خروج بنیادی بنی اسرائیلی حکایت ہے۔ یہ مصر میں بنی اسرائیل کی غلامی ، یہوواہ (اللہ کا عبرانی نام) کے ذریعہ ان کی نجات، سیناء میں بنی اسرائیل کے لیے اتری آیات، کنعان کے کناروں اور وادی تیہ کے بیابانوں میں خانہ بدوشی، خداداد ارضِ مقدسہ کی زمین کے بارے میں بتلاتی ہے۔ یہ کہانی بائبل میں خروج ، احبار ، گنتی اور استثناء کی کتابوں اور قرآن میں الشعراء ، القصص ، الصف ، الاعراف ، المائدہ، طہ دخان کی سورتوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ بائبل میں اس کا پیغام ہے کہ اسرائیل کو خدا نے غلامی سے نجات دلائی ہے اور اسہی کی وجہ سے شریعت موسوی کے ذریعے سے ان سے تعلق رکھتا ہے، جس کی شرائط ہیں کہ خدا اپنے منتخب کردہ قوم کی حفاظت کرتا رہے گا، جب تک وہ خدائی شریعت پر عمل پیرا رہیں گے اور صرف اسی کی عبادت کرتے رہیں گے ۔ جبکہ قرآن سابقہ انعامات کا ذکر کر کے دوبارہ حق پرستی و حق شناسی کی تلقین کرتا ہے یہ بیانیہ اور شریعت یہودیت میں مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں ، جو روزانہ یہودی عبادت میں دہرائے اور فسح جیسے میلوں میں منائے جاتے ہیں،یونہی یورپ میں ظلم و ستم سے فرار ہونے والے ابتدائی غیر یہودی مزاحمتکار (پروٹسٹنٹ) دھڑوں اور سیاہ فام امریکیوں کی آزادی اور شہری حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے تلقین اور مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔

اسرائیلیوں کی روانگی (ڈیوڈ رابرٹس, 1829)

ماہرین نے وسیع طور پر اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ خروج کی کہانی 5 صدی ق م کی ہے۔ اس کی روایات کا سراغ 8 ویں صدی قبل مسیحی عیسائیوں کے تحریروں میں لگایا جا سکتا ہے، لیکن اس کی کوئی آثارِ قدیمہ کی تاریخی بنیاد نہیں بلکہ، آثارِ قدیمہ قدیم اسرائیل کے لیے فقط ایک کنعانی آبادی کی توجیہ پیش کرتا ہے۔

خلاصہ

ترمیم

روایت

ترمیم
 
مصر میں بنی اسرائیل احرام تعمیر کرتے ہوئے (ایڈورڈ پوئنٹر 1867ء کی تصویر)
 
آلِ فرعون ننھے موسیٰ ؑ کو دریائے نیل میں پاتے ہوئے

خروج کی کہانی، جو بائبل (پہلی پانچ کتابوں میں سے آخری چار کتابوں جنہیں تورات کہا جاتا ہے) میں خروج ، احبار ، گنتی اور استثناء کی کتابوں اور قرآن میں الشعراء ، القصص ، الصف ، الاعراف ، المائدہ کی سورتوں میں بتائی گئی ہے، بنی اسرائیل قحط سالی (یوسف ؑ:48) کی وجہ سے ارض مقدسہ سے مصر ہجرت کرتے ہیں کیونکہ ایک بنی اسرائیلی (یوسف ؑ) حاکم مصر کے دربار میں وزارت حاصل کرلی تھی (یوسف ؑ :55)، بائبل کے مطابق قصۂِ خروج کا آغاز یوسف ؑ کے انتقال بعد کے کسی فرعون کی تخت نشینی سے ہوتا ہے جو یقیناً یوسف ؑسے ناواقف ہوتا ہے(خروج 1:8)، نئے فرعون کو بنی اسرائیل کی تعداد و قوت سے تشویش تھی چنانچہ اس نے انھیں غلام بنانا اور ان کے شہروں پیتوم اور رمسیس سے مزدوری کا کام لینا شروع کیا (خروج 1:11) اور ساتھ ہی اس نے بنی اسرائیلی نومولود بچوں کو قتل کروانا شروع کیا (غافر:25) تاہم ایک بچے کی ماں کو الہام ہوا کہ اس کو ٹوکری میں ڈال کر دریائے نیل میں چھوڑ دے جسے آلِ فرعون کی ایک عورت (ب-بیٹی، ق-بیوی) اٹھا لیتی ہے اور اس کا نام موسیٰ ؑ رکھتی ہے(طہ-38) بعد ازاں جب موسیٰ ؑ کے ہاتھوں ایک مصری جو بنی اسرائیلی پرظلم کر رہا تھا نادانستہ قتل ہو گیا تو وہ وہاں سے مدین فرار ہو گئے (طہ:40-39) اور وہاں کے نبی شعیب ؑ کی بیٹی سے نکاح کیا (قصص:27)

