سائنس میں خواتین
زمانہ قدیم ہی سے سائنس میں خواتین کا نمایاں کردار اور اس میدان میں ان کی نہایت وقیع خدمات رہی ہیں۔ چنانچہ صنف اور سائنس میں دلچسپی رکھنے والے مؤرخین نے خواتین کی ناقابل فراموش سائنسی کاوشوں اور کامیابیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ نیز اس میدان میں خدمات انجام دینے کے دوران میں خواتین کو جن مشکلات کا سامنا رہا، ہم عصروں میں اپنی کاوشوں کا جائزہ دلوانے کے لیے جو حکمت عملیاں انھوں نے استعمال کیں اور اہم سائنسی جرنلوں اور دیگر اشاعتوں میں اپنے کاموں کو قبولیت بخشوانے کے لیے جو راستہ انھوں نے اختیار کیا، ان تمام معاملات کی تاریخی، تنقیدی اور سماجیاتی تحقیق اب خود ایک تعلیمی شعبہ بن چکا ہے۔
طب کے شعبے میں خواتین کے کردار کا ذکر متعدد ابتدائی تہذیبوں میں ملتا ہے اور قدیم یونان میں فطری فلسفے کا مطالعہ خواتین کے لیے دستیاب تھا۔ پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں کیمیا کی ابتدائی سائنس میں خواتین نے اپنا حصّہ ڈالا۔ قرونِ وسطیٰ کے راہب خانے خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اہم مقام رکھتے ہیں اور ان میں سے بعض نے خواتین کو اس کے مواقع بھی فراہم کیے کہ وہ علمی تحقیق میں اپنا حصّہ ڈالیں۔ تاہم جب 11ویں صدی میں پہلی مرتبہ یونیورسٹیوں یا جامعات کا ظہور ہوا تو زیادہ تر خواتین یونیورسٹی تعلیم سے دور رہیں۔و1و اٹلی میں طبّی شعبوں میں خواتین کو تعلیم فراہم کرنے کا رویّہ دیگر مقامات کے مقابلے میں زیادہ آزاد نظر آتا ہے۔ سائنسی شعبوں کی تعلیم میں یونیورسٹی نشست (یونیورسٹی چیئر) حاصل کرنے والی پہلی خاتون کی حیثیت سے معروف شخصیت 18ویں صدی کی اطالوی سائنس داں لارا بسّی تھیں۔
گو کہ 18 ویں صدی میں عموماً شعبہ ہائے زندگی کے صنفی کردار متعیّن تھے، لیکن اس کے باوجود خواتین نے سائنس کے میدان میں بہت زیادہ پیش رفت کی۔ 19ویں صدی میں بھی خواتین رسمی سائنسی تعلیم سے دور تھیں، لیکن اس عرصے میں وہ تعلیم یافتہ سوسائیٹیوں کا حصہ بننے لگیں۔ 19ویں صدی کے اواخر میں خواتین کے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا اور یوں خواتین سائنس دانوں کو ملازمتیں اور تدریس کے مواقع میسر آئے۔ طبیعیات میں نوبل انعام (1903ء) حاصل کرنے والی پہلی خاتون ماری کیوری نے دوسری مرتبہ تابکاری کے موضوع پر کیمیا میں نوبل انعام (1911ء) حاصل کیا۔ 1901ء سے 2010ء کے عرصہ میں چالیس خواتین کو نوبل انعام سے نوازا گیا جن میں سے 17 خواتین کو طبیعیات، کیمیا، فعلیات (فزیالوجی) اور طب کے شعبوں میں نوبل انعام ملا ہے۔و2و
تاریخ
ترمیمبین الثّقافتی منظر نامے
ترمیمگو کہ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں خواتین سائنس دانوں کے بارے میں بہت ساری کتابیں اور مضامین شائع ہوئے لیکن حقیقتاً ان تمام مطبوعات نے رنگت کی بنیاد پر اور یورپ و شمالی امریکا سے باہر کی خواتین کو نظر انداز کیا۔ اس سے چند مطبوعات مستثنیٰ ہیں جن میں خواتین سائنس دانوں کے بارے میں ڈیرک ریکٹر کی 1982ء میں شائع ہونے والی کتاب قابل ذکر ہے۔و3و
1985ء میں "کوالیوسکائیا فنڈ" (Kovalevskaia Fund) اور 1993ء میں سائنس میں خواتین کی تنظیم برائے ترقی پذیر ممالک (Organization for Women in Science for Developing World) کے قیام نے خواتین کے پہلے سے دبے ہوئے کردار کو اجاگر کیا، لیکن آج بھی ترقّی پزیر ممالک میں سائنس میں خواتین کے کردار کے حوالے سے معلومات کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ این ہائبنر کوبلٹز کے مطابق:و4و
” | خواتین سائنس دانوں سے متعلق بیشتر تصنیفات میں مغربی یورپ و شمالی امریکا کی شخصیات پر اور وہاں ذیلی ثقافتوں پر توجّہ مرکوز رکھی گئی ہے اور سائنس میں خواتین کے مؤرخین نے ضمنی یا واضح طور پر یہ فرض کر لیا ہے کہ ان علاقوں سے حاصل ہونے والے مشاہدوں کا اطلاق باقی دنیا پر بھی ہوگا۔ | “ |
کوبلٹز کا کہنا ہے کہ سائنس میں خواتین کے بارے میں یہ مفروضات مختلف ثقافتوں کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ مثال کے طور پر:و5و
” | ایک سائنسی یا تکنیکی شعبہ جسے کسی ملک میں "غیر نسوانی" تصوّر کیا جا سکتا ہے، وہی شعبہ مختلف تاریخی ادوار یا کسی دوسرے ملک میں بہت سی خواتین کی خدمات سے لبریز ہو سکتا ہے۔ ایک مثال علم الہندسہ یا انجینئری کی ہے، جو بہت سارے ممالک میں مردوں کے لیے مخصوص شعبہ تسلیم کیا جاتا ہے، خاص طور پر عمومی ذیلی شعبے جیسے برقی یا میکانیکی انجینئری۔ تاہم اس حوالے سے چند استثنا ہیں۔ سابقہ سوویت یونین میں انجینئری کے تمام ذیلی شعبوں میں خواتین کا تناسب بہت زیادہ تھا اور Universidad Nacional de Ingenieria of Nicaragua میں 1990ء کے دوران میں انجینئری کے طلبہ میں خواتین کی نمائندگی 70 فی صد تھی۔ | “ |
