مینگل بلوچ قبیلہ

(مینگل سے رجوع مکرر)

مینگل براہوی کا ایک نامور قبیلہ ہے۔ یہ قبیلہ بنیادی طور پر بلوچستان کے علاقے میں واقع ہے، جو پاکستان، ایران اور افغانستان کے مختلف حصوں میں پھیلا ہوا ہے۔ مینگل بلوچستان میں براہوئی کا سب سے بڑا قبیلہ ہے جس کی آبادی تقریباً 4 لاکھ کے قریب ہے اس کے علاوہ مینگل بروہی سندھ اور افغانستان میں بھی آباد ہیں اور یہ اپنی مادری زبان براھوی بولتے ہیں۔۔

Mengal
مینگل
Baloch = [1]
زبانیں
براہوئی
بلوچی، سندھی اور پشتو دوسری زبان
مذہب
اسلام (اہل سنت حنفی)
اور اہل تشیع اقلیت (وھابی یا اہل حدیث اقلیت]])



مینگل بلوچوں کا ایک نامور قبیلہ ہے۔ اس کا صدر مقام ضلع خضدار کا تحصیل وڈھ ہیں۔ جہاں مینگل قبیلے کا سربراہ رہتا ہیں۔ مینگل بطور بلوچ پاکستان تمام تمام صوبوں میں موجود ہیں اس کے علاوہ نوشکی سے گرم سیر افغانستان۔ اور ایران کے مشرقی سرحد پر اور خلیج ممالک میں کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ اس قبیلے کی صدیوں پرانی تاریخ ہے، جو تجارت، زراعت اور روایتی طریقوں میں اپنی شمولیت کے لیے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے خطے کے سماجی و سیاسی منظر نامے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، اس قبیلے کے بہت سے نمایاں شخصیات بلوچ حقوق کے لیے رہنمائی کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں ہیں۔ مینگل قبیلے کی تاریخ بلوچ عوام کی وسیع تر تاریخ اور ان کے آباد علاقوں کی جغرافیائی سیاسی حرکیات سے جڑی ہوئی ہے۔ مینگل قبیلہ، دیگر بلوچ قبائل کی طرح، تاریخی طور پر زراعت، تجارت اور مویشی چرانے میں ملوث رہا ہے۔ انھوں نے نیم خانہ بدوش طرز زندگی کو برقرار رکھا ہے، بلوچستان کے ناہموار خطوں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ پوری تاریخ میں، بلوچ قبائل، بشمول مینگل، نے اکثر اتحاد بنائے، تنازعات میں مصروف رہے اور مقامی طرز حکمرانی میں اپنا کردار ادا کیا۔ مینگل قبیلہ، دیگر بلوچ قبائل کے ساتھ، بلوچ قوم پرست تحریکوں کا ایک اٹوٹ حصہ رہا ہے، جو زیادہ خود مختاری اور بلوچوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کی وکالت کرتا ہے۔ انھوں نے بلوچ عوام کے تاریخی بیانیے میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور خطے میں اپنی الگ شناخت کا دعویٰ کیا ہے۔

منگل پشتون قبیلہ

ترمیم

پشتون قوم میں ایک "منگل" قبیلہ موجود ہے جو بنیادی طور پر افغانستان اور پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ منگل مشرقی پکتیا اور ملحقہ افغانستان کے صوبہ خوست اور پاکستان کے ضلع کرم کے قصبے تری منگل میں مقیم ہیں۔ ان کی زمین لویا پکتیا (گریٹر پکتیا) کے شمال مشرقی حصے پر مشتمل ہے۔ منگل اپنا نسب کرلانی پشتونوں سے جوڑتے ہے۔ کرلانی کا مطلب ہے "گود لیا ہوا"۔ روایت کی جاتی ہے، کارلان کو کھانا پکانے کے برتن کے بدلے اپنایا گیا تھا اور اسے دو اورمور بھائیوں نے ایک خالی میدان میں پایا جہاں ایک فوج نے گذشتہ رات ڈیرے ڈالے تھے۔ اس کے بعد بے اولاد بھائی نے ایک برتن کے بدلے بچے کا تبادلہ کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کرلانیاں باقی قبائل کے برعکس غیر پشتون نسل کے گود لیے ہوئے قبائل ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے منگل اور مینگل ایک نسب سے یعنی اعظیم سیھتین یا ساکا قوم سے تھے جو اب پشتونوں اور بلوچوں میں منقسم ہو گئے ہیں۔

قبیلہ مینگل کے متعلق مورخین کی رائے

ترمیم

مینگل قبیلہ کے وجہ تسمیہ بنیادی و نسلی تاریخ کے متعلق جن مورخین نے روایات پیش کی ہیں ان پہ ایک نظر۔

1) "تاریخ بلوچستان" میں رائے بہادر ہتورام نے لکھا ہے : تمام مینگل جو وڈھ کی طرف رہتا ہے۔ شاہی زئی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو رند بلوچ کہتے ہیں۔ مینگل اصلاح کے معنی "مین کا لشکر" یا "مین کے لوگ" کے ہیں۔ جب میر چاکر رند قلات کی طرف آیا تھا۔ مینگل بھی اس وقت ہمراہ آیا تھا۔ جب چاکر قلات پر قابض ہوا تو مینگل نے اس سے صلاح کی اور ملک وڈھ و وہیر اقوام بزنجو سے چھین کر خود قابض ہوا۔

2) اس قبیلہ اور اس کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں گزیٹئر کے مئولفین نے درج ذیل کہانی لکھی ہے : جھالاوانی مینگل ماخذ کے لہذا سے جدگال بتائے جاتے ہیں۔

3) ٹیٹ نے اپنی تصنیف "احمدزئی خوانین قلات کے خاندان اور علاقہ" پر ایک تحقیقی مقالہ: میں لکھا ہے۔ خود مینگلوں کا خیال ہے۔ کہ وہ ابتدا میں سمرقند کے قرب و جوار میں رہنے والے لوگوں کی اولاد ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں۔ بلوچی زبان اسمائے جمع اور اسمائے ذات کی جمع عموما اسم کے ساتھ "گل" کا لاحقہ لگا کر بنائی جاتی ہے۔ اس طرح لفظ مینگل محض "مین" قبیلہ کو ظاہر کرتا ہے۔ "مین" ایک مشہور و معروف سیھتئن یعنی تورانی قبیلہ تھے۔ اور یہ نام کتبات بے ستون کی فہرس میں آیا ہے۔ جن میں ان سیھتئی قبائل کے نام درج ہیں۔ جنہیں داریوش نے ان کی شورش پسندی کی وجہ سے اپنی سلطنت کیانی یا (ہخمانشی) کی مشرقی سرحد پر جالاوطن کر دیا تھا۔ قلات میں قبیلہ اپنی بہادری کے لیے مشہور ہے۔

4) ڈاکٹر وحد بخش بزدار اپنے کتاب " بلوچستان قدیم تاریخی تناظر" میں لکھتے ہیں : مینگل قبیلہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ تاہم کردوں میں ایک قبیلہ منگور کے نام سے مشہور ہے۔ جو مہاآباد کردستان ایران میں مامش کردوں کے ہمسایہ ہے۔ ممکن ہے "ر" اور "ل" کے فرق کے ساتھ یہ دونوں باہمی اشتقاقی مماثلت کے حامل ہوں۔ سوات میں ایک علاقہ کا نام منگورہ ہے۔۔

5) الفت نسیم اپنے کتاب "اغلاط نامہ" میں مینگل قبیلہ کے متعلق لکھتے ہیں : مین اور گل کا مجموعہ مینگل کے معنی "مین کے لوگ" یا "مین کا لشکر" کے ہیں۔ "مین" کے معنی دلدل کے ہیں۔ یہ ایک دلدلی رقبہ ہے جو بارشوں میں تقریبا سواریوں کے لیے ناقابل گذر ہوتا ہے۔ یہ ضلع خاران کے میدانی علاقہ رخشان میں واقع ہے۔ اور پنچگور سے کوئٹہ کے راستے پر پنچگور سے ساٹھ ستر کلومیٹر کے فاصلے پر آتا ہے۔ اس میدان میں پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی کے درمیان بیسویں رند قبائل آباد تھے۔ قرب و جوار میں جتوں کی بھی آبادیاں تھے۔ جب رند قبائل کا قلات و کچھی کی طرف نقل مکانی کرنے لگے تو "مین" کے رندوں نے بھی بطرف قلات مہاجرات کی اور دشت گوران میں پڑاو کیا۔ یہ گروہ اپنے سابقہ مسکن "مین" کی نسبت سے "مین گل" کہلایا یعنی "مین کے لوگ" ان میں مختلف رند طائفوں کے لوگ شامل تھے۔ رند قبائل کی نقل مکانی کے بارے میں ایک بلوچی نظم کے ایک مصرع میں کہا گیا ہے "مینگل انت ہژدہ بار" یعنی مینگل قافلہ میں اٹھارہ اونٹوں پر ان کے خیمے اور گھر بار لدے تھے۔ مینگلوں کا دوسرا نسلی گروہ نوشکی کے زگر مینگل ہیں جو اسی دشت گوران قلات میں مینگل رندوں میں پنچگور سے آکر ملے۔ یہ پنچگور کی وادی گچک کے قدیم باشندے تھے۔ اور اصلی بنیادی اور نسلی بلوچ قبیلہ تھا۔ گچک میں رائیس قبیلہ کی بالادستی ہونے پر یہ قبیلہ اس کا ایک طائفہ شمار ہوتا تھا۔ چونکہ مینگل رند وہاں اکثریت میں تھے۔ اور زگر رائیس اقلیت میں تھے۔ اس واسطے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان پر بھی نام مینگل کا اطلاق ہوا۔ پنجگور کے علاقہ گچک میں ان کا قدیم مسکن "زگرانی گئور" زگروں کی ندی کے نام سے موجود ہے۔

