جولائی 2011 کراچی تہدف قتل
جولائی 2011 کراچی تہدف قتل فائل:کٹی پہاڑی آپریشن.jpg | |
جائے وقعو | اورنگی ٹاؤن، کراچی |
تواریخ | 5 تا 10 جولائی 2011 |
حادثے کی قسم | ٹارگٹ کلنگ |
ہلاکتیں | 100 سے زائد[1] |
زخمی | 95 سے زائد[2] |
ملزمین | 257 سے زائد گرفتار غیر سیاسی وابستگی؛ طالبان |
جولائی 2011 کے پہلے اور دوسرے ہفتے کے دورانیہ میں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ سے 100 سے زائد[1] لوگوں کی ہلاکتیں پیش آئیں۔ شوٹنگ کے واقعات 5 جولائی سے نامعلوم مسلح افراد کی طرف سے شروع ہوئے تھے اور شہر بھر میں مختلف مضافاتی علاقوں میں اندھا دھند فائرنگ ہوئ۔ صرف تیسرے دن ہی کم از کم 27 افراد ہلاک ہو چکے تھے؛ یہ دن اس دہشت گردی کی لہر کا سب سے زیادہ خونخوار اور بدترین دن صابت ہوا۔ حکومتی دعوں کے باوجود کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن، کٹی پہاڑی، قصبہ کالونی اور ناظم آباد میں امن برپا نہ ہو سکا۔ چنانچہ، چار دن بعد ایک آپریشن میں تقریبا 257 دہشت گرد گرفتار کیے گئے اور امن بحال ہوتا دکھا۔
دیگر واقعات
ترمیممنگل، 5 جولائ 2011، کو نامعلوم مسلح افراد نے اورنگی ٹاؤن کے گرد و نواہ میں مختلف فائرنگ کی وارداتوں میں 11 لوگ مار ڈالے؛ شیرشاہ میں 1 اور بلدیا ٹاؤن اور کورنگی میں 2 لوگ ہلاک ہو گئے۔ قصبہ موڑ، اورنگی ٹاؤن میں ديگر واقعات میں 8 لوگ جان بحق اور درجن زخمی ہوئے۔[3] ان واقعات کے فورا بعد صوبائ حکومت نے ڈبل سواری پر پابندی لگا دی۔[1] قصبہ کالونی میں ديگر پہاڑی مقامات پر دہشت گردوں نے قبضہ کر کہ عام شہریؤں پر اونچے مقامات سے بھاری فائرنگ شروع کر دی۔
بدھ، 6 جولائ 2011 کو حملوں کے دوران، تین بسوں پر فائرنگ ہوئ، ان میں سے کچھ اورنگی ٹاؤن میں واقع ہوئیں جس کی وجہ سے مضافاتی مقامی لوگوں کو ان کے گھروں کو خالی کرنا پڑا اور محفوظ علاقوں کی طرف فرار ہونا پڑا۔ حملہ آور بھی فوری طور پر جرم کے بعد فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ صدر آصف علی زرداری نے اعلی حکام کے ایک اجلاس کو طلب کیا تاکہ کربچی میں جاری تشدد کے بارے میں بات کرکے حل تلاش کریں۔ میڈیا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے حملے کی مذمت کی گئی۔
رحمان ملک کے اعلانات اور انکشفات
ترمیمکراچی میں امن امان کے بارے میں اعلی سطح کے اجلاس کے بعد وزیرِ داخلہ رحمن ملک نے بتایا کہ پولیس نے 7 جولائی کی شب ٹارگیٹڈ آپریشن کیا جس میں نواسی ملزمان کو گرفتار کرکے اسلحہ برآمد کیا گیا؛ یہ لوگ مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔[4] گرفتار لوگوں میں 12 اردو بولنے والے، 19 پٹھان، 3 بلوچ اور 55 دیگر لوگ شامل تھے۔ انھوں نے بتایا کہ قصبہ کالونی اور کٹی پہاڑی میں ڈیڑھ اور دو فٹ کی گلیاں ہیں جہاں پولیس کا جانا بہت مشکل ہے۔
کچھ گرفتار تہدفی قاتلوں نے دوران قتل متحدہ قومی تحریک کے اعلی رہنماؤں سے براہ راست رابطہ میں ہونا بتایا ہے۔[5]
کراچ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رحمان ملک نے کہا کہ کراچی طالبان کی گرفت میں آچکا ہے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ شاہ فیصل کالونی میں کچھ غیر ملکی شر پسند عناصر پائے گئے ہیں۔ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ ایک بلا امتیاز ایکشن کی ضرورت ہے جس میں ہر شر پسند گروہ کے خلاف آپریشن لینے کی تجویز دی گئی۔ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ جب تک یہ آپریشن ختم نہ ہو تب تک میڈیا کی مداخلت پر پابندی رکھی جایئگی۔
پولیس اور رینجرز نے جب تیاری کی تو جن علاقوں میں کارروائی کرنی تھی وہاں کی بجلی چلی گئی۔ وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ "کچھ علاقے ہم رینجرز اور کچھ پولیس کے حوالے کر رہے ہیں۔ ایف سی اہلکار بھی طلب کرلیے گئے ہیں۔ اگر مزید فورس کی ضرورت پڑی تو وہ بھی فراہم کی جائے گی"۔
اگست 2011ء میں سندھ کے مستعفی ہونے والے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے رحمن ملک پر سیاسی وجوہات پر گرفتار شدہ قاتلوں کو رہا کرنے کا الزام لگایا۔[6]
پولیس آپریشن