قدیم تاریخ
ترمیمٌٌٌٌٌٌطب کے شعبے سے خواتین کی وابستگی کا تذکرہ متعدد ابتدائی تہذیبوں میں ملتا ہے۔ ایک قدیم مصری، میرٹ پتاہ (2700 قبل مسیح) کو ایک تحریر میں "مرکزی معالج" کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو سائنس کی تاریخ میں اوّلین پہچانی جانے والی خاتون سائنس داں ہیں۔ ہومر نے جنگِ ٹروجن سے قبل (1194 تا 1184 قبل مسیح) اگامیڈے کو قدیم یونان میں ایک معالج کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ ایگنو ڈائیکے پہلی خاتون معالج تھیں، جنھوں نے چوتھی صدی قبل مسیح میں ایتھنز میں قانونی طور پر طبّی خدمات فراہم کرنے کا آغاز کیا۔
قدیم یونان میں خواتین کو فطری فلسفے کے مطالعے کی اجازت تھی۔ تذکرہ ہونے والی مثالوں میں ایگلاؤ نائیکے شامل ہیں – جنھوں نے گرہنوں کی پیش گوئی کی؛ اور تھیانو — جو ریاضی داں اور معالج تھیں – فیثاغورث کی شاگرد (ممکنہ طور پر زوجہ) تھیں؛ اور اس نام پر ایک مدرسہ بھی تھا ، جس کو فیثا غورث نے کروتونے کروتونے میں قائم کیا؛ جس میں بہت ساری دیگر خواتین شامل تھیں۔و6و پولکس میں ایک تحریری اقتباس ان لوگوں کے بارے میں بتاتا ہے کہ جنھوں نے رقم کی صورت میں سکّے ڈھالنے کا طریقہ ایجاد کیا؛ جس میں فائیڈون اور سائم کی ڈیموڈائیکے کا تذکرہ ہے، جو فریجین بادشاہ میڈاس کی زوجہ اور سائم کے اگامیمون بادشاہ کی بیٹی تھیں۔و7و روایات بتاتی ہیں کہ کسی اگامیمون – آئولیان سائم کے بادشاہ کی بیٹی نے فریجین بادشاہ جسے میڈاس کہا جاتا تھا، سے شادی کی۔و8و یہ تعلّق یونانیوں کو یہ سہولت فراہم کرنے کا باعث بن سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے حروفِ تہجی فریجین قوم سے مستعار لیے، کیونکہ فریجین حروفِ تہجی کی اشکال آئو لیس کی تحریروں سے قریب ترین طور پر ملتی جلتی ہیں۔و8و
1200 قبل مسیح کے آس پاس – بابلی تہذیب کے دور کے دوران دو خواتین عطر ساز جن کے نام تپّوتی-بیلا ٹیکالم اور نینو (نام کا ابتدائی نصف کھو چکا ہے) ہیں، پودوں سے عرق نکالنے اور کشید کرنے کے عمل کے قابل تھیں۔ اگر ہمیں کیمیا یا کیمیائی آلات کے استعمال اور عمل کے حوالے سے دلیل دینی ہے، تو ہم ان دو خواتین کو پہلی دو کیمیادانوں کے طور پر شناخت کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مصری شاہی دور کے دوران، خواتین اطلاقی کیمیا سے وابستہ تھیں – جیسے بیئر سازی اور ادویاتی مرکبات کی تیاری۔و9و ایسی خواتین کی اچّہی خاصی تعداد کا تذکرہ ہے، جنھوں نے کیمیا کے شعبے میں نمایاں شراکت کاری کی ہے۔و9و ان میں سے زیادہ تر اسکندریہ میں پہلی اور دوسری صدی سنہ مشترکہ کے دوران قیام پزیر تھیں، جہاں غناسطی روایت نے خواتین کی شراکت کاریوں کو اہمیت بخشی تھی۔ خواتین کیمیا دانوں میں سے زیادہ مشہور میری یہودن کے سر اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انھوں نے متعدد کیمیائی آلات ایجاد کیے، جن میں دہرا بوائلر (بین-ماری) شامل ہے؛ اس دور کے لحاظ سے عرق کشی کی تخلیق یا بہتری۔و9وو10و ایسے عرق کشی کے آلات کو کیروٹاکیس (سادہ آلہ) اور ٹرائیبائیکوس (ایک پیچیدہ عرق کشی کا آلہ) کہا جاتا تھا۔و9و
اسکندریہ کی ہائی پیشیا (350 تا 415 سنہ مشترکہ) – اسکندریہ کے تھیون کی بیٹی، اسکندریہ میں جدید افلاطونی مدرسے کی ایک جانی مانی استاذ تھیں، جو فلکیات، فلسفے اور ریاضی کی تعلیم دیتی تھیں۔و11وو12و ان کو تاریخ میں پہلا خاتون ریاضی داں تسلیم کیا جاتا ہے، جس کی وجہ ریاضی کے لیے ان کی نمایاں اور اہم شراکت کاریاں ہیں۔و12و ہائی پیشیا کے سر اس بات کا بھی سہرا جاتا ہے کہ انھوں نے جیومیٹری، الجبرا اور فلکیات کے حوالے سے تین اہم صحیفے تحریر کیے؛ اس کے ساتھ ساتھ ہائیڈرو میٹر، سیاروی حرکات و سکنات کو ماپنے والا فلکیاتی آلہ (ایسٹرولیب) اور پانی کو کشید کرنے والا آلہ جیسی ایجادات ان سے منسوب ہیں۔و6وو13و یہاں تک کہ اس بات کی شہادت بھی موجود ہے کہ ہائی پیشیا نے عوامی خطبات دیے اور اسکندریہ میں کسی قسم کا عوامی دفتر بھی سنبھالا۔14و تاہم ان کی بھرپور زندگی 415 سنہ مشترکہ میں مسیحی انتہا پسندوں – جن کو پیرابالانی کے طور پر جانا جاتا تھا – کے ہاتھوں مختصر ہو کر اختتام پزیر ہوئی؛ جنھوں نے ہائی پیشیا کو رسوا کیا – جسم کے ٹکڑے کیے — اور ان کی لاش کے ٹکڑوں کو جلا دیا۔و14و بعض علما تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہائی پیشیا کی موت نے سائنس میں خواتین کے کردار کے باب کو آیندہ آنے والی مزید کئی صدیوں کے لیے بند کر دیا۔و12و
قرونِ وسطیٰ کا یورپ