6) ملک سعید دیوار "تاریخ بلوچستان" میں لکھتے ہیں : سفید ہُون قبائل مِنگ کے نام سے موسوم تھے۔ جس کا مطلب منگولی زبان میں ہزار ہے۔ بلوچستان میں مینگل قبیلے کے لوگ ان ہی سفید ہُون کی اولاد ہیں۔ یہ لفظ مِنگ اور گل سے مرکب ہے اور گل کا لفظ بلوچی اور براہوئی زبان میں جماعت اور طائفہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سفید ہٌون کا اصل علاقہ جو منگولیا میں واقع ہے ذنگریا کہلاتا ہے اور چاغى کے مینگل قبیلہ کے لوگ ذکر مینگل کہلاتے ہیں۔ اور یہ لفظ بھی غالبا ذنگریہ کا مخفف ہے۔ تاریخی شواہد کی کمی نہیں کہ بلوچستان میں سفید ہُون کی آمد سے بیشتر یہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ سگتیھائی یا ساکاوں پر مشتمل تھا۔

7) آغا نصیر احمدزئی "تاریخ بلوچ و بلوچستان" میں ایک شجرہ پیش کرتے ہیں اور حوالہ آخوند صالح محمد کے "کردگال نامک" کا پیش کرتے ہے جس میں مینگل کو براہیم قمبرانی کا دوسرا بیٹا ظاہر کرتے ہیں۔ یہی شجرہ قبیلہ قمبرانی سے میروانی قبیلہ سے جوڑتے ہے۔ مزید لکھتے ہیں مینگل امیر براہیم میروانی کا دوسرا بیٹا تھا۔ امیر براہیم کی وفات کے بعد مورخہ 29 دسمبر 1547ء بلوچ برادری کی سردار امیر گہرام ابن براہیم میروانی کو مقرر کر دیا۔ اور ان کے چھوٹے بھائی امیر مینگل کو انکا مشیر مقرر کیا گیا۔ اور ساتھ ساتھ بلوچ لشکر کا سپہ سالاری کا عہدہ بھی امیر مینگل کو دیا گیا۔ امیر گہرام میروانی کو ابھی دو سال ہوئے تھے۔ کہ سندھ کی طرف سے جدگالوں کا ایک بہت بڑا لشکر نے بلوچستان کے خطہ لسبیلہ میں داخل ہو کر کشت و خون کا بازار گرم کیا. جس کے نتیجہ میں امیر گہرام اور امیر مینگل سپہ سالار بلوچی لشکر. لسبیلہ میں داخل ہو کر جدگال لشکر کے امیر طاہر بوجا کو شکست فاش دی. اوتھل کے مقام پے دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا. زبردست لڑائی شروع ہوئی. بلوچوں کی طرف سے امیر مینگل میروانی سپہ سالار بلوچی لشکر نے شجاعت کے نمایاں کارنامے انجام دیے۔ طاہر بوجا کو شکست ہوئی. وہ خود لڑائی میں کام آیا. اس جنگ میں بلوچوں کو بے شمار اونٹ. گھوڑے مویشی اور سامان ہاتھ آیا. مگر افسوس امیر بلوچستان امیر گہرام میروانی اسی جنگ میں شہید ہو گئے۔ لہذا اس کے بھائی امیر مینگل بعد فتحیابی لشکر بلوچ اپنے بھائی کی میت کو سوراب کے مقام نغاڑ میں میروانی امرا کے قبرستان میں سپرد خاک کیا. اور خد قلات پہنچا. امیر مینگل کے دو بیٹیوں زگر اور شاہی کے اولاد نے زگر مینگل اور شاہی زئی مینگل دو بڑے گرہوں کو جنم دیا۔ اور اس طرح بلوچوں کے معروف قبیلہ مینگل وجود میں آیا.

8) بلوچستان کے مشہور و معروف شاعر جسے ملک الشعراء کا خطاب حاصل ہے میر گل خان نصیر ہے اس کا تعلق نوشکی کے ذکر مینگلوں سے ہے اپنے کتاب "بلوچستان قدیم اور جدید تاریخ کی روشنی میں" قبیلہ مینگل کے متعلق لکھتے ہیں : بعض مورخین کے رائے میں مینگل سفید ہونوں کا وہ قبیلہ ہے جو "مِن یا مِنگ" کہلاتا تھا۔ گل ، کوشانی ، دراوڑی اور بلوچی کا ایک مشترکہ لفظ ہے جو صیغہ جمع کے لیے بولا جاتا ہے۔ جیسے بُزگل (بکریاں کا ریوڑ) جَت گل (ساربانوں کا گروہ) وغیرہ۔ جب یہ مِن یا مِنگ نقل مکانی کر کے اس سرزمین میں وارد ہوئے جہاں اس زمانے میں "کوشانی" آباد تھے تو مقامی زبان میں یہ لوگ "مِن گل" یا "مِنگ گل" یعنی مِنوں کی ٹولی یا طائفہ کہلائے۔ اور اس طرح رفتہ رفتہ یہ لوگ مٍنگل. مَنگل اور مینگل مشہور ہوئے۔ مورخ کہتے ہیں کہ اس سرزمین پر آکر ان مِنگوں کا ایک طائفہ شمال مشرق کی طرف کے کوہستان میں برابر آگے بڑھتا رہا۔ چنانچہ پاراچار اور اُس سے متصل افغانستان کے علاقے میں جو قبیلہ مَنگل کہلاتا ہے وہ اسی طائفے کے لوگ ہیں۔ ان کا ایک دوسرا طائفہ برابر جنوب مشرق کی طرف آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ راجپوتانہ پہنچ گیا۔ وہاں پر آباد ہوا اور اب "مِن ہاس" یا مِنہاس کہلاتا ہے۔ یہا یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ راجپوتوں کا ایک طائفہ ایسا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ترکستان سے آیا ہے۔ گجرات کا آخری راجا کِرن باگھیلا جس نے سلطان علاؤ الدین خلجی سے کئی لڑائیاں لڑیں۔ اِسی طائفے سے تھا۔ مینگل بھی خود کو ترکستان سے آنے والے ترک کہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سفید ہُون بھی ترک تھے۔





مینگل بزنجو جنگ

ترمیم

ہربوئی کی پہاڑیوں میں رہنے والے کچھ مینگلوں اور بزنجووں کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ جس میں 18 شاہی زئی مینگل مارے گئے۔ اس کے معاوضہ میں مینگلوں کو وڈھ ملا اور انھوں نے بعد میں بزنجووں کو وہیر سے بھی نکال دیا۔ مویشیوں کی چوری اور نتیجتا جھگڑے دونوں قبیلوں میں جاری رہے. اور شدید لڑائیاں ہوئیں جن میں سے ایک میں دو مینگل بھائی کمال اور جمال مارے گئے۔ آخری لڑائی میں جو باران لک پر ہوئی، مینگل اس دفعہ جیتے لیکن اپنا مشہور نور الدین کھو بیٹھے جو پہلوانزئیوں کے مورث پہلوان کا بیٹا تھا۔ بالآخر ایک تصفیہ ہوا اور صلح ہوئی جس کی شرائط کے تحت بزنجووں نے وڈھ سے لحق ڈراکالووادی کا بالائی نصف مینگلوں کو بطور معاوضہ دے دیا.



