ابن جریج نے آنکھ کھولی تو صحابہ کی ایک معتدبہ تعداد موجود تھی۔ اگر وہ ان کی صحبت اختیار کرتے تو ان کا شمار زمرہ تابعین میں ہوتا، مگر اِبتدا میں ان کو شعر و ادب سے دلچسپی تھی، اس لیے وہ کسب فیض نہ کر سکے۔ اسی لیے ان کو تبع تابعین میں شمار کیا گیا ہے۔ ان کا شمار تبع تابعین کے اس زمرہ میں ہوتا ہے، جنھوں نے تفسیر و حدیث کی تدوین و ترتیب میں حصہ لیا۔ خاص طور پر علم تفسیر میں یہ اپنے معاصرین میں ممتاز تھے۔ تفسیر طبری میں سینکڑوں روایات ان کے واسطہ سے ملیں گے۔ وہ ترجمان القرآن عبد اللہ بن عباس کے شاگرد عطاء بن ابی رباح کے خاص شاگرد تھے۔

ابن جریج

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 699ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 767ء (67–68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ
دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک اجتہاد
عملی زندگی
استاذ عبد العزیز بن عبد اللہ بن خالد   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص عبد الرزاق بن ہمام   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان ،  محدث ،  مفسر قرآن ،  فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث ،  تفسیر قرآن ،  فقہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

ترمیم

عبد الملک نام، ابو الولید اور ابو خالد کنیت تھی۔ ان کا آبائی وطن روم تھا۔[1] اسی وجہ سے بعض لوگ انھیں رومی مسیحی کہتے تھے۔[2] فجر الاسلام کے مصنف نے بھی انھیں اہلِ کتاب تبع تابعین شمار کیا ہے۔ بعثت نبوی کے وقت بہت پہلے سے مکہ میں متعدد رومی غلام خاندان موجود تھے۔ غالباً انھی میں ابن جریج کا خاندان بھی تھا۔ یہیں 80ھ میں ان کی ولادت ہوئی۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

مکہ میں اس وقت شعر و ادب اور حدیث و فقہ کا عام چرچا تھا۔ ابتدا میں ان کو شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی اور جوانی کا پورا زمانہ اسی وادی میں گذرا۔ عمر ڈھلنے کا زمانہ آیا تو کسی نے علوم دینیہ کی طرف توجہ دلائی۔ اس کے بعد پوری زندگی اس کی نذر کر دی۔ مکہ میں اس وقت عبد اللہ بن عباس کے ممتاز شاگرد عطاء بن ابی رباح کا چشمہ فیض جاری تھا۔ حدیث نبوی کے سماع کے لیے سب سے پہلے ابن جریج انہی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ خود بیان کرتے ہیں کہ ”میں عطاء بن ابی رباح کی خدمت میں یہ جذبہ لے کر حاضر ہوا کہ میں بھی ان کا مرتبہ حاصل کروں۔ اتفاق سے اس وقت ان کی خدمت میں عبد اللہ بن عبید بن عمر بھی موجود تھے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن حفظ کر لیا؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ بولے جاؤ پہلے قرآن پڑھ لو، پھر علم (حدیث) کا قصد کرو۔ میں واپس قرآن کی تعلیم میں لگ گیا۔ کچھ دنوں بعد پھر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتفاق سے اس دن بھی عبد اللہ موجود تھے۔ پوچھا کہ پورا قرآن مستحضر ہو گیا؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ انھوں نے دوسرا سوال یہ کیا کہ فرائض بھی سیکھے ہیں؟ بولا نہیں۔ انھوں نے کہا جاؤ، پہلے فرائض کی تحصیل کرو۔ پھر واپس آؤ۔ چنانچہ میں واپس چلا گیا اور کچھ دنوں بعد واپس آیا، تو مجھے عطاء کی صحبت میں کسبِ علم کی اجازت ملی اور پھر سترہ برس تک ان کی خدمت میں رہا۔[3][4]