ترمیمیورپی قرونِ وسطیٰ کے ابتدائی ادوار کو تاریک ادوار بھی کہا جاتا ہے؛ جن کے دوران روم کی سلطنت کا زوال ہوا۔ لاطینی مغرب شدید مشکلات سے دوچار تھا؛ اس صورتِ حال نے یورپ کی فکری نشو و نما کو ڈرامائی طور پر نقصان پہنچایا۔ گو کہ فطرت کو اس وقت بھی ایسے نظام کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جس کو دلیل کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے، لیکن تخلیقی اور ترقّی پسند سائنسی کھوج کا فقدان تھا۔و15و عرب دنیا کے سر اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انھوں نے سائنسی ترقّی کے سرمایوں کو محفوظ کیا۔ عرب علما نے اصلی تحقیقی کام پیش کیا اور کلاسیکی ادوار کے قلمی نسخوں کی نقول شائع کیں۔و16و اس دوران مسیحیت دوبارہ احیاء کے دور سے گذر رہی تھی اور مغربی تہذیب کو اس کے نتیجے میں نئی زندگی ملی۔ کسی حد تک اس احیاء کی وجہ یہ تھی کہ مردوں اور خواتین کے لیے خانقاہوں نے پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کی نشو و نما کی؛ اور راہبوں اور راہباؤں نے ماضی کے علما کی اہم تحریروں کو اکٹّھا کیا اور انھیں نقل کیا۔و16و (حوالہ درکار)
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ اس عرصے کے دوران کانوینٹ، خواتین کی تعلیم کے لیے ایک اہم مقام تھے – کیونکہ خانقاہیں لکھنے اور پڑھنے کی مہارتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں؛ اور ان میں سے بعض برادریوں نے خواتین کو عالمانہ تحقیق میں شراکت کاری کے مواقع فراہم کیے۔و16و اس کی ایک مثال جرمن نژاد خاتون پادری ہلگارڈ آف بنجین (1098 تا 1179 سنہ مشترکہ) ہیں – جو مشہور فلسفی اور ماہرِ نباتات ہیں، جو اپنی سیر حاصل تحریروں کے باعث جانی جاتی ہیں؛ جن میں طب، نباتیات اور فطری تاریخ (1151 تا 1158) شامل ہیں۔و17و ایک اور مشہور جرمن نژاد خاتون پادری ہروس ویتھا آف گینڈر شائم (935 تا 1000 سنہ مشترکہ) و16و تھیں ، جنھوں نے خواتین کی فکری صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں مدد دی۔ تاہم، خواتین کی خانقاہوں میں اضافے کے ساتھ تمام مردانہ حفظِ مراتب کو ان خانقاہوں میں خوش آمدید نہیں کہا جاتا تھا؛ اور لہٰذا اس صورت حال سے خواتین کی ترقّی کے خلاف محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں بہت سارے مذہبی سلسلے خواتین کے لیے بند ہو گئے؛ انھوں نے خواتین کے لیے خانقاہیں بند کر دیں؛ اور مجموعی طور پر خواتین کے لیے لکھنے اور پڑھنے کے لیے سیکھنے کی صلاحیتوں کے مسدود کر دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی سائنس کی دنیا کا دروازہ خواتین کے لیے بند ہو گیا، جس کے باعث سائنس میں خواتین کا اثرو رسوخ محدود ہو گیا۔و16و
11ویں صدی کے دور میں اوّلین یونیورسٹیوں یا جامعات کا قیام عمل میں آیا۔ زیادہ تر خواتین جامعات کی تعلیم سے خارج رہیں۔و1و تاہم، اس حوالے سے بعض استثنیٰ تھے۔ مثال کے طور پر اطالوی یا اٹلی کی یونیورسٹی آف بولونگا نے 1088 میں اپنے آغاز سے ہی خواتین کو خطبات یا لیکچرز میں شرکت کرنے کی اجازت دی۔و18و
اٹلی میں طب کے شعبے میں خواتین کو تعلیم دینے کا رویّہ دیگر مقامات کے مقابلے میں زیادہ آزادانہ نظر آتا ہے۔ 11ویں صدی میں خاتون طبّی ماہرہ تروتولا ڈی روگیئرو کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ انھوں نے میڈیکل اسکول آف سالیرنو میں نشست (چیئر) سنبھالی تھی، جہاں انھوں نے اعلیٰ طبقے سے تعلّق رکھنے والی بہت ساری خواتین کو تعلیم دی؛ ان خواتین کے گروہ کو بعض اوقات "لیڈیز آف سالیرنو" بھی کہا جاتا ہے۔و10و خواتین سے متعلّق طب کے متعدّد شعبوں کی تحریروں – جیسے دایہ گیری اور امراض نسواں سے متعلق تحریروں کو اکثر و بیشتر تروتولا سے منسوب کیا جاتا ہے۔
ڈوروتیا بوچا ایک اور ممتاز اطالوی ماہرِ طب تھیں۔ انھوں نے 1390 سے چالیس سال تک یونیورسٹی آف بولوں گا کی "نشست برائے فلسفہ اور طب" سنبھالے رکّہی۔و18وو19وو20وو21و دیگر اطالوی خواتین جن کا طب کے شعبے میں شراکت کاریوں کے حوالے سے تذکرہ محفوظ ہے، ان میں ابیلا، جیکوبینا فیلیسی، الیساندرا گیلیانی، ریبیکا ڈی گوارنا، مارگاریٹا، مرکیوریاڈے (14ویں صدی)، کانستینس کیلنڈا]]، کلاریس ڈی دوری سیو (15ویں صدی)، کانستانزا، ماریا انکارناتا اور ٹامسیا ڈی میٹیئو شامل ہیں۔و19وو22و
بعض خواتین کی کامیابی کے باوجود، قرون وسطیٰ کے دور میں ثقافتی جانب داریوں نے خواتین کی تعلیم اور سائنس میں شراکت کاریوں کے اوپر سے منفی اثر ڈالا۔ مثال کے طور پر، خواتین کے حوالے سے مسیحی عالِم، سینٹ ٹامَس اکوائیناس تحریر کرتے ہیں، "عورت ذہنی طور پر اس قابل نہیں ہے کہ قیادت کا عہدہ سنبھال سکے"۔و1و
سائنسی انقلاب (16ویں اور 17ویں صدی)
