لعل شہباز قلندر

صوفی ولی، فلسفی اور شاعر (١١٧٧–١٢٧٤)

لعل شہباز قلندر (1177ء تا 1274ء) جن کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا، سندھ میں مدفون ایک مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، الٰہیات دان، فلسفی اور قلندر تھے۔

عثمان مروندی
دیگر ناملعل شہباز قلنددر
ذاتی
پیدائش538ھ بمطابق 1177ء
وفات673ھ بمطابق 1274ء
مذہباسلام
دیگر ناملعل شہباز قلنددر
سلسلہسلسلہ قلندری
سلسلہ قادریہ
مرتبہ
مقامسیہون شریف
دوربارہویں/ تیرہویں صدی
پیشروبہاؤالدین زکریا ملتانی

زمانہ

ان کا زمانے میں بہت سے معروف اولیائے کرام کا موجود تھے۔ مشہور بزرگ سید صدرالدین رضوی بھاکری، شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی،مخدوم عبدالرشید حقانی، جلال الدین رومی، سید جلال الدین سرخ بخاری، مخدوم صدر الدین قتال، صدر الدین عارف (فرزند بہاؤ الدین زکریا)، شیخ بو علی قلندر پانی پتی جیسے اولیاء کبار ان کے قریباً ہم عصر تھے۔[2]

مذہبی رواداری

ہندوﺅں اور مسلمانوں میں مذہبی رواداری کی تبلیغ کی بنا پر لعل شہباز قلندر تمام مذاہب کے پیروکاروں میں یکساں محترم تصور کیے جاتے ہیں۔

وجہ تسمیہ

چونکہ ان کا خرقہ تابدار یاقوتی رنگ کا ہوا کرتا تھا اس لیے انھیں ‌"لعل"، ان کی خدا پرستی شرافت, اور آسمانوں میں پرواز کرنے کی بنا پر "شہباز" اور قلندرانہ مزاج و انداز کی بنا پر "قلندر" کہا جانے لگا۔

دما دم مست قلندر

برصغیر کے تمام ممالک بھارت، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں انتہائی مشہور صوفی گیت دما دم مست قلندر میں لعل شہباز قلندر ہی کی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے۔ اصلاً یہ گیت تیرہویں صدی عیسوی میں لکھا گیا تھا اور اس کے بعد سے اسے بہت سے موسیقاروں اور گلوکاروں نے گایا اور ہر دور میں یہ انتہائی مقبول رہا۔

ولادت

لعل شہباز قلندر کی ولادت 538ھ بمطابق 1143ء مروند یا میوند (موجودہ آذربائیجان یا افغانستان) میں ہوئی۔[3]

سلسلہ نسب

لعل شہباز قلندر کا سلسلہ شجرہ نسب تیرہ واسطوں سے امام جعفر صادق تک پہنچتا ہے۔ آپ کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے:
”سید عثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سید نور شاہ بن سید محمود شاہ بن احمد شاہ بن سید ہادی بن سید مہدی بن سید منتخب بن سید غالب بن سید منصور بن سید اسماعیل بن سید جعفر صادق“۔[4]

وطن

لعل شہباز کا وطن مروند تھا، مروند کا شہر تبریز سے کچھ فاصلے پر ہے، اس شہر کو میوند بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر بہت قدیم ہے۔ یہ شہر اس وقت آذربائیجان کا دار الخلافہ تھا۔ دریا کے کنارے خوش نما شاداب منظر کے سبب مشہور تھا۔ یاقوت نے لکھا ہے کہ اس شہر کو کردوں نے تخت و تارج کیا۔ کردوں کے حملے کے بعد قلعہ برباد ہو گیا اور شہر کی ہیبت و شان جاتی رہی۔ کرد اہل مروند کو اپنا غلام بنا کر لے گئے۔ مدتوں یہاں خاک اڑتی رہی۔ انسانی آبادی سے یہ شہر مدتوں خالی رہا۔ مستونی کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر نہر رود پر واقع تھا۔ اس نہر کی کافی وسعت تھی۔ نو ہاتھ زمین کے اندر بہتی تھی۔ مرند کی خوش حالی اور رونق ختم ہو چکی تھی۔ یہ شہر قرمّر کے کپڑوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ جن سے لالی رنگ تیار ہوتا ہے، تاریخ میں آتا ہے کہ اس شہر کے نواح میں بہت سی بستیاں آباد تھیں۔

