رہف محمد
رہف محمد (انگریزی: Rahaf Mohammed، سابق عربی نام: رہف محمد مطلق القنون؛ ولادت: 11 مارچ 2000ء) سعودی عرب کی ایک خاتون ہے جسے تھائی لینڈ کی حکومت نے 5 جنوری 2019ء کو اس وقت حراست میں لیا جب وہ بینکاک کے راستے کویت سے اسٹریلیا جا رہی تھی۔ رہف اپنے خاندان سے بھاگ کر اسٹریلیا میں پناہ کی طلب گار تھی۔ رہف نے کہا کہ اس کے خاندان والے اس کو گالی دیتے اور قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اس نے سماجی ذرائع ابلاغ اور ٹویٹر پر شکایت بھرے مراسلے شائع کیے جنہیں عالمی سطح پر خوب پزیرائی ملی اور تھائی حکام کو مجبوراً اسے کویت واپس بھیجنے کے فیصلہ سے دست بردار ہونا پڑا (جہاں سے اسے سعودی عرب واپس جانا تھا)۔ اسی اثنا میں رہف کو اقوام متحدہ کمیشن برائے انسانی حقوق نے اپنی حفاظت میں لے کر اسے پناہ گزیں کا درجہ دے دیا۔ بعد ازاں 11 جنوری کو کینیڈا نے رہف کو اپنے ملک میں پناہ دینے کا اعلان کیا جس کے اگلے ہی دن وہ ٹورانٹو پہنچ گئی۔
رہف محمد | |
---|---|
(عربی میں: رهف محمد القنون) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 مارچ 2000ء (24 سال)[1] سعودی عرب |
رہائش | کینیڈا (12 جنوری 2019–)[2] |
شہریت | سعودی عرب [3][1] |
عملی زندگی | |
پیشہ | پناہگزیں [4]، متعلم [4]، سیاسی کارکن [5] |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [6]، انگریزی [7][6] |
شعبۂ عمل | ادبی سرگرمی [8]، خود نوشت [8]، فعالیت پسندی [8] |
درستی - ترمیم |
سعودی عرب میں زندگی
ترمیمرہف کی ولادت 11 مارچ 2000ء کو ہوئی۔[9] اس کے والد حائل علاقہ کے السلیمی قصبہ کے گورنر ہیں۔[10] رہف کے نو بھائی بہن ہیں۔[11]
رہف نے اپنے خاندان پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس کو تعلیم سے روکا گیا اور مہینوں قید میں رکھا گیا اور ساتھ ہی جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔[12][13] نیز اسے طے شدہ شادی پر مجبور کیا گیا[11] اور اسلام کو نہ ماننے کی وجہ سے قتل کی دھمکی بھی دی۔[12] واضح رہے کہ سعودی عرب کے قانون کی رو سے ارتداد کی سزا موت ہے۔[13]
حراست
ترمیم
رہف محمد از ٹویٹر @rahaf84427714 based on the 1951 Convention and the 1967 Protocol, I'm rahaf mohmed, formally seeking a refugee status to any country that would protect me from getting harmed or killed due to leaving my religion and torture from my family.
6 جنوری 2019ء[14]
رہف محمد اپنے اہل خانہ کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کویت گئی تھی اور وہیں سے بھاگ کر بینکاک کی پرواز پر سوار ہو گئی۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ دوسری فلائٹ لے کر آسٹریلیا میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔[12] چنانچہ آسٹریلیا نے اسے سیاحتی ویزا جاری کیا[15] اور آسٹریلیا میں آنے کی اجازت دے دی۔ دوسری جانب رہف کے اہل خانہ نے گمشدگی کا کیس درج کرایا۔ بینکاک پہنچنے پر سعودی سفارت خانہ کے ایک ملازم نے اپنی شناخت کو مخفی رکھ کر سوورن بھومی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اس کا استقبال کیا اور کہا کہ مجھے آپ کا پاسپورٹ درکار ہے تاکہ تھائی لینڈ کا ویزا حاصل کرنے میں آپ کی مدد کر سکوں۔ یوں اس شخص نے رہف کا پاسپورٹ حاصل کیا اور وہاں سے چلا گیا۔ تاہم رہف کا ہوائی اڈا کے احاطہ کو چھوڑنے کا ارادہ نہ تھا،[16][17] اس لیے اسے تھائی ویزا کی ضرورت نہیں پڑی۔ جلد ہی تھائی افسران نے رہف کو ہوائی اڈا کے اندر ہی مریکل ہوٹل[18] سے گرفتار کر لیا۔[16][19]
رہف نے ٹویٹر پر اپنا کھاتہ بنایا اور مراسلہ کا سلسہ جاری کیا جس میں اس نے اپنے ارتدادکا اعلان کر دیا اور کہا کہ اس کے خاندان والے نام نہاد ناموسی قتل کہ کر اس کو مار ڈالیں گے اگر وہ سعودی عرب واپس گئی۔[17][20][16][21] اس نے مزید کہا کہ اس نے خود کو ہوٹل کے کمرے تک محدود کر دیا تھا تا آنکہ اقوام متحدہ کو کوئی نمائندہ اس سے ملاقات کرے اور پناہ گزیں کا درجہ دے اور مغربی سفارتخانوں سے درخواست کرے کہ اسے پناہ دینے میں اس کی مدد کرے۔[12] اسے اس کے دنیا بھر سے حمایت ملنا شروع ہو گئی اور 5 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے "#SaveRahaf" کا ہیش ٹیگ چلایا۔[22] ایک ٹویٹ میں اس نے پاسپورٹ کی تصویر شائع کی۔[9][17] اسٹریلیائی اے بی سی کی صحافی سوفی میکنیل نے خود کو رہف سے ساتھ ہی ہوٹل کے کمرے میں بند کر لیا تا کہ اس کی مدد کر سکے۔[23][24] ہوٹل سے ہی رہف نے اپنے ایک دوست کو اس کی طرف سے مزید ٹویٹ کرنے کی اجازت دی۔[15][25] تھائی لینڈ کے وکلا نے تھائی لینڈ سے اس کے زبردستی اخراج کے بچاو میں ایک عرضی دائر کی [26] جسے فوراً ہی رد کر دیا گیا۔[16] البتہ ایک اپیل کی تیاری کرلی گئی ہے۔[18] تھائی لینڈ کے مہاجرت معاملہ کے کمشنر نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سعودی حکومت کی مرضی کے مطابق ہی اقدامات کریں گے۔[16]