 
کوہ طور پر جلتا درخت
 
فرعون کے دربار میں بھیجے گئے رسل

اس دوران پچھلے فرعونِ مصر کی موت کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین ہوا، مدین سے اپنے کنبے سمیت مصر واپسی کے دوران کوہِ طور پر موسیٰ ؑ جلتے درخت کو دیکھ کر آگ کی تلاش میں گئے(قصص:10) تو وہاں اللہ سے ہم کلام ہوئے وہیں اللہ نے اپنا تعرف کرایا اور نماز دی (قصص:14) انھیں معجزات عطا کیے اور فرعون کو دعوت دینے اور معجزات دکھانے کا حکم دیا تاکہ وہ بنی اسرائیل کی سزائیں موقوف کرے اور اِن کو اُنکے ساتھ روانہ کر دے (شعرا :17) تو موسیٰ ؑ نے اپنے بھائی ہارون ؑ کی شمولیت مانگی (شعرا :13،قصص:34، طہ:29) جب موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ فرعون کے دربار گئے تو خود کو بھیجا ہوا پیغمبر بتایا اور پیغام دیا اس نے معجزہ اور نشانی مانگی، آپ نے اپنا عصا ڈالا جو اژدہا بنا، اپنا ہاتھ باہر نکالا تو وہ چمکدار ہوا،موسیٰ ؑنے بنی اسرائیل کی آزادی اور فرعون کو ایمان کی دعوت دی، جس پر فرعون نے اپنے احسانات اور ساتھ گذرا وقت یاد دلایا اور اسے ناشکرا کہا (شعرا :19) جسے دیکھ کر اس کے سرداروں نے انھیں جادوگر کہا (الاعراف:109) اور بنی اسرائیل پر مشقت مزید سخت کردی اور اپنے وزیر سے کہا کہ ایسا محل تعمیر کرائے کہ جھانک کر موسیٰ ؑ کے خدا کو دیکھ آئے اور طنز و تکبر کیا (غافر:40-29) اور بنی اسرائیل کو ساتھ بھیجنے سے منع کیا موسیٰ ؑنے دوبارہ فرعون کو دعوت دی تو اس نے اپنے ہرکارے تمام شہروں میں بھیجے جو ماہرجادوگروں کو بلا لائیں تاکہ جادو کا مقابلہ کرائے، پھر مقررہ دن مقابلہ ہوا، ساحروں نے کہا کہ آپ آغاز کرتے ہیں یاکہ ہم کریں تو موسیٰ ؑ نے کہا تم ہی ڈالو ، تو ان کے جادو نے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان پر ہیبت طاری کردی پھر اللہ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ اب تو اپنا عصا ڈال تو وہ ان سب کا کھیل نگلتا رہا یوں فرعون ذلیل ہوا اور تمام ساحر سجدہ میں گر پڑے(الاعراف:120) اور ایمان لائے موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کے رب پر فرعون نے کہا یقیناً یہ ملی بھگت اور سازش تھی اب میں ان سب ساحروں کو قتل کرکے لٹکا دونگا اور بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دونگا بنی اسرائیل موسیٰ ؑ سے کہنے لگے کہ ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے، آپ سے قبل بھی اور بعد بھی۔ موسیٰ ؑ نے کہا کہ بہت جلد اللہ تمھارے دشمن کو ہلاک کرکے تم کو خلیفہ بنا دے گا پھر تمھارا طرز عمل دیکھے گا پھر من جانب اللہ مصر پر قحط سالی آئی اور موسیٰ ؑ کو اس کی نحوست بتلاتے، پھر ان پر طوفان بھیجا گیا اور ٹڈیاں اور گھن کا کیڑا اور مینڈک کا عذاب اور فرعون کہتا اے موسیٰ! اگر اس عذاب کو ہٹا دیں تو ہم ایمان لے آئیں گے اور ہم بنی اسرائیل کو بھی رہا کر دیں گے پھر عذاب ہٹنے پر عہد شکنی کرتے۔(الاعراف:136)