ان حقائق سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا اصل وطن آذربائیجان ہے اور شہر کا صحیح نام مرند ہے۔ مرند سے مروندی ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔[5]

خاندان کی عظمت

آپ کا خاندان یگانہ روزگار تھا۔ آپ کے والد ماجد سید کبیر اپنے وقت کے مشہور عالم تھے، ان کا طریقہ اتباع سنتِ نبوی تھا۔ شرعی احکام سے سرہو انحراف نہ کرتے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ بڑی عبادت گزار تھیں۔ شیخ مروندی اپنے خاندان کے اعتبار سے اونچی نسبت رکھتے تھے۔ اس لیے صالحیت و سخا کے بہت سے خصائص ان کے خاندان میں منتقل ہو گئے تھے۔ آپ کی والدہ کے متعلق معلوم ہے کہ پردہ شب کی تاریکی میں بیٹھ کر رویا کرتی تھیں۔ فرماتیں۔ اللہ کے خوف سے رونے والا دوزخ میں نہ جائے گا۔ ان کی ذات خشیتِ الہی کا سر چشمہ تھی۔ رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزارتیں۔ اس ماں کی گود کا لعل جذب و جلال کا جوہر بن کر جب سیوہن پہنچا تو تو اس کی تابناکی کئی نگاہوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ سلطان شاہ حاکم سرند کی یہ صاحبزادی اپنے شوہر سید کبیر کے جذب و تصّرف کی تاثیر سے اپنے وقت کی زاہدہ و عابدہ خاتون کہلائیں۔[6]

القاب کی وجہ تسمیہ

آپ کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر "لعل" کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھی اور سرخ کپڑے زیب تن کرنے کی وجہ سے آپ کا لقب لعل ہوا۔ شہباز کا لقب امام حسین نے ان کے والد کو پیدائش سے پہلے بطور خوشخبری کے عطا کیا. اس وجہ سے ”شہباز“ لقب ہوا اور اس سے مراد ولایت کا اعلیٰ مقام ہے۔

القاب:
• لعل (سرخ کپڑوں کی وجہ سے )
• شہباز (امام حسین ع کی عطاء سے آسمانوں میں پرواز کرنے کی وجہ سے)
• سیف اللسان (جو ارشاد فرماتے پورا ہوجاتا)
• قلندر (سلسلہ قلندری)
• شمس الدین (تبلیغ اسلام کے صلہ میں)
• مہدی[7]
• مخدوم (علوم ظاہری و باطنی میں مہارت کی وجہ سے)

شجرۂ طریقت

لعل شہباز قلندر کا شجرہ طریقت حکیم فتح محمد سیوہانی نے اپنی تصنیف۔”قلندرنامہ“ میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

حضرت قلندر مروندی سیوہانی کا سلسلہ قلندری حضرت امام زین العابدین کے واسطے سے سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچتا ہے۔کیونکہ یہ سلسلہ سید جمال سے حضرت علی بن موسیٰ رضا، امام جعفر صادق، امام زین العابدین اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم سے ہوتا ہوا سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچتا ہے۔[8]

اس کے علاوہ بہت سے تذکرہ نگاروں نے آپ کا سلسلہ طریقت قادریہ بتایا ہے۔ دارالشکوہ کا جو شجرہ طریقت ”تذکرہ الفقرہ“ میں درج ہے۔ وہ عثمان مروندی کے واسطے سے شیخ عبدالقادر جیلانی سے مل جاتا ہے۔

دارالشکوہ مرید ملا شاہ خشی مرید میاں میر سیوہانی حضرت خضر سیوہانی مرید شاہ سکندر مرید خواجہ خانی مرید سید علی قادری مرید حضرت مخدوم سید عثمان مروندی قلندر شہباز مرید شاہ جمال مجرد مرید ابواسحاق ابراہیم مرید مرتضیٰ سبحانی مرید حضرت احمد بن مبارک مرید حضرت سید عبدالقادر جیلانی حمۃ اللہ علیہم اجمعین۔[9]

