سفید پشت گدھ
سفید پشت گدھ | |
---|---|
صورت حال | |
! colspan = 2 | حیثیت تحفظ | |
اسمیاتی درجہ | نوع [2][3][4][5][6][7][8] |
جماعت بندی | |
مملکت: | جانور |
جماعت: | پرندہ |
طبقہ: | Accipitriformes |
خاندان: | Accipitridae |
جنس: | جپس |
نوع: | جپس بنگالینسس |
سائنسی نام | |
Gyps bengalensis[2][3][5][6][4][7][8][9] Johann Friedrich Gmelin ، 1788 | |
Former distribution of Gyps bengalensis in red
| |
مرادفات | |
Pseudogyps bengalensis | |
درستی - ترمیم |
سفید پشت گدھ ایک ایسا پرندہ ہے جس کا شمار دنیاِ قدیم کے دیگر گدھ پرندوں میں ہوتا ہے۔ اِس کا تعلق یورپی گرفن گدھ سے ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ گدھ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں وافر مقدار میں پایا جاتا تھا۔ 1985ء میں اِن کی آبادی اتنی زیادہ تھی کہ لوگ اِن سے کافی پریشان تھے۔ البتہ، 1992ء سے 2007ء تک اِن پرندوں کی تعداد میں %99.9 زوال دیکھا گیا۔ اب یہ گدھ ایک نایاب پرندے کی حیثیت رکھتا ہے۔
رُڈیارڈ کِپلنگ کی مشہورِ زمانہ کتاب جنگل بُک پر مبنی ڈزنی کارٹون میں انھی گِدھوں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بانو قدسیہ کی کتاب راجہ گدھ کی پریرنا یہی گدھ تھے۔
ظاہری شکل و پہچان
ترمیمسفید پشت گدھ ایک اوسط جسامت کا پرندہ ہے جس کا سر اور گردن بے پروبال ہوتا ہے۔ اِس کے اڑن پنکھ بہت وسیح ہوتے ہیں جبکہ اِس کی پونچھ پر چھوٹے پنکھ ہوتے ہیں۔ جہاں اِس کا تعلق یورپی گرفن گدھ سے ہے، وہاں سفید پشت گدھ اپنی جسامت کے اعتبار سے دراصل گرفن گدھ سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اِس کی گردن کے نچلے حصّے پر سفید جھالر دار پنکھوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو اِس کی پشت پر جاری رہتا ہے اور اِس پروں کے جمگھٹے ہی کی وجہ سے اِس کا نام بھی اخذ کیا گیا ہے۔
پنکھ، رنگ اور جسامت
ترمیمایک بالغ گدھ کی گردن اور پشت پر سفید پنکھ اِس کے بصورت دیگر کالے پروں میں کھو جاتے ہیں۔ اِس پرندے کے بقیہ جسم پر کالے پنکھ واضح ہوتے ہیں جو اپنے انتہائی سروں پر سرمئی چاندی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ کم سن گِدھوں کے پنکھ زیادہ تر کالے ہی ہوتے ہیں اور اِن میں سفید پنکھوں کا ظہور چار سے پانچ سال کی عمر میں ہوتا ہے۔ اِس کے سر پر ہلکا گلابی رنگ واضح ہوتا ہے اور اِس کی چونچ چاندی رنگ کی ہوتی ہے جو ایک گاڑھے رنگ کی جھلی میں ختم ہو جاتی ہے۔ اِس کے نتھنوں میں کاج کی مانند شگاف ہوتے ہیں۔
اپنے جنس کے بیشتر گِدھوں کی نسبت یہ گدھ سب سے چھوٹا ہوتا ہے لیکن دیگر پرندوں کے سامنے یہ پھر بھی کافی بڑا ہوتا ہے۔ اِس کا وزن 3.5 تا 7.5 کلوگرام ہوتا ہے، لمبائی میں یہ 75 تا 93 سینٹی میٹر کا ہوتا ہے اور پرواز میں اِس کے پروں کی وُسعت تقریباً 1.92 تا 2.6 میٹر کی ہوتی ہے۔
برصغیر میں گدھ آبادی
ترمیمایک وقت تھا کہ یہ گدھ سندھ و گنگ میں ایک بڑی آبادی کی صورت میں حاضر تھے لیکن اِن کی صحت پر دیکلوفناک کے زہر خورانی اثرات کے باعث اِن کی آبادی میں زوال دیکھا گیا۔
نسل کشی کے ماحولیاتی اثرات
ترمیمڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے اہلکار کہتے ہیں کہ سفید پشت گدھ ایک ماحول دوست پرندہ ہے اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں اِس کے ناپید ہو جانے سے پورا حیاتیاتی نظام متاثر ہو گا۔ حیاتیاتی تنوع کی ماہرین کا کہنا ہے کہ گِدھوں کا حیاتیاتی نظام (ایکو سسٹم) میں بہت اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ وہ مُردہ جانوروں کو کھاتے ہیں اور اِن سے پھیلنے والی بیماریوں کو روکتے ہیں۔[10]
پاکستان میں گدھ کی چار نسلیں موجود ہیں اور چاروں ہی اِس وقت خطرے سے دوچار ہیں۔ لیکن ماحول دوست سفید پشت گدھ تو تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔ گدھ مُردار خور ہونے کے باعث مُردہ جانوروں کو کھا کر ماحول کو آلودگی سے پاک رکھتے ہیں۔ گدھ ماحولیاتی توازن برقرار اور ماحول کو صاف رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔[11]