 
فرعون کے بیٹے کی موت
 
بنی اسرائیلی سمندر پار کرتے ہوئے

اللہ نے مصریوں پر آخری عذاب بھیجا ان کے پہلے لڑکوں کو موت دی لیکن بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ ہر خاندان ایک مینڈھا ذبح کر کے اس کا خون اپنے دروازوں پر لگا دیں تاکہ اس عذاب سے محفوظ رہیں۔فرعون اپنے بیٹے کی ہلاکت کے بعد آخرکار موسیٰ ؑ کو بنی اسرائیل سمیت جانے کی اجازت دی لیکن پھر راتوں رات بنی اسرائیل کے موسیٰ ؑکے ساتھ نکلنے کے بعد انکا پیچھا کیا بحیرہ احمر کے ساحل پہنچا (خروج -12:14) موسیٰ ؑ نے اپنے عصا سے سمندر میں راستے بنائے بنی اسرائیل کو خشک زمین پر سے گزارا اور فرعون مع لشکر غرق ہوا (الاعراف:137) اور فرعون جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں بنی اسرائیل کے معبود پر ایمان لاتا ہوں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں تسلیم کرتا ہوں، لیکن اس کا ایمان مردود کیا گیا۔ (یونس:91)

 
بنی اسرائیلی بچھڑا

سمندر پار کرنے کے بعد بنی اسرائیل پر بادل سایہ کرتے رہے اور من وسلویٰ اترتا رہا اور وہ موسیٰ ؑ و ہارون ؑسے زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز طلب کرتے رہے اور اللہ نے بھی ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی (بقرہ:61) عمالیق قوم نے اپنی زمین میں آئے نئے لوگوں بنی اسرائیل پر حملہ کیا تاہم انھیں شکست ہوئی۔ شعیب ؑموسیٰ ؑکے پاس آئے اور انہی کے مشورہ سے (خروج -12:14) موسیٰ ؑنے بنی اسرائیل میں قضاء قائم کی (مائدہ:12) بنی اسرائیل جب صحرائے سیناء پہنچے تو یہوواہ (اللہ) نے موسیٰ ؑ کو کوہ طور پر بلایا اور موسیٰ ؑ نے چالیس روزے رکھے اس کے بعد خود اللہ کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تاہم موسیٰ ؑ دیکھنے کا تحمل نہ کرسکے (الاعراف:144) اس کے بعد موسیٰ ؑ کو اللہ کی طرف سے کتبوں پر لکھے دس احکام (شریعت) ملے(الانعام:154-151) جو یہودی شریعت کی اساس تھی۔ ادهرموسیٰ ؑ چالیس دنوں سے اپنی قوم کے درمیان سے غائب تھے تو ان میں سے سامری نامی شخص نے موسیٰ ؑ اور اس کے رب کے علاوہ دوسرا خدا ڈھونڈنے کی تجویز دی چنانچہ سونے جواہرات دھکا کر اس میں جبریل ؑ کے سواری کے نقش پاء سے مٹی لے کر اس میں ڈال کر بچھڑا بنایا جس کی بنی اسرائیل پوجا کرنے لگے، ہارون ؑ نے بنی اسرائیل کو سمجھایا ، موسیٰ ؑ اور اس کے رب کی طرف سے انتہائی نتائج کی تنبیہ کی لیکن بنی اسرائیل نہ سمجھے تاہم مؤحدین نے خود کو ان سے الگ کر لیا، موسیٰ ؑ شریعت لے کر واپس آئے تو سخت غضبناک ہوئے اور ہارون ؑ کی داڑھی پکڑ کر استفسارکیا تو انھوں نے جواب دیا کہ بنی اسرائیل میں تفرقہ نہ پیدا کرنے اور آپ کے واپسی کے انتظار میں رکا رہا (الاعراف:-85) اور سامری کی سزا یہ تھی کہ لوگ اس سے اور وہ لوگوں سے دور رہتا، نہ وہ کسی کو چُہوتا اور نہ کوئی اسے چُہوتا اور اس کے گوسالہ کو جلا کر ریزہ ریزہ کر دیا گیا (طہ-97) اور مشرکوں کی سزا یہ متعین کی کہ وہ اپنے خالق کیطرف رجوع کریں اور توبہ کے لیے ایک دوسرے(مؤحدین مشرکوں) کو قتل کریں (بقرہ:54) بائبل کے مطابق اللہ کے حکم سے قبیلہ لیوی نے مشرکوں کو قتل کیا اس کے بعد بنی اسرائیل نے شریعت قبول کی اللہ کا سائبان بنایا، بنی اسرائیل کی مردم شماری کی اور ذمہداریاں بانٹیں(خروج-32:28) موسیٰ ؑ اللہ سے معافی کے لیے 70 بنی اسرائیلی متقیوں کا وفد لے کر کوہ طور پر چڑھے اور موسیٰ ؑ سے کہا کہ ہم اللہ کی تابعداری نہیں کریں گے حتیٰ کہ اسے دیکھ نہ لیں (بقرہ:55) دفعتا ً ان 70 افراد پر زلزلہ آیا اور بجلی گری، موسیٰ ؑ بیہوش اور وہ سب ہلاک ہوئے، موسیٰ ؑنے اللہ سے دعا کی اور مغفرت اور ہدایت چاہی اگر تجھ کو یہ منظور ہوتا تو اس سے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کر دیتا۔ کیا تو چند بے وقوفوں کی حرکت پر ہم سب کو ہلاک کر دے گا ؟ (الاعراف:155) اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور ان سرداروں کو واپس زندہ کر دیا (بقرہ:56) بنی اسرائیل کوہ طور سے چلے گئے۔

اللہ نے موسیٰ ؑ ایک کنعانی قوم سے جہاد کرنے کو حکم دیا انھوں نے خبرگیری کے لیے بارہ جاسوس کنعان بھیجیں، انھوں نے اندازہ لگایا کہ کنعانی جنگجو اور مضبوط ہیں اس لیے جھوٹی اطلاع دی کہ کنعان میں دیو قامت لوگ ہیں اس لیے بنی اسرائیلی ان پر حملہ نہیں کر سکتے (گنتی-13:31:33) جب وہ منکر ہوئے موسیٰ ؑنے کہا الٰہی! تو ہم اور ان نافرمانوں میں جدائی کر دے اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ اب (انکار کیبعد) ارض (مقدسہ) ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے، ایک اور روایت میں ہے کہ کچھ لوگ موسیٰ ؑ کیساتھ ملکر جہاد کے لیے راضی ہوئے جبکہ منکرین صحرا (وادی تیہ) میں بھٹک گئے بعد ازاں یہی لوگ بقیہ بارہ قبیلوں سے جدا ہوئے۔ یہ خانہ بدوش اِدهر اُدهرسرگرداں پھرتے رہیں گے تم (جدائی کیبعد) ان فاسقوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا (مائدہ:26-25) جبکہ بائبل کے مطابق اللہ نے مصر سے آنے والی نسل کے دنیا سے گزرنے کے بعد ہی بنی اسرائیل کنعان میں داخل ہونے کی بشارت دی، اللہ نے تمام جاسوسوں کو ایک مرض میں وفات دی بجز دو (یوشع اور کالب) شائد انہی دونوں کا ذکر (مائدہ:23) میں آیا ہے۔ اسی دوران ایک بنی اسرائیلی جماعت قارون کی اقتداء میں موسیٰ ؑ پر الزام لگایا اور بغاوت کی موسیٰ ؑ نے اللہ کے حکم سے اسے زمین میں دھنسا ڈالا (بائبل)۔ بنی اسرائیل نخلستان قادش برنیع پہنچے تو موسیٰ ؑ کی بہن مریم کا انتقال ہوا۔ جب بنی اسرائیل پیاسے ہوئے تو اللہ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ پتھر سے بات کرکے اس سے پانی حاصل کریں۔ جبکہ انھوں نے اس کے برمخالف پتھر پر اپنا عصا مار کر بارہ چشمے جاری کیے (بقرہ:60) جس کی وجہ سے اللہ انھیں ارض مقدسہ میں جانے سے روک دیا۔ موسیٰ ؑ نے ادوم کے بادشاہ کو کے پاس قاصد بھیج کر اس کی ملک سے کنعان تک راہداری چاہی لیکن اس نے انکار کر دیا بنی اسرائیلی اس کے بعد جبل ہور گئے جہاں ہارون ؑ انتقال کر گئے۔ موسیٰ ؑ نے ادوم کے گرد گھوم کر کنعان جانا چاہا لیکن بنی اسرائیل نے شکایتیں شروع کیں تو اللہ نے ان پر وبا بھیجی، موسیٰ ؑ کی دعا کے بعد اللہ نے تانبے کا ایک سانپ بنانے کا حکم دیا جو بھی بنی اسرائیلی اسے دیکھتا وہ صحتمند ہوجاتا۔ بنی اسرائیل کی دیگر اقوام سے جنگیں شروع ہوگئیں، موآب کے بادشاہ بالاک نے بلعم بن باعوراء کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے لیے بددعا کرے لیکن وہ اس نے ان کے لیے دعا کی۔ کچھ بنی اسرائیلی موآبی عورتوں سے جنسی تعلقات استوار کیے اور ان کے خداؤں کو پوجنا شروع کیا تو اللہ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ مجرموں کے جسموں میں میخیں گاڑھ دی جائیں، لیکن اصل قہر الہی اس وقت ٹلا جب فینحاس نے ایک بنی اسرائیلی مرد اور مدینی عورت میں میخ گاڑھ کر قتل کر دیا (گنتی9:25-7)۔ اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل نے مدینیوں اور کو تاراج کیا اور موسیٰ ؑ نے فینحاس سے ملکر مردم شماری کروائی، اس کے بعد انھوں نے عوج سیہون اور عبر اردن کی ریاستوں پر قبضہ کیا اور وہاں جاد، روبن اور مناسے کے قبائل آباد ہوئے۔