حصولِ تعلیم

عثمان بن کبیر المعروف شہباز قلندر تعلیم ابتدائی طور پر حسب معمول اسلامی بنیادیں اصول کے تحت تھی۔[10]

شہباز قلندر نے محض سات سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد اپ نے بہت ہی قلیل عرصے میں مروجہ عربی و فارسی علوم میں بھی مکمل دسترس حاصل کرلی۔

لعل شہباز قلندر کی قابلیت اور عربی دانی کے سلسلے کا یہ ایک واقعہ بہت مشہور ہے:

حضرت لعل شہباز قلندر جب ملتان میں تشریف لائے تو اس زمانہ میں غیاث الدین بلبن تخت نشین تھا۔غیاث الدین بلبن عارفوں اور علماء کرام کا بہت بڑا قدردان تھا۔ جب اس نے قلندر شہباز کی آمد کی خبر سنی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی تعظیم بجالایا، وہ آپ کے لیے بیش بہا تحائف بھی لایا۔جس سے اس کی عقیدت آپ کے ساتھ بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔تحائف پیش کرنے کے بعد اس نے آپ سے درخواست پیش کی کہ آپ ملتان میں قیام کریں [11][12]۔مگر آپ نے قیام ملتان کے سلسلہ میں معذرت کرلی۔

اس دوران میں سلطان محمد نے ایک عربی سرود کی مجلس کا اہتمام کیا۔اس مجلس میں حضرت غوث العالم غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی، کے فرزند ارجمند حضرت حضرت صدرالدین عارف ملتانی بھی موجود تھے۔یہ دونوں بزگان یعنی لعل شہباز قلندر اور عارف ملتانی عالم وجد میں رقص کرنے لگے اور خود سلطان محمد کا بھی یہی عالم تھا۔[13][14][15][16]

بچپن میں ابتدائی منزلیں باپ کے سائے میں گزاریں، آپ کے والد مشائخ تبریز میں بڑا درجہ رکھتے تھے۔ ان کی نگرانی میں آپ کی نشو و نما ہوئی اور تعلیم و تربیت کا اہتمام ہوا۔ اہل علم باپ کی وجہ سے حافظ عثمان کو اہل اللہ کی صحبتیں بچپن سے میسر آئیں تھیں۔ اس طرح فیوض و برکات اور علم دین کے گہرے نقش ان کے لوح دل پر ثبت ہوئے تھے۔ وقت آیا کہ ایمان و یقین کی ایسی دولت ہاتھ آئی کہ فکر و تحیر کا ان پر دروازہ کھل گیا۔ بچپن میں ایسی مجالس میں شریک ہوتے تھے، جن میں موت اور قیامت کے منظر یاد کو یاد کیا جاتا ہے اور قرآن کی ان آیت کی تلاوت کی جاتیں جن کا تعلق حشر جزا اور سزا سے ہے۔ لوگوں کا حال عجیب ہوتا، آنکھوں سے آنسو بہتے، نفس کا محاسبہ کرتے اور فضا استغفار سے گونجتی تھی۔ نیکی اور راست بازی بچپن میں ان کا شعار بن گئی تھی۔ علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اور تحقیق و تجسس کی طرف طبیعت بہت زیادہ راغب تھی۔[17]

ابتدائی حالات

آپ مروند (موجودہ افغانستان) کے ایک درویش سید ابراہیم کبیر الدین کے بیٹے تھے۔ ان کے اجداد نے عراق سے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی جہاں کی تعلیم مشہور تھی۔ بعد ازاں مروند کو ہجرت کی۔ آپ کو اس دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور آپ نے اسلامی دنیا کے لا تعداد سفر کیے جس کی وجہ سے آپ نے فارسی، عربی، ترکی، سندھی اور سنسکرت میں مہارت حاصل کر لی۔ آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور مسلمانوں کے علاوہ ہنود میں بھی بڑی عزت تھی۔ آپ سرخ لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے انھیں لال کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں جھولے لال بھی کہا جاتا تھا۔