ان کو دو بار مجلس درس سے واپس کیا گیا، مگر ہر بار ان کا جذبہ شوق کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی رہا اور پھر اسی شوق انھیں 17 برس تک اپنے اُستاد سے جدا نہ ہونے دیا۔ اتنی مدت ان کی خدمت میں رہنے کے بعد بھی ان کے جذبہ طلب کو تسکین نہیں ہوئی اور سات برس تک مکہ کے دوسرے ممتاز شیخ عمرو بن دینار کی خدمت میں رہے اور پھر مکہ سے نکل کر انھوں نے مدینہ، بصرہ، بغداد، یمن، شام اور مصر کی خاک چھانی اور وہاں تمام ممتاز شیوخ سے استفادہ کیا۔

اساتذہ

ترمیم

عطاء بن ابی رباح، زہری، صالح بن کیسان، عمرو بن دینار، نافع مولی بن عمر، ہشام بن عمرو، موسیٰ بن عقبہ، جعفر صادق، یحییٰ بن سعید الاِنصاری، عبد الرحمن اوزاعی، لیث بن سعد۔

علم و فضل

ترمیم

ان کے علم و فضل کے بارے میں ائمہ نے جو رائیں دی ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اس لحاظ سے معروف تھے۔ ان کے شیخ عطاء بن ابی رباح ان کو اہل حجاز کا سردار کہتے تھے۔[5] امام احمد بن حنبل ان کو ”علم کا ظرف“ کہتے تھے۔[5] شمس الدین ذہبی نے انھیں امام، حافظ حدیث اور احد الاعلام (بڑوں میں ایک تھے) لکھا ہے۔ یحییٰ بن شرف نووی نے لکھا ہے کہ ان کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں۔

علم تفسیر

ترمیم

علم تفسیر میں جو صحابہ ممتاز تھے، ان میں عبد اللہ بن عباس کا نام سرِ فہرست ہے۔ تابعین میں ان کے جو تلامذہ علم تفسیر میں مشہور ہوئے ان میں عطاء بن ابی رباح بھی ہیں۔ ابن جریج ان کے بہت ہی چہیتے شاگرد تھے اور سترہ برس تک ان کی خدمت میں رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ علمِ تفسیر کا جو سرمایہ عطاء بن ابی رباح کو ابن عباس سے ملا تھا، اس سے ابن جریج کو بھی وافر حصہ ملا ہوگا۔ مگر تعجب یہ ہے کہ ارباب تذکرہ ان کی اس خصوصیت کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ البتہ علومِ تفسیر کی کتابوں میں انہی کی قرآن فہمی کے بارے میں اِشارات ملتے ہیں۔ شمس الدین ذہبی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ نسلاً رومی تھے۔ اربابِ تذکرہ جب کسی کے بارے میں رومی یا قبطی لکھتے ہیں تو اس سے عموماً مسیحی ہی مراد لیے جاتے ہیں، یعنی ان کی وطنی نسبت کو ان کی دینی نسبت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ غالباً اسی بنا پر صاحب فجر الاسلام نے لکھا ہے کہ یہ نصرانی تھے۔ کیونکہ طبری نے نصاریٰ کے بارے میں جو روایتیں اپنی کتاب میں درج کی ہیں، ان میں بیشتر ابن جریج ہی کے ذریعہ مروی ہیں۔[6] علمِ تفسیر میں گویا ترجمان القرآن ابن عباس کے مدرسہ فیض سے مستفیض ہوئے تھے، مگر ان کی تفسیر پر مفسرین نے زیادہ اعتماد کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے کہ ”ابن جریج تفسیر میں زیادہ صحت کا اہتمام نہیں کیا۔ وہ ہر آیت کی تفسیر میں غلط صحیح ہر طرح کی روایتیں نقل کر دیتے ہیں۔“[7] بہرحال سقم و غلطی کے باوجود علم تفسیر میں ابن جریج کا درجہ و رتبہ ہے۔ تمام مفسرین ان کی رائے نقل کرتے ہیں۔ خاص طور سے طبری نے تو بے شمار جگہ ان کے اقوال نقل کیے ہیں اور ان کی مرویات سے استدلال کیا ہے۔ افسوس ہے کہ فنِ تفسیر ان کی تحریری یادگار موجود نہیں ہے۔ جس سے اس فن میں ان کے مرتبہ کا آسانی سے اندازہ لگایا جائے۔

