سورہ النور

قرآن مجید کی 24 ویں سورت

قرآن مجید کی 24 ویں سورت جس میں 64 آیات اور 9 رکوع ہیں۔

النور
دور نزولمدنی
زمانۂ نزولواقعۂ افک
اعداد و شمار
عددِ سورت24
عددِ پارہ18
تعداد آیات64
الفاظ1,317
حروف5,596

نام

پانچویں رکوع کی پہلی آیت الله نور السمٰوٰت والارض سے ماخوذ ہے۔

زمانۂ نزول

یہ امر متفق علیہ ہے کہ یہ سورت غزوۂ بنی المصطلق کے بعد نازل ہوئی ہے۔ خود قرآن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نزول واقعۂ افک کے سلسلے میں ہوا جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ دوسرے اور تیسرے رکوع میں آیا ہے اور وہ تمام معتبر روایات کی رو سے غزوۂ بنی المصطلق کے سفر میں پیش آیا تھا۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہے کہ آیا یہ غزوہ 5 ہجری میں غزوۂ احزاب سے پہلے ہوا تھا یا میں غزوۂ احزاب کے بعد۔ اصل واقعہ کیا ہے، اس کی تحقیق اس لیے ضروری ہے کہ پردے کے احکام قرآن مجید کی دو ہی سورتوں میں آئے ہیں، ایک یہ سورت، دوسری سورۂ احزاب جس کا نزول بالاتفاق غزوۂ احزاب کے موقع پر ہوا۔ اب اگر غزوۂ احزاب پہلے ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ پردے کے احکام کی ابتدا ان ہدایات سے ہوئی جو سورۂ احزاب میں وارد ہوئی ہیں اور تکمیل ان احکام سے ہوئی جو اس سورت میں آئے ہیں۔ اور اگر غزوۂ بنی المصطلق پہلے ہو تو احکام کی ترتیب الٹ جاتی ہے اور آغاز سورۂ نور سے مان کر تکمیل سورۂ احزاب والے احکام پر ماننی پڑتی ہے۔ اس طرح اُس حکمت تشریع کا سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے جو احکامِ حجاب میں پائی جاتی ہے۔ اسی غرض کے لیے ہم آگے بڑھنے سے پلے زمانۂ نزول کی تحقیقات کرلینا ضروری سمجھتے ہیں۔

ابن سعد کا بیان ہے کہ غزوۂ بنی المصطلق شعبان 5 ھ میں پیش آیا اور پھر ذی القعدہ میں غزوۂ احزاب (یا غزوۂ خندق) واقع ہوا۔ اس کی تائید میں سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ واقعۂ افک کے سلسلے میں حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہم کا ذکر آتا ہے اور تمام معتبر روایات کی رو سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال غزوۂ بنی قریظہ میں ہوا تھا جس کا زمانۂ وقوع غزوۂ احزاب کے متصلاً بعد ہے، لہٰذا 6ھ میں ان کے موجود ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

دوسری طرف محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ غزوۂ احزاب شوال 5ھ کا واقعہ ہے اور غزوۂ بنی المصطلق شعبان 6ھ کا۔ اس کی تائید وہ کثیر التعداد معتبر روایات کرتی ہیں جو اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے لوگوں سے مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ افک سے پہلے احکام حجاب نازل ہو چکے تھے اور وہ سورۂ احزاب میں پائے جاتے ہیں۔ ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نکاح ہو چکا تھا اور وہ غزوۂ احزاب کے بعد ذی القعدہ 5ھ کا واقعہ ہے اور سورۂ احزاب میں اس کا بھی ذکر آتا ہے۔ علاوہ بریں ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زینب بنت جحش رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کی بہن حمنہ بن جحش نے حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگانے میں محض اس وجہ سے حصہ لیا تھا کہ حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا ان کی بہن کی سوکن تھیں اور ظاہر ہے کہ بہن کی سوکن کے خلاف اس طرح کے جذبات پیدا ہونے کے لیے سوکنا پنے کا رشتہ شروع ہونے کے بعد کچھ نہ کچھ مدت درکار ہوتی ہے۔ یہ سب شہادتیں ابن اسحاق کی روایت کو مضبوط کر دیتی ہیں۔

اس روایت کو قبول کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ واقعۂ افک کے زمانے میں حضرت سعد بن معاذ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی موجودگی کا ذکر آیا ہے۔ مگر اس مشکل کو جو چیز رفع کر دیتی ہے ویہ ہے کہ اس واقعے کے متعلق حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد بن معاذ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا ذکر ہے اور بعض میں ان کی بجائے حضرت اسید بن حضیر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا۔ اور یہ دوسری روایت ان دوسرے واقعات کے ساتھ پوری طرح مطابق ہوجاتی ہے جو اس سلسلے میں خود حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا سے مروی ہیں۔ ورنہ محض سعد بن معاذ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے زمانۂ حیات سے مطابق کرنے کی خاطر اگر غزوۂ بنی المصطلق اور قصۂ افک کو غزوۂ احزاب و قریظہ سے پہلے کے واقعات مان لیا جائے تو اس پیچیدگی کا کوئی حل نہیں ملتا کہ پھر آیتِ حجاب کا نزول اور نکاح زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کا واقعہ اُس سے بھی پہلے پیش آنا چاہیے، حالانکہ قرآن اور کثیر التعداد روایات صحیحہ، دونوں اس پر شاہد ہیں کہ نکاحِ زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہااور حکمِ حجاب احزاب و قریظہ کے بعد کے واقعات ہیں۔ اسی بناہ پر ابن حزم اور ابن قیسم اور بعض دوسرے محققین نے محمد بن اسحاق کی روایت ہی کو صحیح قرار دیا ہے اور ہم بھی اسی کو صحیح سمجھتے ہیں۔

