کامل جونا گڑھی

پاکستانی اردو زبان کے شاعر

غلام علی خان کامل جونا گڑھی (پیدائش: 5 اکتوبر 1886ء - 7 ستمبر 1977ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور شاعرتھے۔ انھوں نے نعت، غزل، مثنوی، مرثیہ اور رباعی کی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ اردو میں غیر منقوط دیوان کے خالق ہیں۔

کامل جونا گڑھی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: غلام علی خان ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 5 اکتوبر 1886ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ریاست جونا گڑھ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 ستمبر 1977ء (91 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن میوہ شاہ قبرستان   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

کامل کونا گڑھی کے اجداد مغلیہ دور حکومت میں افغانستان، پنجاب اور سندھ وغیرہ کے کئی مقامات سے ہوتے ہوئے ریاست جونا گڑھ میں آ کر مستقل طور پر مقیم ہو گئے۔ جہاں وہ 5 اکتوبر 1886ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام علی خان تھا ، کامل تخلص تھا، کامل جوبا گڑھی کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ ان کا سلسلہ نسب محمد حنفیہ ابن علی سے جا ملتا ہے۔ شرعاً حنفی المذہب،طریقہ سلسلہ نظامیہ چشتیہ سے منسلک تھے۔انھوں نے عربی اور اردو کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد میں مولوی عبد الحامد ولد مولوی علی محمد سے مروجہ درسی اور دینیات کی تعلیم حاصل کی، پھر اسکول میں داخل ہو کر گجراتی کی تعلیم حاصل کی۔بچپن ہی سے اردو کا بے حد شوق تھا۔ اردو شعر و سنخن کے دلدادہ و شیدائی تھے۔ابتدا میں جو کچھ کہتے تھے حکیم کاتب علی کاتب مدراسی (شاگرد میر انیس) سے اس پر مشورہ لیتے تھے۔ اس کے بعد وہ حکیم سید طالب حسین طالب دہلوی (شاگرد ابراہیم ذوق) کے باقاعدہ شاگرد ہو گئے۔[1] طالب دہلوی سرکاری طبیب اور درباری شاعر تھے۔ طالب دہلوی کی وفات کے بعد کامل جونا گڑھی درباری شاعر مقرر ہوئے۔ انھیں طالب دہلوی کے شاگردوں کی ایک تقریب میں طالب دہلوی کا جانشین مقرر کیا گیا۔ کامل کو فنِ موسیقی سے بہت دچسپی تھی۔ خصوصاً ستار نوازی میں ماہر تھے۔ ریاست جونا گڑھ پر انگریزوں کے تسلط کے بعد وہ پہلے اجمیر شریف اور پھر احمد آباد میں جا کر مقیم ہو گئے۔ وہاں انھوں نے اردو ڈرامے لکھے اور اس دور کی مشہور ناٹک کمپنیوں شری راج نگر، ناٹک منڈلی اور شری سورٹھ ناٹک سماج کو ترغیب دلانے کی غرض سے نہایت قلیم رقم کے عوض ڈرامے تیار کروا کر اسٹیج کرائے جو بہت پسند کیے گئے۔ کچھ عرصہ بمبئی بھی رہے، مگر طبیعت کی ناسازی کی بنا پر جونا گڑھ واپس آ گئے اور یہیاں دینی و گجراتی تعلیم کی ترویج کا سلسلہ جاری کیا۔ نواب مہابت خان ثالث جب لندن سے واپس آ کر مسند نشین ہوئے تو انھوں نے پھر کامل جونا گڑھی کو درباری شاعر کے عہدے پر فائز کر دیا۔ خود نواب صاحب بھی شاعر گوئی سے دلچسپی رکھتے تھے اور شاعری میں کامل جونا گڑھی سے مشورہ بھی لیتے تھے۔ یہ سلسلہ نواب مہابت خان ثالث کی وفات تک جاری رہا۔ ریاست جونا گڑھ کی شہزادی امراؤ بخت، بڑی شہزادی تاج بخت اور بڑے راجا صاحب کی دو صاحبزادیاں مہر تاج اور ماہ تاج بھی کامل کی شاگرد تھیں۔ کامل نے بہت سی صنفِ سخن اور لاتعداد موضوعات پر طبع آزمائی کی۔ ان کی تصانیف میں دیوانِ کامل (پہلا نعتیہ دیوان)، ماہِ کامل (دوسرا غیر منقوط نعتیہ دیوان)، کلامِ کامل (اول و دوم، دیوان غزلیات)، ریاضِ دار السلام (1347ھ، نوحے)، رحیقِ غم (1358ھ، سلام)، سرمایہ غم (مرثیوں کا مجموعہ)، کارنامہ غم (مرثیوں کا دوسرا مجموعہ)، عطیہ پیغمبر (1347ھ رباعیات) اور یغامِ رسول (1348ھ، رباعیات) شامل ہیں۔ [2]

وفات

ترمیم

کامل جونا گڑھی 7 ستمبر 1977ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی کے میوہ شاہ قبرستان آسودہ خاک ہیں۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 440
  2. کراچی کا دبستان نعت، ص 441
  3. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات نعت گویان پاکستان، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2015ء، ص 90