اللہ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ اب قیادت یوشع کے حوالے کرے تاکہ وہ کنعان کی فتح کی مہم جوئی سنبھالے اور خود جبل نبو پر چڑھے جہاں سے موسیٰ ؑنے ارضِ مقدسہ دیکھا اور ان کی روح قبض کی گئی جبکہ بنی اسرائیلی ارض مقدسہ کی فتح کے لیے تیاری کر رہے تھے۔یوں اگلی نسل کنعان کی سرحدوں پر پہنچی جہاں موسیٰ ؑنے آخری وقت میں دریائے اردن کے کنارے انسے ان کی سفر کا جائزہ لینے اور انھیں مزید قوانین دینے کے لیے خطاب کیا تھا(بائبل)

عہد و شریعت

ترمیم

خروج مصر کا کمال سینا میں موسیٰ ؑ کی وساطت سے خدا اور اسرائیل کے درمیان عہد (شریعتی معاہدہ) تھا: خدا بنی اسرائیل کی بطور اپنے پسندیدہ لوگ ہمیشہ حفاظت کرے گا اور بنی اسرائیل صرف خدا کی شریعت کی پاسداری اور عبادت کریں گے۔ [2] اس معاہدہ کو مراحل میں بیان کیا گیا ہے: خروج 24: 3–8 میں بنی اسرائیلی اس "عہد " کی پابندی کرنے پر متفق تھے جس کے الفاظ یعنی دس احکام خدا کے پتھر کے کتبوں پر لکھنے کے فورا بعد موسی ٰؑ نے انھیں پڑھ کر سنایا۔ اور آخر کار جب لوگ اس سرزمین کے لیے جس کا خدا نے ان سے وعدہ کیا تھا موآب میں کنعان کو عبور کرنے کے لیے جمع ہوئے، تو موسیٰ ؑ نے خدا اور بنی اسرائیل کے مابین "اس عہد کے علاوہ جو انھوں نے حورب (کوہ طور) پر خدا کے ساتھ کیا تھا" ایک نیا عہد باندھا (استثنا 29: 1)۔ [3] شریعت متعدد ضوابط میں ترتیب دی گئی: [2]

ترکیب

ترمیم
 
عزیر ؑ بنی اسرائیل کو شریعت سنا رہے (1866ء کے گوسٹیوڈوری کی منظر کشی)

