قندیل بلوچ
فوزیہ عظیم(یکم مارچ 1990ء | 15 جولائی 2016ء) جو قندیل بلوچ کے نام سے مشہور تھیں، پاکستانی ماڈل، اداکارہ، حقوقِ نسواں کی علمبردار اور سوشل میڈیا کی مشہور شخصیت تھیں۔[1] سوشل نیٹ ورک پر اپنی روز مرہ زندگی اور مختلف متنازع معامالات پر اپنی وڈیوز کی وجہ سے وہ شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچیں۔ ان کے ہزاروں پیرو کار (فالورز) تھے جو ان کی پوسٹوں کو پسند اور انھیں شیئر بھی کرتے تھے۔ قندیل کی مدح سرائی حقوق نسواں کے فعالیت پسند، مغرب زدہ خواتین، جدید تعلیم یافتہ خواتین کے علاوہ کئی مرد بھی کرتے تھے جو کسی معروف خاتون میں انفرادیت کی فضا دیکھنے کے متمنی تھے۔ [2][3]
قندیل بلوچ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 مارچ 1990 ڈیرہ غازی خان، پنجاب، پاکستان |
وفات | 15 جولائی 2016 ملتان، پنجاب، پاکستان |
(عمر 26 سال)
وجہ وفات | اختناق |
طرز وفات | قتل |
رہائش | کراچی، سندھ، پاکستان |
قومیت | پاکستانی |
دیگر نام | قندیل بلوچ |
شریک حیات | عاشق حسین (شادی. 2008–10) |
اولاد | 1 |
تعداد اولاد | 1 |
عملی زندگی | |
پیشہ | ماڈل، اداکارہ، گلوکارہ |
دور فعالیت | 2013–16 |
شعبۂ عمل | ماڈل |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | www |
IMDB پر صفحہ | |
درستی - ترمیم |
سوشل میڈیا میں تعارف
ترمیمقندیل بلوچ کو سب سے پہلے 2013ء میں میڈیا کی طرف سے توجہ ملنا شروع ہوئی جب وہ پاکستان آئیڈل نامی مقابلے میں حصہ لے رہی تھیں۔ ان کا آڈیشن انٹرنیٹ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور انھیں انٹرنیٹ پر بہت شہرت ملی۔ وہ پاکستان میں انٹرنیٹ پر تلاش کی جانی والی 10 اولین شخصیات میں شمار ہوتی تھیں اور ان کی پوسٹوں اور وڈیوز پر جج کے موضوعات اور مواد پر انھیں اکثر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔[4][5]
15 جولائی 2016ء کی رات کو انھیں نیند کے دوران ان کا گلا گھونٹ کر مار دیا گیا۔ وہ اپنے والدین کے پاس ملتان آئی ہوئی تھیں۔ ان کے بھائی وسیم عظیم نے اس قتل کو تسلیم کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مقتولہ ‘خاندان کی عزت پر حرف‘ لانے کا سبب بن رہی تھیں۔ یہ اس بات کے باوجود ہے کہ قندیل کے والد کا دعوٰی ہے وہ ایک نہایت نرم گفتار، ملنسار اور دوسروں کی مدد کرنے کے معاملوں میں ہمیشہ آگے رہی تھی۔ اس نے کئی مصیبت زدوں کی مدد کی تھی، یہاں تک کہ کئی مواقع پر اس نے اپنے بھائی وسیم عظیم کی بھی کافی مدد کی تھی۔ تاہم سماجی میڈیا پر جس طرح کی تشہیر رواں تھی، اس سے قندیل کا بھائی کافی افسردہ اور اس بات سے کافی بپھرا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے ایک رات اپنی ہی بہن کی اپنے ہی ہاتھوں جان لے لی۔ یہ واقعہ عزت کے نام پر قتل کے سر فہرست واقعات میں ایک شمار کیا گیا اور اس کی سماجی میڈیا میں عمومًا کافی تنقید کی گئی۔ کئی لوگ جو قندیل کے افکار اور اس کی طرز زندگی سے ناخوش تھے، وہ بھی انسانیت کی بنیاد پر اس قتل کی سماجی میڈیا پر مذمت کر چکے ہیں۔ [6][7]
ابتدائی زندگی
ترمیمقندیل بلوچ یکم مارچ 1990ء کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئیں۔ ان کی پرورش شاہ صدر دین میں ہوئی۔ ان کے چھ بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔[8][9] ان کی پہلی ملازمت بس میزبان کی تھی۔[10]
کیریئر
ترمیمقندیل بلوچ کی شہرت کا دارومدار سوشل میڈیا پر ان کے مراسلے تھے جن میں تصاویر، وڈیوز اور تبصرے شامل ہوا کرتے تھے۔ پاکستان کی قدامت پسند اکثریت کے خیال میں وہ بہت زیادہ بے باک تھیں۔ بعض بین الاقوامی خبر رساں اداروں نے ان کا مقابلہ کیم کارداشیان سے اور انھیں پاکستان کی کم کرداشیان قرار دیا، مگر مقامی مبصرین نے انھیں کیم کاردایشیان سے زیادہ اہم قرار دیا کہ قندیل بلوچ معاشرے کے رواج کے خلاف کھڑی ہو کر صف بند ہو گئی تھیں اور اپنی مرضی کی زندگی جی رہی تھیں۔[11]
