چنیوٹ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک شہر ہے۔ یہ ضلع چنیوٹ کا مرکزی شہر بھی ہے۔ یہ دریائے چناب کے کنارے واقع ہے۔ یہ اپنے اعلیٰ پائے کے فرنیچر کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے۔

چنیوٹ
شہر
ملکپاکستان
صوبہپنجاب
ضلعضلع چنیوٹ
تحصیلتحصیل چنیوٹ
حکومت
 • قسمدارالحکومت
 • شہر کونسل
فہرست اراکین
بلندی179 میل (587 فٹ)
آبادی (2012)[1]
 • کل477,781
منطقۂ وقتپاکستان معیاری وقت (UTC+5)
 • گرما (گرمائی وقت)پاکستان معیاری وقت (UTC+6)
ڈاک رمز35400
ڈائلنگ کوڈ047
فاصلہ
From


ﻭﺳﻄﯽ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﺷﮩﺮ ﭼﻨﯿﻮﭦ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﻮﺑﯽ ﻓﺮﻧﯿﭽﺮ، ﺣﻮﯾﻠﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ۔ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ ﭼﻨﯿﻮﭦ ﺩﻭ ﺍﻟﻔﺎﻅ ’’ ﭼﻦ ‘‘ ﯾﻌﻨﯽ ﭼﺎﻧﺪ ﺍﻭﺭ ’’ ﺍﻭﭦ ‘‘ ﯾﻌﻨﯽ ’’ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ‘‘ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﮨﮯ۔ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﭼﻨﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﻨﮕﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﭼﺎﻧﺪ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﭦ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﭘﺮﭼﮭﺎﺋﯽ ﺩﻟﮑﺶ ﻣﻨﻈﺮ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺳﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭼﻨﯿﻮﭦ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ۔ﺗﺎﮨﻢ ﺳﺎﺕ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﭼﻨﯿﻮﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻗﻠﻌﮧ ﻧﻤﺎ ﺳﺮﺍﺋﮯ ﮐﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻣﻨﻈﺮ ﻧﺎﻣﮧ ﯾﮑﺴﺮ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺳﺮﺍﺋﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ 326 ﻗﺒﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺟﺎ ﭼﻨﺪﺭ ﮔﭙﺖ ﻣﻮﺭﯾﺎ ﮐﯽ ﺭﺍﻧﯽ ﻧﮯ ﮨﻨﺪﻭ ﺷﺎﮨﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ﮐﺘﺎﺏ ’’ ﭼﻨﯿﻮﭦ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺭﺥ ﻟﮑﺸﻤﯽ ﻧﺎﺭﺍﺋﻦ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺍﻧﯽ ﭼﻨﺪﻥ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺲ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﯿﻮﭦ ﺍٓﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ﺷﮑﺎﺭ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﯾﺎ ﭼﻨﺎﺏ ﮐﺎ ﺳﻨﮕﻢ ﺍْﺱ ﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﺟﮕﮩﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺍْﺳﮯ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﺩﺭﭘﯿﺶ ﺍٓﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﺗﺒﮭﯽ ﺍْﺱ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﭼﻨﺎﺏ ﮐﮯ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺍﺋﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍﺋﯽ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭼﻨﺪﻥ ﯾﻮﭦ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ’’ ﭼﻨﺪﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﭘﻨﺎﮦ ‘‘ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺳﺮﺍﺋﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺎﻣﯽ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﺎ ﭘﺘﮭﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﭼﻮﮌﺍﺋﯽ ﺗﯿﻦ ﻓﭧ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﭼﻨﯿﻮﭦ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺗﮭﯽ۔ﺑﻌﺪﺍﺯﺍﮞ ﺍﺱ ﺳﺮﺍﺋﮯ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﺷﮩﺮ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺴﮯ ﭼﻨﺪ ﯾﻮﭦ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﮐﻞ ﭼﻨﯿﻮﭦ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﺳﺮﺍﺋﮯ ﮐﻮ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﺩﮮ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺪﮪ ﻣﺖ ﮐﮯ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻋﻠﻮﻡ ﺳﮑﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﺌﯽ ﭘْﺮﺍﻧﯽ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺍٓﺛﺎﺭ ﻗﺪﯾﻤﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ ﺍﺱ ﺳﺮﺍﺋﮯ ﮐﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﭨﯿﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﺳﮯ ﮐﮭﺪﺍﺋﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ 10 ﻓﯿﺼﺪ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﺣﺼﮧ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﺼﮧ ﺗﺎﺣﺎﻝ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﭨﯿﻠﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﺩﺑﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮐﮭﺪﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺗﯿﻦ ﻓﭧ ﭼﻮﮌﯼ ﺩﯾﻮﺍﺭﯾﮟ ﺍﺏ ﻭﺍﺿﺢ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺳﺮﮔﻮﺩﮬﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﯿﻨﺎﺕ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺍٓﺛﺎﺭ ﻗﺪﯾﻤﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭ ،ﻣﺤﻤﺪ ﺍﯾﻮﺏ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ، ﮐﮭﺪﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺸﺎﻥ ﮔﮭﺎﭦ ‏( ﮨﻨﺪﻭﻭﮞ ﮐﯽ ﻣﺮﺩﮦ ﺟﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ‏) ﮐﮯ ﺍٓﺛﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﺷﮩﺮ ﺍٓﺑﺎﺩ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﻣﭩﮑﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻗﺪﯾﻢ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺍﺷﯿﺎ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﯾﺎ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ﻣﭩﮑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍْﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺯﯾﻮﺭﺍﺕ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺍٓﺛﺎﺭ ﻗﺪﯾﻤﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﯿﮟ۔ﻣﺤﻤﺪ ﺍﯾﻮﺏ ﮐﮯ ﺑﻘﻮﻝ ﻣﺤﮑﻤﮯ ﮐﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻣﺰﯾﺪ ﻓﻨﮉﺯ ﻣﻠﮯ، ﺳﺮﺍﺋﮯ ﭘﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻨﺪﻭ ﺷﺎﮨﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺑﺎﺩ ﺍﺱ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺷﮩﺮ ﺍﻭﺭ ﺍْﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﮨﻦ ﺳﮩﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺷﻮﺍﮨﺪ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺳﮑﯿﮟ۔