دانشور بڑے طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ تورات کی اشاعت عہد فارس (بابل) کے وسط (پانچویں صدی قبل مسیح) میں ہوئی تھی اور یہ روایتی یہودی نظریہ کی بازگشت ہے جس میں یہود کے رہنما عزرا یا عزیر نے بابل سے واپسی پر اس کی تشہیر و ابلاغ میں ایک کلیدی و اہم کردار ادا کیا تھا۔ [4] اس سے قبل اس روایات سراغ شمالی انبیا کی کتابوں عاموس (ممکنہ طور پر) اور ہوسیع (یقینی طور پر) میں ملتا ہے ، جو دونوں شمالی اسرائیل میں آٹھویں صدی قبل مسیح میں سرگرم تھے، لیکن ان کے جنوبی معاصرین یسعیاہ اور میکاہ کسی خروج کے بارے ذکر نہیں کرتے۔[5] (میکاہ [ا] میں خروج کا حوالہ ہے ، جسے بہت سے علما بعد کی ترمیم سمجھتے ہیں۔) [ب] اگرچہ اس کہانی کی ابتدا چند صدیوں پہلے ہو چکی تھی، شاید نویں یا دسویں قبل مسیح میں، ایسے ثبوت بھی موجود ہیں کہ اس قصہ نے اسرائیل، شرق اردن خطے اور جنوبی بابلی دور کے ریاست یہوداہ میں میں متحد ہونے سے پہلے مختلف شکلیں اختیار کیں۔ [7]

تورات کی تشکیل کی وضاحت کے لیے بہت سارے نظریات تجویز کی گئیں ہیں، لیکن دو خاص طور پر اثرانداز ہوتی رہی ہیں۔ [8] اول فارسی شاہی منظوری، جسے پیٹر فرئے نے 1985ء میں پیش کیا تھا، جس کے مطابق، فارسی حکام یہودیوں کو مقامی خود مختاری دینے کے لیے مختلف تورات کی تشریحات کی بجائے واحد و متفق شرعی دستاویز پیش کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ [8] فرئے کا نظریہ سنہ 2000ء میں منعقدہ ایک بین المضامین مباحثہ میں مسمار کر دیا گیا تھا، لیکن فارسی حکام اور یہود کے مابین تعلقات ایک اہم سوال ہے۔ [9] دوسرا نظریہ ، جوئل پ۔ وینبرگ سے وابستہ ہے اور "کنیسہ برادری" کہلاتا ہے ،جو تجویز کرتا ہے کہ خروج مصر کی کہانی کنیسہ کے ارد گرد منظم ہونے والی جلاوطن یہودی برادری کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، جو اپنے متعلقین کے لیے ایک بینک کی حیثیت رکھتی تھی۔ [8] توریت کی(خروج مصر کی کہانی) "شناختی کارڈ" کا کام کرتی یعنی اس کی وضاحت کرتی کہ کون یہودی برادری سے ہے، اس طرح بنی اسرائیل کے اتحاد کو تقویت بخشتی تھی۔ [8]

تاہم متواتر قرآن و حدیث کی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ثبوت کی قلت کے باوجود اس اہم واقعہ کا رونما ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے۔ قرآن و حدیث میں تواتر کے ساتھ بیان کیا جانے والا واقعہ یہی ہے ۔