سفر حج بیت اللہ

حج بیت اللہ کے لیے آپ کی بے تابیوں کا منظر بہت عجیب تھا، سارے قرض ادا کر دیے، امانتیں واپس کیے اور اتنا مال ساتھ لیا جس سے زادِ راہ اور سواری خریدی جا سکے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کے مشاہدے کے لیے دل مضطرب تھا اور عرفہ کا وہ دن یاد کرتے اور اور آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جائیں جب اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول جلال فرماتیں ہیں اور اہل عرفات سے فرشتوں پر فخر کرتے ہیں۔ دیکھو! میرے بندوں کو درد داز راستوں پراگندہ بال غبار آلود شور مچاتے ہوئے میرے پاس آئے ہیں۔ تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں ان کی مغفرت کر چکا۔ آپ کی رونگی کا منظر ایسا تھا جیسے سفر آخرت پر جا رہے ہیں۔ اپنے کو مخاطب کر کے فرماتے اے عثمان! آج اس سواری پر سفر حج کر رہا ہے۔ کل سفر جنازہ کی سواری پر آخرت کا کیا توشہ اور زاد راہ رکھتا ہے۔ احرام کے دو کپڑے پہنے تو کفن کو یاد کر رہے تھے، عثمان ایک دن اس میں لپیٹا جائے گا۔ لبیک اللھم لبیک کہا تو علی بن حسین کا واقعہ سامنے آگیا اور رو دیے۔ اپ کے حج کیا ایک عجیب شان ہے۔ عرفات کے منظر کو دیکھ کر حشر کے منظر کو سامنے لاتے ہیں، جب لوگ قبروں سے محشور ہو کر اس طرح قیامت کے میدان میں جمع ہو نگے۔ ساری مخلوق داخلہ کی امید میں جنت کی طرف دوڑے گی۔ اس کے بعد دو فریق ہو جائے گے، کسی کو داخلہ کی اجازت ملے گی اور کسی کو ادھر سے پھیر دیا جائے گا۔ اسی طر حجاج کے دو فریق ہوں گے، ایک مقبول دوسرا وہ جس کو رد کر دیا جائے گا۔ آؤ دیکھے مرند کے درویش کا طواف کیا ہے؟ کمال محبت اور تعظیم کو قلب میں حاضر کر کے طواف میں مشغول ہیں، اس طرح جیسے کوئی نماز میں مصروف ہو، حجر اسود کو بوسہ دیا تو یوں کہ اللہ سے اس کی اطاعت کی بیعت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایک ادا نرالی تھی ملتزم سے چپٹنے اور ہردہ بائے کعبہ سے لپٹنے کا وقت آیا تو دیکھنے والوں نے دیکھا جیسے خطا کار جس کی اس نے خطا کی ہو اس سے لپٹتا ہے، اس کا دامن پکڑتا ہے معافی مانگتا ہے۔ یہی حال حافظ مروندی کا تھا۔

مدینہ منورہ روانگی

جب آپ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کی حالت قلندرانہ تھی۔ حضور ﷺ کے ساتھ آپ کی والہانہ محبت کا یہ عالم تھا کہ گریہ تمھتا نہ تھا، کبھی اس مقام پر کھڑے ہو جاتے جسے باب عبد المجید کہتے ہیں، کبھی باب جبرئیل کے پاس آجاتے، کبھی باب السلام پر کھڑے ہوتے۔ روضہ اطہر کو دیکھتے اور ہوش رہتا عجیب ذوق ہے اور عجیب سوز ہے قلندر سراپا، صدق و دل اخلاص کا پیکر اور تعلیم و رضا کی تصویر بنا مودجہ شریف کے اس وقت سامنے ہے۔[18]

بغداد کی طرف سفر

حج سے فارغ ہوئے تو بغداد کا سفر اختیار کیا، یہاں بڑے بڑے علما و فضلا موجود تھے۔ جن سے انھیں استفادہ کا موقع ملا۔ سید حسن کا مزار سیوہن میں آپ کے مقبرے کے باہر مسجد کے مغرب میں ہے، بغداد میں آپ سے بیعت ہوئے۔ آپ ان سے خاص شفقت فرماتے تھے۔[19]