تاریخِ چنیوٹ کی چھوٹی سی جھلک

ترمیم

ہندوستان میں جب مرہٹے راجپوت سکھوں نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کی تو محدث دہلوی حضرت شاہ ولی اللہ نے کابل کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی (خاندان سدوزئی پٹھان) کو پیغام پہنچایا کہ آپ ہندوستان پر حملہ کریں کیونکہ سکھ مسلمانوں کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر حملہ کر دیا اور سکھوں کی ہمیشہ کے لیے کمر توڑ دی پانی پت کی آخری لڑائی کے بعد احمد شاہ ابدالی نے لاہور کا رخ کیا اور لاہور کو فتح کرنے کے بعد قلعہ ریختی چنیوٹ پر حملہ کیا اس وقت یہاں نواب عنایت اللہ خان مگھیانہ سیال کی حکومت تھی نواب عنایت اللہ خان سیال نے جھنگ سے لے کر چنیوٹ تک حکومت قائم کر رکھی تھی احمد شاہ ابدالی کا حملہ اتنا زبردست تھا کہ نواب عنایت اللہ سیال نے ہتھیار ڈال دیے اور قلعہ ریختی پٹھانوں کے حوالے کر دیا اور خود واپس جھنگ چلا گیا احمد شاہ ابدالی اپنے پوتے اور بہادر جرنیل مقصود خان درانی کو چنیوٹ کا گورنر مقرر کیا اس طرح درانی پٹھانوں کی حکومت قائم ہو گئی چنیوٹ پر درانی خاندان نے تقریباً چالیس سال حکومت کی 1805ء میں جب مہاراجا رنجیت سنگھ پنجاب کا گورنر بنا تو اس نے لاہور کو فتح کرنے کے بعد چنیوٹ قلعہ ریختی پر حملہ کیا اس حملے میں سردار مقصود خان درانی شہید ہو گئے مقصود خان درانی کو چنیوٹ میں واقع پہاڑی پر دفن کر دیا گیا جسے اب محلہ مقصود آباد کہتے ہیں آپ کا مزار پہاڑی کے دامن میں بنایا گیا ہے خطہ چنیوٹ کے باسیوں نے آپ کو قطب شہید کے خطاب سے نوازا اور آپ کو قطب شہید کہتے ہیں یعنی بڑا شہید سردار مقصود خان کے دو بیٹے تھے سردار عنایت اللہ خان اور سردار جمشیر خان جن کی اولاد اب بھی چنیوٹ میں موجود ہے کانڈیوال کے ملک صالت خان نسوآنہ جن کا تعلق نسوآنہ راجپوت خاندان سے تھا اپنے علاقے کے بہت بڑے جاگیردار اور بہادر انسان تھے وہ ان دونوں بھائیوں کو لے کر کانڈیوال چلے گئے حکومت برطانیہ نے ان کو دریا ئے چناب کے کنارے ایک گائوں الاٹ کیا جس کا نام موضع گورنہ پٹھاناں ہے جو پانچ سو مربع پر مشتمل ہے اسی لیے پٹھاں خاندان کی رشتہ داریاں نسوآنہ خاندان سے قائم ہو گئیں پٹھان خاندان کی خطہ پنجاب میں حکمرانی قصور ، جنڈیالہ شیر خان ، شاہ نواز خان سدوزئی گورنر آف لاہور، طالب والا پٹھاناں ، گورنہ پٹھاناں ، چنیوٹ، کوٹلہ ظریف خان پٹھاناں ، شورکوٹ اور منکیرہ کے حکمران نواب سر بلند خان سدوزئی ، نواب مظفر خان سدوزئی ، گورنر آف ملتان جو مہاراجا رنجیت سنگھ کے ہاتھوں شہید ہوا نواب سر بلند نے منکیرہ میں ایک محل تعمیر کروایا جو آج بھی موجود ہے کرم خان ذیلدار جو اپنے موضع کے واحد ایک سو پندرہ مربع زمین کے مالک تھے حسین خان نے شہر چنیوٹ میں 1904ء میں کشمیر محل تعمیر کروایا جو تقسیم پاکستان کے موقع پر سکھوں نے نذر آتش کر دیا پٹھانوں کے عہد رفتہ کے چند مشہور نام بہرام خان گورنہ ،حسین خان ، ہاشم خان ، جہان خان ،مولاداد خان احمد خان ہیں حسین خان کو حکومت برطانیہ نے اسی مربع کا ایک گائوں الاٹ کیا گیا جس کا نام موضع حسین خان رکھا گیا جو جھنگ روڈ چنیوٹ پر موجود ہے حسین خان نے اپنے مرشد شیخ اسماعیل بخاری کی محبت میں ان کے خاندان کو دے دیا کیونکہ آپ کا خاندان پیر سید خان جو شیخ اسماعیل کی بخاری کی اولاد میں ان کے مرید تھے۔

جغرافیہ

ترمیم

چنیوٹ سرگودھا اور فیصل آباد کے درمیان میں واقع ہے۔ لاہور جھنگ روڈ بھی چنیوٹ میں سے گزرتی ہے۔ یہ لاہور سے 158 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ شہر کا کل رقبہ 10 مربع کلومیٹر ہے اور یہ سطح سمندر سے 179 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ چنیوٹ کا ہمسایہ شہر چناب نگر ہے جو دریائے چناب کے دوسری جانب واقع ہے۔

آبادی

ترمیم

1998 کی مردم شماری کے مطابق چنیوٹ کی آبادی 9،65،124 ہے۔

معدنی ذخائر

ترمیم

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں سونے، تانبے اور لوہے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔

یہ ذخائر چنیوٹ کے علاقے رجوعہ میں دریافت ہوئے اور سرکاری بیان کے مطابق یہ ذخائر اٹھائیس مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہیں جب کہ تقریباً مزید دو ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے میں اسی قسم کے ذخائر ملنے کی توقع ہے۔ بدقسمتی سے حکومت اس جائز طور سے استعمال کرنے سے قاصر ہے۔[2]