ترمیم17ویں صدی کے طبقہء اشرافیہ سے تعلّق رکھنے والی، مارگریٹ کیوِنڈِش نے اس دور کی بعض اہم ترین بحثوں میں حصّہ لیا۔ تاہم، ان کو انگلش رائل سوسائٹی میں شامل نہیں کیا گیا تھا – گو کہ انھیں سوسائٹی کے ایک اجلاس میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔ انھوں نے سائنسی معاملات پر مختلف کام تحریر کا حصّہ بنائے، جن میں "تجرباتی فلسفے پر مشاہدات(1666)" اور "فطری فلسفے کی بنیادیں" شامل ہیں۔ ان کاموں میں وہ خاص طور پر اس پروان چڑھتے عقیدے کی ناقد تھیں کہ سائنس کے ذریعے انسان فطرت پر قادر ہو گئے ہیں۔ ان مشاہدات نے بیکن کی تجرباتی سائنس پر تنقیدی جائزہ پیش کیا اور یہ تنقید کی کہ خورد بینیں غیر کامل مشینیں ہیں۔و23و
جرمنی میں خواتین کی اشیاء کی پیداوار میں شرکت کی روایت نے بعض خواتین کو اس قابل بنایا کہ وہ مشاہداتی سائنس کے ساتھ وابستہ ہوں، خصوصاً فلکیات۔ 1650 سے 1710 کے درمیان جرمن ماہرینِ فلکیات میں 14 فی صد تعداد خواتین کی تھی۔و24و جرمنی میں سب سے زیادہ مشہور خاتون ماہرِ فلکیات، ماریا ونکل مین تھیں۔ والد اور انکل سے انھوں نے تعلیم حاصل کی؛ اور فلکیات کی تربیت انھوں نے قرب و جوار رہنے والے خود اپنے بل پر سیکھنے کے لیے کوشاں ماہرینِ فلکیات سے حاصل کی۔ ان کے بہ طور ماہرِ فلکیات عملی طور پر کام کرنے کا موقع اس وقت آیا، جب ان کی شادی گوٹ فرائیڈ کِرچ سے ہوئی، جو پروشیا کے نام ور ماہرِ فلکیات تھے۔ وہ اس فلکیاتی رصد گاہ میں ان کی نائب بن گئیں، جس کے انتظامی امور برلن میں اکیڈمی آف سائنس کے ذمّہ تھے۔ انھوں نے حقیقی شراکت کاریاں کیں ، جن میں دُ م دار تارے کی دریافت بھی شامل ہے۔ جب ان کے شوہر کا انتقال ہوا تو انھوں نے برلن اکیڈمی میں نائب ماہرِ فلکیات کے عہدے کے لیے درخواست دی – جس کا ان کے پاس تجربہ تھا۔ بہ حیثیت ایک خاتون – اور کسی جامعہ کی سند نہ ہونے کی وجہ پر – انھیں یہ عہدہ نہیں دیا گیا۔ برلن اکیڈمی کے اراکین کو یہ خوف لاحق تھا کہ کسی خاتون کو ملازمت پر رکھ کر وہ ایک خراب مثال قائم کریں گے۔ "لوگ باتیں بنائیں گے"، اراکین کا کہنا تھا۔
ونکل مین کے برلن اکیڈمی کے ساتھ مسائل ان رکاوٹوں کے عکّاس ہیں، جن کا خواتین نے اپنے کام کی قبولیت کے حوالے سے سامنا کیا – جسے بنیادی طور پر مردوں کا شعبہ تصوّر کیا جاتا ہے۔ 20 ویں صدی تک کسی بھی خاتون کو نہ تو رائل سوسائٹی آف لندن میں اور نہ ہی فرنچ اکیڈمی آف سائنسز میں مدعو کیا جاتا تھا۔ 17 ویں صدی میں زیادہ تر لوگ کسی عالمانہ شعبے کے لیے مختص زندگی کو ان گھریلو فرائض سے متصادم تصوّر کرتے تھے، جن کو انجام دینے کی کسی خاتون سے توقّع کی جاتی تھی۔
جدید نباتیات اور حیوانیات کی بانی – ماریا سائی بیلا میریان (1647 تا 1717) نے اپنی زندگی فطرت کی تحقیق کرتے ہوئے گزاری۔ جب وہ 13 سال کی تھیں تو انھوں نے لارووں کو پروان چڑھانا شروع کیا اور ان کی کایا پلٹنے کے عمل – یعنی ان کے تتلیوں میں تبدیل ہونے کا مطالعہ کیا۔ وہ مطالعاتی کتاب اپنے ساتھ رکھتی تھیں، جس میں وہ فطری فلسفے کے حوالے سے اپنی تحقیقات درج کرتی تھیں۔ اپنی پہلی طباعت، "دی نیو بُک آف فلاورز" میں انھوں نے پودوں اور کیڑوں کی زندگی کو تصویری دستاویز کی شکل میں درج کیا۔ جب ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا – اور سائیورٹ میں مختصر عرصہ گزارنے کے بعد، انھوں نے اور ان کی بیٹی نے پیرا ماریبو کا سفر کیا تاکہ کیڑوں، پرندوں، ریپٹائل اور ایمفیبین کا مطالعہ کر سکیں۔و26و وہ ایمسٹرڈیم واپس آئیں اور "دی میٹا مارفوسس آف دی انسیکٹس اور سوری نیم" شائع کی، جس نے "پہلی مرتبہ یورپیوں پر بارانی جنگلات کے حیران کن تنوّع کے بارے میں انکشاف کیا"۔و27وو28و وہ ماہرِ نباتیات اور ماہرِ حشریات تھیں، جن کو مصوّرانہ انداز میں پودوں اور کیڑوں کے بارے میں بیان کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔ اس وقت کے لحاظ سے گو کہ یہ بات غیر معمولی تھی، لیکن انھوں نے جنوبی امریکا اور سوری نیم کا سفر کیا، جہاں اپنی بیٹیوں کی معاونت سے انھوں نے ان علاقوں کی نباتانی اور حیوانی زندگی کو تصویری شکل میں پیش کیا۔و29و
مجموعی طور پر سائنسی انقلاب نے خواتین کے بارے میں لوگوں کے تصوّرات تبدیل کرنے کے حوالے سے نہایت ہی قلیل کردار ادا کیا – زیادہ وضاحت ہو تو یہ کہا جائے – کہ یہ تصوّر تبدیل کرنے کے حوالے سے قلیل کردار ادا کیا کہ خواتین کی سائنس کے لیے خدمات پیش کرنے کی صلاحیت مردوں کے مساوی ہے۔ جیکسن اسپیل ووجیل کے مطابق، "مرد سائنس داں جدید سائنس کو یہ نظریہ پھیلانے کے لیے استعمال کرتے تھے کہ خواتین، مردوں سے کم تر اور ان کے زیرِ نگیں ہیں؛ اور خواتین، بچّوں کی پرورش کرنے والی ماؤں کے گھریلو کردار میں زیادہ مناسب ہیں۔ کتابوں کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ میں ان خیالات کا تسلسل ملتا ہے"۔و30و