سفر مشهد وطن واپسی

آپ نے بغداد کے بعد مشہد کی طرف سفر اختار کیا۔ وہاں آپ نے امام موسیٰ رضا کی زیارت گاہ سے مشرف ہوئے۔ بابا ابراہیم دلی سے کربلا معلیٰ میں ملاقات ہوئی، ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔ اس طرح سفر حج سے واپسی کے بعد آپ ایران کے راستے تبریز تشریف لے گئے اور پھر اپنے وطن مرند واپس پہنچے۔[19]

خان شہید کی عقیدت

غیاث الدین بلبن کا بیٹا خان شہید (سلطان محمد) آپ کا بے حد عقیدت مند تھا۔ خان شہید کی بڑی آرزو تھی کہ آپ ملتان میں قیام فرمائیں اور اس کے لیے اس نے ایک خانقاہ بھی بنوانی شروع کی لیکن آپ نے ملتان میں قیام پسند نہیں فرمایا۔ پھر بھی آپ کبھی کبھی خان شہید کے پاس جاتے اور شیخ صدر الدین عارف کی مجالس سماع میں شریک ہوتے تھے۔[20]

سندھ تشریف آوری

آپ سیر و سیاحت کرتے ہوئے بوعلی قلندر کی خدمت میں پہنچے۔ انھوں نے آپ سے فرمایا کہ ہند میں تین سو قلندر موجود ہیں، بہتر یہ ہے کہ آپ سندھ تشریف لے جائے۔ ان کے مشورہ کے مطابق آپ نے سندھ میں پہنچ کر سیوستان میں قیام فرمایا۔

پہلی برکت

اتفاقاً سیوستان میں آکر آپ جس محلے میں مقیم ہوئے، کسی عورتوں کا تھا۔ اس عارف باللہ کے قدوم میمنت لزوم کا پہلا اثر یہ تھا کہ وہاں زناکاری اور فحاشی کا بازار سرد پڑ گیا، نیکی اور پرہیزگاری کی طرف قلوب مائل ہوئے اور زانیہ عورتوں نے آپ کے دستِ حق پر توبہ کی۔[21]

رشد و ہدایت

مخدوم شہباز قلندر نے سیوستان میں رہ کر بگڑے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے پر لگایا۔ ان کے اخلاق کو سنوارا، انسانوں کے دلوں میں نیکی اور سچائی کی لگن پیدا کی اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے رہنا سکھایا۔ آپ تقریباً چھ سال تک سیوستان میں رہ کر اسلام کا نور سندھ میں پھیلاتے رہے۔ ہزاروں لوگوں نے آپ کے ہاتھ سے ہدایت پائی اور بہت سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا رشتہ اللہ سے جوڑا۔ [22]

وصال

آپ کا وصال 21 شعبان المعظم 673ھ میں ہوا۔[23] لیکن ان کے وصال کو لے کر اختلاف پایا جاتا ہے مختلف کتب میں مختلف تاریخ وصال درج ہیں۔ کسی میں 590ھ کسی میں 669ھ، 670ھ لکھا ہے۔ مگر ”فاضل مؤلف“ نے اپنی تصنیف میں ”شہباز قلندر“ کے صفحہ 41 پر تاریخِ وصال کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ عثمان مروندی کا سنہ وصال 673ھ ہے، اس سلسلہ میں فاضل مؤلف نے ایک شعر بطور ثبوت پیش کیا ہے جو روضہ قلندر پاک کی دیوار پر لکھا ہوا ہے:

چوں رفتہ سری جفاں آں شیخکو زہدہ آل و پاک نام است
از ھاتف غیبت شنید ندعثمان بہ دروازہ امام است

(661 + 13 = 673ھ بمطابق 1274ء)[24]

مزار اور عرس

 
لعل شہباز قلندر کا مزار

ان کا مزار سندھ کے شہر سیہون شریف میں ہے۔ یہ سندھی تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے اور 1356ء میں تعمیر ہوا۔ اس کا اندرونی حصہ 100 مربع گز کے قریب ہے۔ ان کا سالانہ عرس اسلامی تقویم کے مطابق 18 شعبان المعظم کو ہوتا ہے۔