چنیوٹ کے نواحی علاقے چناب نگر میں واقع پہاڑیوں کے سلسلے کو سرگودھا کے پہاڑی سلسلے کا ہی ایک حصہ مانا جاتا ہے چنیوٹ میں موجود پہاڑ شہر کی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں جن سے ملنے والے نوادرات اور نقوش یہاں پر آباد قدیم تہذیبوں کا پتا دیتے ہیں۔ سید ماجد بلال اس تاریخی ورثہ کی اہمیت اور اسے درپیش خطرات کو سامنے لائے ہیں، ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پہاڑیاں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں جو اپنے اندر بہت سے تاریخی راز اور نوادرات سموئے ہوئے ہیں تاہم حکومتی عدم توجہ کے باعث اسمگلنگ مافیا بلا روک ٹوک ان قیمتی نوادرات کی چوری میں مصروف ہے۔دوسری طرف سرکاری سر پرستی میں پتھر کے حصول کے لیے کی جانے والی کٹائی اور بارود کے ذریعے ہونے والی توڑ پھوڑ سے بھی اس قدیم تاریخی ورثہ کو نقصان پہنچا ہے۔یاد رہے کہ 2005ء میں غیر سرکاری تنظیم چنیوٹ لوک کی جانب سے پہاڑیوں میں موجود قیمتی نقوش اور آثار کو بچانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا جس کے بعد جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان پہاڑیوں میں کرشنگ، بلاسٹنگ اور کسی بھی طور سے انھیں نقصان پہنچانے کے عمل پر بذریعہ سٹے آرڈر روک لگا دی تھی۔ان قدیم پہاڑوں پر موجود نشانات سے ماہرین آثار قدیمہ ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگا پائے ہیں کہ یہ ہڑپہ تہذیب کی تحریر ہے یا پھر محض چٹانی نقوش اور اگر یہ کوئی خاص تحریر ہے تو کس اور کتنی پرانی تہذیب کی؟ چٹانوں پر قدیم ادوار میں بنائے جانے والے نقوش واضح نظر آتے ہیں ریٹائرڈ پروفیسر محمد حیات خوشاب کے علاقہ جوہر آباد کے رہائشی ہیں اور کتاب 'چٹانوں میں تاریخ' کے مصنف ہیں۔پروفیسر حیات کو خدشہ ہے کہ کہیں تحقیق سے قبل ہی قدیم تحریر کے حامل یہ پتھر، نوادرات مافیا چوری نہ کر لے یا یہ تحریریں قدرتی شکست و ریخت کے عمل سے ختم نہ ہو جائیں۔وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے نصف صدی قبل یہ نقوش دریافت کیے اور آج تک ان کو بچانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں مگر جن آثار کو بین الاقوامی ورثہ قرار دیا جانا تھا انھیں ان کی نظروں کے سامنے بجری کا ڈھیر بنا کر سڑکوں میں دفن کر دیا گیا۔"ان پہاڑوں میں تاریخی اہمیت کے حامل پتھر موجود ہیں مگر افسوس کہ موٹروے کی تعمیر کے لیے چٹانوں کو توڑا گیا اور نوادرات کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔"ان کے مطابق چنیوٹ کی پہاڑیاں ہی وہ مقام ہیں جہاں سکندر اعظم کا بیڑا دریائے چناب کے بھنور میں پھنسا تھا، جس کے بعد سکندر نے یہاں قیام کیا۔