ترمیمجمعہ، 8 جولائی 2011 کی شب کراچی کے مختلف علاقوں میں بلاآخر پولیس اور رینجرز حرکت میں آگئ۔ خواتین اور بچوں کی نقل مکانی کا سلسلہ شام سے شروع ہو چکا تھا اور رات میں اختتام پزیر ہوا۔ دیر رات، اندھیرہ ہوتے ساتھ، پولیس اور رینجرز نے گشت بڑھا دیا اور قصبہ کالونی اور کٹی پہاڑی کے حساس اور کشیدہ صورت حال والے علاقوں میں آپریشن شروع کر دیا گیا۔
سنیچر، 9 جولائی 2011 کی صبح تقریبا 5 بجے پولیس کے ایک آپریشن میں قائدآعظم کالونی اور میٹروول کالونی کے علاقوں سے 8 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ گرفتاری کے باعث ان افراد کے پاس سے 1 کلاشنکوف، 12 ٹی ٹی پستولیں اور کافی مقدار میں منشیات بھی دریافت ہوئیں۔
سیاسی پیش رفت
ترمیمدریں اثنا، متحدہ قومی موومنٹ نے کہا کہ اگر حکومت کی طرف سے کچھ نہ ہو پایا تو وہ ایک بڑے دھرنے اور ہڑتال کی صورت میں احتجاج کریگی۔ البتہ، متحدہ قومی موومنٹ نے سکیورٹی خدشات کے باعث احتجاجی ریلی منسوخ کر دی اور یوم سوگ منانے کی اپیل کر ڈالی۔[4] کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، جو اکثر مبینہ طور پر سیاست کے حوالے سے ہوتی ہیں، اس دفہ بظاہر کسی سیاسی مداخلت سے خارج تھیں۔ یہ عام طور پر ایک بڑی تعداد میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ الحاق شدہ سیاسی کارکنوں کے خلاف ہوتی دیکھائ دیتی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربرہ، عمران خان، کا کہنا تھا کہ اس دہشت کی لہر کے زمہ دار اور کوئی نہیں بلکہ متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں ہیں جو ان دہشت گردوں کو سیاسی مفعد کے لیے پالتی ہیں۔[7] یہ بیان تب دیا گیا جب متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی ایک دوسرے پر اس سانحہ کو لے کر الظام تراشی کر رہے تھے۔[1]
کراچی میں کمشنری نظام کی بحالی
ترمیمسیکورٹی تحفظات کی روشنی میں، حکومت نے سندھ صوبے کے ضلعی (ڈویژنل) حدود بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔ کراچی میں کمشنری نظام بحال کر دیا گیا[8] اور سندھ کے دیگر علاقوں میں بلدیاتی نظام بحال کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت سے علاحدہ ہونے والی کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ اس نظام کے نفاذ سے ناخوش تھی۔[8]
کراچی کو قبل 2001 کے آئین کے تحت 5 اضلاع (شرقی، غربی، شمالی، جنوبی اور ملیر) میں بانٹ دیا گیا جبکہ حیدرآباد کی بھی پرانی ضلعی حیثیت برقرار کر دی گئی اور مختلف اضلاع ایک ساتھ شامل کر کہ مشترکہ حیدرآباد ضلعہ تشکیل دے دیا گیا۔ حکومت کا ماننا تھا کہ ان اقتدامات سے سیکورٹی کی صورت حال پھر بحال کی جا سکے گی۔
عدالتی تفتیش
ترمیماگست 2011ء میں عدالت اعظمی نے کراچی میں تہدفی قتل کی تحقیقی سماعت شروع کی۔[9] اور فیصلہ سنایا کہ کراچی میں سیاسی جماعتیں بھتہ خوری میں ملوث ہیں اور اپنے مسلح غنڈوں کا استعمال کرتی ہیں۔[10]
بیرونی روابط
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت کراچی میں تشدد: 100 سے زائد ہلاکتیں ایکسپریس ٹربیؤن، 9 جولائ 2011 (انگریزی)
- ↑ کچھ دھیمے اقوال: 'صرف' 6 ہلاکتیں اور تشدد جاری ایکسپریس ٹربیؤن، 11 جولائ 2011 (انگریزی)
- ↑ کراچی میں تشدد: تہدّفی مقتول کی تعداد اب 25 ایکسپریس ٹربیؤن، 6 جولائ 2011 (انگریزی)
- ^ ا ب کراچی: 80 ہلاکتیں، سوگ اور گرفتاریاں بی بی سی اردو، 7 جولائ 2011
- ↑ "ڈاکٹرعمران فاروق جنگجوؤں سے براہ راست رابطے میں تھے، ٹارگٹ کلرز کا انکشاف"۔ جنگ۔ 2011-08-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-05
- ↑ "الطاف حسین اور اس کے حواری پاکستان کے دشمن ہیں، ملک توڑنا چاہتے ہیں،"۔ جنگ۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-09-03
- ↑ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی ہلاکتوں کی زمہ دار: عمران[مردہ ربط] دی نیوز اخبار، 9 جولائ 2011 (انگریزی)
- ^ ا ب عائشہ خان، کمشنری نظام کی بحالی کا حکومتی فیصلہ مسترد وائس آف امریکا، 10 جولائ 2011
- ↑ "Unveil patrons of killers: CJ"۔ دی نیشن۔ 30 اگست 2011ء۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
- ↑ "'Violence in Karachi a result of turf war'"۔ ڈان۔ 6 اکتوبر 2011ء۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا