قاضی شہاب الدین دولت آبادی

ہندوستان کے صوفی بزرگ

قاضی شہاب الدین دولت آبادی قرون وسطیٰ کے بہت بڑے عالم، ادیب، نحوی اور صوفی گذرے ہیں آپ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے جلیل القدر خلیفہ تھے۔

شہاب الدین
احمد
دولت آبادی
احمد
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1360ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 نومبر 1445ء (84–85 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جونپور، اترپردیش   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن اٹالہ مسجد
رہائش سلطنت دہلی، سلطنت جونپور
شہریت  بھارت
لقب ملک العلماء، شہاب الدین
مذہب اسلام
فرقہ حنفی
والد شمس الدین عمر
عملی زندگی
استاد خواجگی کالپوی، عبد المقتدر کندی
نمایاں شاگرد شیخ صفی الدین ردولوی، شیخ قاضی رضی الدیں ردولوی، شیخ فخر الدین جونپوری، شیخ محمد عیسیٰ جونپوری، علامہ عبد الملک عادل جونپوری، شیخ قطب الدین ظفر آبادی، شیخ علا الدین جونپوری
پیشہ عالم ،  فقیہ ،  منصف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان فارسی
پیشہ ورانہ زبان عربی فارسی
شعبۂ عمل نحو، عربی ادب، تصوف، تفسیر
وجۂ شہرت شرح الکافیہ
کارہائے نمایاں مصدق الفضل، المعافیہ شرح الکافیہ
بعد ازاں کام البحر المواج والسراج الوہاج فی تفسیر القرآن الکریم، الإرشاد فى النحو
مؤثر اشرف جہانگیر سمنانی
متاثر صفی الدین ردولوی

نام ترمیم

آپ کا نام احمد لقب شہاب الدین اور ملک العلماء ہے ان کے والد ابو القاسم شمس الدین عمر غزنوی ہیں [1][2]

ولادت و تربیت ترمیم

آپ 761ھ میں دولت آباد، دہلی میں پیدا ہوئے اور آپ کی نشو و نما ہوئی۔

علامہ قاضی عبد المقتدر بن رکن الدین شریحی کندی اور شیخ خواجگی کالپوی سے مروجہ علوم و فنون کی تکمیل فرمائی[3]۔

تدریس ترمیم

قاضی صاحب جب مروجہ علوم و فنون سے فارغ ہوئے تو دہلی ہی میں تعلیم وتدریس کا سلسلہ آغاز کیا۔

یہ زمانہ مشرقی دنیاے اسلام کے لیے بڑا پر آشوب تھا ؛ کیونکہ تاتاریوں نے جو تباہی وبربادی برپا کی تھی اس کے اثرات ابھی باقی ہی تھے کہ 771ھ میں تیموری فتنہ اٹھ کھڑا ہوا جس کے خطرات دہلی پر منڈلانے لگے، اس کی وجہ سے وہاں کے باشندوں کا چین وسکون غارت ہو گیا اور خوف و ہراس کے سائے میں زندگی بسر کرنے لگے۔

ان ہی پریشان کن حالات میں قاضی صاحب نے تدریس کے میدان میں قدم رکھا اور ظاہر ہے جس دور پرانی علمی اور روحانی مجلسوں کو ہر وقت ویرانی کا خطرہ لگا ہو، اس میں کسی نئی درسگاہ کا مرکزیت و مرجعیت حاصل کرنا مشکل تھا، مگر قاضی صاحب نے خداے وحدہُ کے فضل و کرم اور اپنی جہد مسلسل اور سعی پیہم سے ان ہی نامساعد حالات میں اتنی شہرت و ناموری حاصل کی کہ مشرقی دیار جونپور تک ان کے علمی چرچے ہونے لگے یہاں تک کہ جونپور کے حکمران سلطان ابراہیم شاہ شرقی بھی ان کے معتقد ہو گئے[4]۔

دہلی سے کالپی کی طرف روانگی ترمیم

ایک شب شیخ نصیر الدین محمود اودھی معروف بہ چراغ دہلوی کے مرید و خلیفہ شیخ بندہ نواز گیسو دراز نے خواب دیکھا کہ تیموری فتنے کا سیلاب دہلی تک آگیا ہے۔

قاضی صاحب کے مشفق و مہربان استاذ خواجگی کالپوی نے جب یہ خواب سنا تو تیموری فتنے کے دہلی تک پہنچنے سے پہلے ہی کالپی روانہ ہوئے۔