فیروز شاہ کی حکومت کے زمانے میں ملک رکن الدین عرف اختار الدین والی سیوستان نے آپ کا روضہ تعمیر کروایا۔ اس کے بعد 993ھ میں ترخانی خاندان کے آخری بادشاہ مرزا جانی بیگ ترخان نے آپ کے روضہ کی توسیع و ترمیم کرائی۔ اس کے بعد 1009ھ میں مرزا جانی بیگ ترخان کے بیٹے مرزا غازی بیگ ترخان نے اپنی صوبہ داری کے زمانے میں اس میں دوبارہ تر میم کرائی۔[25]

فیض یافتہ حضرات

آپ سے بے شمار لوگوں نے روحانی فیض حاصل کیا، مگر چند حضرات کا نام نامی خوب چمکا۔ آپ کے فیض یافتوں میں مندرجہ ذیل شخصیتیں قابل ذکر ہیں۔

عبد اللہ شاہ ابدال، سکندر بودلو، سید علی سرمست، سید عبد الوہاب، سید میر کلاں، سید نادر علی شاہ، سید صلاح الدین، شاہ گودڑو، پیر نپو، لعل موسیٰ ۔[26]

مزار پر حادثہ

16 فروری 2017 کو لعل شہباز قلندر مزار خودکش حملہ میں 70 سے زائد افراد ہلاک اور 550 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

حوالہ جات

  1. ميمن عبد الغفور سندھی،”عظيم سنڌي انسان“(سندھی کتاب)، عنوان: بـــــودلـــــو بــهــــار رح (1238ع – 1298ع)، مطبوعہ ماڈرن بُک اسٹور لاڑکانہ
  2. سید ارتصیٰ علی کرمانی، سیرت پاک حضرت عثمان مروندی، عنوان: حضرت عثمان مروندی کے چند ہمعصر بزرگ۔ صفحہ 54، مطبوعہ عظیم اینڈ پبلشرز لاہور
  3. حکیم فتح محمد سیوہانی،”قلندر نامہ“۔ صفحہ۔3
  4. خدا داد خان، ”لب تاریخ سندھ“، صفحہ۔6
  5. تذکرہ اولیائے پاکستان جلد 1 صفحہ 144
  6. تذکرہ اولیائے پاکستان جلد 1 صفحہ 144 اور 145
  7. نواب سید صدیق حسن، کتاب: حج الکرامتہ فی آثار القیامہ
  8. حکیم فتح محمد سیوہانی، ”قلندر نامہ“۔ تمام صفحات
  9. ”تذکرہ الفقرہ“، دارالشکوہ کا شجرہ طریقت
  10. سید ارتضیٰ علی کرمانی، سیرت پاك حضرت عثمان مروندی، صفحہ۔30۔ مطبوعہ لاہور
  11. محمد وحید مراد، The Life of Andworhs of Amirkhusrau۔صفحہ 47
  12. تحفتہ الکرام، جلد سوئم،صفحہ۔36
  13. تاریخ فیروز، شاہی برنی، سید احمد خان ایڈیشن،صفحہ 48 اور 67
  14. تاریخ معصومی،صفحہ۔40
  15. لب تاریخ سندھ، صفحہ۔35
  16. مآثر الکرام، جلد اول، صفحہ 85-287
  17. تذکرہ اولیائے پاکستان جلد 1 صفحہ 145
  18. تذکرہ اولیائے پاکستان جلد 1 صفحہ 146 اور 147
  19. ^ ا ب تذکرہ اولیائے پاکستان جلد 1 صفحہ 148
  20. تذکرہ صوفیائے سندھ
  21. تذکرہ صوفیائے سندھ صفحہ 202 اور 203
  22. تذکرہ صوفیائے سندھ صفحہ 203
  23. فیضان عثمان مروندی لعل شہباز قلندر، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی
  24. فاضل مئولف، ”شہباز قلندر“، صفحہ۔41
  25. تذکرہ اولیائے پاکستان جلد 1 صفحہ159
  26. تذکرہ اولیائے پاکستان جلد 1 صفحہ 158