ابوعبید قاسم بن سلام
ابو عبید قاسم بن سلام الہروی (پیدائش: 774ء— وفات: 838ء) عالم، فقیہ، محدث، امام الجرح والتعدیل تھے۔ابو عبید قاسم کی وجہ ٔ شہرت اقتصادِ اسلامی پر اُن کی تصنیف کتاب الاموال ہے۔
ابوعبید قاسم بن سلام | |
---|---|
(عربی میں: أبو عبيد القاسم بن سلام) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 774ء [1] ہرات [1] |
وفات | سنہ 838ء (63–64 سال)[1] مکہ [1] |
عملی زندگی | |
استاذ | عبد الرحمن بن مہدی ، علی بن حمزہ کسائی کوفی ، اسماعیل ، معمر بن المثنى |
پیشہ | فقیہ [1]، محدث ، ماہرِ علم اللسان [1]، مفسر قرآن |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [2] |
شعبۂ عمل | فقہ ، علم حدیث ، قرآنیات |
کارہائے نمایاں | کتاب الاموال |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیم159ھ مطابق 774ء میں ہرات میں ہوئی۔سنہ پیدائش میں تذکرہ نگاروں کا اختلاف ہے، ابو الفرج ابن جوزی نے سال 150ھ اور ابوبکر زبیدی نے 154ھ لکھا ہے۔شمس الدین الذہبی نے سال 157ھ لکھا ہے۔ابو عبید کے والد سلام الہروی روسی نژاد تھے جو اچھی طرح عربی زبان نہیں بول سکتے تھے لیکن انھوں نے ابو عبید کے لیے عربی زبان میں تعلیم دِلوانے کی خاطر کافی کوشش کی۔
تحصیل علم
ترمیمابو عبید نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر ہرات میں حاصل کی۔ نوجوانی کے عہد میں وہ بصرہ اور کوفہ تحصیل علم کے لیے روانہ ہوئے اور انھیں خلافت عباسیہ کے ان ناموار اُساتذہ سے شرفِ تلمیذی حاصل ہوا جو فقہ، حدیث اور دینی علوم کے لیے مستند خیال کیے جاتے تھے۔[3] کہا جاتا ہے کہ اُن کے والد انھیں عربی زبان کے اُستاد کے پاس لے گئے اور ناپختہ الفاظ میں یوں کہا: ’’علمی القاسم فانھا کیسۃ‘‘ (آپ قاسم کو پڑھائیے کہ وہ بڑا ہوشیار ہے)۔[4] یہ علمی اشارے ابو عبید کے مستقبل کو ظاہر کر رہے تھے کہ وہ آئندہ زمانے میں عربی زبان و عربی ادب کے مستند عالم اور علوم عربیہ کے امام ثابت ہوئے۔تحصیل علم کے لیے بغداد میں طویل سکونت اختیار کی جہاں انھوں نے عربی ادب، علوم صرف و نحو، قرأت، حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کی۔
مناظرانہ زندگی اور فارس واپسی
ترمیمعراق میں طویل قیام کے دوران وہ اپنے مناظرانہ مزاج کے باعث مشہور ہوئے۔ سنی عقائد کی ترویج کے معاملے میں اُن کے اہل تشیع علما کے ساتھ مناظرے ہوئے جن سے عراق میں ابو عبید کی شہرت پھیل گئی۔ یہ جاننا ذرا مشکل ہے کہ ابو عبید نے اپنے ارتقائی ماحول اور ابتدائی آزادانہ علمی کاوشوں کو کب چھوڑا؟۔ اِس کے متعلق حقائق، وجوہات اور قطعی اُمور معلوم نہیں ہو سکے کہ آخر کن وجوہات کے باعث ابو عبید نے اپنے مناظرانہ ماحول کو ترک کر دیا تھا۔ بہرحال ابو عبید بغداد کی سکونت ترک کرکے اصفہان چلے آئے[5] اور مشہور عباسی سپہ سالار ہرثمہ کے خاندان میں بطور اتالیق ملازمت پر مامور ہوئے۔ہرثمہ کا دار الحکومت نیشاپور تھا، علاوہ ازیں ابو عبید کا نیشاپور میں قیام مستقل یا دیرپا ثابت نہ ہو سکا کیونکہ ملکی سیاسی حالات ابتر تھے اور چہار اطراف سیاسی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ اِس سیاسی بگاڑ اور ناساز ماحول کو ترک کردینا ابو عبید کی ضرورت بن گیا اور اِس کے لیے انھوں نے غالباً 192ھ مطابق 808ء میں شاید طاہر بن الحسین کی سفارش پر طرسوسشہر کی قضاۃ کا عہدہ قبول کر لیا۔[6] [7] طاہر بن الحسن ابو عبید کا دوست تھا۔
