ظ انصاری

بھارتی ادیب، نقاد، محقق اور صحافی

ظلّ حسنین نقوی المعروف ظ۔ انصاری (1925ء – 1991ء) ایک ہندوستانی ادیب، نقاد، محقق اور صحافی تھے۔[1] وہ لسانیات میں پی ایچ ڈی تھے اور اردو، روسی، عربی، انگریزی اور فارسی پر عبور رکھتے تھے۔[2]

ظ انصاری
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: ظل حسنین نقوی ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 1925ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سہارنپور ،  برطانوی ہند کے متحدہ صوبے   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 31 جنوری 1991ء (65–66 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی ،  مہاراشٹر   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی اکیڈمی آف سائنس سویت یونین   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف ،  مترجم ،  نقاد ،  استاد جامعہ ،  سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  روسی ،  عربی ،  انگریزی ،  فارسی ،  ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ظ انصاری 65 برس جیے۔ لگ بھگ چالیس برس بے تکان لکھا، ترجمے کیے، کالم تحریر کیے، اداریے لکھے، تبصرہ، تنقید، تحقیق، ترجمہ اور خاکہ نگاری، غرض ہر میدان میں قلم کاری کی۔ اردو کی دانشوری کی روایت کو آگے بڑھایا، صاحب طرز ادیب کہلائے۔ ترقی پسندی سے شروع ہوئے تھے۔[3]

ابتدائی زندگی اور تعلیم ترمیم

سنہ 1925ء میں سہارنپور میں پیدا ہوئے۔ غربت کے باعث ابتدائی تعلیم ایک دینی مدرسہ میں حاصل کی۔ پس ازاں میرٹھ چلے گئے اور وہاں جدید تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔[4]

سویت یونین گئے وہاں کی اکیڈمی آف سائنس سے لسانیات میں پی ایچ ڈی کیا۔ وہ کئی سالوں تک ماسکو کے محکمہ اشاعت سے منسلک رہے۔ سویت یونین سے واپس آنے کے بعد انھوں نے بمبئی یونیورسٹی میں روسی زبان کے لیکچرار کے طور پر ملازمت اختیار کی اور بعد ازاں بمبئی یونیورسٹی کے خارجی زبانوں کے شعبے کے ہیڈ بنے۔

سیاسی زندگی ترمیم

میرٹھ میں قیام کے دوران ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا اور وہ کانگریس میں شامل ہوکر آزادی کی تحریک میں حصہ لینے لگے۔ جلد ہی وہ میرٹھ سے دلی منتقل ہو گئے۔ کچھ ہی عرصے بعد انھیں کانگریسی لیڈروں کی منافقت اور بے اصولے پن کا تجربہ ہوا اور انھوں نے کانگریس کو خیر باد کہہ کر کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور بمبئی منتقل ہو گئے۔ بمبئی میں وہ سجاد ظہیر کے ساتھ پارٹی اخبار "نیا زمانہ" میں کام کرنے لگے۔[5]

اشتمالیت سے تائب ترمیم

اشتمالیت سے ان کا تعلق زیادہ دیر نہ رہا۔ ان کی آزاد خیال طبیعت کمیونسٹ پارٹی کے آہنی نظم و ضبط کا بوجھ برداشت نہ کر سکی اور انھیں پارٹی سے بے دخل کر دیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی سے قطع تعلقی کے باوجود اشتمالیت سے ان کا فکری تعلق قائم رہا۔ اس سے وہ بدظن اس وقت ہوئے جب وہ سویت یونین گئے اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے اشتمالیت کا عملی روپ دیکھا۔ وہ اشتمالیت کے نظری پیروکار تھے اور سمجھتے تھے کہ اشتمالی اصولوں کے مطابق ریاست کی تنظیم نو انسانوں کو دنیاوی ضروریات سے بے نیاز کر سکتی ہے لیکن جب انھوں نے کمیونسٹ اصولوں کے مطابق قائم سماج اور ریاست کو براہ راست دیکھا تو انھیں بہت مایوسی ہوئی اور وہ کمیونزم سے تائب ہو گئے۔[6]