فنِ قرات میں بھی ان کو مہارت تھی۔ ابن حبان نے ان کا شمار قراء اہل حجاز میں کیا ہے۔

علم حدیث

ترمیم

علمِ حدیث میں ابن جریج نے ممالکِ اسلامیہ کے تقریباً تمام مشہور ائمہ سے استفادہ کیا تھا۔ خاص طور سے عطاء بن ابی رباح اور عمرو بن دینار کی خدمت میں وہ برسوں رہے۔ اس لیے اس فن میں بھی ان کا ایک مرتبہ ہے۔ ان کی روایات کو ائمہ حدیث نے قبول کیا ہے۔ احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ ابن جریج نے عطاء سے جو روایتیں کی تھیں، ان میں انھوں نے غلطی نہیں کی۔ خود ان کے اُستاد عطاء کو بھی ان پر بڑا اعتماد تھا۔ کسی نے پوچھا کہ آپ کے بعد مسائل میں ہم کس کی طرف رجوع کیا کریں۔ بولے کہ ابن جریج کی طرف، پھر کہا کہ اہل حجاز کے بہترین نوجوان ہیں۔[8]

ابن مدینی کہتے تھے کہ ”حدیث نبوی کی روایات کا دارومدار چھ آدمیوں پر ہے۔ پھر ان اچھ آدمیوں کا عِلم ان لوگوں کے درمیان سمٹ گیا، جنھوں نے علم حدیث کی تدوین کی اور ان تدوین کرنے والوں میں ایک ابن جریج بھی ہیں۔“[8] بعض معاصر ائمہ نے ان پر جرح کی ہے اور ان کی مرویات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ یحییٰ بن سعید القطان سے کسی نے پوچھا کہ ان کی روایات کیسی ہیں؟ فرمایا کہ ضعیف۔ پھر پوچھا کہ وہ اخبرنی کے لفظ سے روایت کریں تو فرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں ہے، ان کی مرویات بہرحال ضعیف ہیں۔ ابو زرعہ نے بھی ان کی تضعیف کی ہے۔ مالک بن انس ان کو حاطب اللیل (ہر غلط و صحیح کا جامع) کہتے تھے۔ مگر ان کے بارے میں جرح کے جو الفاظ منقول ہیں، ان میں کسی حد تک مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔ فن حدیث میں ان کے مرتبہ کی تعیین کے لیے یحییٰ بن معین امام جرح و تعدیل اور ذہلی کی رائیں زیادہ محتاط اور صحیح معلوم ہوتی ہیں۔

ابن معین فرماتے ہیں کہ ”ابن جریج نے جو روایتیں تحریر کی مدد سے بیان کی ہیں وہ قابل اعتماد ہیں۔“[9] مقصد یہ ہے کہ ان کی زبانی مرویات زیادہ قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ان کا حافظہ معمولی درجہ کا تھا۔ اس لیے ان کو زبانی روایتیں اچھی طرح یاد نہیں رہتی تھیں۔ یحییٰ بن سعید جن کی جرح اوپر گذر چکی ہے تحریری روایت کے بارے میں یہ بھی یحییٰ بن معین کے ہم خیال تھے۔[10] ذہلی کہتے تھے کہ ”ان کی زبانی روایتیں وہی قابلِ وثوق ہیں جن میں یہ حدثنی یا سمعت کے الفاظ استعمال کریں۔“[10]

