قمر الدین احمد گورکھپوری

ہندوستانی مسلمان عالم
(قمر الدین گورکھپوری سے رجوع مکرر)

قمر الدین احمد گورکھپوری (2 فروری 1938ء – 22 دسمبر 2024ء) ایک بھارتی مسلمان دیوبندی عالم دین، استاذ حدیث اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے۔ وہ 1966ء تا وفات دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ ابرار الحق حقی کے خلیفہ و مُجاز تھے۔

علامہ، مولانا

قمر الدین احمد گورکھپوری
ناظم مجلسِ تعلیمی، دار العلوم دیوبند
برسر منصب
1989 تا 1995ء
پیشروریاست علی ظفر بجنوری
جانشینسید ارشد مدنی
ناظم دار الاقامہ، دار العلوم دیوبند
برسر منصب
1970ء
پیشروانظر شاہ کشمیری
جانشینشریف حسن دیوبندی
برسر منصب
1974 تا 1980ء
پیشرومحمد نعیم دیوبندی
جانشینمحمد حسین بہاری
ذاتی
پیدائش2 فروری 1938(1938-02-02)
بڑہل گنج، ضلع گورکھپور، صوبجاتِ متحدہ، برطانوی ہند (موجودہ بَڑہل گنج، ضلع گورکھپور، اترپردیش، بھارت)
وفات22 دسمبر 2024(2024-12-22) (عمر  86 سال)
دیوبند، ضلع سہارنپور، اتر پردیش، بھارت
مدفنقاسمی قبرستان
مذہباسلام
قومیتہندوستانی
اساتذہ
مرتبہ
شاگرد

ابتدائی و تعلیمی زندگی

ترمیم

قمر الدین احمد[10] بن بشیر الدین گورکھپوری[11] 2 فروری 1938ء کو اترپردیش کے بڑہل گنج، ضلع گورکھپور میں پیدا ہوئے۔[10]

انھوں نے ابتدائی و متوسط تعلیم احیاء العلوم مبارک پور اور دار العلوم مئو میں حاصل کی، وہ 1954ء میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر 1377ھ مطابق 1957ء میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔[10][11]

انھوں نے حسین احمد مدنی اور فخر الدین احمد مراد آبادی سے صحیح بخاری؛ محمد ابراہیم بلیاوی سے صحیح مسلم و جامع ترمذی؛ بشیر احمد خان بلند شہری سے سنن نسائی؛ فخر الحسن مراد آبادی سے سنن ابی داؤد؛ عبد الاحد دیوبندی سے شمائل ترمذی؛ سید حسن دیوبندی سے شرح معانی الآثار؛ ظہور احمد دیوبندی سے سنن ابن ماجہ و موطأ امام مالک اور جلیل احمد کیرانوی سے موطأ امام محمد پڑھی۔[12] وہ جس سال حسین احمد مدنی سے صحیح بخاری پڑھ رہے تھے تو سال کے درمیان ہی حسین احمد مدنی کا انتقال ہو گیا، جس کی بنا پر بقیہ حصہ فخر الدین احمد مراد آبادی نے پڑھایا۔[13] چوں کہ اس وقت تک دار العلوم دیوبند میں درجہ بندی نہیں ہوئی تھی تو انھوں نے مکمل دو سال یعنی ایک سال دورۂ حدیث والے سال اور ایک سال دورۂ حدیث کے بعد والے سال فنون کی کتابیں بھی پڑھیں۔[10]

بیعت و خلافت

ترمیم

انھوں نے سلوک و تصوف کی راہ میں پہلے شاہ وصی اللہ الہ آبادی سے اصلاحی تعلق قائم کیا[14] پھر ان کے انتقال کے بعد انھوں نے ابرار الحق حقی سے تعلقِ بیعت قائم کیا اور ان کی طرف سے اجازتِ بیعت سے نوازے گئے۔[11][14][15]

تدریسی و عملی زندگی

ترمیم

تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے اپنے مخدوم و استاذ محمد ابراہیم بلیاوی کے ایما پر مدرسہ عبد الرب دہلی میں تقریباً آٹھ سال تدریسی خدمات انجام دیں، صحیح بخاری جیسی مؤقر کتابوں کا درس بھی ان سے متعلق ہوا، دہلی کی کسی جامع مسجد میں قرآن کی تفسیر بھی کیا کرتے تھے۔[13]

محمد ابراہیم بلیاوی کے ہی توسط سے[16] 1386ھ مطابق 1966ء کو دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر ہوا اور بتدریج ترقی کرتے ہوئے 1399ھ (مطابق 1979ء) کو درجۂ علیا میں ان کی ترقی ہوئی۔[17][18] صحیح مسلم اور سنن نسائی جیسی کتابوں کے اسباق بھی ان سے وابستہ رہے ہیں اور اخیر میں ان سے صحیح بخاری جلد ثانی اور تفسیر ابنِ کثیر کی سورۂ صافات کے اسباق متعلق رہے۔[11][19]