افزائشِ نسل اور گدھ بچاؤ مہم
ترمیمپنجاب میں چھانگا مانگا کے جنگلات 2000ء سے پہلے تک ایشیا میں گِدھوں کی سب سے بڑی افزائش گاہ تھے جو اب تقریباً ختم ہو چکی ہے اور سفید پشت گِدھوں کی نسل پنجاب میں اب بالکل نظر نہیں آتی ہے۔[12] تاہم، اِس نسل کو محفوظ کرنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے، وہ کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ پاکستان اور ایشیا میں دیکلوفناک نامی دوا پر پابندی کے بعد، ناپیدیت کے خطرے سے دوچار گِدھوں کی اِس نسل کی افزائش میں بہتری دیکھی گئی ہے۔[13]
دیکلوفناک پر پابندی
ترمیمدس سے بارہ برس پہلے تک پاکستان کے بیشتر شہر اور قصبے میں گدھ پائے جاتے تھے مگر حال ہی میں پاکستان بھر میں گِدھوں کی مقامی نسلیں تقریباً ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ اِس کی وجہ بیمار جانوروں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ایک دوا دیکلوفناک سوڈیم بنی جس پر حکومت نے بقائے ماحول کے کارکنوں کے دباؤ پر 2006ء میں پابندی لگادی تھی۔[10]
جس وقت 2006ء میں جنوبی ایشیا میں دیکلوفناک پر پابندی عائد کر دی گئی، تب ایک رپورٹ سامنے آئی جس کے مطابق مال مویشیوں کو دی جانے والی دیکلوفناک دوا کی وجہ سے پاکستان، بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش میں گذشتہ دہائی کے دوران گِدھوں کی تعداد میں %95 سے زائد کمی واقع ہوئی۔ دیکلوفناک دوا جانوروں میں درد، سوزش کے علاج اور بیمار مویشیوں کی صحت یابی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔[13]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ بین الاقوامی انجمن برائے پرندہ (2013)۔ "Gyps bengalensis"۔ لال فہرست برائے خطرہ زدہ جاندار نسخہ 2013.2۔ بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2013
- ^ ا ب پ عنوان : Integrated Taxonomic Information System — تاریخ اشاعت: 13 جون 1996 — ربط: ITIS TSN — اخذ شدہ بتاریخ: 19 ستمبر 2013
- ^ ا ب پ عنوان : IOC World Bird List Version 6.3 — https://dx.doi.org/10.14344/IOC.ML.6.3 — ربط: ITIS TSN
- ^ ا ب پ عنوان : IOC World Bird List. Version 7.2 — https://dx.doi.org/10.14344/IOC.ML.7.2 — ربط: ITIS TSN
- ^ ا ب پ عنوان : World Bird List — : اشاعت 6.4 — https://dx.doi.org/10.14344/IOC.ML.6.4 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://www.worldbirdnames.org/DOI-6/master_ioc_list_v6.4.xls
- ^ ا ب پ عنوان : IOC World Bird List Version 7.1 — https://dx.doi.org/10.14344/IOC.ML.7.1 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://www.worldbirdnames.org/DOI-6/master_ioc_list_v6.4.xls
- ^ ا ب پ عنوان : IOC World Bird List Version 7.3 — https://dx.doi.org/10.14344/IOC.ML.7.3 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://www.worldbirdnames.org/DOI-6/master_ioc_list_v6.4.xls
- ^ ا ب پ عنوان : IOC World Bird List Version 8.1 — https://dx.doi.org/10.14344/IOC.ML.8.1 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://www.worldbirdnames.org/DOI-6/master_ioc_list_v6.4.xls
- ↑ "معرف Gyps bengalensis دائراۃ المعارف لائف سے ماخوذ"۔ eol.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2024ء
- ^ ا ب احمد رضا (23 جولائ 2015ء)، "صحرائے تھر مصری گِدھوں کی پناہ گاہ"۔ بی بی سی اردو۔
- ↑ شمائلہ جعفری (5 ستمبر 2012ء)، "سفید پشت کے گدھ خطرے میں (ویڈیو)"۔ بی بی سی اردو۔
- ↑ ناصر محمود (15 مئی 2012ء)، "جنوبی ایشیا کے گدھ پر منڈلاتے خطرات"۔ وائس آف امریکہ۔
- ^ ا ب امتیاز احمد (22 ستمبر 2014ء)، "پاکستان اور ایشیا میں گدھ بچاؤ مہم"۔ ڈوئچے ویلے۔