تاریخی پس منظر

اب یہ تحقیق ہو جانے کے بعد کہ سورۂ نور 6ھ کے نصف آخر میں سورۂ احزاب کے کئی ماہ بعد نازل ہوئی، ان حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے جن میں یہ سورت نازل ہوئی۔

جنگ بدر کی فتح سے عرب میں تحریک اسلامی جو عروج شروع ہوا تھا وہ غزوۂ خندق تک پہنچتے پہنچتے اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ مشرکین، یہود، منافقین اور متربصین، سب یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اس نو خیز طاقت کو محض ہتھیاروں اور فوجوں کے بل پر شکست نہیں دی جا سکتی۔ جنگِ خندق میں یہ لوگ متحد ہو کر 10 ہزار فوج کے ساتھ مدینے پر چڑھ آئے تھے، مگر ایک مہینے تک سر مارنے کے بعد آخر کار ناکام ہو کر چلے گئے اور ان کے جاتے ہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی الاعلان فرما دیا "اس سال کے بعد اب قریش تم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ تم ان پر چڑھائی کرو گے " [1]

یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ مخالفِ اسلام طاقتوں کی قوتِ اقدام ختم ہو چکی ہے، اب اسلام بچاؤ کی نہیں بلکہ اقدام کی لڑائی لڑے گا اور کفر کو اقدام کی بجائے بچاؤ کی لڑائی لڑنی پڑے گی۔ یہ حالات کا بالکل صحیح جائزہ تھا جسے دوسرا فریق بھی اچھی طرح محسوس کر رہا تھا۔

اسلام کے اس روز افزوں عروج کی اصل وجہ مسلمانوں کی تعداد نہ تھی۔ بدر اور خندق تک ہر لڑائی میں کفار ان سے کئی گنا زیادہ قوت لے کر آئے تھے اور مردم شماری کے لحاظ سے بھی مسلمان اس وقت عرب میں بمشکل 10/1 فیصد تھے۔ اس عروج کی وجہ مسلمانوں کے اسلحے کی برتری بھی نہ تھی۔ ہر طرح کے ساز و سامان میں کفار ہی کا پلہ بھاری تھا۔ معاشی طاقت اور اثر و رسوخ کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کا ان سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ان کے پاس تمام عرب کے معاشی وسائل تھے اور مسلمان بھوکوں مر رہے تھے۔ ان کی پشت پر تمام عرب کے مشرک اور اہل کتاب قبائل تھے اور مسلمان ایک نئے دین کی دعوت دے کر قدیم نظام کے سارے حامیوں کی ہمدردیاں کھو چکے تھے۔ ان حالات میں جو چیز مسلمانوں کو آگے بڑھائے لیے جا رہی تھی، وہ دراصل مسلمانوں کی اخلاقی برتری تھی جسے تمام دشمنانِ اسلام خود بھی محسوس کر رہے تھے۔ ایک طرف وہ دیکھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابۂ کرام کی بے داغ سیرتیں ہیں جن کی طہارت و پاکیزگی اور مضبوطی دلوں کو مسخر کرتی چلی جا رہی ہے اور دوسری طرف انھیں صاف نظر آ رہا تھا کہ انفرادی و اجتماعی اخلاق کی طہارت نے مسلمانوں کے اندر کمال درجے کا اتحاد اور نظم و ضبط پیدا کر دیا ہے جس کے سامنے مشرکین اور یہود کا ڈھیلا نظامِ جماعت امن ور جنگ دونوں حالتوں میں شکست کھاتا چلا جاتا ہے۔

کمینہ خصلت لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ دوسرے کی خوبیاں اور اپنی کمزوریاں صریح طور پر دیکھ لیتے ہیں اور یہ بھی جان لیتے ہیں کہ اُس کی خوبیاں اُسے بڑھا رہی ہیں اور ان کی اپنی کمزوریاں انھیں گرا رہی ہیں، تو انھیں یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریاں دور کریں اور اس کی خوبیاں اخذ کریں، بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں جس طرح بھی ہو سکے اُس کے اندر بھی اپنے ہی جیسی برائیاں پیدا کر دیں اور یہ نہ ہو سکے تو کم از کم اس کے اوپر خوب گندگی اچھالیں تاکہ دنیا کو اس کی خوبیاں بے داغ نظر نہ آئیں۔ یہی ذہنیت تھی جس نے اس مرحلے پر دشمنانِ اسلام کی سرگرمیوں کا رخ جنگی کارروائیوں سے ہٹا کر رذیلانہ حملوں اور داخلی فتنہ انگیزیوں کی طرف پھیر دیا۔ اور چونکہ یہ خدمت باہر کے دشمنوں کی بہ نسبت خود مسلمانوں کے اندر منافقین زیادہ اچھی طرح انجام دے سکتے تھے، اس لیے بالارادہ یا بلا ارادہ طریق کار یہ قرار پایا کہ مدینے کے منافقین کے اندر سے فتنے اٹھائیں اور یہود و مشرکین ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔

اس نئی تدبیر کا پہلا ظہور ذی القعدہ 5ھ میں ہوا جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عرب سے تبنیت (دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانا اور خاندان میں اسے بالکل صُلبی بیٹے کی حیثیت دے دینا) کی جاہلانہ رسم کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنے متنبیٰ (زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ) کی مطلقہ بیوی (زینب بنت جحش) سے نکاح کیا۔ اس موقع پر مدینے کے منافقین پروپیگنڈا کا ایک طوفانِ عظیم لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر سے یہود و مشرکین نے بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر افترا پردازیاں شروع کر دیں۔ انھوں نے عجیب عجیب قصے گھڑ گھڑ کر پھیلا دیے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) (معاذ اللہ)کس طرح اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی کو دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے اور کس طرح بیٹے کو ان کے عشق کا علم ہوا اور وہ طلاق دے کر بیوی سے دست بردار ہو گیا اور پھر کس طرح انھوں نے خود اپنی بہو سے بیاہ کر لیا۔ یہ قصے اس کثرت سے پھیلائے گئے کہ مسلمان تک ان کے اثرات سے نہ بچ سکے۔ چنانچہ محدثین اور مفسرین کے ایک گروہ نے حضرت زینب اور زید رضی اللہ عنہم کے متعلق جو روایات نقل کی ہیں ان میں آج تک ان من گھڑت قصوں کے اجزا پائے جاتے ہیں اور مستشرقینِ مغرب ان کو خوب نمک مرچ لگا کر اپنی کتابوں میں پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حقیقی پھوپھی (امیمہ بنت عبدالمطلب) کی صاحبزادی تھی۔ بچپن سے جوانی تک ان کی ساری عمر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے گذری تھی، ان کواتفاقاً ایک روز دیکھ لینے اور معاذ اللہ ان پر عاشق ہو جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر اس واقعے سے ایک ہی سال پہلے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود ان کو مجبور کرکے حضرت زید سے ان کی شادی کی تھی۔ ان کے بھائی عبداللہ بن جحش ناراض تھے۔ خود حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا اس پر راضی نہ تھیں، کیونکہ ایک آزاد کردہ غلام کی بیوی بننا قریش کے شریف گھرانے کی بیٹی طبعاً قبول نہ کرسکتی تھی۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف اس لیے کہ مسلمانوں میں معاشرتی مساوات قائم کرنے کی ابتدا خود اپنے خاندان سے کریں، انھیں حکماً اس پر راضی کیا تھا۔ یہ ساری باتیں دوست اور دشمن سب کو معلوم تھیں اور یہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہ تھا کہ حضرت زینب کا احساسِ فخرِ نسبی ہی وہ اصل وجہ تھی جس کی بنا پر ان کا اور زید بن حارثہ کا نباہ نہ ہو سکا اور آخر کار طلاق تک نوبت پہنچی۔ اس کے باوجود بے شرم افترا پردازوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بد ترین اخلاقی الزامات لگائے اور ان کو اس کثرت سے رواج دیا کہ آج تک ان کا یہ پروپیگنڈا اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔

اس کے بعد دوسرا حملہ غزوۂ بنی المصطلق کے موقع پر کیا گیا اور یہ پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا۔

بنی المصطلق قبیلۂ بنی خزاغہ کی ایک شاخ تھی جو ساحلِ بحیرہ احمر پر جدہ اور رابغ کے درمیان قُدید کے علاقے میں رہتی تھی۔ اس کے چشمے کا نام مریسیع تھا جس کے آس پاس اس قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ اسی مناسبت سے احادیث میں اس مہم کا نام غزوۂ مریسیع بھی آیا ہے۔

شعبان 6ھ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں اور دوسرے قبائل کو بھی جمع کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ اطلاع پاتے ہی آپ ایک لشکر لے کر روانہ ہو گئے تاکہ فتنے کے سر اٹھانے سے پہلے ہی اسے کچل دیا جائے۔ اس مہم میں عبد اللہ بن ابی بھی منافقوں کی ایک بڑی تعداد لے کر آپ کے ساتھ ہو گیا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے کسی جنگ میں منافقین اس کثرت سے شامل نہ ہوئی تھے۔ مریسیع کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اچانک دشمن کو جا لیا اور تھوڑی سے زد و خورد کے بعد پورے قبیلے کو مال اسباب سمیت گرفتار کر لیا۔ اس مہم سے فارغ ہو کر ابھی مریسیع ہی پر لشکر اسلام پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا کہ ایک روز حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ایک ملازم (جہجاہ بن مسعود غفاری) اور قبیلۂ خزرج کے ایک حلیف (سنان بن برجہنی) کے درمیان پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ ایک نے انصار کو پکارا۔ دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی۔ لوگ دونوں طرف سے جمع ہو گئے اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ لیکن عبداللہ بن ابی نے جو انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ اس نے انصار کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کر دیا کہ "یہ مہاجرین ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ہمارے حریف بن بیٹھے ہیں۔ ہماری اور ان قریشی کنگلوں کی مثال ایسی ہے کہ کتے کو پال تاکہ تجھی کو بھنبھوڑ کھائے۔ یہ سب تمھارا اپنا کیا دھرا ہے۔ تم لوگوں نے خود ہی انھیں لا کر اپنے ہاں بسایا ہے اور ان کو اپنے مال و جائداد میں حصہ دار بنایا ہے۔ آج اگر تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں "۔ پھر اس نے قسم کھا کر کہا کہ "مدینے واپس پہنچنے کے بعد جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلیل لوگوں کو نکال کر باہر کر دے گا"۔[2]

اس کی ان باتوں کی اطلاع جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچی تو حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو قتل کرا دینا چاہیے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا عمر! دنیا کا کہے گی کہ محمد خود اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر رہا ہے۔ پھر آپ نے فوراً اس مقام سے کوچ کا حکم دے دیا اور دوسرے دن دوپہر تک کسی جگہ پڑاؤ نہ کیا تاکہ لوگ خوب تھک جائیں اور کسی کو بیٹھ کر چہ میگوئیاں کرنے اور سننے کی مہلت نہ ملے۔ راستے میں اسید بن حضیر نے عرض کیا "یا نبی اللہ! آج آپ نے اپنے معمول کے خلاف ناوقت کوچ کرنے کا حکم دے دیا؟" آپ نے جواب دیا "تم نے سنا نہیں کہ تمھارے صاحب نے کیا باتیں کی ہیں؟" انھوں نے پوچھا "کون صاحب؟" آپ نے فرمایا "عبد اللہ بن ابی"۔ انھوں نے عرض کیا "یا رسول اللہ! اس شخص سے رعایت فرمائیے، آپ جب مدینے تشریف لائے ہیں تو ہم لوگ اسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس کے لیے تاج تیار ہو رہا تھا۔ آپ کی آمد سے اس کا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا۔ اسی کی جلن وہ نکال رہا ہے "۔