ابن حبان نے ان کو فقہائے اہلِ حجاز میں شمار کیا ہے۔ یحییٰ بن شرف نووی نے لکھا ہے کہ شافعی طرز فقہ کی داغ بیل جن ائمہ نے ابن ادریس شافعی سے پہلے ڈالی، ان میں ابن جریج کا بھی شمار ہے۔ نووی نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ ابن ادریس شافعی نے فقہ میں جن لوگوں سے استفادہ کیا تھا ان میں مسلم بن خالد الزنجی بھی شامل تھے۔ جو ابن جریج کے تربیت یافتہ تھے۔[11]

تصنیفات

ترمیم

ان کا شمار ائمہ میں ہوتا ہے جنھوں نے علوم دینیہ کی تدوین و تربیت میں حصہ لیا۔ اربابِ تذکرہ ان کی کسی کتاب کا نام نہیں لیا ہے۔ البتہ ابن ندیم نے لکھا ہے کہ ان کی متعدد تصانیف ہیں۔ ان کی ایک کتاب ”کتاب السنن“ ہے۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ اس طرز پر لکھی گئی ہے جس پر عام کتب سنن لکھی گئی ہیں، ہر باب جدا جدا ہے۔ مثلاً باب طہارت، باب الصلٰوۃ وغیرہ۔[12] ان کی ایک تفسیر کی کتاب کا ذکر کشف الظنون میں بھی ہے۔ ان تصنیف کے بارے میں عام اہلِ تذکرہ احمد بن حنبل کی یہ رائے نقل کرتے ہیں کہ ”سب سے پہلے جن لوگوں نے الگ الگ عنوانات پر کتابیں تصنیف کیں ان میں ابن جریج اور ابن عروبہ سب سے مقدم ہیں۔“[13] ابن عماد الحنبلی کی رائے ہے کہ ”حجاز میں سب سے پہلے ابن جریج نے جمع و تدوین کا کام شروع کیا۔“[14]

ابتداً جن لوگوں نے حدیث اور فقہ پر کتابیں لکھیں ان میں موضوع و عنوان کی تقسیم نہیں تھی، بلکہ جس کو تفسیر اور فقہ کا جو ذخیرہ جس طرح مل گیا، اس نے اسی طرح مرتب کر دیا۔ ابن جریج کا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اس میں فنی ترتیب قائم کر کے موضوع کے اعتبار سے حدیث نبوی کو جمع کیا۔ چنانچہ خود بھی کہا کرتے تھے کہ ”میری طرح کسی نے علم کی تدوین نہیں کی۔“[12] ان کی تصانیف کے متعلق ائمہ نے جو رائیں دی ہیں، وہ بھی قابل ذکر ہیں۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں ”ابن جریج کی کتابیں کتب امانت ہیں۔“ ان کی کتابیں ان کی زندگی ہی میں مشہور ہو چکی تھیں اور لوگ ان سے استفادہ کرنے کے لیے دور دور سے سفر کرتے تھے۔ شیخ خالد بن نزار کہتے ہیں کہ ”میں 150ھ میں وطن سے اس ارادہ سے نکلا کہ ابن جریج کی کتابیں حاصل کروں۔ مگر جب منزل مقصود پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ چند دن پہلے ان کا انتقال ہو چکا۔“[15]