192ھ مطابق 808ء میں طرسوس کے قاضی مقرر ہوئے اور اِس عہدے پر 18 سال فائز رہے۔اِن اٹھارہ سالوں کے درمیان اُن کے طرسوس کے حاکم ثابت بن نصر سے دوستانہ تعلقاات رہے۔ اِس تعلق کی بنا پر ابو عبید ثابت بن نصر کے بیٹے کا مخلص دوست اور مشیر رہا۔[8] طرسوس میں قاضی کے عہدے پر فائز رہنے اور مصروف زندگی کی بنا پر وہ علمی کام نہ کرسکے اور غالباً 210ھ مطابق 826ء میں وہ اِس عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔[9]
بغداد آمد
ترمیمطرسوس میں سبکدوشی کے بعد ابو عبید مصر چلے گئے۔ امام ابن حجر عسقلانی نے 213ھ مطابق 828ء/ 829ء میں ابو عبید کی دَرس و تدریس کا تذکرہ کیا ہے۔ اِس کے چند دِنوں کے بعد ابو عبید بغداد واپس آگئے جو اُس وقت اسلامی دنیا کا ثقافتی و مذہبی مرکز بن چکا تھا۔ بغداد میں خراسان کے حاکم عبد اللہ بن طاہر کے حلقے میں اُن کا خیرمقدم کیا گیا۔ غالباً قیاس کیا جا سکتا ہے کہ شاید ابو عبید واپس نیشاپور چلے گئے ہوں جہاں اُن کا علم دوست مربی عبد اللہ بن الحسین موجود تھا، لیکن اِس بیان کے متعلق کوئی حتمی شواہد نہیں ملتے۔ ابن الانباری نے بیان کیا ہے کہ مقام کرج میں ابو عبید نے ابودُلف سے ملاقات کی تھی۔[10]
آخری ایام
ترمیمزندگی کے آخری ایام میں ابو عبید نے ضعیفی کی حالت میں رات کا ایک تہائی حصہ عبادت، ایک تہائی آرام و استراحت اور ایک تہائی حصہ اپنی تصنیف و تالیف میں مختص کر لیا تھا۔[11][12] اواخر عمر میں ابو عبید حج اداء کرنے کے لیے مکہ مکرمہ چلے گئے اور وہیں تادمِ وفات مقیم رہے۔
وفات
ترمیمماہِ محرم 224ھ مطابق دسمبر 838ء میں ابو عبید کا انتقال 224ھ مطابق 838ء میں 65 سال قمری (63 سال شمسی) کی عمر میں مکہ مکرمہ میں ہوا۔
تصانیف
ترمیمابن ندیم نے اپنی تصنیف الفہرست میں 20 کتابوں کے نام گنوائے ہیں۔ ابو عثمان عمر بن بحر بن محبوب كنانی بصری الجاحظ (متوفی 868ء) جیسے بلند پایہ ادیب و انشا پرداز کو بھی ان کی تصانیف کی خوبیوں کا اعتراف ہے۔ جاحظ نے لکھا ہے کہ: ’’لم یکتب الناس أصح من کتبه ولا أکثر فائدة ( ان سے زیادہ صحیح، عمدہ اور مفید کتابیں لوگوں نے نہیں لکھیں)۔
یہ کتاب ابو عبید کی مشہور تصنیف ہے۔ یہ کتاب اقتصادیات کے موضوع پر نایاب ترین کتب میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جو اقتصادیات کے متعلق ہیں۔ اس کتاب میں امام نے کل آٹھ ابواب قائم فرمائے ہیں۔ کتاب الاموال کی سند بھی محفوظ ہے جو ایک عالمہ فاضلہ خاتون "فخرالنساء شہدہ بنت احمد الابری" کے واسطے سے طراد بن محمد الزینبی سے روایت کی ہے۔[13] حدیث کے علاوہ فقہی اور اجتہادی حیثیت سے بھی اس کتاب کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیم- علم اسماء الرجال
- اسلامی معاشیات
- کتاب الاموال
- ابو عبید قاسم بن سلامؒ کے اَحوال و آثار، محدث میگزینآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ magazine.mohaddis.com (Error: unknown archive URL)
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت ٹ بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb135689394
- ↑ عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/157379094 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 مئی 2020
- ↑ یاقوت الحموی: الارشاد الاریب، جلد 6 ، صفحہ 162۔
- ↑ کتاب الاموال: دیباچہ بابت مصنف ابو عبید، صفحہ 27۔ مطبوعہ اسلام آباد
- ↑ ابن ندیم: الفہرست، صفحہ 70۔
- ↑ خطیب بغدادی: تاریخ بغداد، جلد 12، صفحہ 405۔
- ↑ ابن قتیبہ دینوری: المعارف، صفحہ 272۔
- ↑ تاج الدین السبکی: طبقات، جلد 1، صفحہ 271۔
- ↑ خطیب بغدادی: تاریخ بغداد، جلد 2، صفحہ 413۔
- ↑ ابن الانباری: نزھۃ ، صفحہ 190۔
- ↑ یحییٰ بن شرف نووی: تہذیب، صفحہ 746۔
- ↑ ابن خلکان: وفیات الاعیان، جلد 3، صفحہ 488۔
- ↑ كتاب الاموال مؤلف : ابو عبيد القاسم بن سلام، ناشر : دار الفكر۔ - بيروت