یہ شوشہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اسی سفر میں اُس نے ایک اور خطرناک فتنہ اٹھا دیا اور فتنہ بھی ایسا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کمال درجہ ضبط و تحمل اور حکمت و دانائی سے کام نہ لیتے تو مدینے کے نو خیز مسلمان معاشرہ میں سخت خانہ جنگی برپا ہو جاتی۔ یہ حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا پر تہمت کا فتنہ تھا۔ اس واقعے کو خود انہی کی زبانی سنیے جس سے پوری صورت حال سامنے آجائے گی۔ بیچ بیچ میں جو امور تشریح طلب ہوں گے انھیں ہم دوسری معتبر روایات کی مدد سے قوسین میں بڑھاتے جائیں گے تاکہ جناب صدیقہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے تسلسلِ بیان میں خلل واقع نہ ہو۔ فرماتی ہیں ":

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قاعدہ تھا کہ جب آپ سفر پر جانے لگتے تو قرعہ ڈال کر فیصلہ فرماتے کہ آپ کی بیویوں میں سے کون آپ کے ساتھ جائے۔

(اس قرعہ اندازی کی نوعیت لاٹری کی سی نہ تھی۔ دراصل تمام بیویوں کے حقوق برابر کے تھے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ اب اگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود کسی کا انتخاب کرتے تو دوسری بیویوں کی دل شکنی ہوتی اور ان میں باہم رشک و رقابت پیدا ہونے کے لیے بھی یہ ایک محرک بن جاتا۔ اس لیے آپ قرعہ اندازی سے اس کا فیصلہ فرماتے تھے۔ شریعت میں قرعہ اندازی ایسی ہی صورتوں کے لیے ہے جبکہ چند آدمیوں کا جائز حق بالکل برابر ہو اور کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو، مگر حق کسی ایک ہی کو دیا جا سکتا ہو)۔

غزوۂ بنی المصطلق کے موقع پر قرعہ میرے نام نکلا اور میں آپ کے ساتھ گئی۔ واپسی پر جب ہم مدینے کے قریب پہنچتے، ایک منزل پر رات کے وقت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پڑاؤ کیا اور ابھی رات کا کچھ حصہ باقی تھا کہ کوچ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ میں اٹھ کر رفع حاجت کے لیے گئی اور جب پلٹنے لگی تو قیام گاہ کے قریب پہنچ کر مجھے محسوس ہوا کہ میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا ہے۔ میں اسے تلاش کرنے میں لگ گئی اور اتنے میں قافلہ روانہ ہو گیا۔ قاعدہ یہ تھا کہ میں کوچ کے وقت اپنے ہودے میں بیٹھ جاتی تھی اور چار آدمی اسے اٹھا کر اونٹ پر رکھ لیتے تھے۔ ہم عورتیں اس زمانے میں غذا کی کمی کے سبب بہت ہلکی پھلکی تھیں۔ میرا ہودہ اٹھاتے وقت لوگوں کو یہ محسوس ہی نہ ہوا کہ میں اس میں نہیں ہوں۔ وہ بے خبری میں خالی ہودہ اونٹ پر رکھ کر روانہ ہو گئے۔ میں جب ہار لے کر پلٹی تو وہاں کوئی نہ تھا۔ آخر اپنی چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئی اور دل میں سوچ لیا کہ آگے جا کر جب یہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو خود ہی ڈھونڈتے ہوئے آجائیں گے۔ اسی حالت میں مجھ کو نیند آگئی۔ صبح کے وقت صفوان بن معطل سلمی اس جگہ سے گذرے جہاں میں سو رہی تھی اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے،کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے بار ہا دیکھ چکے تھے۔

(یہ صاحب بدری صحابیوں میں سے تھے، ان کو صبح دیر تک سونے کی عادت تھی، اس لیے یہ بھی لشکر گاہ میں کہیں پڑے سوتے رہ گئے تھے اور اب اٹھ کر مدینے جا رہے تھے۔ ابو داؤد اور دوسری کتب سنن میں یہ ذکر آتا ہے کہ ان کی بیوی نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کی شکایت کی تھی کہ یہ کبھی صبح کی نماز وقت پر نہیں پڑھتے۔ انھوں نے عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ یہ میرا خاندانی عیب ہے، دیر تک سوتے رہنے کی اس کمزوری میں کسی طرح دور نہیں کر سکتا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا جب آنکھ کھلے تو نماز ادا کر لیا کرو۔ بعض محدثین نے ان کے قافلے سے پیچھے رہ جانے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔ مگر بعض دوسرے محدثین اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو اس خدمت پر مقرر کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں کوچ کرنے کی وجہ سے اگر کسی کی کوئی چیز چھوٹ گئی ہو تو صبح اسے تلاش کرکے لیتے آئیں)۔

مجھے دیکھ کر انھوں نے اونٹ روک لیا اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا "انا للہ و انا الیہ راجعون، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی یہیں رہ گئیں "۔ اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اٹھ کر فوراً اپنے منہ پر چادر ڈال لی۔ انھوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی، لا کراپنا اونٹ میرے پاس بٹھا دیا اور الگ ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ نکیل پکڑ کر روانہ ہو گئے۔ دوپہر کے قریب ہم نے لشکر کو جا لیا جبکہ وہ ابھی ایک جگہ جا کر ٹھیرا ہی تھا اور لشکر والوں کو ابھی یہ پتہ نہ چلا تھا کہ میں پیچھے چھوٹ گئی ہوں۔ اس پر بہتان اٹھانے والوں نے بہتان اٹھا دیے اور ان میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی تھا۔ مگر میں اس سے بے خبر تھی کہ مجھ پر کیا باتیں بن رہی ہیں۔

