ماہنامہ دار العلوم

دار العلوم دیوبند کا اردو ماہانہ ترجمان

ماہنامہ دار العلوم ایک ماہانہ اردو رسالہ ہے جو دار العلوم دیوبند سے 1941ء سے شائع ہو رہا ہے۔[1] اس رسالے کے مدیرِ اول عبد الوحید صدیقی غازی پوری تھے، جبکہ محمد طیب قاسمی بہ حیثیت مہتمم اس کے نگراں تھے۔ فی الحال، اس کے مدیر محمد سلمان بجنوری اور موجودہ مہتممِ دار العلوم دیوبند ابو القاسم نعمانی اس کے نگراں ہیں۔ اس رسالے میں زیادہ تر مضامین دار العلوم کے اساتذہ یا فارغ التحصیل افراد کے تحریر کردہ ہوتے ہیں۔[2]

'
Colourful image
مدیرمحمد سلمان بجنوری
سابق مدیران
زمرہدینیات، ثقافت، دعوت، ادب، دیوبندیت
دورانیہماہانہ
ناشردار العلوم دیوبند
بانیمحمد طیب قاسمی
پہلا شمارہمئی–جون 1941ء
ملکبھارت
مقام اشاعتدیوبند
زباناردو
ویب سائٹdarululoom-deoband.com

یہ رسالہ قومی اور مسلم برادری کی اصلاح کے علاوہ مختلف موضوعات پر روشنی ڈالتا ہے، جن میں موجودہ مذہبی، فکری، سماجی، اور سیاسی مسائل شامل ہیں۔ یہ قارئین کو موجودہ حالات و واقعات سے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے بارے میں خبردار بھی کرتا ہے۔[3] یہ رسالہ تحریکِ دیوبندیت سے متعلق کلیدی مسائل پر ایک منفرد صحافتی نقطۂ نظر پیش کرتا ہے۔[4]

اگرچہ 1940ء کی دہائی کے آخر میں اس کی اشاعت کچھ عرصے کے لیے موقوف ہو گئی تھی، لیکن بعد میں ازہر شاہ قیصر کی کوششوں سے یہ دوبارہ شائع ہونا شروع ہوا۔ ان کے تقریباً تین دہائیوں پر محیط ادارت کے دور میں یہ رسالہ ایک کثیر الجہتی اشاعت کے طور پر ترقی کرتا رہا۔[5]

دار العلوم دیوبند کے طرز پر دیگر مدارس میں بھی اردو رسائل شائع کرنے کا رجحان پیدا ہوا، جن میں ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور، ماہنامہ ندائے شاہی مراد آباد، ماہنامہ البلاغ دارالعلوم کراچی، بینات جامعہ بنوریہ کراچی، ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک، یادگار اسلاف میرٹھ، ریاض الجنہ گورینی جون پور، اور ضیاءُ الاسلام اعظم گڑھ شامل ہیں۔[6]

آغاز اور توسیع

ترمیم

سولہ سال کے وقفے کے بعد دار العلوم دیوبند نے القاسم اور الرشید کی اشاعت کے اختتام پر ایک نیا ماہانہ اردو رسالہ شروع کیا۔[7] پہلی مرتبہ یہ رسالہ محمد طیب قاسمی کے زیرِ نگرانی اور عبد الوحید صدیقی غازی پوری کی ادارت میں مئی–جون 1941ء میں شائع ہوا۔[7] عبد الوحید غازی پوری 1944ء تک مدیر رہے، بعد ازاں انھوں نے ماہنامہ دار العلوم سے علاحدگی اختیار کرکے دہلی منتقل ہو گئے۔ ان کے بعد خلیق احمد صدیقی سردھنوی نے ادارت سنبھالی، لیکن وقت کی کمی کے باعث 1948ء میں یہ منصب چھوڑ دیا۔[8]

1949ء میں عبد الحفیظ بلیاوی نے ادارت کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے ان کے دور میں صرف سات شمارے شائع ہو سکے۔[8] 1949ء کے اواخر میں ماہنامہ دار العلوم کو سہ ماہی رسالے میں تبدیل کر دیا گیا، اور اس کی علمی حیثیت کم ہو گئی۔ یہ رسالہ ازہر شاہ قیصر کی نگرانی میں تعارفی کتابچے کی صورت اختیار کر گیا۔[8] ایک وقفے کے بعد اپریل 1951ء میں یہ رسالہ ازہر شاہ قیصر کی ادارت میں دوبارہ ماہانہ سلسلے کے طور پر شائع ہونے لگا،[9] اور یہ سلسلہ 1982ء تک جاری رہا۔[10] ان کی ادارت کے دوران متعدد علما، ادبا، شعرا، اور صحافی اس رسالے سے وابستہ رہے، جن میں ظفیر الدین مفتاحی اور مختصر مدت کے لیے ندیم الواجدی شامل تھے۔ ان کی رہنمائی میں رسالہ جامع اور متنوع مواد کے ساتھ کامیابی حاصل کرتا رہا۔[9]