انھوں نے بتایا کہ سکندر اعظم نے اپنی جنگی مہم کے دوران ان پہاڑوں کے اوپر سے ایک پختہ سڑک تعمیر کروائی تھی جسے سکندر کا درہ کہا جاتا تھا مگر کٹائی کے دوران اس درے کا آدھے سے زیادہ حصہ بارود کے ذریعے تباہ کر دیا گیا ہے۔"اب بھی چناب نگر میں چونگی نمبر تین کے قریب واقع پہاڑی پر اس درے کا باقی ماندہ حصہ موجود ہے لیکن دھماکوں کے باعث پہاڑ کی چوٹی تک جانے کے تمام راستے ختم ہو چُکے ہیں۔" پہاڑوں سے مختلف انواع کے قیمتی پتھر اور نوادرات ملی ہیں گورنمنٹ کالج تعلیم السلام چناب نگر میں تاریخ کے پروفیسر وقار حسین کا کہنا تھا کہ چنیوٹ میں قیام کے دوران سکندر اعظم کا گھوڑا بیماری کے باعث مر گیا جس کی یاد میں سکندر نے پہاڑ پر اس گھوڑے کا مجسمہ بنوایا تھا۔ان کے مطابق مقامی لوگ توہم پرستی کے سبب اس قدیم مجسمے سے منتیں مانگنے لگے، جس کے بعد 2005ء میں تاریخی اہمیت رکھنے والے اس مجسمہ کو چند افراد نے بارود کی مدد سے تباہ کر دیا۔ان کے بقول "دو دہائیاں قبل انہی پہاڑوں میں واقع چٹان پر ایک خاتون کا مجسمہ بھی نصب تھا جو پتھر توڑنے کے لیے کیے جانے والے دھماکوں کی نظر ہو گیا۔"انھوں نے مزید بتایا کہ ونوٹی والا دھرنگڑ کے علاقہ سے چند سال قبل بھینس نما مٹی کا مجسمہ ملا تھا جسے بعد ازاں محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان پہاڑوں پر تیز دھار آلے سے بنائے گئے ایسے نقوش ملے ہیں جن کے ذریعے سے پھول، گھڑ سوار اور جنگ کی منظر کشی کی گئی ہے۔"ان نقوش سے ثابت ہوتا ہے کہ ان پہاڑوں پر جنگیں بھی لڑی گئی ہیں اور یہاں مختلف ادوار میں جنگجو بادشاہ اور قبیلے پناہ لیتے رہے ہیں۔"ان کا مؤقف تھا کہ حکومت کو ان پہاڑوں کی سرپرستی لیتے ہوئے یہاں عملہ تعینات کرنا چاہیے تاکہ چنیوٹ کی تاریخ کو محفوظ بنایا جا سکے۔نمائندہ خصوصی سے بات کرتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ سرگودھا کے ڈائریکٹر محمد ایوب کا کہنا تھا کہ چنیوٹ سے سرگودھا تک کے تمام پہاڑ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں جنہیں محفوظ بنانے کے لیے محکمہ کی طرف سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔تاہم ان کے بقول فنڈز کی قلت اور عملہ کی کمی کے باعث محکمہ آثار قدیمہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ "چنیوٹ کے یہ پہاڑ نوادرات کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہیں جن سے اس علاقہ کی تاریخ اور لوگوں کے رہن سہن کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال تحقیق کی بجائے انھیں محفوظ بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔"