(دوسری روایات میں آیا ہے جس وقت صفوان کے اونٹ پر حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا لشکر گاہ پہنچیں اور معلوم ہوا کہ آپ اس طرح پیچھے چھوٹ گئی تھیں اُسی وقت عبد اللہ بن ابی پکار اٹھا "خدا کی قسم! یہ بچ کر نہیں آئی ہیں، لو دیکھو، تمھارے نبی کی بیوی نے رات ایک اور شخص کے ساتھ گزاری اور اب وہ اسے علانیہ لیے چلا آ رہا ہے (نعوذ باللہ)"۔)

"مدینے پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور ایک مہینے کے قریب پلنگ پر پڑی رہی۔ شہر میں اس بہتان کی خبریں اڑ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کانوں تک بھی بات پہنچ چکی تھی، مگر مجھے کچھ پتہ نہیں تھا۔ البتہ جو چیز مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ توجہ میری طرف نہ تھی جو بیماری کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ آپ گھر میں آتے تو بس گھر والوں سے یہ پوچھ کر رہ جاتے کہ کیسی ہیں یہ؟۔ خود مجھ سے کوئی کلام نہ کرتے۔ اس سے مجھے شبہ ہوتا کہ کوئی بات ہے ضرور۔ آخر آپ سے اجازت لے کر میں اپنی ماں کے گھر چلی گئی تاکہ وہ میری تیمارداری اچھی طرح کر سکیں۔

ایک روز رات کے وقت حاجت کے لیے مدینے کے باہر گئی۔ اس وقت ہمارے گھروں میں بیت الخلا نہ تھے اور ہم لوگ جنگل ہی جایا کرتے تھے۔ میرے ساتھ مسطح بن اثاثہ کی ماں بھی تھیں جو میرے والد کی خالہ زاد بہن تھی۔

(دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے خاندان کی کفالت حضرت ابو بکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اپنے ذمے لے رکھی تھی، مگر اس احسان کے باوجود مسطح بھی ان لوگوں میں شریک ہو گئے تھے جو حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے خلاف اس بہتان کو پھیلا رہے تھے)

راستے میں ان کو ٹھوکر لگی اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا غارت ہو مسطح۔ میں نے کہا اچھی ماں ہو جو بیٹے کو کوستی ہو اور بیٹا بھی وہ جس نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ انھوں نے کہا "بٹیا! کیا تجھے اس کی باتوں کی کچھ خبر نہیں؟ پھر انھوں نے سارا قصہ سنایا کہ افترا پرداز لوگ میرے متعلق کیا باتیں اڑا رہے ہیں۔

(منافقین کے سوا خود مسلمانوں میں سے جو لوگ اس فتنے میں شامل ہو گئے تھے ان میں مسطح، حسان بن ثابت مشہور شاعر اسلام اور حمنہ بنت حجش، حضرت زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کی بہن کاحصہ سب سے نمایاں تھا۔ )

یہ داستان سن کر میرا خون خشک ہو گیا، وہ حاجت بھی بھول گئی جس کے لیے آئی تھی، سیدھی گھر گئی اور رات بھر رو رو کر کاٹی۔ "

آگے چل کر حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں : "میرے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ اسامہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے میرے حق میں کلمۂ خیر کہا اور عرض کیا "یا رسول اللہ! بھلائی کے سوا آپ کی بیوی میں کوئی چیز ہم نے نہيں پائی۔ یہ سب کچھ کذب اور باطل ہے جو اڑایا جا رہا ہے "۔ رہے علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ تو انھوں نے کہا کہ "یا رسول اللہ! عورتوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ اس کی جگہ دوسری بیوی کر سکتے ہیں اور تحقیق کرنا چاہیں تو خدمت گار لونڈی کو بلا کر حالات دریافت فرمائیں "۔ چنانچہ خدمت گار کو بلایا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔ اس نے کہا کہ "اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی جس پر حرف رکھا جاسکے۔ بس اتنا عیب ہے کہ میں آٹا گوندھ کر کسی کام کو جاتی ہوں اور کہہ جاتی ہوں کہ ذرا آٹے کا خیال رکھنا، مگر وہ سو جاتی ہیں اور بکری آ کر آٹا کھا جاتی ہے "۔ اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا "مسلمانو! کون ہے جو اس شخص کے حملوں سے میری عزت بچائے جس نے میرے گھر والوں پر الزامات لگا کر مجھے اذیت پہنچانے کی حد کردی ہے۔ بخدا میں نے نہ تو اپنی بیوی ہی میں کوئی برائی دیکھی ہے اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق تہمت لگائی جاتی ہے۔ وہ تو کبھی میری غیر موجودگی میں میرے گھر آیا بھی نہیں "۔ اس پر اسید بن حضیر (بعض روایات میں سعد بن معاذ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ) نے اٹھ کر کہا "یا رسول اللہ! اگر وہ ہمارے قبیلے کا آدمی ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں اور اگر ہمارے بھائی خزرجیوں میں سے ہے تو آپ حکم دیں، ہم تعمیل کے لیے حاضر ہیں "۔ یہ سنتے ہی سعد رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ بن عبادہ، رئیسِ خزرج، اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے "جھوٹ کہتے ہو، تم اسے ہر گز نہیں مار سکتے۔ تم اس کی گردن مارنے کا نام صرف اس لیے لے رہے ہو کہ وہ خزرج میں سے ہے۔ اگر وہ تمھارے قبیلے کا آدمی ہوتا تو تم کبھی یہ نہ کہتے کہ ہم اس کی گردن مار دیں گے "۔ اسید نے جواب میں کہا کہ "تم منافق ہو اس لیے منافقوں کی حمایت کرتے ہو"۔ اس پر مسجد نبوی میں ہنگامہ برپا ہو گیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ قریب تھا کہ اوس اور خزرج مسجد میں ہی لڑ پڑتے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو ٹھنڈا کیا اور پھر منبر سے اتر آئے "۔

حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ "اس بہتان کی افواہیں کم و بیش ایک ماہ تک شہر میں اڑتی رہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سخت اذیت میں مبتلا رہے۔ میں روتی رہی۔ میرے والدین انتہائی پریشان اور رنج و غم میں مبتلا رہے۔ آخر کار ایک روز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھے۔ اس پوری مدت میں آپ کبھی میرے پاس نہ بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر اور ام رومان (حضرت عائشہ کی والدہ) نے محسوس کیا کہ آج کوئی فیصلہ کن بات ہونے والی ہے۔ اس لیے وہ دونوں بھی پاس آکر بیٹھ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا عائشہ! مجھے تمھارے متعلق یہ خبریں پہنچی ہیں، اگر تم بے گناہ ہو تو امید ہے اللہ تمھاری براءت ظاہر فرما دے گا اور اگر تم واقعی کسی گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو، بندہ جب اپنے گناہ کا معترف ہو کر توبہ کرتا ہے تو اللہ معاف کر دیتا ہے۔ یہ بات سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے۔ میں نے اپنے والد سے عرض کیا آپ رسول اللہ کی بات کا جواب دیں۔ انھوں نے فرمایا بیٹی، میری کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ کیا کہوں؟ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ ہی کچھ کہیں۔ انھوں نے بھی یہی کہا کہ میں حیران ہوں، کیا کہوں؟ اس پر میں بولی آپ لوگوں کے کانوں میں ایک بات پڑ گئی ہے اور دلوں میں بیٹھ چکی ہے، اب اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہوں اور اللہ گواہ ہے کہ میں بے گناہ ہوں، تو آپ لوگ نہ مانیں گے اور اگر خواہ مخواہ ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جو میں نے نہیں کی اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے نہیں کی، تو آپ لوگ مان لیں گے۔ میں نے اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کرنے کی کوشش کی مگر نہ یاد آیا۔ آخر میں نے کہا اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ ہے کہ وہی بات کہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے کہی تھی کہ 'فصبر جمیل (اشارہ ہے اس واقعے کی طرف جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے ان کے بیٹے بن یامین پر چوری کا الزام بیان کیا گیا تھا:سورۂ یوسف رکوع 10) یہ کہہ کر میں لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے لی۔ میں اس وقت اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ اللہ میری بے گناہی سے واقف ہے اور وہ ضرور حقیقت کھول دے گا۔ اگرچہ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہوگی جو قیامت تک پڑھی جائے گی۔ میں اپنی ہستی کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ خود میری طرف سے بولے۔ مگر میرا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالٰیٰ میری براءت ظاہر فرما دے گا۔ اتنے میں یکا یک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو وحی نازل ہوتے وقت ہوا کرتی تھی، حتیٰ کہ سخت جاڑے کے زمانے میں بھی موتی کی طرح آپ کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے۔ ہم سب خاموش ہو گئی۔ میں تو بالکل بے خوف تھی مگر میرے والدین کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ ڈر رہے تھے کہ دیکھیے اللہ کیا حقیقت کھولتا ہے جب وہ کیفیت دور ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے حد خوش تھے۔ آپ نے ہنستے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ، اللہ نے تمھاری براءت نازل فرما دی اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس آیات سنائیں (یعنی آیت نمبر 11 تا نمبر 21)۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا کہ میں نہ ان کا شکریہ ادا کروں گا نہ آپ دونوں کا، بلکہ اللہ کا شکر کرتی ہوں جس نے میری براءت نازل فرمائی۔ آپ لوگوں نے تو اس بہتان کا انکار تک نہ کیا۔

(واضح رہے کہ یہ کسی ایک روایت کا ترجمہ نہیں بلکہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں جتنی روایات حضرت عائشہ سے اس سلسلے میں مروی ہیں ان سب کو جمع کرکے ان کا خلاصہ نکالا گیاہے۔ )

دراصل عبد اللہ بن ابی نے یہ شوشہ چھوڑ کر بیک وقت کئی شکار کرنے کی کوشش کی۔ ایک طرف اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی عزت پر حملہ کیا۔ دوسری طرف اس نے اسلامی تحریک کے بلند ترین اخلاقی وقار کو گرانے کی کوشش کی۔ تیسری طرف اس نے یہ ایک ایسی چنگاری پھینکی تھی کہ اگر اسلام اپنے پیرووں کی کایا نہ پلٹ چکا ہوتا تو مہاجرین اور انصار اور خود انصار کے بھی دونوں قبیلے آپس میں لڑ مرتے۔

موضوع اور مباحث

یہ تھے وہ حالات جن میں پہلے حملے کے موقع پر سورۂ احزاب کے آخری 6 رکوع نازل ہوئے اور دوسرے حملے کے موقع پر یہ سورۂ نور اتری۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر ان دونوں سورتوں کا ترتیب وار مطالعہ کیا جائے تو وہ حکمت اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو ان کے احکام میں مضمر ہے۔

منافقین مسلمانوں کو اُس میدان میں شکست دینا چاہتے تھے جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا۔ اللہ تعالٰیٰ نے بجائے اس کے کہ وہ ان کے اخلاقی حملوں میں ایک غضبناک تقریر فرماتا یا مسلمانوں کو جوابی حملہ کرنے پر اکساتا، تمام تر توجہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دینے پر صرف فرمائی کہ تمھارے اخلاقی محاذ میں جہاں جہاں رخنے موجود ہیں ان کو بھرو اور اس محاذ کو اور زیادہ مضبوط کر لو۔ ابھی آپ یہ دیکھ چکے ہیں کہ نکاح زینب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے موقع پر منافقین اور کفار نے کیا طوفان اٹھایا تھا۔ اب ذرا سورۂ احزاب نکال کر پڑھیے، وہاں آپ دیکھیں گے کہ ٹھیک اسی طوفان کا زمانہ تھا جبکہ معاشرتی اصلاح کے متعلق حسب ذیل ہدایات دی گئیں :

