مجاہد بن جبیر
مجاہد بن جبر عبد اللہ ابن کثیر قاری مکہ کے استاد ہیں جوقراء سبعہ میں شامل ہیں۔
مجاہد بن جبیر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 642 مکہ |
وفات | سنہ 722 (79–80 سال)[1] مکہ |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
استاذ | عبد اللہ بن عباس |
تلمیذ خاص | ابو عمرو بن علاء بصری، ایوب سختیانی |
پیشہ | الٰہیات دان، محدث |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | تفسیر قرآن، علم حدیث، فقہ، قرأت |
درستی - ترمیم ![]() |
نام ونسبترميم
مجاہد نام، ابوالحجاج کنیت، قیس بن مخزومی کے غلام تھے۔
ولادتترميم
ان کی پیدائش 21ھ میں زمانہ خلافت فاروق اعظم ہوئی۔
فضل وکمالترميم
اگرچہ مجاہد غلام تھے،لیکن اقلیم علم کے تاجدار تھے،علمی اعتبار سے وہ امامِ وقت تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں ‘کان فقیھا عالما ثقۃ کثیر الحدیث ’ حافظ ذہبی کا بیان ہے کہ وہ علم کا ظرف تھے [2]امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت اورامامت پر سب کا اتفاق ہے [3] ان کو تفسیر حدیث اورفقہ جملہ علوم میں درجہ امامت حاصل تھا۔
قرأت وتفسیرترميم
قرأت اورتفسیر کے اس عہد کے نہایت نامور عالم تھے،تفسیر انہوں نے خیر الامۃ ابن عباس سے حاصل کی تھی اور پورے تیس مرتبہ ان سے قرآن کا دورہ کیا تھا اور اس محنت اورتحقیق کے ساتھ کہ ہر ایک سورہ پر رک کر اس کی شانِ نزول اوراس کے جملہ متعلّقات پوچھتے جاتے تھے اس محنت اورابن عباس جیسے مفسر قرآن کی تعلیم نے ان کو بہت بڑا مفسر بنادیا،خصیف کا بیان ہے کہ مجاہد تفسیر کے سب سے بڑے عالم تھے قتادہ کہتے تھے کہ اس وقت کے باقیات صالحات میں مجاہد تفسیر کے سب سے بڑے عالم ہیں قرآن کے قاری بھی تھے۔
حدیثترميم
حدیث کے بھی وہ نہایت مشہور حافظ تھے،امام ذہبی ان کو مضر اورحافظِ حدیث ابن سعد کثیر الحدیث اورامام نووی امام حدیث لکھتے ہیں[4]حبر الامۃ عبداللہ بن عمرؓ ان کے حفظ کے اتنے معترف تھے کہ فرماتے تھے کہ کاش نافع کا حفظ بھی تمہاری طرح ہوتا ۔ [5]
اکابر صحابہ میں انہوں نے حضرت علیؓ،ابن عمرؓ،ابن عباسؓ عبداللہ بن زبیرؓ، عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ، ابو سعید خدریؓ، ابوہریرہؓ،سعد بن ابی وقاصؓ،رافع بن خدیجؓ،عائشہ صدیقہؓ جویریہ بنت حارثؓ،ام ہانیؓ اورتابعین میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ،طاؤس ،عبداللہ بن سائب عبداللہ بن سنجرہ،عبدالرحمن بن صفوان ،عمر بن اسود،مورق العجل، ابو عیاش الزرق اورابو عبیدہ ابن عبداللہ بن مسعود وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ [6] ان کے تلامذہ کا دائرہ بھی خاصہ وسیع تھا،ایوب سختیانی،عطاء،عکرمہ بن عون عمرو بن دینار،ابواسحٰق سبیعی،ابو الزبیر مکی،قتادہ جیب بن ابی ثابت،حسن بن عمرو، سلمہ بن کہیل سلیمان الاحول،سلیمان الاعمش،مسلم البطین ،طلحہ بن مصرف اورعبداللہ بن کثیر قاری وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ [7]