ثقافتی اہمیت

ترمیم
 
خروج مصر کی یاد منانے کے لیے عید فسخ پر رات کا کھانے کی میز

خروج از مصر یہودی شناخت کا مرکز ہے۔ [10] یہ یہود کی دعاؤں اور نمازوں میں روزانہ یاد کیا جاتا ہے اور ہر سال عید فصح اور شاوت کی عیدوں پر منایا جاتا ہے ، دونوں کو بالترتیب "ہمارا وقتِ آزادی" اور "جس وقت ہمیں تورات ملی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ [11] ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور فصح اعلان کرتی ہے کہ حقیقی آزادی صرف شریعت (توریت) کی فراہمی کے ساتھ ہی محسوس ہو سکتی ہے۔ [11] یہودیوں کا ایک تیسرا تہوار ، عید خیام یا سائبان کا تہوار ، یاد دلاتا ہے کہ بنی اسرائیل مصر کے گھروں سے اخراج کے بعد کیسے خیموں میں رہتے تھے۔ [11] خروج کی وجہ سے یہودیت کی اساس تاریخ میں ہے، جبکہ مشرکانہ مذاھب فطرت کی جانب راغب ہیں۔ [11] خروج سے منسلک زرعی اور موسمی ضیافت کے طور پر شروع ہونے والے تہوار (فسح ، شاووت اور سک کوٹ) اب خدا کے ہاتھوں بنی اسرائیل کے ظلم و ستم سے نجات کے مرکزی خروج کے قصہ میں مکمل طور پر شامل ہو گئے ہیں۔ [11] یہ خیال کہ خدا اور اسرائیل کے مابین سینا (کوہ طور) پر کیے گئے عہد ("بریٹ") یہودی شناخت کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے، ساتھ ہی اسرائیل کو دیے گئے قوانین اور خدا کی تیرا صفات وہاں ظاہر ہوئے۔ [11] روایتی یہودی عبادت کے دوران پہنی جانے والی شال کے کونوں کے پچھلے حصے پر موجود جھالر خروج کے میں دی گئی شریعت پر عمل پیرا ہونے کی عہد کی یاد دہانی ہے: "اس کو دیکھو اور خدا کے تمام احکامات کو یاد کرو" (گنتی)۔ [12]

خروج غیر یہودی ثقافت میں بھی گونجتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر قرون وسطی کے آئرش اور اسکاٹ لینڈ کی افسانوی تاریخ میں اسکاٹ لینڈ کا نام اسکاٹہ سے اخذ کیا گیا تھا، یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ خروج والے فرعون کی بیٹی تھی جو بعد ازاں برطانوی جزیروں میں ہجرت کرگئی تھی۔ [13] دیگر زیادہ اہم باتیں یہ ہیں: ریاست و خروج کی روایت کی عداوت نے (خاص طور پر مصر اور فرعون سے) 17 ویں صدی کے انگلینڈ میں پیوریٹن انقلاب (انگریزی خانہ جنگی) میں کردار ادا کیا ، بہت سے ابتدائی امریکی مہاجرین نے یورپ کے مذہبی ظلم و ستم سے اپنے فرار کی تمثیل بطور خروج از مصر ہی کی تھی ، تھامس جیفرسن اور بینجمن فرینکلن نے سفارش کی تھی کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی عظیم مہر موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو بحیرہ احمر پار کرتے دکھائے اور غلامی اور نسلی جبر میں جکڑے افریقی امریکیوں نے اپنی صورت حال کی تشریح خروج کی اصطلاح میں کی۔ یوں خروج معاشرتی تبدیلی کا ایک عمل انگیز بنا۔ [11] [13] [14] مورمون کے علمبرداروں نے یوٹاہ کے اپنے سفر کا موازنہ بائبل کے خروج سے کیا اور بہت سی جگہوں کے نام اسی مناسبت سے اپنائے۔ [15]

قصہ خروج اور تاریخ

ترمیم
 
شامی چار کمرے کا مکان۔

کچھ دانشوروں اور ماہرین آثار قدیمہ کے مابین اتفاق رائے ہے کہ قصہ خروج کو افسانہ گردانہ جائے تو بہتر سمجھا جا سکتا ہے۔ [16] خاص طور پر، یہ ایک "منشوری" (یا تاسیسی) قصہ ہے ، یہ کہانی معاشرے کی ابتدا ، اس کی ثقافت اور اداروں کو نظریاتی بنیاد فراہم کرنے کے لیے کہی گئی ہوگی۔ [17] جبکہ کچھ دانشور خروج کی کہانی کی امکانی تاریخی یا معقولیت پر بات کرتے رہتے ہیں ، لیکن قدیم اسرائیل کے موجودہ مورخین اب اس کو آئندہ کے لیے ناقابل وجود سمجھتے ہیں اور آثار قدیمہ کے ماہرین نے اسے "غیر مفید تعاقب" کے طور پر ترک کر دیا ہے (ڈیور ، 2001ء)۔ [18] [19] اس بات کا کوئی اشارہ و ثبوت نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کبھی قدیم مصر میں رہتے تھے اور جزیرہ نما سینا میں پورے دو ہزار سال قبل مسیح (یہاں تک کہ قادش برنیع ، جہاں اسرائیلیوں کے مطابق انھوں نے 38 سال گزارے تھے اسرائیلی بادشاہت کے قیام سے قبل غیر آباد علاقہ تھا) میں بنی اسرائیل کے رہنے کی کوئی ثبوت نہیں دکھائی دئے۔[20] اسیریِ مصر اور بیابانوں میں بھٹکنے کے ثبوت کی عدم موجودگی کے برخلاف ، کنعان میں بنی اسرائیل کی ارتقا کے ثبوت اور انکا تعلق مقامی کنعانی آبادی سے ہونے کے کافی علامات ہیں۔ [21] [22]

