قاضی شمس الدین
مولاناقاضی شمس الدین دیوبندی مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے مشہورعالم دین تھے۔ انھیں حدیث اوراصول حدیث پرکمال دسترس حاصل تھی۔اس وجہ سے اپنے حلقہ علماءوطلبا میں شمس المحدثین کے لقب سے ملقب تھے جمعیت اشاعت التوحیدوالسنت پاکستان کے قیام میں ان کاانتہائی اہم کرداررھاھے۔
قاضی شمس الدین | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1901ء تحصیل پنڈی گھیب |
تاریخ وفات | 21 مئی 1985ء (83–84 سال) |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم دیوبند |
استاذ | حسین علی نقشبندی میانوالوی ، انور شاہ کشمیری ، شبیر احمد عثمانی ، اصغر حسین دیوبندی ، محمد رسول خان ہزاروی ، محمد اعزاز علی امروہوی |
پیشہ | عالم |
ملازمت | دار العلوم دیوبند ، جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ |
درستی - ترمیم |
پیدائش اور خاندانی پس منظر
ترمیمآپ سنہ 1901ء میں موضع پڑی تحصیل پنڈی گھیپ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی شیر محمد تھا اور قومیت کے لحاظ سے آپ اعوان تھے۔ آپ کے برادر خورد قاضی نور محمد بھی ایک مشہور عالم دین تھے۔[1]
حصول تعلیم
ترمیمآپ نے ابتدائی کتب اپنے بھائی مولانا قاضی نور محمد سے پڑھیں۔درس نظامی کی بعض کتب مولانا غلام رسول انہوی سے پڑھیں۔ پھر واں بھچراں ضلع میانوالی میں حسین علی الوانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تفسیر قرآن سمیت مثنوی مولانا روم اور صحیح مسلم کا کچھ حصہ پڑھا۔[2] سنہ 1922ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے وہاں صحیح بخاری اور جامع ترمذی سید محمد انور شاہ کشمیری صدر مدرس دار العلوم دیوبند کے پاس،صحیح مسلم شبیر احمد عثمانی سے ،سنن ابی داؤد سید اصغر حسین دیوبندی سے اور تفسیر بیضاوی،معانی الآثار للطحاوی اور شمائل ترمذی رسول خان ہزاروی کے پاس پڑھیں۔ اسی طرح کچھ کتب اعزاز علی امروہی سے پڑھیں اور سندِ فراغ حاصل کی۔ تحصیل علم کے بعد آپ نے دوران تدریس قرآن پاک حفظ کیا۔
تدریسی خدمات
ترمیمحصول تعلیم کے بعد مدرسہ خادم الشریعة پنڈی گھیپ میں تدریس کا آغاز کیا۔ یہاں کئی سال پڑھانے کے بعد 1942ء میں اکابر علمائے دیوبند کی دعوت پر دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ جہاں ملاحسن، شرح سلم العلوم، ہدایہ آخرین، حاشیہ شرح عقائد اور قاضی مبارک و غیر ہ کتب زیر درس رہیں۔ وہاں دو سال تک پڑھاتے رہے۔ وہاں سے واپس آکر مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ،مدرسہ خادم الشریعة گوجرانوالہ،مدرسہ اشاعت العلوم فیصل آباد اور مدرسہ نصرة العلوم گوجرانوالہ میں پڑھاتے رہے۔ سنہ 1960ء میں آپ نے جامعہ صدیقیہ مجاہد پورہ گوجرانوالہ کی بنیاد رکھی اور آخر دم تک بحیثیت شیخ الحدیث حدیث رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کرتے رہے۔[3]
تلامذہ
ترمیمہزاروں طالبان علوم حدیث و تفسیر نے آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ جن میں:
- وکیل صحابہ علامہ محمد عطاء اللہ بندیالوی
- سرفراز خان صفدر،
- عبید الله انور،
- صوفی عبد الحمید،
- مفتی عبد الواحد،
- شاہ زمان محدث دیوبند،
- قاضی ملک محمد اسما عیل جاروی
- ضیاء الله شاہ بخاری،
- قاضی عصمت الله،
- احمد سعید خان ملتانی،
- عبد الرحمن خان،
- سلطان غنی عارف شہید،
- سید عبد المجید ندیم
- محمد طیب طاہری
- بدیع الزمان شاہ،
- قاضی عبد الرحمن،
- قاضی احسان الحق،
- محمد ادریس عباسی،[4] اور
- پروفیسر غازی احمد
تصنیفی خدمات
ترمیمدرس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور آپ کے قلم سے کئی شاہکار تصانیف منظر عام پر آئیں، جن میں
- تفسیر تیسیرالقرآن بتبصیرالرحمن اردو،
- الہام الباری فی حل مشکلات البخاری،
- الہام الملہم شرح الصحیح المسلم،
- کشف الودود شرح سنن ابی داؤد،
- التعلیقات الصبیح فی شرح مشکوہ المصابیح
- تسکین القلوب مقدمہ تحفہ ابراہیمیہ،
- شرح عبد الرسول،
- رسائل تراویح،
- مسالک العلماء فی حیات الانبیاء ع،
- انوار البیان فی اسرار القرآن،
- الشہاب الثاقب علی من حرف الاقوال والمذاہب،
- القول الجلی فی حیات النبی ﷺ
وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
تنظیم سازی اور دیگر خدمات
ترمیمآپ نے اپنی زندگی دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ، احیائے سنت اور رد بدعت کی خاطر علمی و عملی جدوجہد میں گزاری اور اس سلسلے میں غلام الله خان، سید عنایت الله شاہ بخاری اور شيخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری رحمه الله رحمة واسعة کے ساتھ مل کر 1957ء میں جمعیت اشاعت التوحید و السنت پاکستان کی بنیاد رکھی۔ تنظیم کا نام بھی آپ ہی نے تجویز فرمایا اور دستور ساز کمیٹی کے صدر نشین بھی مقرر ہوئے۔1962ء میں قاضی نور محمد کی وفات کے بعد اپ نائب امیر کے عہدہ پر تا دم آخریں فرائض سر انجام دیتے رہے۔ اسی اثناء میں مولوی بشیر شیعی ٹیکسلا والے سے بمقام ڈھیرمونڈ ضلع اٹک میں مناظرہ ہوا۔پنڈی گھیپ اور فتح خان میں کچھ مرزائی مبلغین سے مناظرہ ہوا۔ الغرض آپ نے ہمیشہ حق و صداقت کا عَلَم بلند رکھا۔ ذاتی غرض و عناد سے نہ صرف اپنی نجی زندگی بلکہ جماعتی زندگی کو بھی پاک رکھا۔ آپ کی جلالت علمی تقوی و ریاضت کے صرف اپنے ہی نہیں غیر بھی معترف تھے۔[5]
دستار فضیلت
ترمیم1966ء میں دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریب میں دیگر علما کے ساتھ آپ نے بھی شرکت کی۔ آپ کو اعزازی طور پر سب علما کے سامنے اسٹیج پر دستار بندھوائی گئی جو کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔
بیعت
ترمیمآپ نے حسین علی الوانی سے سلوک و تصوف کے منازل طے کیے اور انہی کے ارشادات پر عمل پیرا رہے اور خلیفہ مجاز ہوئے۔ سینکڑوں افراد نے آپ کے فیض علمی و روحانی سے استفادہ کیا۔
وفات
ترمیمبالآخر آپ 21؍مئی 1985ء/11 رمضان المبارک 1405ھ بروز جمعۃ المبارک اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ نماز جنازہ سید عنایت الله شاہ بخاری نے پڑھائی اور ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