میر داد محمد شاہی زئی مینگل

ترمیم

میر داد محمد ایک بہادر جنگجو شخص تھا۔ اور امیر قلات سخی سمندر خان کے دور سے بلوچی لشکر کا سپہ سالار تھا۔ 1714ء میں میر سمندر خان نے اپنے چچازاد کے بیٹے احمد خان ابن محراب احمدزئی کو خان منتخب کر دیا۔ میر احمد خان ثانی نے اپنے بھائی میر عبد اللہ خان احمدزئی کو شالکوٹ (کوئٹہ) کا گورنر مقرر کیا. میر عبد اللہ کا یہ عقیدہ تھا۔ کہ بلوچستان کا امیر ایک سورما صفت فرد خاندان احمدزئی کا ہونا چاہیے. جو سچی بات کہنے میں نہ جھجکتا ہو. لہذا وہ قلات میں اپنے بھائی کے ساتھ ہوتا یا اس سے دور ہوتا دونوں صورتوں میں وہ بلوچستان کے سیاسی حالات کو تبدیل کرنے میں تلا تھا۔ کہ بلوچستان کی حکومت کا شیرازہ نہ بھکر جاے. اور وہ تمام مقبوضات جو ان کے باپ دادوں نے اپنا خون بہا کر بزورشمشیر حاصل کیا تھا۔ میر عبد اللہ خان شالکوٹ کا گورنر ہوتے ہی ساراوان کے قبائلی عمائدین سے صلاح و مشوروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سب سے پہلے میر فیروز خان طائفہ جمالزئی رئیسانی نے ان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ پھر بعد میں ساراوان کے دیگر سردار بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ میر عبد اللہ خان احمدزئی بلوچ کا مستونگ پر حملہ عبد اللہ خان کی طرف سے میر فیروز خان جمالزئی رئیسانی میر عیسی خان رئیسانی اور سردار عمر رئیسانی اپنے چند خاص آدمیوں کے ساتھ شالکوٹ پہنچ گئے۔ جب خان احمد خان احمدزئی کو جنگی تیاریوں کا پتہ چلا تو ساراوان اور جھالاوان سے سات سو کا لشکر جمع کر کے. وزیر آخوند صالح محمد سپہ سالار میر داد محمد شاہی زئی مینگل کے ساتھ عبد اللہ خان کے سرکوبی کے لیے نکلا. مستونگ کے علاقہ بدرنگ کے مقام پے دونوں بھائیوں کا مقابلہ ہوا. میر داد محمد شاہی زئی مینگل ایک جنگ آزمودہ اور تجربہ کار جنگی سورما تھا۔ امیر سمندر خان کے ساتھ کئی لڑائیوں میں شہرت حاصل کر چکا تھا۔ اس لڑائی میں امیر بلوچستان خان احمد خان احمدزئی کی طرف سے لڑ رہا تھا۔ جب عبد اللہ خان نے دیکھا کہ میر داد محمد شاہی زئی مینگل کی خون آشام تلوار کے سامنے کسی شخص کو ٹھہرنے کی جرت نہیں ہوئی اور لشکر سرا سمیہ ہو رہا ہیں۔ داد محمد کو للکارا داد محمد جھپٹا عبد اللہ نے پنتیرا بدلہ. عبد اللہ خان ابھی سنبھلنے نہیں پایا تھا۔ کہ میر داد محمد نے اس پر پے در پے تین چار وار کیے. میر عبد اللہ خان کے کندھوں اور چہرے پہ زخم آئے. اس کے بعد عبد اللہ خان نے خود کو سنبھال لیا. پلٹ کر ایک وار میر داد محمد کے سر پر کیا. تلوار میر کے سر میں پیوست ہو گیا۔ 24 ستمبر 1715ء کو شہید ہو گئے۔ میر کے شہید ہوتے ہی احمد خان کا لشکر منتشر ہو گیا۔ میر عبد اللہ خان احمدزئی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مستونگ پر قبضہ کیا.


سورگز کی لڑائی

ترمیم

جام میر خان اور سردار نوردین خان مینگل کے درمیان خاندانی رشتہ داری تھی. مگر سردار نوردین خان کے خان خدائیداد خان سے ناراض ہوکر جام میر خان کے ساتھ ملنے کی بڑی وجہ یہ کہ بار ثانی تخت نشین ہوکر میر خدائیداد خان نے اسے سردار ملا محمد رئیسانی اور سردار تاج محمد زہری کے مقابلہ میں بالکل نظر انداز کر دیا۔ خان کے اس سلوک سے وہ ناراض ہوکر وڈھ چلا آیا. یہاں پر جام میر خان نے جو اس کی بھڑکیلی اور جذباتی طبیعت سے واقف تھا۔ اسے خان کے خلاف ابھار کر اپنے ساتھ ملا لیا. جون 1865ء کو لاسی اور مینگل قبائل سے ایک بہت بڑا لشکر ساتھ لے کر جام میر خان اور سردار نوردین خان مینگل نے میر کمال خان کی جاگیر پر قبضہ کرنے کی غرض سے خضدار کا رخ کیا. ان کے حملہ کی خبر جب قلات پہنچی تو خان نے شاغاسی ولی محمد کی زیر سرکردگی اور کماندار شیر خان کی زیر قیادت پلٹن، رسالہ اور سواران حملہ کی. جام میر خان اور سردار نوردین خان مینگل نے خضدار پہنچ کر سورگز کو مقام پر کیمپ کیا. سردار نوردین کے لشکر کو پہاڑوں پر مورچہ بند ہونے کی وجہ سے بالادستی حاصل تھی. اسی دن سردار تاج محمد زرکزئی اور دروغہ عطا محمد بھی زہری سے لشکر لے کر شاغاسی کی امداد کو پہنچ گئے۔ دوسرے دن لڑائی میں سردار نوردین کے مینگل لشکر مقابلہ میں زہری بزنجو قبائل کا لشکر بائیں جانب کی پہاڑیوں پر قابض تھا۔ دور دور سے بندوقوں کی لڑائی ہوتی رہی. لیکن سردار نوردین کے مینگل لشکر نے اچانک اپنے مضبوط سنگر چھوڑ اور تلواریں سونت کر قبیلہ زہری اور بزنجو کے مورچوں پر حملہ کر دیا۔ زہری اور بزنجو لشکر تاب نہ لاکر راہ فرار اختیار کرگیا. سردار تاج محمد اور دروغہ عطا محمد نے اسی آدمیوں کے ساتھ آگے بڑھ کر مینگل لشکر کے حملہ روک دیا۔ اسی اثنا میں لشکر زہری اور بزنجو جو بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ واپس مڑ کر سردار تاج محمد کے ساتھ مل گئے۔ سردار تاج محمد کے پہلے ہی جوابی حملہ میں مینگل پسپا ہوکر جام کے ساتھ جا ملے. دو بدو لڑائی شروع ہوئی جام میر خان کے لشکر سے تھوڑے ہی آدمی گرے تھے کہ لشکری زیدی کی طرف بھاگ نکلے. مینگل بھی زیادہ دیر جم نہ سکے تھوڑی دیر بعد وہ بھی منتشر ہوکر راہ فرار اختیار کرگیے. جام میر خان اور سردار نوردین فوج کے گھیرے میں آچکے تھے۔ بالآخر گرفتار کر لیے گئے۔ انھیں قلات لایا گیا جہاں پر شاغاسی ولی محمد کے زیر نگرانی نظر بند رکھے گئے۔ کچھ مہینے بعد خان نے انھیں خلعت دے کر عزت و احترام کے ساتھ رہا کر دیا.



مینگل خدرانی جنگ

ترمیم

خدرانی عرصہ سے مینگلوں کے ساتھ بر سر پیکار ریے ہیں۔ جس کی ابتدا خدرانی علاقہ میں ساسولیوں کے جانوروں کو مینگلوں کے بھگا کر لے جانے سے ہوئی. جھگڑا 1889ء میں بہت سنگین صورت اختیار کر گیا جب خدرانی کی تاب نہ لاکر سندھ کی طرف بھاگ گئے اور مینگلوں نے ان کا تعاقب کیا سردار یار محمد کرد نے طرفین میں صلح کرادی جس کے تحت مینگلوں کو 5600 روپے بطور خون بہا اور 2500 روپے بطور جرمانہ بر بنائے حملہ برطانوی علاقہ ادا کرنا پڑے اور مویشی اور اسلحہ طرفین نے ایک دوسرے کو بحال کرنا تسلیم کیا. اس معاہدہ پر عمل ہورہا تھا اور مینگلوں سے کچھ رقم بھی وصول کرلی گئی تھی کہ خدرانیوںنے پھر معاہدہ توڑ دیا اور ان کا سردار کمال خان زیر نگرانی رکھ دیا گیا۔ نومبر 1890ء میں سندھ کو جانے والے مینگل قافلہ پر رہزن زئی خدرانیوں نے حملہ کر دیا اور دو شاہی زئی مینگل مارے گئے اور ایک زخمی ہو گیا۔ 1891ء میں ثالثوں نے فیصلہ دیا کہ مینگلوں کو 1672 روپے 8 آنے ملنے تھے اور انھیں خدرانیوں خو 4632 روپے بطور معاوضہ نقصان ادا کرنے تھے مزید برآں دونوں قبائلی سرداروں سے آئندہ امن و آشتی کی ضمانتیں لی گئیں.


