قبرص میں اسلام
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
قبرص میں اسلام کی آمد کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مسلمان مجاہدین قبرص میں خلیفۂ راشد جناب عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی کے دور خلافت میں یہاں پہنچے۔ یہ زمانہ 649ء کا تھا۔ اور فی زمانہ 1974 تک شمالی قبرص کے جزیرہ نما علاقے میں ترک نژاد مسلمان 18 فیصد تک پہنچ چکے ہيں۔ جو 2 لاکھ 64 ہزار 1 سو بہتر کی تعداد میں جنوبی قبرص میں آباد ہيں۔ ترک نژاد قبرصی اصل میں سنی العقیدہ اور تصوف مائل رجحان رکھتے ہيں۔ ان کے رہنما نظام القبرصی ہیں جو نقشبندی حقانی سلسلے سے تعلق رکھتے ہيں اور لیفکامیں رہائش پزیر ہيں
اسلام کی آمد
ترمیماسلام اپنے ابتدائی دنوں میں ہی اس خطے تک پہنچ چکا تھا۔ مسلمانوں نے خلافت راشدہ کے دور میں یونانی جزيرہ کریٹ پر جہاد کیا۔ کہا جاتا ہے کہ آن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صحابیہ اُمِّ حرام بھی اس مہم میں شامل تھیں۔ [حوالہ درکار]
تاریخ
ترمیمقبرص 395ء میں رومی سلطنت کی تقسیم کے بعد بازنطینی سلطنت کا حصہ بنا اور امیر معاویہ کے دور میں اسے مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ 1571ء میں لالہ مصطفی کی زیر قیادت عثمانی فوج نے جزيرہ فتح کر لیا۔
موجودہ حالات
ترمیمقبرص 1960ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ 11 سال تک فسادات کے بعد 1964ء میں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی گئی جس کے بعد جزیرے نے یونان کے ساتھ الحاق کر لیا جس پر ترکی نے 1974ء میں جزیرے پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں شمالی قبرص میں ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی جسے ترک جمہوریۂ شمالی قبرص کہا جاتا ہے تاہم اسے اقوام متحدہ تسلیم نہیں کرتی۔ شمالی قبرص اور جمہوریہ قبرص ایک خط کے ذریعے منقسم ہیں جسے "خط سبز" کہا جاتا ہے۔ شمالی قبرص کو صرف ترکی کی حکومت تسلیم کرتی ہے۔ جمہوریہ قبرص یکم مئی 2004ء کو یورپی یونین کا رکن بنا۔
نگار خانہ
ترمیم-
کیرینیہ میں ایک مسجد
-
نکوسیا میں عمریہ مسجد
-
پس منظر میں لارناکا کی نمکین جھہل کے ساتھ تکیہ ہالہ سلطان
-
سابقہ کلیسا کا داخلی دروازہ
-
لیماسول میں مسجد