18ویں صدی
ترمیمگو کہ خواتین نے 18ویں صدی کے دوران بہت سارے سائنسی شعبوں میں ترقّی کی، لیکن پودوں کی تولید کے عمل کے بارے میں سیکھنے کے حوالے سے ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ کارل لینایوس کی پودوں کی زمرہ بندی کا نظام جنسی خصوصیات پر مبنی تھا، جس سے لوگوں کی توجّہ پودوں کے غیر اخلاقی جنسی رجحان کی جانب مبذول ہوئی؛ اور لوگوں کو خوف لاحق ہوا کہ خواتین فطرت کی مثال سے غیر اخلاقی اسباق سیکھ لیں گی۔ خواتین کو اکثر وبیشتر انتہائی جذباتی اور دلیل کی صلاحیت سے عاری تصوّر کیا جاتا تھا یا فطری مائیں تصوّر کیا جاتا تھا جو فطری اور اخلاقی معاشرے کو تشکیل دیتی ہیں۔و31و 18ویں صدی میں خواتین کے بارے میں تین مختلف نظریات قائم تھے: کہ خواتین ذہنی اور سماجی طور پر مردوں سے کم تر ہیں؛ کہ خواتین مردوں کے برابر ہیں، لیکن مختلف ہیں؛ اور یہ کہ صلاحیتوں کے اعتبار سے خواتین، مردوں کے مساوی ہیں – ذہنی صلاحیتو ں کے لحاظ سے بھی اور معاشرے میں شراکت کاری کے لحاظ سے بھی۔و32و جبکہ شخصیات جیسے جین-جیکس روسیو کا ماننا تھا کہ خواتین کے کردار ماں اور اپنے ازدواجی ساتھی کی خدمت تک محدود تھے، لیکن روشن خیالی کا بھی دور تھا جس کی وجہ سے سائنس میں خواتین کے کردار وں کو وسعت ملی۔و33و یورپ میں سیلون کی ثقافت کے عروج میں فلسفیانہ مذاکرے بے تکلّف مقامات تک پہنچ گئے، جہاں مرد اور خواتین ملاقات کے دوران جدید سیاسی، سماجی اور سائنسی موضوعات پر گفت گو کرتے۔و34و جین-جیکس روسیو نے خواتین کے ایسے زیر تسلّط سیلون پر حملہ کیا کہ "جہاں نسوانی مزاج رکھنے والے مرد تیّار ہوتے"، جس کی وجہ سے مذاکرے میں سنجیدہ بحث متاثر ہوتی؛ لیکن اس زمانے میں سیلون مخلوط الجنس مجلسوں پر مشتمل ہوتے۔و35و
لیڈی میری ورٹلی مونٹیگو نے روایت کو توڑا جب انھوں نے مغربی طب میں خسرہ سے بچاؤ کی حفاظتی دوا (ویکسین) متعارف کرائی؛ اس بیماری کا مشاہدہ انھوں نے سلطنت عثمانیہ کے سفر کے دوران کیا تھا۔و36وو37و 1718 میں انھوں اپنے بیٹے کو ویکسین دی اور جب 1721 میں خسرہ کی وبا نے انگلستان کا رخ کیا تو انھوں نے اپنی بیٹی کو خسرہ سے بچاؤ کی حفاظتی دوا دی۔و38و یہ برطانیہ میں اس نوعیت کا پہلا آپریشن تھا۔و37و انھوں نے کیرولین آف آنس باخ کو قائل کیا کہ قیدیوں پر علاج کی آزمائش کی جائے۔و38و شہزادی کیرولین نے 1722 میں اپنی دو بیٹیوں کو حفاظتی دوا پلائی۔و37ستمبر 1722 میں و ورٹلی مونٹیگو نے قلمی نام سے ایک آرٹیکل شائع کیا، جس میں حفاظتی دوا کیا خصوصیات بیان کی گئیں اور اس کے حق میں وکالت کی گئی۔و39و
پلازو پبلیکو میں 49 مقالوں و40و کا عوامی سطح پر دفاع کرنے کے بعد لارا بسّی کو یونیورسٹی آف بولوںگا نے 1732 میں فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی سند سے نوازا۔و41و لہٰذا بسّی، ایلینا کورنارو پیسکوپیا کے بعد دنیا کی دوسری خاتون بن گئیں ،جنھوں نے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کیا۔ ایلینا کورنارو پیسکو کو 54 سال قبل 1678 میں اس اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ لارا بسّی نے آرچی گیناسیو میں 12 اضافی مقالوں کا دفاع کیا، جو یونیورسٹی آف بولوں گا کی مرکزی عمارت ہے؛ جس نے لارا بسّی کو اس قابل بنایا کہ یونیورسٹی میں بہ حیثیت مدرّس خدمات انجام دینے کی درخواست دیں۔و41و 1732 میں یونیورسٹی نے بسّی کو فلسفے میں پروفیسر کا عہدہ تفویض کیا، ان کو اکیڈمی آف سائنسز کا رُکن بنادیا اور وہ یورپ کی کسی یونیورسٹی میں فزکس کی پروفیسر کا عہدہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔و41و لیکن یونیورسٹی نے اس قدر کو برقرار رکھا خواتین نجی زندگی گزاریں؛ اور 1746 سے 1777 تک بسّی نے سالانہ ایک رسمی مقالہ پیش کیا جو قوّتِ تجاذب سے لے کر برقی توانائی کے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔و40و کیونکہ لارا بسّی عوامی سطح پر یونیورسٹی میں باقاعدگی سے خطبہ نہیں دے سکتی تھیں، تو سال 1749 میں انھوں نے نجی سطح پر تعلیم دینا اور تجربات کرنا شروع کیے۔و40و تاہم یونیورسٹی کی جانب سے ان کی ذمّہ داریوں میں اضافے عوامی طور پر خطبات دینے کے باعث بسّی باقاعدگی سے اپنی تنخواہ میں اضافے کی درخواست دے سکتی تھیں، جس کے نتیجے میں وہ تنخواہ بسّی کی جانب سے جدید آلات خریدنے میں استعمال ہوتی تھی۔ بسّی نے یونیورسٹی آف بولوں گا کی جانب سے سب سے زیادہ دی جانے والی تنخواہ 1200 لیرے وصول کی۔و42و 1776 میں 65 سال کی عمر میں لارا بسّی کو بولوں گا انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز کی جانب سے تجرباتی طبیعیات کی نشست کے لیے منتخب کیا گیا، جس میں ان کے شوہر ان کے تدریسی معاون تھے۔و40و