چنیوٹ کے مشہور مقامات

ترمیم

یوں تو چنیوٹ میں کئی مذہبی، ثقافتی، اورتاریخی مقامات ہیں لیکن بادشاہی مسجد چنیوٹ، عمر حیات کا محل، دریائے چناب کا پل اور حضرت بوعلی قلندر کا مزار کافی مشہور مقامات ہیں۔

بادشاہی مسجد چنیوٹ

ترمیم

بادشاہی مسجد چنیوٹ جو بادشاہی مسجد لاہور کی طرز پر بنائی گئی ہے چنیوٹ کی خوبصورت اور قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔

اسے پانچویں مغل بادشاه شاہ جہاں کے وزیر سعدالله خان نے سترہویں صدی عیسوی میں تعمیر کروایا مسجد مکمل طور پر پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ اس کے تمام دروازے لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور آج تک اس کے دروازے بغیر ٹوٹ پھوٹ کے اپنی جگہ قائم ہیں۔ بادشاہی مسجد لاہور کا فرش سفید سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔

مسجد کے صحن کا فرش سنگ مرمر سے بنا تھا۔ اسے 2013ء میں سنگ مرمر سے اینٹوں کے فرش میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم مسجد کا اندرونی فرش ابھی تک سنگ مرمر کاہی ہے۔ مسجد کے سامنے موجود شاہی باغ مسجد کے حسن میں اضافہ کر دیتا ہے۔

چنیوٹ کا پل

ترمیم

چنیوٹ کا پل (یا ربوه کا پل) کنکریٹ (concrete) سے بنا ایک پل ہے۔ جو چنیوٹ میں دریائے چناب پر واقع ہے۔ یہ 520 میٹر لمبا ہے جبکہ 17۔8 میٹر چوڑا ہے۔ یہ ختم نبوت چوک سے 4.6 کیلو میٹر اور چنیوٹ ریلوے اسٹیشن سے 3.3 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

