عنایت اللہ نسیم سوہدروی
پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی (ولادت: 10 ستمبر 1910ء - وفات: 9 دسمبر 1994ء)[3][4] خطیب، ادیب، صحافی، شاعر، طبیب،، ممتاز سماجی و سیاسی کارکن تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت کے کارکن تھے۔[3]
عنایت اللہ نسیم سوہدروی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 10 ستمبر 1910ء [1] |
تاریخ وفات | 9 دسمبر 1994ء (84 سال)[2][1] |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | صحافی ، مصنف ، شاعر ، تحریک پاکستان |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیمعنایت اللہ نسیم 10 ستمبر 1910ء کو وزیر آباد (گوجرانوالہ) کے نواحی قصبہ نما شہر سوہدرہ میں پیدا ہوئے۔[4]
تعلیم
ترمیمدینی تعلیم مولانا غلام نبی الربانی سے حاصل کی اور میٹرک مشن ہائی اسکول وزیرآباد سے پاس کیا۔ ان کے چچا حکیم عبد الرحمن اپنے وقت کے نامور طبیب تھے۔ دوران تعلیم مولانا ظفر علی خان سے تعلق قائم ہو گیا۔ مولانا کا گائوں کرم آباد سوہدرہ اور وزیرآباد کے درمیان واقع ہے۔ آپ وزیرآباد جاتے ہوئے کرم آباد رکتے اور مولانا کی صحبت سے استفادہ کرتے۔ میٹرک کا امتحان امتیازی حیثیت میں پاس کیا تو مولانا ظفر علی خان کے ایماء اور اپنے چچا کی خواہش پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ طبیہ کالج میں داخلہ لیا جہاں آپ نے پانچ سالوں پر محیط ڈگری کورس پاس کرکے تعلیم مکمل کی[5]
تحریکی خدمات
ترمیمعلی گڑھ میں جب آل انڈیا مسلم سٹودنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا تو حکیم صاحب تا سیسی اجلاس میں شریک تھے۔ قائد اعظم کی علی گڑھ آمد پر جن طلبہ نے ان کی بگھی کو کندھوں پر اٹھایا ان میں بھی وہ پیش پیش تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وہ طلبہ جو آل انڈیا مسلم لیگ کے لکھنؤَ سیشن 1937ء ، پٹنہ سیشن 1938ء اور لاہور سیشن 1940 ء میں شریک ہوئے ان میں حکیم عنایت اللہ نسیم شامل تھے۔ 1937ء کے بجنور کے ضمنی انتخابات میں مولانا شوکت علی اور مولانا ظفر علی خان کے ہمراہ کام کیا۔ فسادات بہار میں بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے ساتھ کام کیا۔ 1946ء کے انتخابات جو قیام پاکستان کے نام پر لڑے گئے میں نواب زادہ لیاقت علی اور کنور اعجاز کے حلقہ مظفر نگر میں مسلم لیگ کی جانب سے ڈیوٹی کی۔ تحریک پاکستان میں مولانا ظفر علی خان اور ابوسعید انور کے ہمراہ کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری، تحریک جمہوریت ،تحریک ختم نبوت ،تحریک نظام مصطفی میں کام کیا۔ حکیم عنایت اللہ نسیم نظریہ پاکستان کے سچے سپاہی تھے۔ آپ مولانا ظفر علی خان کے خصوصی مداح تھے،ان کے رفیق تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے انتقال کے بعد وہ واحد شخصیت تھے جنھوں نے ظفر علی خان کے فکرونظر کے چراغ کو جلائے رکھا۔ مرکزیہ مجلس ظفر علی خان قائم کی[6]
سماجی خدمات