رہف کو 7 جنوری کو کویت کے لیے روانہ ہونا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ بعد ازاں تھائی لینڈ کی حکومت نے اعلان کیا کہ رہف کو نہیں بھیجا جائے گا۔[27] یورپی سعودی آرگنائزیشن برائے حقوق انسانی کے ایک وکیل نے رہف کے ٹویٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی مدد کا اعلان کیا اور اسے واپس سعودی نہ بھیجنے کی وکالت کی۔[28] انھوں نے مزید کہا کہ تھائی لینڈ کی حکومت نے رہف کے حو میں ساری دنیا سے ملنے والی حمایت کو دیکھتے ہوئے منٹون میں اپنا فیصلہ بدل لیا۔[28] رہف نے ایک انٹویو میں کہا کہ اس نے ایک الوداعی خط لکھا جس میں اس نے وضاحت کی کہ اگر اسے سعودی عرب بھیجنے پر مجبور کیا گیا تو وہ خود کشی کر لے گی۔[29]
ابتدائی اختلاف اور تھائی حکومت کے اقدامات
ترمیمابتدائی مراحل میں نگہبان حقوق انسانی نے 5 جنوری 2019ء کو کہا کہ تھائی لینڈ کی حکومت کہانی بنا رہی تھی کہ رہف نے ویزا کی حرضی دی ہے جسے رد کر دیا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے پاس آسٹریلیا کا ٹکٹ تھا اور اس نے تھائی لینڈ میں رکنے کا فیصلہ ہی نہیں کیا تھا۔[17] دو دن کے بعد 7 جنوری 2019ء کو عالمی دباو کے بعد تھائی لینڈ حکومت نے پلٹی ماری اور جنرل رہف کے ساتھ چلتے ہوئے دکھے اور کہا کہ ہم کسی کو مرنے کے لیے نہیں بھیج سکتے۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم حقوق انسانی کے قانون کی پاسداری کریں گے۔[30] اس کے معا بعد اسے اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین کی تحویل میں دے دیا گیا اور ساتھ ہی آسٹریلیا کا ویزا بھی دیا گیا اور طویل عرصے کے لیے پناہ بھی دی گئی۔[31]
اقوام متحدہ کی مداخلت
ترمیماقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین نے 7 جنوری کو ایک بیان میں کہا کہ:[32]
” | تھائی حکومت نے اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین کو سعودی نژاد رہف محمد تک بینکاک ہوائی اڈہ پر رسائی فراہم کر دی ہے تاکہ اسے عالمی مہاجر کی حیثیت سے مدد فراہم کی جا سکے۔ حفاظتی اور رازداری وجوہات کی بنا پر ہم مزید تفصیل بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ | “ |
رہف نے اس کے بعد ایجنسی کی تحویل میں ہوائی اڈہ کو خیرباد کہا اور اسے مہاجر کا درجہ مل گیا اور آسٹریلیا حکومت سے اس کی پناہ کی درخواست پر غور کرنے کو کہا۔[10] آسٹریلیا کے وزارت داخلہ کے وزیر پیٹر ڈٹن نے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ رہف تھائی لینڈ میں زیادہ محفوظ ہے[33] کیونکہ اس کی حفاظت کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے اور یہ بھی واضح نہیں کیا کہ آسٹریلیا اس کی درخواست پر کب جواب دے گا۔ بعد میں ایجنسی نے کینیڈا کو اس کی درخواست بھیج دی۔[29]
کینیڈا میں پناہ
ترمیم11 اور 12 جنوری کے درمیان میں رہف سؤل کے راستے کینیڈا روانہ ہو گئی جہاں اسے “دوبارہ آباد پناہ گزیں‘‘[34] کے درجے کی پناہ مل گئی۔[11][35][36] اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین نے کہا کہ بہت جلد بازی اور ایمرجنسی کی حالت میں اسے پناہ دی گئی۔[34] کینیڈیا وزارت خارجہ کے وزیر کرسٹیا فری لینڈ نے ٹورانٹو پیرسن انٹرنیشنل ایرپورٹ پر رہف کا استقبال کیا۔[37][38]
رد عمل
ترمیمرہف کے خاندان نے اسے خاندان سے باہر کرتے ہوئے بیان دیا کہ:[29]
” | ہم رہف محمد القنون کے خاندان والے سعودی عرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم نام نہاد رہف، ذہنی طور پر بیمار بیٹی کو اپنے خاندان سے آزاد کرتے ہیں جس نے بے عزتی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا ہے۔ | “ |
جب رہف کو اطلاع ملی کہ اس کو خاندان سے بے دخل کر دیا گیا ہے تو اس نے اپنے نام سے (القنون) ہٹانے کا فیصلہ کیا اور اب وہ رہف محمد کے نام جانی جاتی ہے۔[39][40][41] ایسا ہی ایک معاملہ دینا علی اور حکیم العریبی کا بھی تھا۔[42] رائٹر کے ایک صحافی اسٹیفن کلین نے لکھا کہ رہف کا معاملہ سعودی عرب کے مردانہ حاکمیت کے خلاف ایک نیا قدم ہے۔[24][43][43]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب https://twitter.com/rahaf84427714/status/1081794376307785729 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 جنوری 2019 — اقتباس: This is a copy of my passport, Im shering it with you now because I want you to know I’m real and exist.