سردار عطاء اللہ مینگل

ترمیم

سردار عطاءاللہ مینگل

سردار عطاء اللہ مینگل 13 جنوری 1930ء میں بمقام وڈھ سردار رسول بخش مینگل کے گھر پیدا ہوئے. کراچی کے ایک سیکنڈری اسکول سے کمسن عطاء اللہ کو اٹھا کر قلات میں لایا گیا اور سردار قبیلہ مینگل کے طور پر ان کی دستار بندی کی گئی.(ان کے والد کو جلاوطن کر دیا گیا تھا) تو خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں وڈھ پہنچنے پر ان کو سرداری کا ایک بڑا امیدوار قتل نہ کرا دے چنانچہ خان آف قلات نے انھیں (جو ان کے ہم زلف کزن اور انتہائی اعتماد کے انتظامی افسر ماظم اعلی بھی تھے) نوجوان سردار عطاء اللہ مینگل کے ہمراہ محافظوں کی نفری کے ساتھ وڈھ بھیجا کہ وہاں جاکر مینگل قبیلے کے تمام معتبرین کو خان کے فیصلے اور اقدام سے آگاہ کر دیں. عطاء اللہ مینگل کی حفاظت کریں اور قبیلے کو ان کی حمایت و اطاعت پر پوری طرح آمادہ کریں. آغا میر حاجی خان احمدزئی بتاتے تھے کہ میں نے وڈھ میں کیمپ لگا کر سردار عطاء اللہ کی ذات کے تحفظ اور ان کی سرداری کے استحکام کرکے دوام کے لیے خان صاحب کی حدایت کے مطابق شبانہ روز کام کیا اور اپنا مشن مکمل کر کے کچھ دن بعد قلات لوٹ کر خان معظم کو رپوٹ پیش کی تھی. سردار عطاء اللہ خان مینگل کو اکثر و بیشتر شعلہ سخن پایا ہیے کڑوے کسیلے لہجے میں بولتے سنا ہیے. سردار عطاء اللہ خان مینگل کی ذات سے بے شمار لوگوں نے بے پناہ محبت کی. ان پر شاعری کی ان کے کیسٹ گردش پزیر ہوئے. وقت کے حاکم نے اس شخص کو توڑنے اور گرانے کے لیے جعلی مقدمے بنائے. اس کے افراد خانہ کو گرفتار کیا گیا۔ اس کی قوم کو بمباری اور غارت گری کا نشانہ بنایا. یہ سلسلہ چلتا رہا. برسوں تک. سردار عطاء اللہ خان مینگل نے بلاشبہ قید و بند کے طویل اور پرصعوبت مراحل کو برداشت کیا. سن شعور یعنی سرداری سے لے کر ون یونٹ اسمبلی کی رکنیت اور اپنے نور چشم اسد مینگل کی سفاکانہ اور پراسرار ہلاکت تک انھوں نے بہت سے صدمے سہے. عوامی حقوق کی عظیم جدوجہد کی. سردار عطاء اللہ خان مینگل ایک بلند آہنگ لیڈر ہیں۔ 1956ء میں سردار عطاء اللہ سیاست کی میدان میں قدم رکھا اور صوبائی اسمبلی مغربی پاکستان اسمبلی میں سردار ضلع قلات منتخب ہوئے 1958ء کے مارشل لا میں اسمبلی توڑ دی گئی۔ 1958 میں میں نیشنل عوامی پارٹی (NAP) میں شمو لیت اختیار کی میر غوث بخش بزنجو پہلے سے نیپ کا رکن تھے۔ 1962ء میں مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کے ارکان کی حیثیت سے الیکش لڑا اور Nw-4 (قلات، خاران، مکران) کی نشست حاصل کی. ایوب خان کے آمرانہ اقدامات کے خلاف قومی اسمبلی میں تقریر کرنے پر سردار عطاء اللہ خان مینگل کو دو سال جیل میں ڈال دیا گیا۔ 1970 کے انتخابات میں نیپ کو کامیابی ملی سردار عطاء اللہ خان مینگل بلوچستان کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے. اور بلوچستان کا پہلا وزیر اعلی مقرر ہوئے. وزیر اعلی بننے کا دور۔ 1 مئی 1972 تا 13 فروری 1973 وزیر اعلیٰ بننے کے دوران اہم کام. بلو چستان کا پہلا یونیورسٹی۔ بولان میڈیکل کالج۔بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن اور حب کو بلوچستان کا پہلا انڈسٹریل سٹی قرار دلوایا مینگل کی بہترین کاوشوں کے باوجود ، نیپ کی حکومت کئی بحرانوں میں ڈوبی ہوئی تھی جو اس کی حکومتوں کی برخاستگی کے ساتھ اختتام پزیر ہو گئی۔

جس کا پہلا واقعہ اس وقت ہوا جب محکمہ بلوچستان پولیس ، زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد یا پنجابی تھے۔  چونکہ یہاں ایک دفعہ موجود تھا کہ وفاق کے صوبوں میں ملازمین ون یونٹ کی تحلیل کے بعد اپنے صوبے اصل میں واپس آجائیں گے۔  بیشتر افسران نے اس بات کو چھوڑنے پر اصرار کیا اس حقیقت کے باوجود ، سردار عطاء اللہ مینگل نے بطور وزیر اعلیٰٰ بلوچستان اسمبلی میں ڈومیسائل کیٹیگری کو ختم کرنے کی ایک قرارداد پیش کی اور تجویز پیش کی کہ جن لوگوں نے کئی نسلیں صوبے میں گزاریں انھیں مقامی لوگوں کی طرح سلوک کیا جائے۔  (رحمن 2006)۔  بعد میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ افسران کو پیپلز پارٹی کے حامیوں اور اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب غلام مصطفی کھر کی کوششوں کے ذریعہ رخصت ہونے پر اکسایا گیا۔

پولیسنگ کے بحران نے اس کے بعد ہونے والے انٹرا قبائلی تنازع کو بھی جنم دیا ، جس کا ایک بار پھر بلوچ قوم پرستوں کا خیال ہے کہ اس وقت کے وزیر داخلہ عبد القیوم خان نے مشتعل کیا تھا۔ تاہم ، آخری تنکے اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے اور نواب اکبر بگٹی کے "لندن پلان" کے اعلان میں اسلحے کی دریافت تھی ، جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں نیپ کی زیرقیادت حکومتیں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لہذا ، ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت ، 1971 کی بنگلہ دیش آزادی جنگ کی تذلیل سے تازہ ہوکر پاکستان کو توڑنے کے لیے عراق سے اسلحہ کی کھیپ کا بہانہ استعمال کرتی رہی اور 1973 میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کو برخاست کر دیا گیا۔ عطاء اللہ مینگل اور ان کے ساتھیوں ، بشمول غوث بخش بزنجو اور خیر بخش مری نیپ کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ سردار عطاء اللہ مینگل جیل میں تھا اس کے بیٹے اسد جان کو کراچی سے آتے ہوئی اغوا کیا اور آج تک اسد مینگل کا کوئی پتہ نہیں چلا. بلوچستان میں گورنر راج نافز کیا گیا نواب اکبر بگٹی گورنر بلوچستان بن گے۔ 1979 میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں نیپ لیڈر شپ کو جیل سے رہائی ملیں ۔ ایک کمیشن ، جسے بعد میں حیدرآباد ٹریبونل کے نام سے جانا جاتا ہے ، پی پی پی کی زیر قیادت حکومت نے تشکیل دی تھی اور نیپ کے رہنماؤں کو اس کی مشکوک قانونی حیثیت کے باوجود مجرم قرار دینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور اب یہ کام بدنام ہو گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ، ذو الفقار علی بھٹو نے بھی ، فضائیہ کا استعمال کرکے اور شاہ ایران کی حکومت کے تعاون سے ، بلوچستان میں شورش کو ختم کیا۔ تاہم ، کچھ قبائلی اس بغاوت میں شامل نہیں ہوئے اور اپنے شریک قبائلیوں کو دبانے میں حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔ حکومت اور پاکستانی فوجی انٹلیجنس اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کرنے والے قبائلیوں میں میر ظفر اللہ خان جمالی کے خاندان کی سربراہی میں جمالی بھی شامل تھے ، جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعظم بنے تھے۔

جنرل محمد ضیاء الحق کے ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت کا اقتدار ختم کرنے کے بعد ، حیدرآباد ٹریبونل کو سمیٹنے اور تمام نظربندوں کی رہائی کے لیے بات چیت کا آغاز کیا گیا جس کے نتیجے میں 1979 میں ان کی آخری رہائی ہوئی۔

اس وقت تک نیپ کے رہنما ولی خان اور بلوچ رہنماؤں عطاء اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کے مابین واضح تفریق۔ مینگل اور بہت سے دوسرے بلوچ نیشنلسٹ تیزی سے یہ سمجھتے ہیں کہ فوج ایک سفاکانہ فوجی کارروائی کی ذمہ دار ہے اور ان کی زبردستی مخالفت کی جانی چاہیے ، جبکہ ولی خان نے ذو الفقار بھٹو کے ساتھ زیادہ ذاتی تلخی محسوس کی کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ بھٹو نے ایک سے زیادہ موقعوں پر اس کے قتل کا حکم دیا ہے۔ . یہ تقسیم اس وقت مکمل طور پر پھٹ گئی جب عطاء اللہ مینگل نے خیر بخش مری کے ساتھ اتحاد کیا اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (اس وقت کے کالعدم نیپ کا جانشین) لینے کی کوشش کی۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر شیرباز خان مزاری اور بلوچ کاز کی ایک فاتح نے ان اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ جب یہ کوشش ناکام ہوئی تو عطاء اللہ مینگل پارٹی چھوڑ گئے۔ اس کے نتیجے میں وہ جلاوطنی میں چلا گیا اور برطانیہ میں پناہ گاہ حاصل کی ، جہاں اس نے کابل میں حکومت کے ذریعے سابق سوویت یونین کے حکام سے رابطہ قائم کیا اور ماسکو سے مالی اور رسد کی حمایت حاصل کی۔

جب سینٹرل انٹلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) نے پاکستان کی بین الاقوامی سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ذریعے افغان مجاہدین اور دیگر اسلامی بنیاد پرست عناصر کو تربیت یافتہ اور مسلح کیا اور انھیں افغانستان میں سوویت فوجوں کا خون بہانے کے لیے استعمال کیا تو مری اور مینگل اس سے دور ہی رہے  سوویت مخالف جہاد اور سرحد کے پاکستانی جانب سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی سرگرمیوں کے بارے میں انٹلیجنس اکٹھا کرنے میں سوویت انٹلیجنس ایجنسی کے جی بی  اور کے ایچ ڈی کی مدد کی۔  