وہ 1390ھ (مطابق 1970ء) میں ایک مرتبہ اور 1394 تا 1401ھ (مطابق 1974 تا 1980ء) دوسری مرتبہ دار الاقامہ، دار العلوم دیوبند کے ناظم رہے۔[20] نصیر احمد خان بلند شہری کی صدر مدرسی کے زمانے میں 1410 تا 1416ھ (مطابق 1989 تا 1995ء) وہ ناظم مجلسِ تعلیمی رہے۔[21]

تصانیف

ترمیم

باقاعدہ کوئی تصنیف نہیں ہے؛ البتہ جامع مسجد ہاشم، آمبور، تمل ناڈو میں کیے گئے ان کے مواعظ کو جواہراتِ قمر کے نام سے ایک جلد میں شائع کیا گیا ہے۔[14]

وفات

ترمیم

گورکھپوری 22 دسمبر 2024ء کو دیوبند، ضلع سہارنپور، اتر پردیش میں 86 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔[22] [23] ان کی نماز جنازہ اسی روز سہ پہر کے وقت احاطۂ مولسری میں ادا کی گئی اور انھیں قبرستان قاسمی میں سپردِ خاک کیا گیا۔[24]

حوالہ جات

ترمیم

مآخذ

ترمیم
  1. قاسمی، منظور احمد (22 ستمبر 2020ء)۔ "حضرت علامہ مولانا قمرالدین صاحب گورکھپوری مدظلہ العالی شیخ الحدیث دارالعلوم سے پہلی گفت وشنید"۔ صدائے حق نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-04-06
  2. پالن پوری، محمد مصطفی امین (مارچ 2017ء)۔ "دار العلوم دیوبند میں داخلہ"۔ آب حیات۔ دیوبند: دار العرفان۔ ص 27
  3. بجنوری، محمد سلمان، مدیر (جون–جولائی 2021ء)۔ "آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو از مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ دیوبند: دفتر ماہنامہ دار العلوم۔ ج 105 شمارہ 6–7: 73
  4. مظفر نگری اور سہارنپوری 2023، صفحہ 93
  5. مظفر نگری اور سہارنپوری 2023، صفحہ 86
  6. مظفر نگری اور سہارنپوری 2023، صفحہ 96
  7. مظفر نگری اور سہارنپوری 2023، صفحہ 81
  8. ^ ا ب مظفر نگری اور سہارنپوری 2023، صفحہ 116
  9. میُوربھنجی، محمد روح الامین (28 جون 2022ء)۔ "مولانا شاہ عالم گورکھپوری: مختصر سوانحی خاکہ"۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-04-06
  10. ^ ا ب پ ت مظفر نگری اور سہارنپوری 2023، صفحہ 48
  11. ^ ا ب پ ت خلیلی قاسمی 2020، صفحہ 682
  12. مظفر نگری اور سہارنپوری 2023، صفحہ 48–49
  13. ^ ا ب سبحانی مظاہری 2021، صفحہ 517
  14. ^ ا ب پ سبحانی مظاہری 2021، صفحہ 519
  15. قاسمی، محمد اسلام (اکتوبر 2019ء)۔ "مولانا قمر الدین گورکھپوری"۔ میرے اساتذہ، میری درسگاہیں، درخشاں ستارے۔ دیوبند: مکتبۃ النور۔ ص 75–76
  16. سبحانی مظاہری 2021، صفحہ 518
  17. خلیلی قاسمی 2020، صفحہ 767
  18. مبارکپوری، محمد عارف جمیل (2021ء)۔ "660-الكوركهبوري"۔ موسوعة علماء ديوبند (عربی میں) (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ ص 290
  19. مظفر نگری اور سہارنپوری 2023، صفحہ 49
  20. خلیلی قاسمی 2020، صفحہ 787–788
  21. خلیلی قاسمی 2020، صفحہ 752
  22. "علامہ قمرالدین صاحب شیخ الحدیث ثانی دارالعلوم دیوبند کا سانحۂ ارتحال"۔ عصر حاضر۔ 22 دسمبر 2024۔ 2024-12-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-22
  23. "دارالعلوم دیوبند کے شیخ ثانی حضرت علامہ قمرالدین گورکھپوری کا انتقال، علمی حلقہ سوگوار"۔ ملت ٹائمز۔ 22 دسمبر 2024۔ 2024-12-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-22
  24. خان، سعید احمد (23 دسمبر 2024ء)۔ "دارالعلوم دیوبند کے مشہور استاد مولانا قمرالدین گورکھپوری کا انتقال، مزار قاسمی میں تدفین"۔ روزنامہ انقلاب، بھارت۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-25{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: url-status (link)

کتابیات

ترمیم
  • خلیلی قاسمی، محمد اللہ (اکتوبر 2020)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (تیسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی
  • سبحانی مظاہری، محمد کوثر علی (دسمبر 2021)۔ الجوہر المفید فی تحقیق الاسانید یعنی تذکرۂ محدثین اور ان کی سندیں (پہلا ایڈیشن)۔ فاربس گنج، ارریا، بہار: جامعۃ الفلاح دار العلوم الاسلامیہ
  • مظفر نگری، محمد تسلیم عارفی؛ سہارنپوری، عبد اللہ شیر خان (2023)۔ أساتذة دار العلوم و أسانيدهم في الحديث (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبۃ الحرمین