  1. ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھو، بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلو اور غیر مردوں سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہو تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ کوئی شخص بے جا توقعات قائم کرلے (آیات 32 اور 33)
  2. حضور کے گھروں میں غیر مردوں کے بلا اجازت داخل ہو جانے کو روک دیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو (آیت 53)
  3. غیر محرم مردوں اور محرم رشتہ داروں کے درمیان فرق قائم کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ ازواج مطہرات کے صرف محرم رشتہ دار ہی آزادی کے ساتھ آپ کے گھروں میں آ جا سکتے ہیں۔ (آیت 55)
  4. مسلمانوں کو بتایا گیا کہ نبی کی بیویاں تمھاری مائیں ہیں اور ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان کے لیے ابداً حرام ہیں جس طرح اس کی حقیقی ماں ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں ہر مسلمان اپنی نیت کو بالکل پاک رکھے (آیت 53 اور 54)
  5. مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت دینا دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت اور رسوا کن عذاب کا موجب ہے اور اسی طرح کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا اور اس پر ناحق الزام لگانا بھی سخت گنا ہے (آیات 57-58)
  6. تمام مسلمان عورتوں کو حکم دے دیا گیا کہ جب باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو چادروں سے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانک اور گھونگھٹ ڈال کر نکلا کریں۔ (آیت 59)

پھر جب واقعۂ افک سے مدینے کے معاشرے میں ایک ہلچل برپا ہوئی تو یہ سورۂ نور اخلاق، معاشرت اور قانون کے ایسے احکام و ہدایات کے ساتھ نازل فرمائی گئی جن کا مقصد یہ تھا کہ اول تو مسلم معاشرے کو برائیوں کی پیداوار اور ان کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھا جائے اور اگر وہ پیدا ہو ہی جائیں تو پھر ان کا پورا پورا تدارک کیا جائے۔ ان احکامات و ہدایات کو ہم اُسی ترتیب کے ساتھ یہاں خلاصتہً درج کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ اس سورت میں نازل ہوئے ہیں۔ تاکہ قارئین اندازہ کر سکیں کہ قرآن ٹھیک نفسیاتی موقع پر انسانی زندگی کی اصلاح و تعمیر کے لیے کس طرح قانونی، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر بیک وقت تجویز کرتا ہے :

  1. زنا، جسے معاشرتی جرم پہلے ہی قرار دیا جا چکا تھا (سورۂ نسا آیات 15-16)، اب اس کو فوجداری جرم قرار دے کر اس کی سزا 100 کوڑے مقرر کی گئی۔
  2. بدکار مردوں اور عورتوں سے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیا گیا اور اُن کے ساتھ رشتۂ مناکحت جوڑنے سے اہل ایمان کو منع کر دیا گیا۔
  3. جو شخص دوسرے پر زنا کا الزام لگائے اور پھر ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کر سکے، اس کے لیے 80 کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی۔
  4. شوہر اگر بیوی پر تہمت لگائے تو اس کے لیے لعان کا قاعدہ مقرر کیا گیا۔
  5. حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا پر منافقین کے جھوٹے الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی کہ آنکھیں بند کرکے ہر شریف آدمی کے خلاف ہر قسم کی تہمتیں قبول نہ کر لیا کرو اور نہ ان کو پھیلاتے پھرو۔ اس طرح کی افواہیں اگر اڑ رہی ہوں تو انھیں دبانا اور ان کا سدباب کرنا چاہیے، نہ یہ کہ ایک منہ سے لے کر دوسرا منہ اسے آگے پھونکنا شروع کر دے۔ اسی سلسلے میں یہ بات ایک اصولی حقیقت کے طور پر سمجھائی گئی کہ طیب آدمی کا جوڑ طیب عورت ہی سے لگ سکتا ہے، خبیث عورت کے اطوار سے اس کا مزاج چند روز بھی موافقت نہیں کر سکتا اور ایسا ہی حال طیب عورت کا بھی ہوتا ہے کہ اس کی روح طیب مرد ہی سے موافقت کر سکتی ہے نہ کہ خبیث سے۔ اب اگر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تم جانتے ہو کہ وہ ایک طیب بلکہ اطیب انسان ہیں تو کس طرح یہ بات تمھاری عقل میں سما گئی کہ ایک خبیث عورت ان کی محبوب ترین رفیقۂ حیات بن سکتی تھی۔ جو عورت عملاً زنا تک کر گذرے اس کے عام اطوار کب ایسے ہو سکتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا پاکیزہ انسان اس کے ساتھ یوں نباہ کرے۔ پس صرف یہ بات کہ ایک کمینے آدمی نے ایک بیہودہ الزام کسی پر لگا دیا ہے، اسے قابلِ قبول کیا معنی قابل توجہ اور ممکن الوقوع سمجھ لینے کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو کہ الزام لگانے والا ہے کون اور الزام لگا کس پر رہا ہے۔
  6. جو لوگ بیہودہ خبریں اور بری افواہیں پھیلائیں اور مسلم معاشرے میں فحش اور فواحش کو رواج دینے کی کوشش کریں، ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ہمت افزائی کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہیں۔
  7. یہ قاعدۂ کلیہ مقرر کیا گیا کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حُسن ظن پر ہونی چاہیے۔ ہر شخص بے گناہ سمجھا جائے جب تک کہ اس کے گناہ گار ہونے کا ثبوت نہ ملے۔ نہ یہ کہ ہر شخص گناہ گار سمجھا جائے جب تک کہ اس کا بے گناہ ہونا ثابت نہ ہو جائے۔
  8. لوگوں کو عام ہدایت دی گئی کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف نہ گھس جایا کریں بلکہ اجازت لے کر جائیں۔
  9. عورتوں اور مردوں کو غص بصر کا حکم دیا گیا اور ایک دوسرے کو گھورنے یا جھانک تاک کرنے سے منع کر دیا گیا۔
  10. عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں سر اور سینہ ڈھانک کر رکھیں۔
  11. عورتوں کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے محرم رشتہ داروں اور گھر کے خادموں کے سوا کسی کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔
  12. ان کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ باہر نکلیں تو نہ صرف یہ کہ اپنے بناؤ سنگھار کو چھپا کر نکلیں بلکہ بجنے والے زیور بھی پہن کر نہ نکلیں۔
  13. معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کا طریفہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ غیر شادی شدہ لوگوں کے نکاح کیے جائیں، حتیٰ کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی بن بیاہا نہ رہنے دیا جائے۔ اس لیے کہ تجرد فحش آفریں بھی ہوتا ہے اور فحش پزیر بھی۔ مجرد لوگ اور کچھ نہیں تو بری خبریں سنانے اور پھیلانے ہی میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔
  14. لونڈیوں اور غلاموں کی آزادی کے لیے مکاتبت کی راہ نکال دی گئی اور مالکوں کے علاوہ دوسروں کو بھی حکم دیا گیا کہ مکاتب غلاموں اور لونڈیوں کی مالی مدد کریں۔
  15. لونڈیوں سے کسب کرانا ممنوع قرار دیا گیا۔ عرب میں یہ پیشہ لونڈیوں ہی سے کرانے کا رواج تھا، اس لیے اس کی ممانعت دراصل قحبہ گری کی قانونی بندش تھی۔
  16. گھریلو معاشرت میں خانگی ملازموں اور نابالغ بچوں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ وہ خلوت کے اوقات میں (یعنی صبح، دوپہر اور رات کے وقت) گھر کے کسی مرد یا عورت کے کمرے میں اچانک نہ گھس جایا کریں۔ اولاد تک کو اجازت لے کر آنے کی عادت ڈالی جائے۔
  17. بوڑھی عورتوں کو یہ رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنے گھر میں سر سے اوڑھنی اتار کر رکھ دیں تو مضائقہ نہیں، مگر حکم دیا گیا کہ تبرج (بن ٹھن کر اپنے آپ کو دکھانے) سے بچیں۔ نیز انھیں نصیحت کی گئی کہ بڑھاپے میں بھی اگر وہ اوڑھنیاں اپنے اوپر ڈالے ہی رہیں تو بہتر ہے۔
  18. اندھے،لنگڑے، لولے اور بیمار کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ کھانے کی کوئی چیز کسی کے ہاں سے بلا اجازت کھالے تو اس کا شمار چوری اور خیانت میں نہ ہوگا۔ اس پر کوئی گرفت نہ کی جائے۔
  19. قریبی عزیزوں اور بے تکلف دوستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں بلا اجازت بھی کھا سکتے ہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنے گھر میں کھا سکتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب تر کر دیا گیا اور ان کے درمیان بیگانگی کے پردے ہٹادیے گئے تاکہ آپس کی محبت بڑھے اور باہمی اخلاص کے رابطے اُن رخنوں کو بند کر دیں جس سے کوئی فتنہ پرداز پھوٹ ڈال سکتا ہو۔