اخلاص فی العلمترميم
علم کا مقصد کسی نہ کسی دنیاوی منفعت سے کم خالی ہوتا ہے لیکن مجاہد کا دامن ان تمام آمیزشوں سے بالکل پاک تھا، مسلمہ بن کہیل کا بیان ہے کہ عطاء طاؤس اورمجاہد کے علاوہ میں نے کسی کو نہیں پایا،جس کا مقصد علم سے خالصۃً لوجہ اللہ رہا ہو۔[8][9]
زہد وورعترميم
علم کے ساتھ ان میں زہد وورع بھی اسی درجہ کا تھا، ابن حبان لکھتے ہیں کہ مجاہد فقیہ متورع اورعابد وزاہد تھے۔ [10]
دنیا سے بے تعلقیترميم
وہ دنیا سے ہمیشہ بے تعلق اور بیگانہ رہے،اس سے ان کا دل اس قدر برداشتہ تھا کہ کسی دنیاوی چیز سے دلچسپی نہ لیتے تھے،ہمیشہ مغموم رہا کرتے ،اعمش کا بیان ہے کہ مجاہد کو جب ہم دیکھتے مغموم پاتے ان سے کسی نے اس کا سبب پوچھا،جواب دیا کہ عبداللہ بن عباسؓ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ عبداللہ دنیا میں اس طرح رہو کہ معلوم ہوکہ مسافر یا راہ رو ہو۔ [11]
سادگیترميم
ظاہر زیب وزینت سے اتنے بے پرواہ تھے کہ ان میں اور ادنی درجہ کے آدمیوں میں امتیاز مشکل تھا، اعمش کابیان ہے کہ جب میں مجاہد کو دیکھتا تھا تو (ان کی ظاہری حالت سے ) ان کو نہایت حقیر سمجھتا تھا، وہ اپنی ظاہری وضع سے سائیس معلوم ہوتے تھے جس کا گدھا گم ہوگیا ہو اوروہ حالتِ پریشانی میں اس کو تلاش کررہا ہو [12] لیکن اس سے ان کی علمی عظمت میں کوئی فرق نہ آتا تھا،جب وہ بولتے تھے تو منہ سے موتی ٹپکتے تھے [13] بڑے بڑے صحابہ ان کی عظمت ووقعت کرتے تھے،حضرت عبداللہ بن عمرؓ جیسے بزرگ ان کی سواری کی رکاب تھام لیتے تھے۔ [14]
سیر وسیاحتترميم
مجاہد کو سیروسیاحت اورعجائبات عالم دیکھنے کا بہت شوق تھا،انہوں نے آس پاس کے تمام عجائبات دیکھے تھے۔
وفاتترميم
سنہ وفات کے بارہ میں روایات مختلف ہیں، باختلاف روایت 172ھ یا103ھ میں وفات پائی،عین سجدہ کی حالت میں سفرِ آخرت کیا راجع 103ھ ہے۔83 برس کی عمر میں 103ھ میں وفات پائی۔،عین سجدہ کی حالت میں سفرِ آخرت کیا وفات کے وقت تر اسی سال کی عمر تھی۔[15]
حوالہ جاتترميم
- ↑ General Diamond Catalogue ID: https://opac.diamond-ils.org/agent/7515 — بنام: Muǧāhid ibn Ǧabr
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۰)
- ↑ (تہذیب الاسماء،ج اول،ق ۲،ص۸۳)
- ↑ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۴)
- ↑ (دیکھو کتب مذکور حالات مجاہد)
- ↑ (شذرات الذہب :۱/۱۲۵)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ تہذیب التہذیب:10/43
- ↑ شذرات الذہب :1/125
- ↑ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۴)
- ↑ (شذرات الذہب :۱/۱۲۵)
- ↑ (شذرات الذہب:۱/۱۲۵)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۰)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ النشر فی القراءات العشر ،مؤلف : شمس الدين ابو الخير ابن الجزری