثبات اور دست دعا کے نام شامل ہیں اس کے علاوہ ان کے مرثیوں کے تین مجموعے سربکف، شہادت اور قرطاس الم کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے عمر خیام، غالب، حافظ شیرازی اور امیر خسرو کے منتخب فارسی کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا جن میں سے عمر خیام اور غالب کے تراجم اشاعت پزیر ہو چکے ہیں۔ ان کی ملی شاعری کا مجموعہزمزمۂ پاکستان قیام پاکستان سے پہلے شائع ہوا تھا۔ انھوں نے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا جو زندہ لاش کے نام سے اشاعت پزیر ہوا تھا۔[3]

تصانیف

ترمیم
  • ہم کلام
  • زمزمۂ پاکستان
  • ذکر و فکر
  • سر بکف
  • حرزِ جاں
  • دستِ دعا
  • دستِ زرفشاں
  • خونناب
  • زندہ لاش
  • ثبات
  • چراغ ِبہار
  • سخن ناشنیدہ
  • اوراق ِ گل
  • سربکف
  • شہادت
  • قرطاس الم

نمونۂ کلام

ترمیم

غزل

اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیںعشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں
ایک دن آپ کی برہم نگہی دیکھ چکےروز اک تازہ قیامت ہو ضروری تو نہیں
میری شمعوں کو ہواؤں نے بجھایا ہوگایہ بھی ان کی شرارت ہو ضروری تو نہیں
اہلِ دنیا سے مراسم بھی برتنے ہوں گےہر نفس صرف عبادت ہو ضروری تو نہیں
دوستی آپ سے لازم ہے مگر اس کے لیےساری دنیا سے عداوت ہو ضروری تو نہیں
پرسش حال ہو تم آؤ گے اس وقت مجھےلب لانے کی بھی طاقت ہو ضروری تو نہیں
باہمی ربط میں رنجش بھی مزا دیتی ہےبس محبت ہی محبت ہو ضروری تو نہیں
ایک مصرع بھی جو زندہ رہے کافی ہے صبا میرے ہر شعر کی شہرت ہو ضروری تو نہیں

غزل

جب وہ پُرسانِ حال ہوتا ہےبات کرنا محال ہوتا ہے
وہیں اُن کے قدم نہیں پڑتےدل جہاں پائمال ہوتا ہے
ایک لُطفِ خیال کا لمحہ حاصلِ ماہ و سال ہوتا ہے
کبھی تم نے صبا سے پوچھا بھیشبِ فرقت جو حال ہوتا ہے

غزل

جنوں میں گم ہوئے ہشیار بن کرہمیں نیند آگئی بیدار ہو کر
ہمیں نے کی تھی صیقل اس نظر پرہمیں پر گر پڑی تلوار ہو کر
جو غنچہ سو رہا تھا شاخِ گل پرپریشان ہو گیا بیدار ہوکر
در مقصود بس ایک دو قدم تھاکہ رشتہ رہ گیا دیوار ہوکر
نہ آئےہوش میں دیوانہ کوئیبہت دکھ پائے گا ہشیار ہو کر
صبا مے ہے نہ ساقی ہے نہ ساغر یہ دن بھی دیکھیے مے خوار ہوکر

شعر

یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں

وفات

ترمیم

صبا اکبرآبادی 29 اکتوبر، 1991ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی کے سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[2][3]

حوالہ جات

ترمیم