ان ہدایات کے ساتھ ساتھ منافقین اور مومنین کی وہ کھلی کھلی علامتیں بیان کردی گئیں جن سے ہر مسلمان یہ جان سکے کہ معاشرے میں مخلص اہلِ ایمان کون لوگ ہیں اور منافق کون۔ دوسری طرف مسلمانوں کے جماعتی نظم و ضبط کو اور کس دیا گیا اور اس کے لیے چند مزید ضابطے بنا دیے گئے تاکہ وہ طاقت اور زیادہ مضبوط ہو جائے جس سے غیظ کھا کر کفار و منافقین فساد انگیزیاں کر رہے تھے۔

اس تمام بحث میں نمایاں چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ پوری سورۂ نور اس تلخی سے خالی ہے جو شرمناک اور بیہودہ حملوں کے جواب میں پیدا ہوا کرتی ہے۔ ایک طرف اُن حالات کو دیکھیے جن میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اور دوسری طرف سورت کے مضامین اور انداز کلام کو دیکھیے۔ اس قدر اشتعال انگیز صورت حال میں کیسے ٹھنڈے طریقے سے قانون سازی کی جا رہی ہے، مصلحانہ احکام دیے جا رہے ہیں، حکیمانہ ہدایات دی جا رہی ہیں اور تعلیم و نصحیحت کا حق ادا کیا جا رہا ہے۔ اس سے صرف یہی سبق نہیں ملتا کہ ہم کو قتنوں کے مقابلے میں سخت سے سخت اشتعال کے مواقع پر بھی کس طرح ٹھنڈے تدبر اور عالی ظرفی اور حکمت سے کام لینا چاہیے، بلکہ اس سے اس امر کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے، کسی ایسی ہستی ہی کا نازل کیا ہوا ہے جو بہت بلند مقام سے انسانی حالات اور معاملات کا مشاہدہ کر رہی ہے اور اپنی ذات میں ان حالات و معاملات سے غیر متاثر رہ کر خالص ہدایت و رہنمائی کا منصب ادا کر رہی ہے۔ اگر یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنا کلام ہوتا تو آپ کی انتہائی بلند نظری کے باوجود اس میں اس فطری تلخی کا کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور پایا جاتا جو خود اپنی عزت و ناموس پر کمینہ حملوں کو سن کر ایک شریف آدمی کے جذبات میں لازماً پیدا ہو جایا کرتی ہے۔

حوالہ جات

  1. ابن ہشام جلد 3 صفحہ 266
  2. سورۂ منافقون: جس میں اللہ تعالیٰ نے خود اس کا یہ قول نقل فرمایا ہے