شاہ عالم گورکھپوری
شاہ عالم گورکھپوری (پیدائش: 21 مارچ 1969ء) ایک ہندوستانی مصنف اور تحفظِ ختم نبوت کے لیے خدمات انجام دینے والے عالم دین ہیں۔ 1996ء سے کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبند کے نائب ناظم ہیں۔ تفاسیر قرآن اور مرزائی شبہات، مرزائیت اور عدالتی فیصلے، شکیل بن حنیف: ایک تعارف و تجزیہ جیسی کتابوں کے مصنف ہیں۔
محافظ ختم نبوت، مولانا شاہ عالم گورکھپوری | |
---|---|
نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت | |
برسر منصب 1996ء تا حال | |
ذاتی | |
پیدائش | |
مذہب | اسلام |
فقہی مسلک | حنفی |
تحریک | دیوبندی |
اساتذہ | نصیر احمد خان بلند شہری محمود حسن گنگوہی عبد الحق اعظمی نعمت اللہ اعظمی سعید احمد پالن پوری عثمان منصورپوری عبد الخالق مدراسی |
ولادت و تعلیم
ترمیمگورکھپوری 21 مارچ 1969ء کو بلڈیہا، موضع رامپور، ضلع گورکھپور، بھارت (جو اب ضلع مہاراج گنج کا حصہ ہے) میں پیدا ہوئے۔[1] ان کے والد ماجد کا نام محمد حدیث ہے۔[1]
ابتدائی پرائمری کی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ نورالاسلام رامپور بلڈیہا (جس کے ناظم خود مولانا کے والد تھے) میں اپنے خاندانی چچا لیاقت علی کے پاس ہوئی، اس کے بعد کچھ دنوں کے لیے قصبہ گھوگھلی میں واقع انگلو انگلش اسکول میں نرسری کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد 1978ء تا 1979ء مدرسہ عربیہ اشاعت العلوم بڑہراگنج، ضلع کشی نگر میں ابتدائی فارسی کی تعلیم حاصل کی جہاں پر ان کے اساتذہ میں سعید الزماں، مسیح الزماں اور نور محمد شامل تھے، پھر 1979ء تا 1982ء جامعہ عربیہ تاج العلوم لچھمی پور، گنگرائی، ضلع مہاراج گنج میں عربی سوم تک کی تعلیم حاصل کی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں محمد اقبال فائق قاسمی اور محمد ارشاد مفتاحی شامل تھے۔ پھر 1983ء تا 1985ء جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں عربی پنجم تک کی کتابیں پڑھیں، جہاں پر ان کے اساتذہ میں محمد سلامت اللہ بیگ، محمد عابد خان، حبیب احمد اعمیٰ، محمد عظیم خان بہرائچی، کلیم اللہ نوری اور حیات اللہ قاسمی شامل تھے۔[1]
اس کے بعد 1986ء کو دار العلوم دیوبند آکر عربی ششم میں داخلہ لیا اور 1988–89ء میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔[1] ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں نصیر احمد خان بلند شہری، محمود حسن گنگوہی، محمد حسین بہاری، عبد الحق اعظمی، قمر الدین گورکھپوری، نعمت اللہ اعظمی، سعید احمد پالن پوری، محمد عثمان منصورپوری اور عبد الخالق مدراسی شامل رہے ہیں۔ دورۂ حدیث کے بعد 1989ء تا 1990ء شعبۂ تحفظ ختم نبوت میں رہ کر تربیت حاصل کی۔[1] تحفظ ختم نبوت کے میدان میں گورکھپوری نے محمد اسماعیل کٹکی اور منظور احمد چنیوٹی سے خصوصی استفادہ کیا۔[1][2]
تدریسی و علمی خدمات
ترمیم1990ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد 1991ء میں دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مبلغ گورکھپوری کا تقرر ہوا، 1993ء میں مستعفی ہو کر وطن چلے گئے اور دار العلوم الاسلامیہ بستی اور مدرسہ مدینۃ العلوم گنیش پور، ضلع مہاراج گنج میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے؛ یہاں تک کہ 1417ھ بہ مطابق 1996ء میں دوبارہ دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس تقرر عمل میں آیا اور مجلس شوریٰ کی طرف سے شعبۂ تحفظ ختم نبوت کے اسباق؛ ان کے ساتھ خاص کر دیے گئے[1] اور کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب ناظم بھی مقرر کیے گئے[3][4][5] اور تاحال اس منصب پر رہ کر عالمی پیمانے پر تحفظ ختم نبوت کے لیے زمینی و قلمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے خصوصی مشاغل میں عقائد اور علم کلام کے موضوع پر دار العلوم دیوبند میں درس و تدریس اور تربیتی کیمپوں کے ذریعے افراد سازی شامل ہے۔[1]