چنیوٹ کا شیش محل

ترمیم

چنیوٹ شہر کے عین وسط میں واقع پہاڑوں کی اوٹ اور قبرستان سے ملحقہ علاقے میں موجود میناروں سے نکلنے والی روشنیاں جہاں پورے علاقے کو جگ مگ کر دیتی ہیں وہیں قوالی کے ساتھ بجنے والے ساز بھی فضاء میں محبت بھرنے سے پیچھے نہیں رہتے۔ یہ روشنی محلہ مسکین پورہ میں موجود حضرت احمد ماہی المعروف سائیں سکھ کے ساڑھے دس کنال پر پھیلے مزار میں لگے برقی قمقموں کی ہوتی ہے۔ جب یہ روشنی محل کی دیواروں میں نسب شیشے پر منعکس ہوتی ہے تو عمارت کے اندرونی حصے میں انعکاس کی وجہ سے بلوری چمک پیدا ہوتی ہے جو مزار کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ حضرت احمد ماہی المعروف سائیں سکھ چنیوٹ کے معروف شیخ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کی پیدائش 1914ء جبکہ وفات 1987ء میں ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ سائیں سکھ نے اپنی ذاتی زمین پر دربار کی تعمیر 1925ء میں شروع کرواتے ہوئے اسے اپنی زندگی میں ہی مکمل کروا لیا تھا اور مریدین سے کہا تھا کہ 'تیسی کانڈی چلتی رہے گی'۔ سائیں سُکھ کے حکم کے مطابق دربار میں مرمت اور سجاوٹ کا کام سارا سال چلتا ہے مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ اُن کے الفاظ کی ہی برکت ہے کہ ان کی وفات سے اب تک یہاں کوئی نہ کوئی ترقیاتی کام ہوتا رہتا ہے۔ اس وقت یہاں ایک دلکش منیار تعمیر کروایا جا رہا ہے جس پر انتظامیہ کے مطابق اب تک کروڑوں روپے لاگت آ چُکی ہے۔ اس مزار پر چاند کی ہر چودہویں رات کو محفل کا انعقاد کیا جاتا ہے، لنگر تقسیم ہوتا ہے اور قوالی کی محفل بھی منعقد ہوتی ہے۔ دربار پر سال میں دو عرسوں کا اہتمام ہوتا ہے، پہلا عرس جو بڑا عرس کہلاتا ہے چھ اگست جبکہ دوسرا دو دسمبر کو منعقد کیا جاتا ہے۔ دربار کی انتظامیہ کے مطابقٍ بڑا عرس سائیں سکھ کی بیوی عائشہ بی بی کی تاریخ وفات پر ہوتا ہے کیونکہ یہ عرس سائیں نے پہلی بار اپنی زندگی میں چھ اگست انیس صد چوراسی کو خود کروایا تھا۔ دوسرا عرس ان کی اپنی وفات دو دسمبر 1987ء کے بعد شروع ہوا جس میں شرکت کے لیے اندرونِ اور بیرون مُلک میں مقیم شیخ خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد چینوٹ آتی ہے۔ دربار کے گدی نشین باؤ بشیر احمد بتاتے ہیں کہ 'سائیں جی نے اپنی زندگی میں اس دربار کی تعمیر کے لیے کسی سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا تھا۔ انھوں نے اپنا گھر بنانے کی بجائے یہ دربار بنایا'۔ مزار کی تعیمر پر اب تک اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں


چنیوٹ کا مندر

ترمیم

چنیوٹ کے محلہ لاہوری گیٹ میں واقع گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول محکمہ اوقاف کی ملکیت ایک پرانے مندر میں قائم ہے۔یہ مندر قیام پاکستان سے قبل 1930ء کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا جسے کرتاری لال یا کلاں مندر کہا جاتا ہے جبکہ یہاں سے گزرنے والی سڑک کو بھی مندر روڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مندر کی عمارت تین منزلوں پر مشتمل ہے جس میں سب سے نیچے والی منزل میں اسکول جبکہ بیرونی طرف 11 دکانیں اور ایک گودام موجود ہے جبکہ دوسری منزل کو خستہ حالی کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔اس عمارت کی چھت پر خستہ حال مندر کے کلس اور چوبرجیوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ 1947ء میں جب ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو نئے ملک وجود میں آئے تو یہ مندر تعمیر کے آخری مراحل میں تھا تاہم ہندو آبادی کی بڑی تعداد ہجرت کر کے بھارت چلی گئی جس پر اسے محکمہ اوقاف کی تحویل میں دے دیا گیا۔قیام پاکستان کے بعد کبھی کبھار چنیوٹ کے قدیم ہندو باشندے اس کی زیارت کرنے کے لیے یہاں آ جاتے تھے لیکن دسمبر 1992ء میں جب بھارت میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو اس کے بعد ہندو زائرین کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا۔اس موقع پر یہاں بھی لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے مندر کو مسمار کرنے کی کوشش کی جو انتظامیہ کی مداخلت کے باعث کامیاب نہ ہو سکی۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے اس عمارت میں اسکول اور پھر خواتین کو ہنرمند بنانے والا ادارہ کام کرتا رہا جبکہ 1997ء میں میونسپل کارپوریشن نے اس جگہ باقاعدہ طور پر پرائمری اسکول قائم کر دیا۔

مشاہیر چنیوٹ

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم

نگار خانہ

ترمیم


سانچہ:سلارے