درباری
درباری اساوری ٹھاٹھ کا وکر سمپورن راگ ہے۔
راگ موسیقی | |
فائل:Dhrupad.jpg | |
فہرست ٹھاٹھ | |
راگ کی شکل
ترمیمدرباری میں شدھ رکھب، کومل گندھار، شدھ مدھم، کومل دھیوت اور کومل نکھاد استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں گندھار اور دھیوت اندولن ہوتے ہیں۔ دربادی کا وادی سر رکھب اور سموادی گرام سپتک کی دھیوت ہے۔ بعض موسیقار نکھاد کو بھی سموادی سر مانتے ہیں۔
تاریخ
ترمیمدرباری راگ مغل دور کے گائیک میاں تان سین کی ایجاد ہے۔ آپ نے کانہڑے کی گندھار اور دھیوت کو اندولن (جھولتی ہوئی) بنایا تو ایک نیا تاثر پیدا ہو گیا۔ شہنشاہ اکبر کو کانہڑے میں یہ ترمیم بہت پسند آؤ اور مغل اعظم کے دربار میں اکثر یہی راگ گایا جانے لگا اور اسی مناسبت سے یہ درباری کانہڑا کہلایا۔ آہستہ آہستہ کانہڑے کا لفظ معدوم ہوتا گیا اور آج کل اس راگ کو محض درباری کے تام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
تاثر
ترمیمدرباری اپنے روایتی شان و شکوہ کے باوجود اپنے اندریاسیت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ تاریکی، رات کے اکیلے پن کو انتہائ شدّت ملتی ہے۔ جس سے انساس اپنی ناتمام امنگوں اور مایوسیوں کے اظہار میں ایک بہاؤ محسوس کرنے لگتا ہے۔ درباری کا مزاج بہت ٹھہرا ہوا ہے اس لیے بلمپت لے میں اس کا لطف زیادہ رہتا ہے۔
آروہی آمروہی
ترمیمدرباری کی آروہی آمروہی درج ذیل ہیں:
آروہی سا نی سا رے ما گا ما رے ما پا دھا دھا نی سا
آمروہی سا نی دھا نی پا ما گا ما رے سا
استعمال
ترمیمپروین شاکر کی مشہور زمانہ غزل کو مہدی حسن خان نے راگ درباری کے سروں میں پرویا ہے؛ جس کے بول ہیں:
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائ کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
حوالہ جات
ترمیمکنور خالد محمود، عنایت الہی ٹک، سرسنگیت۔ الجدید، لاہور؛ المنار مارکیٹ، چوک انارکلی۔ 1969ء صفہ 149۔