تفصیلات اس داستان کی تشکیل دئے جانے کے لیے پہلی ہزاری قبل مسیح کی تاریخ کی طرف اشارہ کرتی ہیں:مثلا ایزیون گیبر ( خروج کی ایک قیام گاہ ) کی تاریخ 8 ویں اور 6 ویں صدی ق م کے درمیان ہے اور ممکنہ طور پر چوتھی صدی ق م میں مزید آباد رہا ہوگا، [23] اور خروج کے راستے پر جن جگہوں کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ گوشن ، پیتھم ، سوکوٹ ، رمیسیس اور کادش برنیع دوسری کی بجائے پہلی ہزاری ق م کے جغرافیہ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ [24] اسی طرح ، فرعون کا یہ خوف کہ بنی اسرائیل غیر ملکی حملہ آوروں کے ساتھ اتحاد کر لیں گے، دوسری صدی کے آخر میں ، جب کنعان جدید مصری سلطنت کا حصہ تھا مصر نے اس سمت میں کسی دشمن کا سامنا نہیں کیا ، پہلی ہزاری قبل مسیح کے تناظر میں ایسا سوچنا ناقابل فہم ہے۔ جب مصر کافی کمزور تھا اور اسے پہلے اشمینائی سلطنت سے اور بعد میں سلوقی سلطنت سے حملے کا سامنا کرنا پڑا ۔ [25] کتاب خروج 3:9 میں ڈرمیڈری کا ذکر بھی بعد کی تاریخ سے پتہ دیتا ہے ۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اونٹ کو بطور ریوڑ کے جانور بڑے پیمانے پر پالنے کا عمل بنی اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد کنان دوسری ہزاری قبل مسیح سے پہلے نہیں ہوا تھا[26] اور وہ 100-200 قبل مسیح تک مصر میں بڑے پیمانے پر نہیں پھیلے تھے۔ [27] یہاں تک کہ تقویم خروج کے بیانیے کی توضیح بھی علامتی ہے: مثال کے طور پر ، اس کا اختتامی واقعہ ، اپنے لوگوں میں یہوداہ کا رہائشی مقام کے طور پر خیمہ اجتماع کا قیام ، 2666 دنیاوی سال میں واقع ہوتا ہے انو مونڈی (دنیا کا سال ، یعنی 2666 سال خدا کے دنیا کو تخلیق کرنے کے بعد) اور چار ہزار سال کے دور سے دو تہائی وقت جو 164 قبل مسیح میں دوسرے ہیکل کی بحالی میں یا اس کے آس پاس ہوتا ہے۔ [28] [29]

مزید دیکھیے

ترمیم
  1. "ترجمہ سکھلائی"
  2. ^ ا ب Bandstra 2008
  3. McKenzie 2000
  4. Romer 2008
  5. Lemche 1985
  6. ^ ا ب Lemche 1985، صفحہ 315
  7. Russell 2009
  8. ^ ا ب پ ت Ska 2006
  9. Eskenazi 2009
  10. Barmash 2015a
  11. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج Tigay 2004
  12. Sarason 2015
  13. ^ ا ب Assmann 2018
  14. Coomber 2012
  15. Peterson 2014
  16. Collins 2005
  17. Sparks 2010
  18. Dever 2001
  19. Moore اور Kelle 2011
  20. Redmount 2001
  21. Barmash 2015b
  22. Shaw 2002
  23. Pratico اور DiVito 1993
  24. Van Seters 1997
  25. Soggin 1998
  26. Finkelstein اور Silberman 2002
  27. Faye 2013
  28. Hayes اور Miller 1986
  29. Davies 1998