برٹانیکا کے مطابق ماریا گیٹانا اگنیسی "مغربی دنیا میں پہلی ایسی خاتون تصوّر کیا جاتی ہیں، جنھوں نے ریاضی میں نمایاں مقام حاصل کیا"۔و43و وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے ریاضی کے حوالے سے دستی کتابچہ تحریر کیا، جس کا نام Instituzioni analitiche ad uso della gioventu italiana یا انگریزی میں Analytical Institutions for the Use of Italian Youth (اطالوی نوجوانوں کے استعمال کے لیے تجزیاتی ادارے) ہے۔ 1748 میں شائع ہونے والی "یہ کتاب سوئس ریاضی داں یولر کے کام کا بہترین تعارف تھی"۔و44وو45و اگنیسی کے مطابق اس کام کا مقصد قلیل حسابات (احصا) کے مختلف نتائج اور مسئلوں کی ایک نظام کے تحت مثال پیش کرنا تھا۔ و46و 1750 میں وہ دوسری خاتون بنیں، جنہیں کسی یورپی یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے سے نوازا گیا۔ ان کا تقرّر یونیورسٹی آف بولوںگا میں ہونے کے باوجود بھی انھوں نے وہاں کبھی تدریس نہیں کی۔و44وو47و
جرمن نژاد ڈوروتھی ارکس لیبین نے ابتدائی عمر و48و میں طب کی تعلیم والد سے حاصل کی؛ اور بسّی کے یونیورسٹی کے پروفیسر کے عہدے سے متاثر ارکس لیبین طبی معالج کے طور پر اپنا کام کرنے کے حق کے لیے لڑیں۔ 1742 میں شائع ہونے والی ایک تحریر میں انھوں نے دلیل پیش کی کہ خواتین کو جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ فریڈرک دی گریٹ کی جانب سے تعلیم کی اجازت ملنے پر انھوں نے 1754 میں ایم۔ڈی۔ کی سند یونیورسٹی آف ہالے حاصل کی۔و49و انھوں نے ان رکاوٹوں کا تجزیہ کیا جو خواتین کی تعلیم کی راہ میں حائل تھے، جن میں گھر داری اور بچّوں کی ذمّہ داری شامل تھے۔و48و وہ جرمنی میں پہلی خاتون میڈیکل ڈاکٹر بنیں۔و50و
1741-42 میں شارلوٹا فلوریچ پہلی خاتون بنیں، جن کا کام رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز نے شائع کیا، جن میں تین کتابیں زرعی سائنس سے متعلّق تھیں۔ 1748 میں ایوا ایکے بلاد وہ پہلی خاتون بنیں، جن کواس اکیڈمی میں شامل کیا گیا۔و51و 1746 میں ایکے بلاد نے اکیڈمی کو اپنی دریافتوں کے بارے میں تحریر کیا کہ آلو سے کیسے آٹا اور الکحل تیّار کیے جائیں۔و52وو53و آلو سوئیڈن میں 1658 میں متعارف ہو چکے تھے، لیکن ان کی کاشت صرف طبقہء اشرافیہ کے گرین ہاؤسز میں ہوتی تھی۔ ایکے بلاد کے کام کی بنیاد پر آلو سوئیڈن میں بڑے پیمانے پر کھائی جانے والی اشیاء میں شامل ہو گئے اور ان سے گندم، رائی اور جو کی رسد بڑھ گئی، جو روٹی بنانے کے لیے دستیاب تھے، کیونکہ ان کے بہ جائے الکحل تیّار کرنے کے لیے آلوؤں کو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس کے باعث ملک کی غذائی عدات بہتر ہوئیں اور قحط سالی کے تسلسل میں کمی آئی۔و53و ایکے بلاد نے کپاس سے بنے کپڑوں اور یارن کو صابن کے ذریعے بلیچ کرنے کا طریقہ بھی 1751 میں دریافت کیا،و52و اور کاسمیٹکس میں خطرناک اجزاء کے استعمال کے بہ جائے آلو کے آٹے کا رواج 1752 میں عام کیا۔و53و
ایمیلی ڈیو چاٹیلیٹ، جو وولٹیئر کی قریبی دوست تھیں – پہلی سائنسداں تھیں جنھوں نے تسلسل momentum کے برعکس حرکی توانائی کی تعریف کی۔ انھوں نے ولیم گراویساندے کی جانب پہلی مرتبہ متعارف کراے جانے والے تجربے کو دہرایا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا کہ گرتی ہوئی اشیاء کا اثر ان کی ولاسٹی سے متناسب نہیں ہے، ولاسٹی اسکوائر سے ہے۔ اس سمجھ بوجھ کے بارے میں تصوّر کیا جاتا ہے کہ اس نے نیوٹن کے حرکی قوانین نمایاں شراکت کی۔و54و 1749 میں انھوں نیوٹن کی کتاب Philosphiae Naturalis Principia Mathematica یا دی پرنسیپیا کا فرنچ زبان میں ترجمہ مکمّل کیا۔ ان کی موت کے 10 سال بعد شائع ہونے والا یہ ترجمہ اور پرنسیپیا پر ترجمے نے فرانس میں سائنسی انقلاب کو مکمّل کیا اور یورپ میں اسے قبول کیا گیا۔و55و