اعزازات
ترمیمگورکھپوری نے اپنی سرگرمیوں کے درمیان میں ہی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد سے ایم اے (اردو) کیا، پھر 2010ء میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ سے ”اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں چند گمنام علما کا مخلصانہ کردار- 1850ء تا 1900ء“ کے عنوان سے اسلم جمشید پوری کے زیر نگرانی مقالہ لکھ کر ایم فل (اردو) کیا، جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوکر مقبولِ خاص و عام بھی ہوا اور اسی کتاب کے اعزاز میں گورکھپوری اترپردیش اردو اکادمی کی جانب سے سند توصیف سے نوازے گئے۔[1] نیز 2012ء میں موصوف نے وزارۃ الشؤون الاسلامیۃ والاوقاف والدعوۃ والارشاد کی خصوصی دعوت پر حج کی سعادت حاصل کی اور منیٰ میں وزیر شؤون الاسلامیہ کے ساتھ ایک مجمع سے خصوصی خطاب کیا جو بین اقوامی جرائد اور ٹیلی ویژن پر بھی نشر ہوا تھا۔[1] عرب علما میں بھی ان کے قدر دانوں کی خاصی تعداد ہے۔ بعض نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر ان سے تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر خصوصی طور پر تعلیم بھی حاصل کی ہے۔[1]
قلمی خدمات
ترمیمگورکھپوری نے دیوبندی مکتب فکر سے وابستہ کئی علما کی تقریباً ڈیڑھ سو (150) سے زائد کتابوں پر تحقیق و تعلیق اسی طرح ترتیبِ جدید کا کارنامہ انجام دیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔[1] اسی غرض سے 2006ء میں دیوبند ہی میں انھوں نے ”مرکز التراث العلمی الاسلامی“ کے نام سے ایک تحقیقی و نشریاتی ادارہ قائم کیا، جہاں سے دیوبندی مکتب کے اکابر علما کی بہت سی کتابوں پر کام ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔ ان کی کئی کتابیں ایک سے زائد زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں، نیز متعدد کتابیں دار العلوم دیوبند سے بھی شائع ہوئی ہیں۔[1] ان کے علاوہ گورکھپوری کی تصانیف میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:[1][3]
- تفاسیر قرآن اور مرزائی شبہات
- مرزائیت اور عدالتی فیصلے
- فتنۂ قادیانیت اور اسلامی اصطلاحات
- بابیت اور بہائیت: ایک تحلیل و تجزیہ
- مدعی مہدویت و مسیحیت شکیل بن حنیف: ایک تعارف و تجزیہ
- مدعی مہدویت و مسیحیت شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین کا شرعی حکم
- روایت ”لا مھدی الا عیسی بن مریم“ سے مدعی مہدویت کا غلط استدلال
- اسلامی عقائد و معلومات (حصہ اول و دوم؛ یہ کتاب ملک کے بہت سے مدارس میں داخل نصاب ہے اور اردو، ہندی سمیت تقریباً دس زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔[6])
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر محمد روح الامین میُوربھنجی (28 جون 2022ء)۔ "مولانا شاہ عالم گورکھپوری: مختصر سوانحی خاکہ"۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2022ء
- ↑ مشتاق احمد چنیوٹی۔ تحفظ ختم نبوت کی صد سالہ تاریخ (2008ء ایڈیشن)۔ پاکستان: انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ۔ صفحہ: 523
- ^ ا ب محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی۔ "شعبۂ تحفظ ختم نبوت"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (2020ء ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 327، 790
- ↑ محمد سلمان منصورپوری (مئی 2012ء)۔ تذکرہ فدائے ملت (مجموعۂ مقالات فدائے ملت سیمینار) (پہلا ایڈیشن)۔ بہادر شاہ ظفر مارگ، نئی دہلی: جمعیت علمائے ہند۔ صفحہ: 521
- ↑ مولانا اللہ وسایا۔ تحریک ختم نبوت (1998ء - 2003ء؛ جلد ہفتم) (جنوری 2020ء ایڈیشن)۔ حضوری باغ روڈ، ملتان: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت۔ صفحہ: 96، 361
- ↑ ظفر صدیقی (14 دسمبر 2019ء)۔ "اسلامی عقائد و معلومات پر تاریخی مسابقہ بحسن و خوبی اختتام پذیر"۔ ملت ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 نومبر 2022 ء