- ↑ https://www.bbc.co.uk/news/world-us-canada-46851723 — اخذ شدہ بتاریخ: 12 جنوری 2019
- ↑ https://www.bbc.com/news/world-middle-east-46777848 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 جنوری 2019
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0271923 — اخذ شدہ بتاریخ: 20 دسمبر 2022
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0271923 — اخذ شدہ بتاریخ: 5 دسمبر 2023
- ↑ https://www.theguardian.com/world/2019/jan/11/canada-and-australia-in-talks-with-un-to-accept-saudi-asylum-seeker-rahaf-mohammed-al-qunun — اخذ شدہ بتاریخ: 11 جنوری 2019
- ↑ https://www.abc.net.au/news/2019-01-08/rahaf-alqunun-was-terrified-says-reporter-who-was-locked-in-room/10697636 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 جنوری 2019
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0271923 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
- ^ ا ب @ (6 January 2019)۔ "This is a copy of my passport, Im shering it with you now because I want you to know I'm real and exist." (ٹویٹ)۔ 6 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ – ٹویٹر سے
- ^ ا ب "Saudi woman 'given refugee status'"۔ بی بی سی نیوز۔ 9 January 2019۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جنوری 2019
- ^ ا ب پ "Saudi woman fleeing family flies to Canada after gaining asylum"۔ دی گارڈین۔ 11 January 2019۔ 12 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2019
- ^ ا ب پ ت Natalia Megas (15 January 2019)۔ "'We know exactly what Rahaf is feeling': Friend of Saudi woman granted asylum in Canada speaks out"۔ The Lily۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2019
- ^ ا ب Asaree Thaitrakulpanich (7 January 2019)۔ "Standoff at Suvarnabhumi as Saudi Woman Resists Deportation"۔ Khaosod English۔ 7 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2019
- ↑ رہف محمد [@] (6 جنوری 2019ء)۔ "based on the 1951 Convention and the 1967 Protocol, I'm rahaf mohmed, formally seeking a refugee status to any country that would protect me from getting harmed or killed due to leaving my religion and torture from my family." (ٹویٹ) – ٹویٹر سے
- ^ ا ب "Saudi woman 'trapped trying to flee'"۔ بی بی سی نیوز۔ 6 January 2019۔ 11 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جنوری 2019
- ^ ا ب پ ت ٹ Richard C. Paddock، Ben Hubbard (6 January 2019)۔ "Saudi Woman Who Tried to Flee Family Says, 'They Will Kill Me'"۔ نیو یارک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جنوری 2019
- ^ ا ب پ ت "Rahaf al-Qunun: Saudi woman ends airport hotel standoff"۔ بی بی سی نیوز۔ 7 January 2019۔ 12 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جنوری 2019
- ^ ا ب "Rahaf Alqunun: Thailand admits Saudi woman seeking asylum"۔ Al Jazeera۔ 7 January 2019۔ 12 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019
- ↑ Jamie Fullerton، Helen Davidson (7 January 2019)۔ "'He wants to kill her': friend confirms fears of Saudi woman held in Bangkok"۔ دی گارڈین۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019
- ↑ Heather Chen، Mayuri Mei Lin (10 January 2019)۔ "#SaveRahaf: How Twitter saved a Saudi woman"۔ بی بی سی نیوز۔ 13 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2019
- ↑ "Inside a barricaded hotel room with the Saudi woman seeking Australian asylum"۔ Australian ABC۔ 8 January 2019۔ 12 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2019
- ↑ Patpicha Tanakasempipat، Panu Wongcha-um (8 January 2019)۔ "#SaveRahaf: Activists' lightning campaign made Saudi teen's flight..."۔ Reuters۔ 17 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2019