ازہر شاہ قیصر کے بعد ریاست علی ظفر بجنوری نے ادارت کی ذمہ داری سنبھالی،[10] جن کے بعد حبیب الرحمن قاسمی اعظمی نے اکتوبر 1984ء سے نومبر 2016ء تک خدمات انجام دیں۔[11] نایاب حسن قاسمی کے مطابق، اعظمی کے دور میں رسالہ اپنی سابقہ عظمت کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ نمایاں ترقی بھی کرتا رہا اور بھارت سے باہر دیگر ایشیائی ممالک میں بھی قارئین کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوا۔[10] ان کی وفات کے بعد محمد سلمان بجنوری نے ساتویں مدیر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی۔[11]

دار العلوم دیوبند نے ماہنامہ دار العلوم کے انتظام کے لیے ایک مستقل دفتر قائم کیا ہے، اور کئی برسوں سے یہ رسالہ ادارے کی ویب سائٹ پر آن لائن بھی شائع کیا جا رہا ہے۔[12] اس رسالے کے قدیم مستقل مقالہ نگاروں میں شبیر احمد عثمانی، احمد سعید دہلوی، محمد طیب قاسمی، اعزاز علی امروہوی، حفظ الرحمن سیوہاروی، محمد شفیع دیوبندی، سعید احمد اکبر آبادی، محمد میاں دیوبندی، محمد ادریس کاندھلوی، یوسف بنوری، مناظر احسن گیلانی، منظور نعمانی، اور حبیب الرحمن الاعظمی شامل ہیں۔[13]

مشمولات

ترمیم

ماہنامہ دار العلوم کا اداریہ پہلے "رشحات" کے عنوان سے شائع ہوتا تھا، جس میں مذہبی اور دینی تجزیوں کے ساتھ ساتھ قومی اور عالمی مسائل پر تبصرے پیش کیے جاتے تھے۔ اس رسالے میں قومی اور بین الاقوامی محققین کے مضامین شامل کیے جاتے ہیں۔ آخری صفحات میں "دار العلوم" کے عنوان کے تحت دار العلوم دیوبند کے سربراہ کے حالیہ دوروں کو اجاگر کیا جاتا تھا۔[13]

ازہر شاہ قیصر کے دورِ ادارت میں اداریے "حرف آغاز" کے عنوان سے شائع ہوتے تھے، جو علمی، فکری، تحقیقی، ادبی، اور سیاسی موضوعات کا احاطہ کرتے تھے۔ ان اداریوں کو تقریباً سترہ سال تک ظفیر الدین مفتاحی نے لکھا، جبکہ دو ایک بار ندیم الواجدی نے بھی حصہ لیا۔ "ادبیات" کے حصے میں ماہر القادری، جگر مرادآبادی اور دیگر شعرا کی غزلیں پیش کی جاتی تھیں۔[9]

ہر ماہ، "تنقید و تبصرہ" کا کالم مختلف مصنفین کی نئی کتب پر تجزیے پیش کرتا تھا، جو بیک وقت کئی کتابوں پر تبصرے پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس میں ازہر شاہ قیصر کے ساتھ انظر شاہ کشمیری، عبد الرؤف عالی، اور قمر احمد عثمانی کی تحریریں بھی شامل تھیں۔[9]

ازہر شاہ قیصر کی ادارت کے تحت، ماہنامہ دار العلوم ایک جامع اشاعت کے طور پر سامنے آیا، جو علمی، دینی، ادبی، اور تنقیدی موضوعات پر مشتمل تھا اور مختلف اقسام کے قارئین کو اپنی جانب راغب کرتا تھا۔[5] حبیب الرحمن قاسمی اعظمی کے دورِ ادارت میں بھی اداریہ "حرف آغاز" کے عنوان سے شائع ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ، "نگارشات" کے عنوان سے ایک کالم شائع ہوتا تھا، جو جید علما، ادبا، اور محققین کی تحریروں سے مزین ہوتا تھا۔ حبیب الرحمن قاسمی اعظمی کے ماہنامہ دار العلوم میں شائع ہونے والے مضامین "مقالات حبیب" کے عنوان سے تین جلدوں میں شائع ہوئے، جو علمی و ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئے۔[10]

