عبد الستار صدیقی

نقاد، ماہرِ لسانیات، محقق و معلم
(عبدالستار صدیقی سے رجوع مکرر)

ڈاکٹر عبد الستار صدیقی (پیدائش: 26 دسمبر، 1885ء - وفات: 28 جولائی، 1972ء) بھارت سے تعلق رکھنے والے نقاد، ماہرِ لسانیات، محقق و معلم اور ان چند محققین میں شمار ہوتے ہیں جو جدید لسانیات، املا، الفاظ کے ماخذ و اشتقاقیات، تحقیقی طریقہ کار اور تاریخ سمیت قدیم اور جدید زبانوں پر مہارت رکھتے تھے۔ نیز عبد الستار صدیقی عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی پر مہارت اور عبرانی، ترکی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور فارسی کے پروفیسر بھی رہے۔[1][2]

عبد الستار صدیقی
معلومات شخصیت
پیدائش 26 دسمبر 1885ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سندیلہ ،  ہردوئی ضلع ،  اتر پردیش ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 جولا‎ئی 1972ء (87 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الہ آباد ،  بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی الہ آباد یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فرہنگ نویس ،  ماہرِ لسانیات ،  محقق   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل لسانيات ،  ادبی تنقید ،  املا ،  اشتقاقیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،  جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد ،  جامعہ ڈھاکہ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

ڈاکٹرعبد الستار صدیقی 26 دسمبر، 1885ء کو اترپردیش کے ضلع ہردوئی میں واقع سندیلہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغفار ریاست حیدرآباد دکن کے ملازم تھے، چنانچہ ڈاکٹر صدیقی نے اپنی ابتدائی تعلیم گلبرگہ اور حیدرآباد دکن میں اور بی اے کی ڈگری ایم اے او کالج علیگڑھ سے 1907ء میں حاصل کی۔ ناگپور اسکول میں استاد مقرر ہوئے، بعد ازاں مستعفی ہو کر جامعہ الٰہ آباد سے اردو میں ماسٹرز کی سند حاصل لی۔ اسی سال انھیں یورپ کے لیے وظیفہ ملا اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جرمنی چلے گئے، جہاں انھوں نے اسٹروسبرگ یونیورسٹی اور گوتھین یونیورسٹی میں معروف اساتذہ اور ماہرین لسانیات سے کسبِ فیض کیا۔ڈاکٹر عبد الستار صدیقی نے جرمنی کی یونیورسٹیوں میں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی، ترکی، پہلوی اور سنسکرت زبانیں سیکھی اور 1917ء میں عربی قواعد میں ابن صباوا کے کام پر تحقیق کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعد 1919ء میں ہندوستان واپس آئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ بعد ازاں حیدرآباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں پڑھانے لگے، اسی دوران 1924ء میں ڈاکٹر عبد الستار صدیقی کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبوں کا سربراہ بنا دیا گیا۔[1]

حیدرآباد، دکن میں انھوں نے مولوی عبدالحق کا قرب حاصل ہوا جس کی بنا پر وہ 1928ء سے 1946ء کے دوران الہٰ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر اور عربی و فارسی شعبوں کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے، وظیفہ یاب ہونے کے بعد ان کو الہٰ آباد یونیورسٹی کے پہلے اعزازی پروفیسر کے عہدہ پر مقرر کیا گیا۔[1]

ادبی خدمات

ترمیم

ڈاکٹر عبد الستار صدیقی کا شمار ان گنے چنے علما میں ہوتا ہے جو جدید لسانیات، املا، الفاظ کے ماخذ، تحقیقی طریقہ کار، تاریخ سمیت قدیم اور جدید زبانوں پر مہارت رکھتے تھے۔ آپ کو عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی پر تو مہارت اور اس کے ساتھ ساتھ وہ عبرانی، ترکی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ ان کا متعدد زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ کا علم دیگر ماہرین کے لیے بھی حیرت انگیز تھا، 1912ء سے 1919ء تک یورپ خصوصاً جرمنی میں قیام اور وہاں جرمن زبان میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کرنے کے دوران انھیں کئی دیگر یورپی زبانوں پر بھی عبور حاصل ہو گیا ۔[1]

ڈاکٹر عبد الستار صدیقی نے جرمن زبان میں ایک کتاب تحریر کی، انھوں نے ایسے فارسی الفاظ پر تحقیق کی جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکل عربی میں پائے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صدیقی کے مضامین اردو جریدوں میں شائع ہوتے تھے جن میں آپ کی 1944ء میں انجمن ترقی اردو کو اردو املا کو ایک معیاری اور منطقی شکل دینے کی سفارشات انتہائی اہم کام تصور کیا جاتا ہے۔[1]

تصنیف و تالیف

ترمیم

آپ کی ایک تصنیف مقالات صدیقی 1983ء میں ان کے بیٹے نے لکھنؤ کی اردو اکیڈمی سے شائع کرائی (ان مقالات کو بعد ازاں مجلس ترقی ادب لاہور نے دو جلدوں میں شائع کیا)، جبکہ ان کے تحقیقی مقالات کے مزید دو مجموعے اشاعت کے منتظر ہیں۔ اسی طرح ان کا تحقیقی کام دیوانِ بیان اور ماخذِ غالب بھی تا حال شائع نہیں ہو سکا ہے۔ آپ کی ایک قابل قدر تحقیق و مدون کردہ کتاب مرابت رشیدی ان کی وفات کے تیس برس بعد مشفق خواجہ نے 2003ء میں شائع کروایا۔ یہ ایک تحقیقی کام ہے، جس میں ایسے عربی الفاظ پر بحث کی گئی ہے جنہیں دیگر زبانوں خصوصاً فارسی زبان سے لیا گیا، اسے سترہویں صدی کے ٹھٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک معروف عالم سید عبد الرشید ٹھٹوی نے تحریر کیا تھا، جو فارسی اور عربی زبان میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کی دو لغات منتخب اللغات (عربی) اور فرہنگ رشیدی (فارسی) (مؤلف عبد الرشید ٹھٹوی) پر آپ کام سند مانا جاتا ہے۔[1]

وفات

ترمیم

عربی، فارسی کے ممتاز عالم اور ماہرلسانیات ڈاکٹر عبد الستار صدیقی کا انتقال 28 جولائی 1972ء کو الہ آباد، بھارت میں ہوا۔[1]

حوالہ جات

ترمیم