ماری-این پیئریٹ پاؤلزے اور ان کے شوہر اینٹوائن لیوائزیئر نے کیمیا کے شعبے کی تعمیرِ نو کی، جس کی جڑیں الکیمیا میں تھیں – اس وقت جب سائنس پر جارج اسٹاہل کے نظریہ فلوجستن کا تسلّط تھا۔ پاؤلزے، لیوائزیئر کا ان کی رصد گاہ میں ساتھ دیتیں، جس میں وہ رصد گاہ کی نوٹ بک میں اندراج کرتیں، تجرباتی نمونوں کی تصاویر بناتیں۔ انھوں نے جو تربیت حاصل کی اس نے انھیں اس قابل بنادیا کہ کیسے جامع طور پر تجرباتی آلات کا خاکہ بنایا جائے، جس نے لیوائزیئر کے بعد میں آنے والوں کو ان کا طریقہء کار اور نتائج سمجھنے میں مدد دی۔ پاؤلزے نے فلوجستن کے بار ے میں مختلف کاوشوں کا فرنچ میں ترجمہ کیا۔ان کا ایک اہم ترجمہ رچرڈ کیروان کا وہ مضمون ہے، جس کا عنوان فلوجستن اور تیزابوں کی بناوٹ ہے، جس کا انھوں نے ترجمہ بھی کیا اور اس پر تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا، فُٹ نوٹ شامل کیے؛ جن میں ان غلطیوں کی نشان دہی کی کیمیا کے حوالے سے تمام مضمون میں کی گئی تھیں۔و56و پاؤلزے نے "کیمیا پر لیوائزیئر کا ابتدائی صحیفہ" کی 1789 میں اشاعت میں اہم کردار ادا کیا، جس میں کیمیا کو متّحدہ انداز میں ایک شعبے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ کام کیمیا کی ترقّی کے حوالے سے اہم ثابت ہوا، کیونکہ اس میں کمیت کی بقا کے تصوّر کے ساتھ ساتھ عناصر کی فہرست اورکیمیائی نام دینے کا ایک نیا نظام متعارف کرایا گیا۔ انھوں نے تمام معلومات اور عمل کو دستاویزی طور پر جمع کیا، جنھوں لیوائزیئر کے کام کو سند بخشی۔
ماہرِ فلکیات، کیرولین ہرشل ہنوور میں پید ہوئیں، لیکن انگلستان منتقل ہو گئیں جہاں اپنے بھائی، ولیم ہرسشل ساتھ انھوں نے بہ طور معاون کام کیا۔ اپنی تمام تحریروں میں انھوں نے بار بار واضح کیا ہے کہ خود مختاری سے اپنے بل پر روزگار و تنخواہ حاصل کرنا چاہتی ہیں، تاکہ وہ خود اپنی کفالت کر سکیں۔ جب اپنے بھائی کے ساتھ بہ طور معاون کام کرنے کے لیے 1787 میں ان کو شاہی وظیفہ ملنا شروع ہوا، تو وہ اس وقت پہلی خاتون بن گئیں جس کو ایسا وظیفہ ملا – اس دور میں جب مردوں کو بھی سائنسی کاموں کے لیے شاذونادر ہی تنخواہ ملتی تھی۔و57و 1786 سے 1797 کے دوران انھوں نے آٹھ دُم دار تارے دریافت کیے، جس میں پہلی دریافت کی تاریخ 1 اگست 1786 تھی۔ پانچ دُم دار تاروں کی دریافت کنندہ کے طور پر ان کی ترجیح واضح تھی؛ اور انھوں نے دُم دار تارہ اینکے 1795 میں دوبارہ دریافت کیا۔و59و ان کے دریافت کردہ دُم دار تاروں میں سے پانچ دُم دار تارے "فلاسوفیکل ٹرانزیکشنز" میں شائع ہوئے، جو کاغذات کا ایک پلندہ تھا ، جس پر جلی الفاظ میں یہ تحریر تھا، "انھیں میں اپنے دُم دار تاروں کے بِل اور ان کی رسیدیں کہتی ہوں"۔ اس پلندے میں وہ معلومات تھیں جو ان اجسام کی دریافت سے متعلّق تھیں۔ ولیم کو ونڈسر محل میں طلب کیا گیا تاکہ کیرولین کے دُم دار تارے کا مظاہرہ شاہی خاندان کے سامنے کیا جاسکے۔و60و کیرولین ہرشل کو اکثر و بیشتر ایک ایسی پہلی خاتون تصوّر کیا جاتا ہے، جنھوں نے دُم دار تارہ دریافت کیا؛ تاہم، ماریا کِرچ نے 1700 کے اوائل میں ایک دُم دار تارہ دریافت کیا تھا، لیکن اس وقت ان کی دریافت کو زیادہ تر نظر انداز کیا گیا تھا، کیونکہ اس دریافت کو ان کے شوہر، گوٹفرائیڈ کِرچ سے منسوب کیا جاتا تھا۔و61و
19ویں صدی کے اوائل
ترمیم19 ویں صدی کے اوائل کے دوران سائنس کے پیشے کو زیادہ تر سنجیدہ نہیں لیا جاتا تھا۔ خواتین کی شراکت کاریاں اس وجہ سے محدود تھیں، کیونکہ وہ سائنسی تعلیم سے خارج تھیں – لیکن اس عرصے کے دوران انھیں اعلیٰ تعلیمی سوسائٹیوں میں قبولیت کے ذریعے تسلیم کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔
اسکاٹش سائنسداں میری فیئر فیکس سومر وِل نے مقناطیسیت پر کچھ تجربات کیے اور "شمسی روشنی کی بنفشی شعاعوں مقناطیسی خصوصیات" پر ایک مقالہ رائل سوسائٹی کو 1826 میں پیش کیا؛ اور اس طرح وہ ایسا کام کرنے والی دوسری خاتون بنیں۔ انھوں نے ریاضی، فلکیات، اجسام اور جغرافیے سے متعلّق متعدّد تحریرں لکھیں؛ اور وہ خواتین کی تعلیم کی بڑھ چڑھ کر وکالت کرتی تھیں۔ 1835 میں وہ اور کیرولین ہرشل پہلی دو خواتین بنیں ، جنہیں رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی کا اعزازی رکن منتخب کیا گیا۔و62و
انگریزی ریاضی داں ایڈا، لیڈی لو لیس جو سومر وِل کی شاگرد تھیں، نے چارلس بیبج کے ساتھ خط کتابت کی؛ جو بیبج کے تجزیاتی انجن کے بارے میں تھی۔ اپنے نوٹس (1842 تا 1843) میں جو انجن کے بارے میں لوئیگی مینا بریا کے آرٹیکل کے ترجمے کے ساتھ منسلک ہیں، انھوں نے اس کا اطلاق وسیع معنوں میں دیکھا – جو عام استعمال کے کمپیوٹرسے لے کر موسیقی ترتیب دینے تک پر مشتمل ہے۔ انھیں پہلا کمپیوٹر پروگرام تحریر کرنے والا تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن یہ بات متنازع ہے۔و63و
جرمنی میں خواتین کے لیے "اعلیٰ "تعلیم کے ادارے (جنہیں Hohere Tochterschule اور بعض علاقوں میں Lyzeum کہا جاتا) مذکورہ صدی کی ابتدا میں قائم کیے گئے۔و64و کیسر ورتھ کا ڈیکونیس انسٹی ٹیوٹ 1836 میں قائم ہوا تاکہ خواتین کو نرسنگ کی تعلیم دی جا سکے۔ 1840 میں الزبتھ فرائی نے انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا اور اس سے متاثر ہو کر لندن انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ قائم کیا، جہاں فلورنس نائٹ انگیل نے 1851 میں تعلیم حاصل کی۔و65و
