وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردار
تمدّن آفریں، خلاّق آئینِ جہاں داریوہ
صحرائے عرب، یعنی شتربانوں کا گہوارا
سماں اَلۡفقَرُ فَخۡرِیۡ کارہا شان امارت میں
"بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا"
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہانبان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظّارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیّارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثرّیا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کو تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئیں مسلّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
غنی روزِ سیاہِ پیر کنعاں راتماشاکن"
"کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخارا
یہ صارف اردو ویکیپیڈیا پر آسان اردو کے استعمال کی حمایت کرتا ہے۔