افغان جہاد کے دوران سردار عطاء اللہ مینگل نے جلاوطنی اختیار کی. قیام لندن کے دوران مینگل قبیلے کی سرداری اپنے بڑے بیٹے سردار منیر احمد مینگل کو سونپ دی وہ نہایت برد بار اور متوازن نوجوان تھا اور بہت کم عرصے میں اس نے مقبولیت اور ہردلعزیزی حاصل کرلی تھی. مگر افسوس کہ عین شباب میں دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا چونکہ مرحوم کے جانشین ابھی کم سن تھے۔ اس لیے سردار عطاء اللہ مینگل کے دوسرے صاحبزادے اختر مینگل قائم مقام سردار بن گئے۔

 1995 میں پاکستان واپسی پر بلو چستان نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی. جو صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری۔  مینگل کے بیٹے ، سردار اختر مینگل نے 1997 میں وزیر اعظم بلوچستان کی حیثیت سے ، نواز شریف کی صدارت کے دوران خدمات انجام دیں۔

اختر مینگل کی حکومت اکبر بگٹی اور عطاء اللہ مینگل کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت قائم ہوئی کہ پانچ سال کا نصف عرصہ اختر مینگل اور اس کے بعد ڈھائی سال کے عرصہ نوابزادہ سلیم بگٹی کی حکومت ہوگی. صوبہ بلوچستان میں یہ ایک ایسی حکومت تھی جسے وفاق کی حمایت بھی حاصل تھی. مگر یہ حکومت ڈھائی سال سے زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی. اور 1997 تک وزیر اعلی بلوچستان رہے. سردار عطاء اللہ خان مینگل بہت جرات مند گفتار مدبر، معاملہ فہم اور پرکشش انسانی صفات کے مالک. سردار عطاء اللہ خان مینگل بلوچستان کا واحد اور پہلا دیسی منتخب وزیر اعلی نہیں تھا ، بلکہ وہ ملک کا ، غالبا دنیا کا، پہلا قبائلی سردار بھی تھا جو اپنے لوگوں نے منتخب کیا تھا۔ جب قبائلی سردار کی حیثیت سے ذمہ داری قبول کرنے کے لیے کہا گیا تو اس کا رد عمل قبیلے میں سے ایک موزوں ترین شخص کو لینے کا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد مینگل قبیلے کے ایک عظیم جرگے نے انھیں ووٹ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انھیں ایک انوکھا قبائلی سردار بنا دیتا ہے ، جسے اپنے ہی لوگوں نے منتخب کیا ہے۔

قبیلہ مینگل کے طائفوں کا فہرست

ترمیم

شاہی زئی۔ زگر۔ میراجی۔ پہلوان زئی۔ شادبان زئی۔ محمد زئی۔ باران زئی۔ گورانی۔ گمشاد زئی۔ شیخ۔ مردوئی۔ مکالی۔ گزگی۔ لہڑی. غلامانی۔ رئیسانی۔ کرد۔ نتھوانی۔ عمرانی۔ خدرانی۔


قبیلہ مینگل کے طائفوں کا فہرست :

شاہی زئی۔ زگر۔ میراجی۔ پہلوان زئی۔ شادبان زئی۔ محمد زئی۔ باران زئی۔ گورانی۔ گمشاد زئی۔ شیخ۔ مردوئی۔ مکالی۔ گزگی۔ لہڑی. غلامانی۔ رئیسانی۔ کرد۔ نتھوانی۔ عمرانی۔ خدرانی۔ گنگو۔ چھٹو۔ لانگو

☆شاہی زئی☆ شاہی زئی مینگل قبیلہ کا سرخیل طائفہ ہے۔ جھالاوان کے اکثریتی مینگل غلط العام خود کو شاہی زئی کہلاتے ہیں حالانکہ شاہی زئی اس قبیلے کا سردار خیل ہے۔ سردار خاندان کا تعلق رحیم خان زئی شاخ سے ہے۔ کچھ شاہی زئی ٹک میں رہنے کی وجہ سے ٹک شاہی زئی کہلاتے ہیں۔ مینگل قبیلہ کا صدر مقام وڈھ ہے جہاں سردار رہتا ہے۔ یہ لوگ وڈھ سے کراچی تک کے کوہستان میں آباد ہیں۔ شاہی زئی کا ایک ذیلی شاخ "بادین زئی" ہیں جو کچھی و ساروان میں آباد ہیں۔ وہ لہڑی نیابت میں چھتر پھلجی طاہر کوٹ میں غمی زمینوں کے مالک ہیں۔ جھالاوان کا بیرک شاہی زئی مینگلوں کے پاس تھا۔ لیکن ایک قبائلی معرکے میں زرکزئی زہری اسے لے گئے۔ مینگلوں نے اس توہین اور چوٹ کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ اور ان دونوں قبائل کے درمیان کئی نسلوں سے مخاصمت رہی ہے۔۔ اس طائفہ کے سردارن نے ہمیشہ تاریخ میں اپنا ایک الگ مقام قائم کیا۔ ان میں سردار رحیم خان مینگل اول۔ میر داد محمد مینگل۔ شہید سردار ولی محمد مینگل۔ شہید سردار نور الدین مینگل اول۔ سردار شکر خان مینگل۔ شہید سردار نور الدین مینگل غازی۔ میر علم خان مینگل۔ میر جمعہ خان اور راہشون سردار عطاء اللہ مینگل گذرے ہیں۔ مینگل قبیلے کا موجودہ سربراہ سردار اسد اللہ مینگل ہیں۔ وہ مرحوم سردار منیر مینگل کا بیٹا اور سردار عطاء اللہ مینگل کا پوتا ہیں۔۔

☆زگر☆ یہ لوگ قلات کے شمال مغربی پہاڑوں اور نوشکی میں سرحد کے دونوں طرف آباد ہیں۔ گزیٹئر میں زگر مینگلوں کو زکریا نامی شخص کے اولاد ظاہر کیا ہے۔ مزید لکھتے ہیں زکریا مینا کا بیٹا تھا جو ابراہیم کا بیٹا تھا۔ یہی روایت آغا نصیر احمدزئی نے آخوند صالح محمد کے "کردگال نامک" اور آخوند محمد صدیق کے "اخبار العبرات" سے نقل کیا ألف نسیم زگر مینگلوں کو مکران کا قبیلہ رئیس سے جوڑتے ہے اور پنچگور کا علاقہ گچک کے اصل باشندے قرار دیتا ہے جس میں کوئی صداقت نہیں۔ زگر مینگلوں کا بنیادی طائفہ ہے۔ یہ طائفہ اپنی بہادری کے لیے مشہور ہے۔ خوانین قلات میں اس طائفہ کی بڑی اہمیت رہی ہیں۔ زگر مینگلوں کا صدر مقام نوشکی ہے۔ اس کے علاوہ چاغی۔ قلات۔ مستونگ۔ کچھی۔ ایران و افغانستان میں کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ زگر مینگل کے دو اہم شاخوں میں منقسم ہیں بادین زئی اور نوح زئی پر مشتمل ہیں دونوں مزید سینکڑوں ذیلی شاخوں میں تقسیم ہیں ہر طائفہ کا اپنا سربراہ ہیں۔ اس طائفہ میں بہت سے معروف شخصیات گذرے ہیں۔ جن میں سردار پردل خان مینگل۔ سردار احمد خان مینگل۔ سردار فاضل خان مینگل۔ میر قائم خان مینگل۔ سردار رحمان خان مینگل۔ میر قادر بخش مینگل۔ سردار محمد علی خان مینگل۔ میر چندڑ خان مینگل۔ میر مراد خان مینگل۔ میر گل محمد مینگل۔ میر باز خان مینگل۔ میر گل خان نصیر مینگل۔ میر لونگ خان مینگل۔ سردار بلند خان مینگل۔ سردار جیند خان مینگل۔ میر امیر المک مینگل۔ میر اکرم خان مینگل۔ میر عاقل خان مینگل۔ سردار مصطفی خان مینگل۔ میر خالد مینگل جیسے بہت سے شخصیات گذرے ہیں

☆میراجی☆ یہ طائفہ مِعراج نامی مینگل کے اولاد ہونے کی نسبت سے مِعراجی کہلائے جو اب غلاط العام مِیراجی مشہور ہیں۔ گزیٹئر کے مئولفین نے میراجی طائفہ کو تین حاجیوں میر حاجی۔ حاجی مری اور حاجی بروری کی اولاد ظاہر کیا ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے تینوں حاجیوں کا تعلق کس قبیلے سے تھا اور وہ مزید لکھتے ہیں یہ پہلے پہاڑیوں میں آباد ہوئے پھر مینگلوں نے ہمسایہ بنا لیا۔ اس روایت میں کوئی صداقت نہیں۔ دراصل طائفہ میراجی کا تعلق معراج نامی مینگل شخص سے ہیں یہ لوگ زیادہ تر سارونہ۔ پب کی پہاڑیوں میں۔ کرخ کے علاقہ کھوڑی اور سوراب میں ملتے ہیں۔ اور شاہی زئی سردار کو اپنا سردار مانتے ہیں۔ میراجی مزید سینکڑوں طائفوں میں تقسیم ہیں جن میں درازئی۔ ہوروزئی۔ شمبے زئی۔ اور دلشادزئی مشہور ہے۔ اس طائفہ کا موجودہ سربراہ کھوڑی میں رہائش پزیر ٹکری میر محمد خان مینگل ہیں۔