ترمیمآپ نے ایک رفاہی ادارہ البدر کمپلیکس بھی قائم کیا جس میں دارلمطالعہ، لائبریری ،بچیوں کے لیے دستکاری اسکول وقرآن اسکول قائم کیے۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کی جنرل کونسل ،مجلس کارکنان تحریک پاکستان کی مجلس عاملہ ،مجلس محمد علی جوہر کی مجلس عاملہ کے ارکان ،مرکزی مجلس ظفر علی خان کے بانی و صدر ،طبیہ کالج حمایت اسلام لاہور کی کمیٹی کے ارکان رہے۔ سماجی حوالے سے البدر سوشل ویلفیئر سوسائٹی کی بنیاد رکھی جو آج بھی سوہدرہ میں درس وتدریس ، کتب خانہ، دستکاری اسکول وغیرہ کی شکل میں گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے، جس کے روح رواں ان کے فرزند اور جانشین حکیم راحت نسیم سوہدروی ہیں،[7]
طبی خدمات
ترمیماتنی مصروف زندگی کے باوجود باقاعدہ مطب کرتے۔ آپ نیشنل کونسل فار طب حکومت پاکستان کے گیارہ سال ممبر رہے ،امتحانی کمیٹی کے چیرمین اور حکماء کی تنظیم پاکستان طبی ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری ،فار ائیر ہیلتھ پلان اور ٹیکسٹ بک کمیٹی کے ارکان رہے۔[8]
تصانیف
ترمیم- طبی فارماکوپیا
- قائد اعظم شخصیت وخدمات (ناشر نشریات اردوبازار لاہور)
- علی گڑھ کے تین نامور فرزند
(ظفر علی محمد علی جوہر اور حسرت موہانی ناشر قاسم محمود مکتبہ شاہکار لاہور)
- طب قائم و جدید کا موازنہ
- رسول کائنات (تین سو صفحات/ ناشر نذیر سنز اردو بازار لاہور)
- پھلوں سبزیوں کے غذائی و دوائی فائدے(ناشر رابعہ بک ھاوس اردو بازار لاہور)
- مردم دیدہ وشنید (غیر مطبوعہ)
- جنگ آزادی میں مسلمانوں کا حصہ غیر مطبوعہ
- فکر وخیال ( کالموں کا انتحاب) مسودہ موجود ہے
- آزادی کے مجاہد مولانا ظفر علی خان ( بچوں کے لیے) 22 صفحات /ناشر نونہال ادب ہمدرد فاؤنڈیشن کراچی)
- ظفر علی خان اور ان کا عہد (اس کا پیش لفظ نواب زادہ نصراللہ خان نے لکھا ہے کا دوسرا ایڈیشن
2022 میں ظفر علی ٹرسٹ لاہور نے شائع کیا ہے ظفر علی اور ان عہد کی تعارفی تقریب دیال سنگھ کالج لائبریری لاہور میں جسٹس عطااللہ سجاد کی صدارت میں ہوئ / گوجرانوالہ ضلع کونسل ہال میں ہوئی / ظفر علی کالج وزیراباد میں ہوئی تھی /جسٹس عطاللہ سجاد نے پاکستان لائبریری ایسو ایشن کی؛طرف سے طلائی تمغا عطا کیا)
تحریک پاکستان گولڈ میڈل
ترمیمان کی تحریک پاکستان کے حوالے سے کد و کاوش کو تسلیم کرتے ہوئے 1988ء میں تحریک پاکستان گولڈ میڈل سے نوازا گیا،[9]
وفات
ترمیمپروفیسر عنایت اللہ نسیم 9 دسمبر 1994ء کو چند روزہ بیماری کے بعد بعمر 84 برس وفات پا گئے۔[4][3] ان کی تدفین سوہدرہ میں کی گئی۔[10]
تعزیت نامے
ترمیمحکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی پر ان کے انتقال کے بعد پندرہ روزہ الخیال لاہور ماہنامہ مثالی طب لاہور ماہنامہ ضیالحکمت ملتان نے خصوصی اشاعتیں یعنی خاص نمبر شائع کیے [11] محترمہ بے نظیر بھٹو نے بحیثیت وزیر اعظم میاں منظور وٹو نے بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری الطاف حسین نے بحیثیت گورنر پنجاب میاں نواز شریف نے بحیثیت قائد خزب اختلاف نواب زادہ نصراللہ خان چوہدری محمد حسین چھٹہ خان عبد الولی خان اور دیگر قوی راھنماوں نے تعزیتی پیغامات میڈیا کو جاری کیے اور قومی اخبارات اور ٹی وی پر کوریج ہوئ اور ان کے ٹیل گرام ان کے فرزند حکیم راحت نسیم سوہدروی کو موصول ہوئے،
- ماہنامہ مثالی طب نے اپریل 1995 کو خصوصی نمبر شائع کیا