نظریہ اور مشن

ترمیم

ماہنامہ دار العلوم کے پہلے شمارے میں اس کے مدیر نے رسالے کے مقاصد کی وضاحت کی۔[14] اس اشاعت کا بنیادی مقصد علومِ الٰہیہ اور تعلیماتِ نبویہ کو آسان اور عام فہم انداز میں پیش کرنا ہے تاکہ یہ تمام طبقہ ہائے زندگی کے لوگوں تک پہنچ سکے۔[14] اس کے مشن میں اسلامی اصولوں کی وضاحت، اسلامی عقائد کی تحقیق، تاریخ کے اہم واقعات اور اعتراضات کا جائزہ، اور موجودہ و تاریخی نقادوں کے سوالات کے واضح جوابات فراہم کرنا شامل ہے۔ یہ رسالہ ایمان کی خوبصورتی کو اجاگر کرنے اور مسلمانوں میں دینی ذہنیت پیدا کرنے کے لیے، موجودہ دور کے کفر اور بے دینی کے ماحول میں دوستوں اور مخالفین دونوں سے مخاطب ہوتا ہے۔[14] یہ رسالہ اسلامی دائرے میں قانونی معاملات پر بھی زور دیتا ہے،[3] اور صرف اسلامی عقائد کے اندر کے مصنفین کی تحریروں کو شامل کرتا ہے، جبکہ دیگر مذاہب یا مسالک کے مصنفین کو شامل نہیں کرتا۔[2]

علمی اعتراف

ترمیم

ماہنامہ دار العلوم کو مختلف علمی حلقوں سے متنوع ردعمل موصول ہوا ہے۔ جامعہ ہمدرد، نئی دہلی کے وسیم احمد نے اس رسالے کی مسلم ضروریات کے حوالے سے حساسیت کو سراہا ہے، حالانکہ ان کے مطابق یہ بعض مخصوص مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے۔[2] دہلی یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر محمد سراج اللہ نے اس کے اعلیٰ معیار اور بعض اوقات زبان کی پیچیدگی کی تعریف کی ہے۔[3]

پنجاب یونیورسٹی پی ایچ ڈی اسکالر محمد موسیٰ نے رسالے کے مسلمانوں کو وسیع موضوعات پر آگاہ کرنے کے عزم کو نمایاں قرار دیا ہے۔[15] ”دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ“ کے مصنف نایاب حسن قاسمی نے اس رسالے کے اسلامی صحافت میں نمایاں کردار کو تسلیم کیا ہے۔[13] جامعہ ہمدرد کے پی ایچ ڈی اسکالر محمد اللہ خلیلی قاسمی نے اس اشاعت کے متنوع مواد کو سراہا ہے، جو مذہبی، سیاسی، اور انتظامی موضوعات پر علمی، اصلاحی، اور فکری مضامین پر مشتمل ہے۔[12]

حوالہ جات

ترمیم
  1. اولریکے فرائیٹاگ؛ آخم فان اوپن، مدیران (2010ء)۔ Translocality: the study of globalising processes from a southern perspective [بین العلاقائیت: جنوبی نقطۂ نظر سے عالمگیریت کے عمل کا مطالعہ]۔ عالمی سماجی تاریخ کے مطالعے۔ لائڈن: برِل۔ ص 330۔ ISBN:978-90-04-18605-7۔ 2023-12-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-29
  2. ^ ا ب پ راجندر پال سنگھ; گوپال رانا (2002ء). Teacher Education in Turmoil: Quest for a Solution [اساتذہ کی تعلیم میں بحران: حل کی جستجو] (انگریزی میں). اسٹرلنگ پبلشرز پرائیویٹ لمیٹڈ. p. 28. ISBN:978-81-207-2431-0. Archived from the original on 2023-12-12. Retrieved 2024-12-28.
  3. ^ ا ب پ محمد سراج اللہ (2017ء)۔ اردو صحافت کے فروغ میں مدارس کا حصہ۔ نئی دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ ص 109۔ ISBN:978-93-86624-58-1۔ 2023-12-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-29
  4. نایاب حسن قاسمی (2013)۔ دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ۔ دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی۔ ص 116
  5. ^ ا ب قاسمی 2013، صفحہ 119
  6. محمد اللہ خلیلی قاسمی (2020)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (تیسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ ص 413۔ OCLC:1345466013
  7. ^ ا ب قاسمی 2013، صفحہ 114
  8. ^ ا ب پ قاسمی 2013، صفحہ 117
  9. ^ ا ب پ ت قاسمی 2013، صفحہ 118
  10. ^ ا ب پ ت قاسمی 2013، صفحہ 120
  11. ^ ا ب خورشید عالم داؤد قاسمی (28 جولائی 2021ء). "Prolific Writer and Popular Teacher: Maulana Habibur Rahman Azami Qasmi" [نامور مصنف اور مقبول استاد: مولانا حبیب الرحمن اعظمی قاسمی]. ملت ٹائمز (انگریزی میں). Archived from the original on 2023-09-30. Retrieved 2024-12-29.
  12. ^ ا ب قاسمی 2020، صفحہ 231
  13. ^ ا ب پ قاسمی 2013، صفحہ 116
  14. ^ ا ب پ قاسمی 2013، صفحہ 115
  15. محمد موسیٰ (2022)۔ اردو صحافت میں علماء کے خدمات 1800ء سے 1960ء تک (پی ایچ ڈی thesis)۔ بھارت: شعبۂ اردو، پنجاب یونیورسٹی (چنڈی گڑھ)۔ ص 325۔ hdl:10603/471669۔ 2023-12-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-29