- ↑ "Australia urged to help Saudi teenager barricaded inside Thai hotel room"۔ دی گارڈین۔ 7 January 2019۔ 12 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019
- ^ ا ب "Australian-based friend of Rahaf Alqunun says she just wants any safe country"۔ ABC Local Radio۔ 8 January 2019۔ 13 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2019
- ↑ Matthew S. Schwartz (7 January 2019)۔ "Saudi Teen Seeks Asylum, Fears Family Will Kill Her"۔ این پی ار۔ 12 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019
- ↑ Kaweewit Kaewjinda، Aya Batrawy (7 January 2019)۔ "Thai police say they won't deport Saudi woman seeking asylum"۔ AP NEWS۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019
- ↑ Anais Moine (12 January 2019)۔ "Tout juste reconnue réfugiée, Rahaf Mohammed témoigne de son bonheur" [Just after receiving asylum, Rahaf Mohammed describes her happiness] (بزبان فرانسیسی)۔ Aufeminin۔ 2019-01-12 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جنوری 2019
- ^ ا ب Sophie McNeill (15 January 2019)۔ "Saudi teen Rahaf al Qunun pledges to use her freedom to campaign for others"۔ ABC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2019
- ^ ا ب پ Aya Batrawy (7 January 2019)۔ "Rahaf Al-Qunun, fleeing Saudi Arabia, allowed to stay in Thailand"۔ The Sydney Morning Herald۔ 10 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2019
- ↑ Jamie Fullerton، Helen Davidson (8 January 2019)۔ "'You saved Rahaf's life': online outcry kept 'terrified' Saudi woman safe, says friend"۔ دی گارڈین۔ 13 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جنوری 2019
- ↑ "UNHCR statement on the situation of Rahaf Mohammed Al-qunun at Bangkok airport"۔ United Nations High Commissioner for Refugees۔ 7 January 2019۔ 7 January 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019
- ↑ "Saudi teen Rahaf Alqunun slams Australian government for taking 'too long' to grant her asylum"۔ www.news.com.au۔ 12 January 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2019
- ↑ "Rahaf al-Qunun: Saudi teen granted asylum in Canada"۔ BBC News۔ 11 January 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2019
- ^ ا ب Leyland Cecco (12 January 2019)۔ "Rahaf al-Qunun lands in Toronto after long journey to safety"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جنوری 2019
- ↑ Katie Dangerfield، Rebecca Joseph (11 January 2019)۔ "Canada grants asylum to Saudi teen who fled alleged family abuse"۔ Global News۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2019
- ↑ "UNHCR statement on Canada's resettlement of Saudi national Rahaf Al-Qunun"۔ UNHCR۔ 11 January 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2019
- ↑ "Saudi teen refugee arrives in Canada"۔ BBC News۔ 12 January 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جنوری 2019
- ↑ "'Nothing to lose': Saudi teen Rahaf Mohammed details family abuse"۔ Al Jazeera۔ 15 January 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2019
- ↑ "I feel born again, says Saudi who fled to Canada to escape 'abuse'"۔ Evening Standard۔ 15 January 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2019
- ↑ "Saudi Woman Who Fled Country Hopes She Inspires Others To Follow"۔ NPR۔ 15 January 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2019
- ↑ Helen Davidson (10 January 2019)۔ "Rahaf and Hakeem: why has one refugee captured the world's attention while another is left in jail?"۔ دی گارڈین۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2019
- ↑ Stephen Kalin (10 January 2019)۔ "Saudi woman's flight rallies opposition to male guardianship"۔ 2019-01-10 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2019
- ^ ا ب Joseph Hincks (10 January 2019)۔ "Saudi Women Are Demanding Change After a Teen Fled the Country"۔ Time۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2019