- پھر دسمبر 1998 میں چوتھی برسی پر بھی نمبر شائع کیا
- ماہنامہ ضیالحکمت ملتان نے دسمبر 1995 میں پہلی برسی پر نمبر شائع کیا پھر دسمبر 1997 کو تیسری برسی پر شائع کیا
- سوہدرہ میں جنوری 1995 میں تقریب ہوئ جبکہ لاہور فلیٹیز ہوٹل میں جنوری 1995 میں ہوئ جس کی روداد شامی صاحب نے اپنے کالم میں بھی لکھی ہے
تعزیتی ریفرنس
ترمیمحکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی کے انتقال پر البدر سوساسٹی سوہدرہ نے بانی سوساسٹی کے لیے تعزیتی ریفرنس کا سوہدرہ مہں انعقاد کیا جس کی صدارت اقبال احمد خان چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل وسیکرٹری جنرل مسلم لیگ جونیجو گروپ نے کی اور مولانا زاہد الراشدی آصف بھلی مجیب الرحمن شامی، شفیق جالندھری انجینئر ظفر اقبال ملک چوہدری ریاست علی راجا سعید اور عبدالعزیز فاروق نے خطاب کیا [12] اسی طرح مجلس کارکنان تحریک پاکستان نے ہوٹل فلیٹیز لاہور میں تعزیتی ریفرنس منعقد کیا صدارت نواب زادہ نصراللہ نے کی جبکہ خواجہ افتحار حافظ صلاح الدین یوسف علامہ نذیر طارق مجیب الرحمن شامی بیدار ملک رانا شفیق پسروری ودیگر نے خطاب کیا،
لاہور کے جلسہ میں مہناز رفیع چوہدری اکرم علی صدر کارکنان تحریک پاکستان پروفیسر عبد الجبار شاکر ڈاکٹر انجم رحمانی عزیز مظہر ڈاکٹر مسکین علی حجازی نے بھی خطاب کیا تھا علیم ناصری اور بشری رحمن نے بھی خطاب کیا یہ جلسہ 27 جنوری 1995 کو ہوا تھا[13][14]
سوانح حیات
ترمیم- حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی پر ڈاکٹر انور سدید نے پنجاب کا ایک نامور فرزند حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی کتاب لکھی جس کا پیش لفظ مجید نظامی نے لکھا اور حق پبلی کیشن اردو بازار لاہور نے شائع کی جس پر پنجاب حکومت نے اس وقت دس ہزار کا انعام دیا
- حیات نسیم در حدیث دیگراں
(اس میں حکیم عنایت اللہ نسیم پر شائع شدہ کالموں اور مضامین کو حکیم راحت حت نسیم نے مرتب کیا اس کا پی ں لفظ حکیم مختار احمد اصلاحی آف بمبئ انڈیا اور حکیم سید ظلم الرحمن آف علی گڑھ نے لکھا ہے اور مکتبہ اخوت اردوبازار لاہور نے شائع کی)
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب https://www.nawaiwaqt.com.pk/08-Dec-2012/152316
- ↑ https://dailypakistan.com.pk/08-Dec-2017/691466
- ^ ا ب پ "حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی"۔ روزنامہ پاکستان
- ^ ا ب پ "پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی"۔ روزنامہ نوائے وقت
- ↑ تاریخ سوہدرہ ، از کامران اعظم سوہدروی
- ↑ https://www.nawaiwaqt.com.pk/08-Dec-2021/1463352
- ↑ تاریخ وزیر آباد ، کامران اعظم سوہدروی
- ↑ https://www.nawaiwaqt.com.pk/08-Dec-2021/1463352
- ↑ https://www.nawaiwaqt.com.pk/08-Dec-2021/1463352
- ↑ https://www.nawaiwaqt.com.pk/08-Dec-2021/1463352
- ↑ پندرہ روز الخیال لاہور نسیم سوہدروی نمبر 1997
- ↑ کالم انورسدید روزنامہ خبریں 29 جنوری 1995
- ↑ بحوالہ کالم مجیب الرحمن شامی روزنامہ جنگ 30 جنوری 1995
- ↑ کالم انورسدید روزنامہ خبریں 29 جنوری 1995