☆پہلوان زئی☆

پہلوان زئی قبیلہ مینگل کا ایک کثیر التعداد طائفہ شمار ہوتا ہے یہ طائفہ کے لوگ بہت بہادر ہوتے یہ۔ پہلوان نامی مینگل شخص کے اولاد ہیں۔ کچھ مورخ انھیں ایرانی ماخذ بتاتے ہیں۔ دراصل سارے مینگل پہلے قلات میں آباد تھے۔ میر احمد خان اول کے دور میں قبیلہ مینگل اور قبیلہ رئیسانی کو ساروان و جھالاوان کے سرحدوں کی حفاظت اور وہاں رہ کر تمام قبائل کا سربراہ

یعنی ساروان کے قبائل کا سربرہ رئیسانی اور جھالاوان کے قبائل کا سربراہ شاہی زئی مینگل کو منتخب کر کے روانہ کیا گیا۔ جب رئیسانی قلات سے ساروان موجودہ کانک پہنچ گئے تو ساروان کے دوسرے قبائل نے خان قلات کی طرف سے منتخب کردہ سر ساروان رئیسانی کی سربراہی تسلیم کیا لیکن مینگل جب جھالاوان کی سرحد وڈھ پہنچ گئے تو قبیلہ بزنجو نے مینگلوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ جن کی خون بہا میں وڈھ اور وہیر مینگلوں کو ملا اور بزنجو وڈھ چھوڑ کر نال میں آباد ہو گئے۔ وڈھ ہجرت کرتے وقت شاہی زئی مینگلوں کے علاوہ کثیر تعداد میں پہلوان زئی۔ شادبان زئی اور معراجی مینگل شامل تھے۔ اس کے علاوہ سیاہی زئی رئیسانی جو وہیر میں آباد ہو گئے اور اب مینگل شمار ہوتے ہیں۔محمد زئی مینگل جو باڈری میں آبادی ہے۔ باران زئی مینگل۔ زگر مینگل کا ایک طائفہ محمود زئی۔ گرگناڑی کا ایک طائفہ محمودانی بھی شامل تھے۔ پہلوان زئی کا سربراہ قلات کے علاقہ گرانی میں آباد ہیں۔ پہلوانزئی نو بڑے طائفوں میں تقسیم ہیں : حمل زئی۔ شادمان زئی۔ دولت خان زئی۔ رمدان زئی۔ دینار زئی۔ ہوتکاڑی۔ براہیم زئی۔ نوہک زئی اور پلی زئی پر مشتمل ہیں۔ اس طائفہ کے بہت سے بہادر شخصیات گذرے ہیں جن میں میر نورا مینگل۔ شہید میر حسن مینگل۔ میر جنگی خان مینگل۔ میر حمزہ خان مینگل۔ وڈیرہ مٹھا خان مینگل سمیت بہت سے بہادر جنگجو گذرے ہیں۔ اس طائفہ کا موجودہ سربراہ وڈیرہ بٹے خان مینگل ہیں

☆محمد زئی☆ محمد زئی مینگلوں کا ایک مشہور طائفہ ہیں۔ اس طائفہ کا صدر مقام ماماتاوا ہیں جہاں اس طائفہ کا سربراہ رہتا ہیں۔ قلات کے علاوہ وڈھ اور نوشکی میں بھی محمد زئی مینگل بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ نوشکی و چاغی میں یہ زگر مینگل شمار ہوتے ہیں۔ گزیٹئر میں محمد زئی مینگل۔ زرکزئی زہری اور شاہوزئی خدرانی کو بھائی اور زڑخیل ترین پشتون باتے تھے ہیں۔ ان مطابق زڑخیل افغانستان سے مستونگ آگئے بعد میں یہ تینوں بھائی جھالاوان کے علاوہ زہری ہجرت گر گئے باقی زڑخیل جو مستونگ میں رہ گئے اب دہوار میں شامل ہو گئے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ تینوں بھائیوں نے موسیانی قبیلہ کی مدد کی اور چھٹہ قبیلہ کو نکال باہر کیا اور علاقہ خود میں تقسیم کر دیا۔ مزید لکھتے ہیں زرک نے موسیانی کی سرداری حاصل کیا اسی دور میں مینگل اور میروانیوں کا وڈھ کے ارضیات کی ملکیتوں پر لڑائی ہوئی جس میں مینگل قبیلے کا سردار شاہی مارا گیا۔ جس کا بدلہ لینے کے لیے شاہی زئیوں نے سوراب کے قرب و جوار میں بات پہلا دی کہ جو قبیلہ یا شخص میروانی سردار میرو کو قتل کرے گا۔ اور اس کا سر بطور ثبوت مینگلوں کے پاس لائے گا۔ تو اسے وڈھ کا تیسرا حصہ دیا جائے گا۔ اور حفاظت کے لیے دو طائفے اس کے ہمسائے بنائے جائیں گے۔ زرک کے بھائی محمد نے یہ کام اپنا ذمہ لیا اور اپنے آدمیوں کے ساتھ میروانی سردار میرو خان پیچھے لگا۔ ایک روز میرو اپنے آدمیوں کے ہمراہ شکار سے واپس سوراب کی نغاڑ کی طرف قلعے میں آرہاں تھا۔ کہ راستے میں محمد اور ساتھیوں نے ان پر حملہ کیا۔ جس میں میرو اور ساتھی مارے گئے۔ محمد نے میرو کا سر کاٹ لیا اور ایک انگلی جس نے اپنا حاکمی مہر پہنا ہوا تھا۔ کاٹ کر وڈھ میں مینگلوں کو بطور ثبوت پیش کیا۔ جس پر مینگلوں نے وڈھ کے تیسرے حصے کے طور پر باڑری کا علاقہ محمد کو دے دیا۔ جو ابھی تک محمد زئی کے پاس ہیں۔ یہ ایک مفروضہ ہیں اس میں صداقت نہیں محمد زئی اصل مینگل ہیں جو قلات کے علاقہ ماماتاوا میں رہتے ہیں۔ انکا ایک گروہ شاہی زئی مینگلوں کے ساتھ وڈھ چلا گیا تھا جن کے حصے میں باڑری کا علاقہ آگیا تھا۔ اور بہت سے محمد زئی دوسرے علاقوں میں بھی ہجرت کر گئے ہیں جب زگر مینگل نصیر خان نوری کے کہنے پر نوشکی رونہ ہو گئے تو محمد طائفہ کے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل تھے جو اب زگر مینگل کہلاتے ہیں۔ یہ ایک بہادر اور جنگجو طائفہ رہاں ہیں۔ تاریخی ان کے چند شخصیات گذرے ہیں جن کا نام تاریخ أوراق میں ہمیشہ رہے نگے۔ شہید علی محمد مینگل۔ حاجی نیک محمد مینگل۔ شیہد مراد خان مینگل۔ میر نور محمد مینگل۔ میر جنگی خان مینگل شامل ہیں۔ اس طائفہ کا موجودہ سربراہ ماماتاوا میں رہائش پزیر ہیں جس کا نام سردار رسول بخش مینگل ہیں۔۔۔ محمد زئی بنیادی تین پڑے طائفوں میں تقسیم ہیں۔ داروزئی۔ حسن زئی اور بلغارزئی