جون 2016ء میں قندیل کی ملاقات ایک بزرگ مذہبی عالم مفتی عبد القوی سے ہوٹل کے کمرے میں ہوئی۔ ملاقات کا مقصد دین کے بارے معلومات کا حصول تھا۔ تاہم اس ملاقات سے سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور ان کی تصاویر انتہائی تیزی سے پھیلنے لگیں۔ ان تصاویر میں قندیل بلوچ نے مفتی کی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ نیز اس ملاقات کے نتیجے میں مفتی کو پاکستانی مذہبی کمیٹیوں میں اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔[12][13][14]
اس سے قبل قندیل بلوچ کو سوشل میڈیا پر اس وقت زیادہ توجہ ملی جب انھوں نے اعلان کیا کہ اگر پاکستان 18 مارچ 2016ء کو بھارت کے خلاف ٹی 20 مقابلہ جیت گیا تو وہ عریاں رقص کریں گی جو شاہد آفریدی کے نام ہوگا۔[15] یہ مختصر اعلان سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی مانند پھیل گیا مگر پاکستان اس مقابلے میں ناکام رہا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں بعضوں نے قندیل بلوچ کا موازنہ پونم پانڈے سے بھی کیا کہ دونوں میں شخصیات متنازع اور ایک دوسرے سے مماثل تھیں۔[16][17]
جوں جوں سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی عام ہوتی گئی، انھوں نے پاکستانی معاشرے میں خواتین کے مقام پر بات کرنا شروع کر دی۔ وفات سے ایک ہفتہ قبل انھوں نے ایک موسیقی کی وڈیو جاری کی جس کا نام ‘بین‘ تھا اور اس میں انھوں نے پاکستان میں خواتین پر لگائی جانے والے پابندیوں پر بات کی۔[18]
ایک متنازع میزبان مبشر لقمان کے ساتھ بات کرتے ہوئے قندیل بلوچ نے سنی لیونی، راکھی ساونت اور پونم پانڈے سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا۔ قندیل نے یہ بھی بتایا کہ بہت سارے میڈیا گروپ، ادارے اور لوگ انھیں اپنے شوز میں دعوت دے رہے ہیں تاکہ ان کے پروگرام کی ریٹنگ بڑھ سکے۔
حفاظتی خدشات
ترمیمجون 2016ء کو مفتی عبد القوی سے ملاقات کے بعد قندیل بلوچ نے بتایا کہ انھیں مفتی عبد القوی اور دیگر افراد کی جانب سے موت کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔[19][20] اسی وقت قندیل بلوچ کے سابقہ شوہر کی جانب سے میڈیا میں ان کی مختصر شادی کے بارے معلومات آنا شروع ہو گئیں۔ قندیل بلوچ نے اپنے شوہر کے بارے بتایا کہ وہ تشدد کرتا تھا اور کھلے عام اپنی شادی سے ہونے والی تکالیف کے بارے روتے ہوئے بات کی۔ 14 جولائی 2016ء کو قندیل بلوچ نے ایکسپریس ٹریبیون کے نامہ نگار سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنی جان کو لاحق خطرات کا ذکر کیا۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے پولیس سے مدد مانگی مگر کوئی جواب نہ ملنے پر وہ اپنے والدین کے ہمراہ عید الفطر کے بعد پاکستان سے باہر منتقل ہو رہی ہیں کہ پاکستان میں وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔[21]
ذاتی زندگی
ترمیمقندیل بلوچ کی شادی عاشق حسین سے 2008ء میں ہوئی اور دونوں کا ایک بیٹا بھی ہے۔ قندیل بلوچ نے ایک سال بعد اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر لی کہ ان کا شوہر مارتا ہے۔[22][23] قندیل بلوچ کی دوسری شادی کے بارے بھی اطلاعات آتی رہی ہیں۔
قتل
ترمیم15 جولائی 2016ء کو قندیل بلوچ کو ان کے بھائی وسیم نے نشہ آور دوا دے کر گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔ قتل کی یہ واردات ملتان میں قندیل بلوچ کے والدین کے گھر ہوئی۔ قتل کی اطلاع سب سے پہلے ان کے والد عظیم نے دی۔ پہلے پہل ہلاکت کا سبب گولی قرار دی گئی مگر پھر ڈاکٹری معائینے سے علم ہوا کہ موت کی وجہ دم گھٹنا تھی۔ قتل کی یہ واردات 15–16 جولائی کی درمیانی رات کو سوا گیارہ سے ساڑھے گیارہ بجے کے درمیان ہوئی۔ جب لاش دریافت ہوئی تو قتل کو ہوئے پندرہ سے 36 گھنٹے گذر چکے تھے۔ قندیل بلوچ کی لاش پر موجود نشانات سے علم ہوا کہ ان کا منہ اور ناک بند کر کے قتل کیا گیا۔ پولیس نے اس قتل کو ‘ناموسی قتل‘ قرار دیا۔[24]
قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی جس میں مقتولہ کے بھائی وسیم اور دوسرے بھائی اسلم شاہین کو ملزم نامزد کیا گیا کہ اسلم شاہین نے ہی وسیم کو قتل پر آمادہ کیا۔ قندیل بلوچ کے والد عظیم نے ایف آئی آر میں بتایا کہ مقتولہ کو اس کے بھائی وسیم اور اسلم شاہین نے پیسوں کی خاطر قتل کیا۔ مقتولہ کے والد نے پریس کو بتایا: ‘میری بیٹی بہادر تھی اور میں اس کے بہیمانہ قتل کو نہ تو بھولوں گا اور نہ معاف کروں گا‘۔[25] وسیم بلوچ کو 16 جولائی کی شام کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اپنی بہن کے قتل کو تسلیم کیا اور بتایا: ‘وہ (قندیل بلوچ) خاندان کا نام ڈبو رہی تھی اور میں اسے مزید برداشت نہ کر سکا۔ میں نے اسے جمعہ کی رات ساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ جب سارے گھر والے سو گئے تھے، قتل کر دیا۔ میرا بھائی اس قتل میں شامل نہیں۔‘ اس مقدمے کے مدعیت میں ریاست بھی شامل ہے جس کی وجہ سے مقتولہ کے لواحقین قاتل کو معاف نہیں کر سکتے۔
ردِ عمل
ترمیمقندیل بلوچ کے قتل کی میڈیا کی مشہور شخصیات اور عام لوگوں نے دنیا بھر سے مذمت کی جبکہ بعض پاکستانی لوگ اس قتل کی حمایت کرتے نظر آئے۔ عمران خان، بلال بھٹو زرداری، شرمیلا فاروقی، ریحام خان، صنم بلوچ، عثمان خالد بٹ، میشا شفیع، نادیہ حسین اور علی ظفر جیسی شخصیات نے قتل کی مذمت کی۔ مشہور فلم ساز شرمین عبید چنائے نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ‘مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جب تک ہم ایسے مجرموں کو نشانِ عبرت نہ بنائیں، جب تک ایسے قاتلوں کو جیل نہ بھیجا جائے، جب تک ہم ایسے قتل کو یک زبان ہو کر مسترد نہ کریں اور یہ بات واضح ہو کہ ایسے قاتل اپنی بقیہ زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بسر کریں گے، تب تک کہ اس ملک میں کوئی بھی عورت محفوظ نہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ہم اخبار اٹھائیں اور اس میں کسی عورت کے قتل کی خبر نہ موجود ہو۔ یہ چیز وبائی صورت اختیار کر چکی ہے۔‘
برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مئے نے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ایسے قتل میں کوئی عزت یا ناموس نہیں ہوتی اور ایسی واردات کو دہشت گردی شمار کیا جانا چاہیے۔[26] خاندان کی عزت کے نام پر کسی عورت کو اس کے مرد رشتہ دار کی جانب سے قتل مجرمانہ فعل ہے۔[27] ناموسی قتل کے خلاف قانون بنانے کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے اعلان کیا: ہم نے تجاویز اور بحث کے بعد اس قانون کا ابتدائی مسودہ تیار کر لیا ہے۔ اس کو جلد از جلد مکمل کر کے 21 جولائی کو پارلیمان میں مزید بحث اور منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔[28][29]
قندیل بلوچ کے لیے لاہور اور کراچی میں موم بتیاں جلائیں گئیں۔[30] بین الاقوامی میڈیا جیسا کہ ڈیلی میل، [31] دی گارڈین،[32] یو ایس اے ٹوڈے،[33] نیو یارک ٹائمز،[34] ٹائم،[35] وال اسٹریٹ جرنل،[36] واشنگٹن پوسٹ،[37] ٹائمز آف انڈیا،[38] دی ہالی ووڈ رپورٹر،[39] دی گلوب اینڈ میل،[40] اور دیگر بہت سارے اداروں نے قتل کی مذمت کرتے ہوئے ناموسی قتل کے خلاف بیداری میں حصہ لیا۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Urvashi Bahuguna۔ "'Only after her murder was Qandeel Baloch praised as a feminist, as a modern Pakistani woman'"۔ Scroll.in (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2020
- ↑ Sarah Raza، Ayesha Rehman (9 September 2015)۔ "Self proclaimed drama queen: Qandeel Baloch"۔ Samaa TV