ریاست ہائے متّحدہ امریکا میں ماریا مچل کا نام 1847 میں اس وقت منظرِ عام پر آیا جب انھوں نے دُم دار تارہ دریافت کیا، بلکہ انھوں نے یونائیٹیڈ اسٹیٹس نیشنل آبزرویٹری کے شائع ہونے والے "ناٹیکل المانیک" میں بھی شراکت کاری کی۔ 1848 میں وہ امریکی اکادمی برائے فنون اور سائنس اور 1850 میں امریکی ایسوسی ایشن برائے سائنسی ترقّی کی پہلی خاتون رکن بنیں۔
اس عرصے کے دوران دیگر خواتین سائنسدانوں میں مندرجہ ذیل نام نمایاں رہے:و6و
- برطانیہ میں: میری ایننگ (ماہرِ فوصلیات)، اینا ایٹکنز (ماہرِ نباتات)، جینیٹ ٹیلر (ماہرِ فلکیات)
- فرانس میں: ماری صوفی جرمین (ریاضی داں)، جین ویلے پریوکس-پاور (ماہرِ بحری حیاتیات)
مغربی یورپ میں 19 ویں صدی کے اواخر
ترمیم19ویں صدی کے اواخر نے خواتین کے لیے تعلیمی مواقع کے لحاظ سے عروج کا دور دیکھا۔ برطانیہ میں لڑکیوں کو لڑکوں کے مساوی تعلیم فراہم کی گئی، جن میں نارتھ لندن کالیجیٹ اسکول (1850)، چیلٹن ہیم لیڈیز کالج (1853) اور گرلز پبلک ڈے اسکول ٹرسٹ اسکولز(1872 سے) شامل ہیں۔برطانیہ میں خواتین کے لیے پہلا یونیورسٹی کالج، گِرٹون 1869 میں قائم کیا گیا اور دیگر اس مثال پر چلے: نیون ہیم (1871) اور سومر وِل (1879)۔
کرائمیئن جنگ (1854 تا 1856) نے نرسنگکے پیشے کو مستحکم کرنے میں کردار ادا کیا اور فلورنس نائٹ انگیل گھر گھر میں لیا جانے والا نام بن گیا۔ عوامی پزیرائی نے نائٹ انگیل کو اس قابل بنایا کہ وہ 1860 میں نرسنگ اسکول قائم کریں؛ جس کے بعد ان کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے برطانیہ بھر میں ایسے اسکول قائم ہو گئے۔و65و نائٹ انگیل نے عوامی صحت کے شعبے کے ساتھ ساتھ ماہر شماریات کے طور پر بھی مثال قائم کی۔
جیمس بیری پہلی برطانوی خاتون بنیں، جنھوں نے 1812 میں طبی سند حاصل کی اور یہ امتحان انھوں نے مرد کے طور پر پاس کیا۔ الزبتھ گیریٹ اینڈرسن پہلی خاتون تھیں، جنھوں نے کھلے عام طبی تعلیم کا امتحان 1865 میں پاس کیا۔ صوفیہ جیکس-بلیک، امریکیالزبتھ بلیک ویل اور دیگر کے ساتھ مل کر گیریٹ انڈرسن نے پہلا برطانوی طبی اسکول قائم کیا ، جہاں خواتین کو تربیت دی جاتی۔ اس اسکول کا نام لندن اسکول آف میڈیسن فار ویمن تھا، جسے 1874 میں قائم کیا گیا۔
اینی اسکاٹ دل موندیر فلکیاتی عکّاسی میں اوّلین رہبر کا درجہ رکھتی ہیں، خاص طور پر شمسی دھبّوں کے حوالے سے۔ وہ گِرٹون کالج، کیمبرج سے ریاضی میں فارغ التحصیل تھیں۔ سب سے پہلے 1890 میں ان کا تقرّر ایڈورڈ والٹر موندیر کے نائب کے طور پر ہوا، جنھوں نے موندیر منیمم دریافت کیا؛ اور جو گرینچ آبزرویٹری میں شمسی شعبے کے سربراہ تھے۔ انھوں نے شمسی دھبّوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے اور شمسی عکّاسی میں بہتری لانے کے لیے مل کر کام کیا۔ 1895 میں انھوں نے شادی کر لی۔ اینی کی ریاضی کی مہارتوں نے یہ ممکن بنایا برسوں پر محیط شمسی دھبّوں کے حاصل ہونے والے مواد کا تجزیہ کیا جائے، جن کو موندیر گرینچ میں جمع کر رہے تھے۔ اینی نے ایک چھوٹا وسیع زاویے کا حامل کیمرا بھی تیّار کیا، جس کا عدسہ 1.5 انچ قطر(38 ایم ایم) کا تھا۔ 1898 میں موندیر خاندان نے ہندوستان کا سفر کیا، جہاں اینی نے سورج گرہن کے دوران سورج کے کرونا کی اوّلین تصاویر لیں۔ شمسی دھبّوں اور ارضیاتی مقناطیسی طوفان کے حوالے سے دستیاب کیمبرج کی دستاویزات کا تجزیہ کرنے کے بعد وہ یہ بتانے کے قابل تھے سورج کی سطح کے بعض خاص علاقے ارضیاتی مقناطیسی طوفان کا باعث تھے؛ اور یہ کہ سورج اپنی تابکار توانائی یکساں طور پر فضا میں نہیں پھیلاتا ہے، جس کا اعلان اس سے پہلے ولیم ٹامسن، اوّل بیرن کیلوِن کر چکے تھے۔ و66و
پروشیا میں خواتین نے یونیورسٹی تعلیم 1894 سے حاصل کرنی شروع کی اور انھیں پی۔ ایچ ڈی۔ کی سند حاصل کرنے کی اجازت دی گئی۔
1908 میں خواتین پر عائد دیگر تمام پابندیا ں اٹھا لی گئیں۔
الفانسی ریبیئرے نے 1897 میں فرانس میں ایک کتاب شائع کی، جس کا عنوان "سائنس میں خواتین" تھا۔ اس کتاب میں سائنس میں خواتین کی شراکتوں اور اشاعتوں کی فہرست شامل کی گئی تھی۔و67و
اس دور کی دیگر قابلِ ذکر خواتین سائنسدانوں کے مندرجہ ذیل ہیں:و6وو68و
- برطانیہ میں: ہرٹا مارکس آئرٹن (ریاضی داں، انجینیئر)، مارگریٹ ہگنز (ماہرِ فلکیات)، بیٹرکس پوٹر (ماہرِ کھمبیات)
- فرانس میں: ڈوروتھی کلمپکے-رابرٹس (امریکی نژاد ماہرِ فلکیات)
- جرمنی میں: امالی ڈیٹریخ (ماہرِ فطرت)، ایگنس پوکلز (ماہرِ طبیعیات)
- روس اور سوئیڈن میں: صوفیہ کووالیوسکایا (ریاضی داں)