☆باران زئی☆ باران زئی مینگل قبیلہ کا معروف طائفہ ہیں۔ یہ طائفہ کثیر تعداد ہیں۔ اور منتشر ہیں۔ ایران میں "باران زئی" قبیلہ موجود ہیں اور وہاں باران زئی مینگل بھی رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کردوں میں بھی ایک قبیلہ "باران" کے نام سے موسوم ہے۔ اور پشتونوں میں ایک قبیلہ "باران زئی" کے نام سے مشہور ہے۔ جس کا بلوچ باران زئی قبیلہ سے برہ راست کوئی تعلق نہیں۔ جبکہ بلوچوں میں باران زئی نام مستعمل ہے۔ اور بلوچستان کے ضلع کچھی میں "باران" نامی موضوع واقع ہیں۔ ضلع خضدار کے علاقے اورناچ کے پہاڑی سلسلے میں قدیم موضوع تھا۔ جس کا نام اب تک چڑھائی پر چسپان ہے۔ جو "لک باران" کہلاتا ہے۔ کتابوں میں "باران" ایک ہندوستانی جاٹ قبیلہ کا نام بتایا گیا ہے۔ موجودہ وقت میں یہ جاٹ قبیلہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں منتشر حالت میں پہیلا ہوا ہے۔ ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے سرائیکی اسپیکنگ علاقوں میں باران قبیلہ کے گھرانے ملتے ہیں۔ کچھی کے باران اپنے کو سندھ سے آنے والے بتاتے ہیں اور اپنی اصلیت جاٹ بتاتے ہیں۔ ایک بلوچی روایت میں قبیلہ کا جد امجد ایک بلوچ سردار میر باران ہوت کو بتایا جاتا ہے۔ جس نے سسی پنوں رومان کے نتیجے میں ایک لشکر کے ساتھ بیلہ چلا گیا۔ جہاں سے اسے بھمبھور جانا تھا۔ لیکن بیلہ کے ایک بزرگ ہستی پیر کناڑا کے منع کرنے پر اپنی روانگی منسوخ کر دی۔ بلوچ قبیلہ باران کو اسی باران ہوت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جس کے گھرانے سندھ۔ پنجاب۔ ہندوستان کے سرحدی علاقوں تک پھیل گئے۔ اس کے علاوہ بنگلزئی زئی قبیلہ میں ایک طائفہ باران زئی ہیں وہ خود کو جھالاوان کے باران زئی مینگل کہلاتے ہیں اور اب بنگلزئی شمار ہوتے ہیں۔ مینگل قبیلہ میں باران زئی بڑی تعداد میں ہیں جو جھالاوان کے علاقے وڈھ۔ کپوتو۔ باغبانہ اس کے علاوہ سارون کے مختلف علاقوں میں رہتے ہیں کچھی و نصیر آباد میں بھی کافی تعداد میں باران زئی مینگل رہتے ہیں۔ باران زئی کا ایک گروہ زگر مینگلوں کے ساتھ نوشکی چلا گیا وہ اب زگر مینگل کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ ایران و افغانستان میں بھی کافی تعداد میں باران زئی ملتے ہیں۔۔۔ جس طرح باران زئی منتشر ہیں اسی طرح ان کے بہت سے سربراہ بھی بن گئے ہیں اصل سربراہ سردار ارشاد باران زئی ہیں اس کے علاوہ زگر مینگلوں میں جو باران زئی ہیں انکا سربراہ سردار محمد علی خان مینگل ہیں۔ ساروان کے باران زئی طائفوں سربراہ سردار محمد یونس مینگل ہیں۔ افغانستان کے باران زئی مینگلوں کا سربراہ سردار محمد مینگل ہیں۔۔

☆مردوئی☆ مردوئی بلفت بلوچوں کے اولاد ہیں۔ کراچی میں چونگ کے پبرانی جوام کے مورث اعلی جام اری کے چوتھے بیٹے جام بہاؤ الدین کی اولاد ہیں۔ مردوئی نام میر نصیر خان نوری نے انھیں بہادری کی وجہ سے یہ نام دیا۔ وہ مینگل سردار کو مالی ادا کرتے تھے۔ ان کے ایک قائد فیروز (جس کے نام پر فیروزآباد ہے) نے خضدار سے منگول گماشتہ ملک چپ کو نکالنے کا کارنامہ انجام دیا۔ اس طائفہ کا موجودہ سربراہ سردار مراد خان مردوئی ہیں

☆گورانی☆ گوران یا گورانی ایک کرد قبیلہ ہے۔ ان کے اہم تاریخی مراکز میں سے ایک دارتنگ ہے، ایک خطہ جس کا دار الحکومت رجاب میں ہے، گھاٹی کے مغربی سرے پر جہاں دریائے الوند میدانِ زوہاب میں داخل ہوتا ہے۔ وادی زیمکان ہیں۔ قلات کا ایک علاقہ اور مینگل قبائل کا بنیادی صدر مقام دشت گوران ہیں۔

☆شیخ☆ شیخ ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی قبیلے کا بزرگ، آقا، معزز بزرگ یا اسلامی اسکالر ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اسے نسلی لقب کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جسے عام طور پر مسلم تجارتی خاندانوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ شیخ مینگل ایک ولی علی نامی کی اولاد ہیں۔ جس کا مزار نورگامہ کے شمال کی ریشک پہاڑیوں میں ہے۔ سوراب کا اللہ سلیمان اور ٹک کا پیر فقیر داد دیگر مشہور اولیاء تھے۔ ان اولیاء کے ورثاء میں سے بعض خاندان ارچینو اور ارزونان کی خشکابہ زمینوں کی پیداوار کا پچاس سواں حصہ وصول کرنے میں حق رکھتے ہیں جبکہ پلی زئی پہلوان زئی مینگل شادیوں پر انھیں ایک ایک لیلا پیش کرتے ہیں۔ شیخ تعویذ گنڈے بیچتے ہیں بداروح کو نکالتے ہیں۔ اور بارش برسانے کی قوت کے مالک سمجھے جاتے ہیں۔ اس طائفہ کا موجودہ سربراہ سردار مراد خان شیخ ہیں۔۔

☆ابابکی☆ ابابکی ایک بلوچ قبیلہ ہیں اس قبیلے کا نسلی تعلق بوبک قبیلہ سے تھا۔ بوبک ایک مشہور جت قبیلہ ہیں۔ بوبک نام کا طائفہ آج بھی زہری قبیلہ میں موجود ہیں۔ بلوچوں میں اس قبیلے کا نسلی تعلق جتک۔ باجوئی اور چنال سے ہیں۔ بوبک جسے بابک اور ابابک بھی لکھا اور پڑا جاتا ہیں ایک قدم قبیلہ ہیں۔ مستونگ کے ابابکی خود کو حضرت ابوبکر کے آل سے جوڑتے ہے۔ جو کے درست نہیں۔ کیونکہ قدیم دستاویزات میں ابابک طائفہ ہمیں ملتا ہیں ابابک کا جمع یا نسبتی تعلق ابابکی بنتا ہیں۔ اگر حضرت ابوبکر کے اولاد ہوتے تو ابوبکری کہلواتے۔ بہت سے بلوچ قبائل کی طرح ابابکی بھی اسلام مذہب سے محبت کی وجہ سے خود کو عرب تصور کرتے ہیں جو درست نہیں۔ بوبک اور چنال بلوچوں کے علاوہ جٹ پنجابی اور ہندوستان میں آباد ہیں۔ جھالاوان میں جت قبائل کی موجودگی ہمیشہ سے رہا ہیں۔ بوبک کا ایک گروہ ابابک کہلاتا تھا وہاں گروہ مینگلوں مینگل شامل ہوا اور ابابکی کہلایا۔ مینگلوں کے شادبان زئی اور پہلوان زئی طائفوں نے ان کو بھائی بنایا۔ بعد میں ابابکی مستقل مستونگ ہجرت کر گئے۔ اور اپنا الک پہچان بنانے میں کامیاب ہو گئے لیکن نصیر آباد کے ابابکی آج بھی مینگل شمار ہوتے ہیں۔ اس قبیلے میں بہت سے بزرگ گذرے ہیں ان کے معتبرین کو خلیفہ کہا جاتا ہے۔۔

☆رئیسانی☆ رئیسانی ایک مشہور بلوچ قبیلہ ہیں اور ساروان کے تمام قبائل کا سربراہ قبیلہ ہیں۔ یہ قبیلہ بنیادی قلات میں رہتے تھے خان کے کہنے پر مستونگ کے علاقہ کانک ہجرت کر گئے۔ خان میر عبد اللہ خان کی شہادت اور رئیسانی قبائل کے جوانوں کے خون بہا میں کچھی کا علاقہ مٹھڑی میں ارضیات ملے۔ رئیسانی کا ایک طائفہ سیاسی زئی مینگلوں کے ساتھ وڈھ ہجرت کر گیا۔ موجودہ وہیر اور لوہنداو میں رہائش پزیر ہیں۔ اور مینگل شمار ہوتے ہیں

☆خدرانی☆ خدرانی قبیلے کا بنیاد اور نسلی تعلق کرد قوم سے ہیں۔ جھالاوان کا ایک اور قبیلہ موسیانی بھی کرد نسل کے لوگ یہ۔ یہ دونوں قبائل کردستان میں بھی موجود ہیں۔ ان دونوں قبائل کا ایک گروہ پشتونوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ پشتونوں میں خدرانی اور موسیانی دونوں ایک ساتھ رہے تھے ہیں اور کرد قبائل تصویر کیے جاتے ہیں۔ خدرانی قبیلے کا سردار خیل طائفہ شاہوزئی ہیں اور اس کا معتبرین دعوا کرتے تھے۔ میر زرک جس کے نسل سے زرکزئی زہری۔ اور محمد جو ماماتاوا کے محمد زئی مینگلوں کے مورث اعلی کے ایک بھائی شاہو کی اولاد ہیں زرک کی آمد پر زہری علاقہ چھٹہ قبیلہ کے قبضہ میں تھا۔ اور موسیانی ہمسایہ کی حیثیت سے رہتے تھے۔ تینوں بھائی یعنی زرک۔ شاہو اور محمد موسیانیوں سے مل گئے اور چھٹہ قبیلہ کو نکال باہر کیا۔ اور علاقہ تقسیم کر لیا۔ شاہو کو ملخر ۔ انجیرہ۔ وادی ہب اور ارزونان۔ ارچینوں اور گوانیکو کے خشکابہ میں حصہ ملا اور شاہوزئی اب بھی ان زمینوں پر قابض ہیں۔ ماسوائے انجیرہ کے زمینوں کے۔ جو سردار پسند خان زرکزئی کے ہاتھ بیچ دی گئی۔ اڑینجی وڈھ میں جو خدرانی رہتے ہیں وہ خود کو مینگل شمار کرتے ہیں۔