- ↑ Zainab B. Alam (2020)۔ "Do-it-Yourself Activism in Pakistan: The Fatal Celebrity of Qandeel Baloch"۔ Perspectives on Politics (بزبان انگریزی)۔ 18 (1): 76–90۔ ISSN 1537-5927۔ doi:10.1017/S1537592719002408
- ↑ "Hilarious audition of Qandeel Baloch In Pakistan Idol"۔ اے بی پی نیوز۔ 23 مارچ 2016۔ 01 جولائی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ "Desperate for instant fame, Pakistan model Qandeel Baloch, who had recently made headlines with her antics to gain popularity, now has come with another way of grabbing the limelight."۔ Siasat.pk۔ 24 March 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ "Qandeel Baloch's brother arrested, says he killed her for 'honour'"۔ Pakistan Today۔ 17 جولائی 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2016
- ↑ Katie Reilly (16 جولائی 2016)۔ "Pakistani Model Qandeel Baloch Strangled by Brother in Apparent 'Honor Killing'"۔ Time۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2016
- ↑ Haider Ali Sindhu (23 جون 2016)۔ "Qandeel's Cinderella story: How a bus hostess from Shadun Lund became controversy queen in Karachi"۔ en.dailypakistan.com.pk۔ 10 جولائی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ Chieu Luu، Shazia Bhatti۔ "Father of slain social media star: 'It is my desire to take revenge'"۔ CNN۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 نومبر 2017
- ↑
- ↑ "Pakistan: Anger after honour killing of Qandeel Baloch"۔ www.aljazeera.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2016
- ↑ "When Qandeel Baloch met Mufti Qavi: A guideline on how NOT to learn Islam"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2016
- ↑ Fayyaz Hussain۔ "What really happened when Mufti Abdul Qavi broke his fast with Qandeel Baloch in a hotel?"۔ ڈیلی پاکستان۔ 22 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2016
- ↑ "Qandeel Baloch claims Mufti Qavi 'hopelessly in love' with her!"۔ پاکستان ٹوڈے۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2016
- ↑ "Qandeel Baloch: Pak model to strip if team win WT20 match against India"۔ Hindustan Times۔ 18 مارچ 2016
- ↑ Tanushree Pandey (16 March 2016)۔ "Someone seems to be going the Poonam Pandey way this #WT20 season. Howzat?"۔ IBN Live۔ 18 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2021
- ↑ "Pakistan Got its own Poonam Pandey! Here's What She'll Do If Pak Wins WC '16"۔ Dailybhaskar.com۔ 17 مارچ 2016۔ 18 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2021
- ↑ APDP – All Pakistani Dramas Page (25 مارچ 2016)، Khara Sach With Mubashir Luqman 25 مارچ 2016 – Qandeel Baloch Exclusive Interview، اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2016
- ↑
- ↑ "Receiving life-threatening calls from Mufti Qawi, claims Qandeel Baloch"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ Sanam Maher (9 جولائی 2019)۔ "'You'll miss me when I'm gone': the murder of social media star Qandeel Baloch"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولائی 2019
- ↑ "Plot thickens: Qandeel Baloch was once married and has a son"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ "Qandeel Baloch's ex-husband comes forward with startling claims"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ "'I have no regrets': Brother of slain Pakistani social media star arrested"۔ ABC News (بزبان انگریزی)۔ 17 جولائی 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولائی 2016