ادبی کام ترمیم

انھوں نے برنارڈ شا، الیکزاندر پوشکن، چیخوف اور دوستوئیفسکی جیسے ادبا کے فن پاروں کو اردو قالب میں ڈھالا۔ اس کے علاوہ انھوں نے امیر خسرو، غالب اور علامہ اقبال پر بھی جو کام کیا اسے عالمی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔[2] انھوں نے روسی، انگریزی اور فارسی کی 38 شاہکار کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا جن میں نہ صرف کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز اور ولادیمیر لینن کی منتخب تصانیف شامل ہیں بلکہ دوستوئیفسکی کے تین اور چیخوف اور پوشکن کے ناول بھی شامل ہیں۔ انھوں نے کلاسیکی کے ساتھ ساتھ جدید روسی شاعری کا بھی اردو میں ترجمہ کیا جو گیارہ ہزار مصرعوں پر مشتمل ہے، ان کا یہ کام تین جلدوں میں ماسکو سے شائع ہو چکا ہے۔ ظ انصاری نے غالب کی فارسی مثنویوں کے بھی اردو تراجم کیے جنہیں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی، بھارت نے شائع کیا تھا۔ پانچ جلدوں میں امیر خسرو کی مثنویاں بھی مرتب کیں جن میں اشعار کی تعداد 18000 ہے۔ روسی زبان میں امیر خسرو اور غالب کے بارے میں دو مجموعے مرتب کیے۔ روسی زبان کی بہترین کہانیوں کے اردو ترجمے کیے جوتین جلدوں میں ماسکو سے شائع ہو چکے ہیں۔[7]

تراجم کے علاوہ ظ۔ انصاری نے دو جلدوں میں اردو روسی اور روسی اردو لغت بھی مرتب کی جو 55000 الفاظ پر مشتمل ہے۔[8]

تصانیف ترمیم

  • مثنوی کا سفرنامہ
  • ابو الکلام کا ذہنی سفر
  • کانٹوں کی زبان
  • جواہر لال نہرو۔ کہی ان کہی
  • کتاب شناسی (اس مجموعے میں وہ تبصرے شامل ہیں جو انھوں نے مختلف کتابوں پر کیے)
  • اقبال کی تلاش
  • فیودر دستوئیفسکی
  • پوشکن
  • چے خَف (چیخوف)
  • خسرو کا ذہنی سفر
  • غالب شناسی (دو جلدوں میں)
  • زبان و بیان (اس میں ادبی اور تنقیدی مضامین شامل ہیں)
  • کمیونسٹ اور مذہب
  • جارج برنارڈ شا
  • ورق ورق (اس میں سماجی نوعیت کے ادبی مضامین شامل ہیں)

مندرجہ بالا ان کی قابل ذکر تصنیفات ہیں۔ انھوں نے 128 علمی اور ادبی مقالے بھی لکھے جو اپنے دور کے ممتاز اور معیاری رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔[9]

وفات ترمیم

ظ انصاری 31 جنوری 1991ء کو بھارت کے صوبہ مہاراشٹر کے شہر ممبئی میں انتقال کر گئے۔[10]

حوالہ جات ترمیم

  1. مجتبیٰ حسن (8 اپریل 2018)۔ "ظ۔ انصاری (1991-1925)"۔ روزنامہ سیاست۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 ستمبر 2019 
  2. ^ ا ب انور سِن رائے (19 جولائی 2013)۔ "دوستوفسکی، منٹو، حمید شاہد اور میر"۔ بی بی سی۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 ستمبر 2019 
  3. ڈاکٹر ظ۔ انصاری، از جاوید اختر بھٹی، بیکن بکس ملتان
  4. ڈاکٹر ظ۔ انصاری، از جاوید اختر بھٹی، بیکن بکس ملتان
  5. ڈاکٹر ظ۔ انصاری، از جاوید اختر بھٹی، بیکن بکس ملتان
  6. ڈاکٹر ظ۔ انصاری، از جاوید اختر بھٹی، بیکن بکس ملتان
  7. ڈاکٹر ظ۔ انصاری، از جاوید اختر بھٹی، بیکن بکس ملتان
  8. ڈاکٹر ظ۔ انصاری، از جاوید اختر بھٹی، بیکن بکس ملتان
  9. ڈاکٹر ظ۔ انصاری، از جاوید اختر بھٹی، بیکن بکس ملتان
  10. "ظ انصاری، ڈاکٹر"۔ بائیو ببلوگرافی۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 ستمبر 2019