☆عمرانی☆ عمرانی۔ عمر ابن علی کے اولاد ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ ڈیمز کا خیال ہے کہ وہ بلیدیوں کی طرح بلوچ وفاقیہ کے پانچ اہم حصوں کی تشکیل کے بعد شامل ہوئے۔ دراصل عمرانی نوحانی قبیلہ سے تھے۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے نوحانی اور مینگل ساتھ رہتے تھے۔ عمرانی نصیرآبا و سندھ میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اور اپنا الک قبائلی پہچان رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ساروان و جھالاوان میں تین قبائل میں شامل ہو چکے ہیں۔ مستونگ و قلات میں شاہوانی کا ایک حصہ کے طور پر شمار ہوتے ہیں۔ اسکلکو کے علاوہ کانک۔ دلائی۔ اور درینگڑھ میں بھی رہتے ہیں۔ اسی نام کے طائفہ کی ایک شاخ جھالاوان میں مینگل قبیلہ کے ساتھ پائی جاتی ہیں اور زیادہ تر کپوتو میں ملتے ہیں۔ نال کے بزنجو قبیلہ میں عمرانی ایک طائفہ شمار ہوتا ہیں۔ اور تغاب میں رہائش پزیر ہیں۔ کچھ عمرانی کوہلو آوران میں رہتے ہیں۔

☆غلامانی☆ غلامانی خضدار کے علاقہ ساسول اور گورو میں رہتے ہیں۔ انکا کہنا ہیں انکا کہنا ہے یہ رندی قبیلہ ہیں اور انکا تعلق رند قبیلے کے طائفہ غلام بولک تھا۔ جب چاکر اعظم قلات سے کچھی ہجرت کر گئے تو غلامانی چاکر رند سے علاحدہ ہوکر جھالاوان میں آباد ہو گئے۔ اسی طائفہ کے نام سے بزدار قبیلہ میں بھی ایک غلامانی طائفہ موجود ہیں۔ جو تونسہ شریف میں رہتے ہیں۔ ممکن ہیں یہ دونوں طائفے ایک نسل سے ہو۔ غلامانی مینگل شمار ہوتے ہیں۔ اس طائفہ کا موجودہ سربراہ سردار بلند خان غلامانی ہیں۔


مکالی بنیادی مینگل ہیں اور سردار وڈھ اور کپوتو میں رہتے ہے۔ دیگر طائفہ بعد میں شامل ہو گئے۔ وڈھ کے کرد بھی مینگل شمار ہوتے ہیں۔ لہڑی خضدار کے علاقہ لہڑ سے ہیں۔ وڈھ کے لہڑی مینگل شمار ہوتے ہیں۔ گزگی طائفہ کا تعلق قلات کے علاقہ گزگ سے ہیں اس طائفہ کے لوگ دو قبیلوں یعنی مینگل اور جتک میں شامل ہو گئے ہیں۔ نتھوانی نسلی کرد قوم سے ہیں اور بلوچوں میں یہ قبائل میں منقسم ہو گئے۔ انکا بڑا گروہ بگٹی قبیلہ مینگل شامل ہو چکے ہیں باقی مینگل میں شمار ہوتے ہیں اور سارونہ میں رہتے ہیں۔ گمشادزئی ریکی بلوچ ہیں ایران کے بلوچستان میں کثیر تعداد میں گمشادزئی آباد ہیں۔ جب گمشاد زئی طائفہ کا وڈھ آمد ہوا تو پہلوان زئی نے گمشادزئی طائفہ کو بھائی بنایا۔ اور اب یہ قبیلہ مینگل کا ایک طائفہ شمار ہوتا ہے۔ گنگو سارونہ میں رہتے ہیں اور مینگل شمار ہوتے ہیں اصل میں لسبیلہ کے گنگا قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چھٹو فیروزآباد میں رہتے ہیں اور اور لسبیلہ کے مشہور قبیلہ چھٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لانگو وڈھ میں رہتے ہیں اور لسبیلہ کے لنگاہ قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ دوسرے بلوچوں کی طرح مینگل بھی وقتا فوقتا دیگر قبائل کے افراد اور گروہوں کے انضمام سے مظبوط ہوتے رہے ہیں۔ الحاق کی رسم بر سر عام ہوتی ہے اور اسے "ہڑپروشی" بلوچی میں کہتے ہیں۔ ہڑی توڑنا ایک بلوچی رسم ہوتا ہیں۔ جو رشتہ توڑنے کو کہتے ہیں۔ اس رسم کی رو سے کوئی شخص یا طائفہ یا قبیلہ کا کوئی گروہ اپنے قبیلہ سے ناراض ہوکر اس سے علیحدگی اختیار کرے اور کسی دوسرے قبیلے میں شامل ہونے کے لیے جاکر اس کا ہمسایہ اور پھر اس سے درخواست کرے کہ وہ اسے یا انھیں اپنا حصہ بنائیں۔ اگر وہ قبیلہ راضی ہوا تو ایک محدود جرگہ میں نو وارد کو کم از کم پانچ قبائلی اکابرین کی موجودگی میں قبیلہ کے مشترکہ دکھ سکھ کی سانجھ کی قسم لینا پڑتی ہے۔ اور انھیں اپنا حصہ بنانے کا اعلان کیا جاتا ہیں۔ اس رسم کے بعد رنگروٹ قبائلی نکاح و بہبود کے مفاد سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ اور قبائلی زمینوں کی آئندہ تقسیم میں اپنے حصہ کا حقدار ہوتا ہے۔ اس کا داخلہ خونی رستے سے مستحکم کر دیا جاتا ہے اور اسے یا اس کے بیٹوں کو قبائلی بیوی بھی مل جاتی ہے۔ اگر نئے شامل ہونے والے تعداد میں زیادہ ہوں تو مقامی قبیلہ کا سردار انھیں قبیلہ کا ایک اضافی ٹکر تسلیم کر کے۔ ان میں سے لائق ترین شخص کو انکا ٹکری بنا کر اس کی دستار بندی کرے گا۔ جو اس ٹکری کے نام کا ایک "زئی" ہوگا

میر گل خان نصیر کے مطابق میروانی۔ گرگناڑی۔ قلندرانی۔ سمالانی۔ قمبرانی۔ رودینی۔ بھی مینگل ہیں۔ ایران میں یہ تمام مینگل شمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے سمالانی بڑی تعداد میں مینگل شمار ہوتا ہیں۔ شجرات میں ان قبائل کو مینگل کا بھائی ظاہر کیا جاتا ہے۔ ان تمام قبائل کا قبائلی تشکیل زیادہ قدیم نہیں اس وجہ سے یہ بات واضح ہوتی ہیں یہ تمام قبائل مینگل قبیلہ کا حصہ تھے۔ جب ان قبائل کے ہاتھ میں بلوچستان کی حکومت آئی تو ان قبائل نے اپنا الگ قبائلی تشکیل دیا اور الگ پہچان بنا لیا۔ اور بہت سے دوسرے قبائل کے ادغام سے یہ قبائل مزید مظبوط ہوتے گئے۔ لیکن آج بھی قبیلہ مینگل کے بھائی شمار ہوتے ہیں۔۔۔

ریاست قلات کے دور میں قبیلہ مینگل کے پلو شریک قبائل جو جنگوں میں مینگل قبیلے کے ساتھ لشکر جمع کرتے تھے جھالاوان کے مینگلوں کے ساتھ بشمول بزنجو۔ محمد حسنی۔ اور خدرانی پندرہ سو کے قریب لشکر جمع کرتے تھے۔ جھالاوان میں قبیلہ مینگل کا دوسرا نشست ہوتا تھا۔ زگر مینگل "دستہ خاص" میں شامل تھا جو براہ راست خان کو لشکر جمع کرتے تھے۔ جن میں میروانی۔ گرگناڑی۔ قمبرانی۔ قلندرانی۔ سمالانی اور رودینی قبائل بھی شامل تھے۔ زگر مینگلوں کے پلو شریک رخشانی۔ سرپرہ۔ پرکانی۔ اور ابابکی تھے جو زگر مینگلوں کے ساتھ لشکر جمع کرتے۔

تاریخ مینگل بلوچ تحقیق و تحریر : خالد مینگل

مینگل شخصیات

ترمیم

• میر قمبر خان مینگل

حوالہ جات

ترمیم
  • نسب نامہ جہریج (قبائل سندھ) 1936ء
  • تاریخ بلوچستان (میر گل خان نصیر)
  • تاریخ بلوچستان (رائے بہادر لالا ہتورام)
  • تاریخ طبرایٰ
  • بلوچستان تاریخ کے آئینے میں
  • تاریخ بلوچ و بلوچستان (آغا نصیر احمدزئی)
  • بلوچستان گزیٹئر (ہوگزبلر)
  • اغلاط نامہ (الفت نسیم)
  • بلوچستان قدیم و جدید تاریخ کی روشنی میں (میر گل خان نصیر)
  • تاریخ بلوچستان (ملک سعید دیوار)
  • بلوچ قبائل کی فہرست
  • بلوچ قباٸل۔ کامران اعظم سوہدروی
== مزید دیکھیے ==
ترمیم

بلوچ قوم

بلوچستان

بلوچ تاریخ

بگٹی بلوچ قبیلہ

مری بلوچ قبیلہ

جتوئی

مزاری