عادات و اخلاق

ترمیم

ان کے اوپر خشیت ربانی کی کیفیت ہر وقت طاری رہتی تھی۔ مشہور محدث عبد الرزاق کا بیان ہے کہ ”جب میں ان کو دیکھتا تھا تو صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ خدا سے ڈرتے ہیں۔ میں نے ان کے جیسا بہتر نمازی نہیں دیکھا۔“[16] مالک بن انس ان کی شب بیداری کی وجہ سے ان کو صاحب اللیل (رات میں عبادات کرنے والا) کہتے تھے۔[16] روزے سے بے انتہا شغف تھا۔ پورے سال روزے سے رہتے تھے۔ ہر ماہ میں صرف تین دن روزے وہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔[17] طبیعت بہت رقیق اور اثر پزیر پائی تھی۔ یمن کے زمانہ قیام میں حج کی سعادت سے محروم رہے تھے۔ ایک دن عمر بن ابی ربیعہ کے چند اشعار یاد آ گئے، جن میں طول ہجر کی شکایت تھی۔ ان کا اشعار یاد آنا تھا کہ فوراً زیارت حرمین کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ اسی وقت اپنے اُستاد معین بن زائدہ کے پاس آئے اور ان سے اپنے ارادہ کا اظہار کیا۔ اُستاد نے کہا تم نے پہلے کیوں نہ اطلاع دی۔ انھوں نے جلدی قصد کر لینے کا سبب بتایا تو استاد نے جلدی جلدی ان کے لیے سامانِ سفر کا انتظام کیا اور وہ یارِ محبوب کی زیارت کے لیے روانہ ہو گئے۔[2]

علم حصول کا مقصد

ترمیم

ایک بار متعدد ائمہ کا مجمع تھا۔ عبد الرحمن اوزاعی بھی موجود تھے۔ ولید بن مسلم نے پوچھا کہ آپ حضرات نے علم کس کے لیے حاصل کیا ہے؟ سب نے کہا کہ اپنی ذات کے لیے۔ مگر ابن جریج بولے کہ ”میں نے علم لوگوں کے فائدہ کے لیے حاصل کیا ہے۔“[18]

نفاست طبع

ترمیم

خوشبو کے استعمال کے عادی تھے۔ اس کے ساتھ خضاب کا بھی استعمال کرتے تھے۔

اولاد

ترمیم

ان کے دو بیٹے تھے، دونوں صاحب علم و فضل تھے۔

وفات

ترمیم

زندگی بھر بیشتر ایام انھوں نے جوار حرم میں گزارے، مگر آخر عمر میں بصرہ چلے گئے اور وہاں پہنچ کر سلسلہ درس شروع کر دیا۔ مگر عمر نے وفا نہ کی اور شروع ذی الحجہ 150ھ میں انتقال ہو گیا۔[19]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، ج 10، ص 201
  2. ^ ا ب شذرات الذہب از ابن عماد الحنبلی، ج 1، ص 226
  3. شذرات الذہب از ابن عماد الحنبلی، ج 1، 227
  4. تاریخ بغداد از خطیب بغدادی ج 1، 402
  5. ^ ا ب تہذیب التہذیب از ابن حجر عسقلانی، ج 3، ص 404
  6. فجر الاسلام از احمد امین، ص 246
  7. اتقان از جلال الدین سیوطی، ج 2، ص 185
  8. ^ ا ب تہذیب التہذیب از ابن حجر عسقلانی، جلد اول
  9. تہذیب التہذیب از شمس الدین ذہبی، ج 2، ص 406
  10. ^ ا ب تہذیب التہذیب از شمس الدین ذہبی، ج 2، ص 404
  11. تہذیب الاسماء واللغات از یحییٰ بن شرف نووی، ج 2، ص 298
  12. ^ ا ب کتاب الفہرست از ابن ندیم
  13. تہذیب الاسماء واللغات از یحییٰ بن شرف نووی، ج 2، 198
  14. شذرات الذہب از ابن عماد الحنبلی، ج 2، ص 222
  15. تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، ج 10، ص 473
  16. ^ ا ب صفۃ الصفوۃ از ابو الفرج ابن جوزی، ج 2، ص 23
  17. تذکرۃ الحفاظ از شمس الدین ذہبی
  18. تہذیب التہذیب از شمس الدین ذہبی، ج 10، ص 404
  19. تذکرۃ الحفاظ از شمس الدین ذہبی، ج 1، ص 153۔ 57