- ↑ "Qandeel's dead body shows no marks of torture: autopsy report"۔ پاکستان ٹوڈے۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ Laura Hughes (19 July 2016)۔ "Theresa May says there is 'no honour' in so-called honour killings"۔ روزنامہ ٹیلی گراف۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2016
- ↑ Hamza Rao (19 July 2016)۔ "British Prime Minister also speaks up about Qandeel Baloch's murder"۔ Sky News۔ روزنامہ پاکستان۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2016
- ↑ "Pakistan to pass law against honor killings in weeks: Maryam Nawaz"۔ Sama TV۔ 19 July 2016۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2016
- ↑ Mehreen Zahra-Malik (19 July 2016)۔ "Pakistan to pass law against honor killings in weeks: PM's daughter"۔ روئٹرز۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2016
- ↑ "Taken away: Vigil held for Qandeel Baloch"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جولائی 2016
- ↑ Joseph Curtis (19 July 2016)۔ "'I'm not embarrassed. Of course I strangled her': Arrested brother of 'Pakistan's Kim Kardashian' admits he killed her because she refused to stop posting provocative photographs on Facebook"۔ ڈیلی میل۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2016
- ↑ Moni Mohsin (19 July 2016)۔ "The dishonourable killing of Qandeel Baloch"۔ دی گارڈین۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2016
- ↑ Nick Penzenstadler (16 July 2016)۔ "Pakistani model killed after offending conservatives"۔ یو ایس اے ٹوڈے۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2016
- ↑ Salman Masood (19 July 2016)۔ "Qandeel Baloch, Pakistani Social Media Celebrity, Dead in Apparent Honor Killing"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2016
- ↑ Katie Reilly (19 July 2016)۔ "Pakistani Model Qandeel Baloch Strangled by Brother in Apparent 'Honor Killing'"۔ ٹائم۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ Qasim Nauman (19 July 2016)۔ "Qandeel Baloch, a Pakistani Internet Celebrity, Is Killed in 'Honor Killing'"۔ وال اسٹریٹ جرنل۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ Munir Ahmed (19 July 2016)۔ "Pakistani fashion model Qandeel Baloch, who recently stirred controversy by posting pictures of herself with a Muslim cleric on social media, was strangled to death by her brother, police said Saturday."۔ واشنگٹن پوسٹ۔ 18 جولائی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ "Qandeel Baloch no more Know everything about the Pakistani model"۔ ٹائمز آف انڈیا۔ 19 July 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ "PAKISTANI MODEL AND SOCIAL MEDIA STAR QANDEEL BALOCH MURDERED IN HONOR KILLING"۔ دی ہالی ووڈ رپورٹر۔ 19 July 2016۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
- ↑ Shaista Aziz (19 July 2016)۔ "The murder of Qandeel Baloch lifts the lid on misogyny in Pakistan"۔ دی گلوب اینڈ میل۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016
بیرونی روابط
ترمیم- دفتری ویب سائٹ * Qandeel Baloch فیس بک پر * Qandeel Baloch ٹویٹر پر * انسٹا گرام پر Qandeel Baloch