قاضی صاحب کو اپنے استاذ و شیخ کی جدائی گوارا نہ ہوئی ؛ کیونکہ ان کے دوسرے کرم فرما استاذ قاضی عبد المقتدر دہلوی علیہ الرحمہ 791ھ میں ہی اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے تھے اور اب یہی تنہا ان کے علمی و روحانی مربی تھے، نیز دہلی کے حالات اصحاب علم و فضل کے حق میں بگڑتے جا رہے تھے، دہلی کی علمی اور روحانی محفلیں ویران ہونے لگیں تھیں اور ارباب علم و فضل وہاں سے جوق در جوق ہجرت کرنے لگے تھے ؛ اسے لیے ملک العلماء بھی علامہ خواجگی کے ہمراہ کالپی روانہ ہوئے۔

حضرت علامہ خواجگی کالپوی چونکہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دہلی میں درس و تدریس میں گزار چکے تھے اس لیے انھیں کالپی کا گوشہ پسند آگیا اور انھوں نے کالپی ہی میں مستقل سکونت اختیار کرلی لیکن قاضی صاحب وہاں چند دن کے قیام کے بعد جونپور چلے گئے[5]۔

کالپی سے جونپور کا سفر ترمیم

سلطان ابراہیم شرقی نے جب قاضی صاحب کے کالپی آنے کی خبر سنی تو ارباب علم و دانش کو ہدایات وتحائف دے کر ان کی خدمت میں روانہ کیا اور جونپور آنے کی خواہش ظاہر کی، قاضی صاحب استاذ کی ہدایت اور سلطان کی دعوت پر طلبہ وفضلا کی ایک جماعت لے کر جونپور تشریف لائے سلطان نے قاضی صاحب کی شخصیت سے بڑھ کر ان کی قدر و منزلت کا اہتمام کیا اور ملک العلماء کے خطاب سے ان کو شہرت دی اور اپنی جامع مسجد اٹالہ کے پہلو میں ان کی تدریسی خدمات کے لیے خاص مدرسہ اور رہائش کے لیے شاہانہ مکانات بنوائے[6]۔

اس وقت جونپور میں متعدد علماے کرام وفضلاے عظام کی درسگاہیں جاری تھیں اور ان میں پوری دل جمعی کے ساتھ تعلیم وتدریس کی خدمات انجام دی جارہی تھیں اور ان ہی میں قاضی صاحب نے بھی اپنا درسگاہ قائم کیا اور تھوڑے ہی دنوں میں علما ومشائخ کے درمیان میں ان کی درسگاہ کی اہمیت و افادیت کا چرچا ہونے لگا اور قاضی صاحب کی بافیض درسگاہ سے بہت سے نامور شاگرد پیدا ہوئے اور دین اسلام کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔

لیکن قاضی صاحب کس سنہ میں جونپور تشریف لائے اس کا پتہ نہیں ملتا ہاں اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ اور سید اشرف جہانگیر سمنانی بقید حیات تھے یعنی آپ 804ھ سے 808ھ کے بیچ جونپور تشریف لائے[7]۔

قاضی صاحب سے سلطان ابراہیم شرقی کی عقیدت ترمیم

سلطان ابراہیم شرقی نے قاضی صاحب کی بہت عزت افزائی کی یہاں تک کہ آپ بعض دنوں میں چاندی کی کرسی پر بیٹھے ہوتے تھے [8]۔

اور سلطان کا یہ حال تھا کہ وہ ہر جمعہ کو مدرسے میں پابندی سے حاضری دیتے تھے اور قاضی صاحب اور ان کے طلبہ کو عطیات و نذرانہ پیش کرتے تھے [9] یہی وجہ ہے کہ ان کے ہم عصروں میں بہت ان کے حاسد بن بیٹھے تھے تو قاضی صاحب نے حاسدوں کی شکایت مولانا خواجگی کالپوی سے کی تو آپ نے جواب میں شیخ سعدی کا دو شعر لکھا :

اے بیش ازاں کہ در قلم آید ثناے تو واجب بر اہل مشرق ومغرب دعـاے تو
اے در بقاے عمر تو نفع جہانیاں باقی مباد ہر کہ نخواہد بقـــــــــاے تو

کہتے ہیں کہ تھوڑے ہی دنوں میں حاسدوں کی جماعت ختم ہوئی اور ان میں سے کوئی زندہ نہ رہا [10]۔

قاضی صاحب سے سلطان کی عقیدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے ایک مرتبہ قاضی صاحب بیمار ہو گئے تو سلطان عیادت کے لیے آیا اور یوں دعا کی :

یا اللہ جو مصیبت قاضی صاحب پر آنے والی وہ دور کردے اور میرے نصیب میں کردے [11]۔

اور یہ عقیدت صرف یکطرفہ نہ تھی بلکہ قاضی صاحب بھی سلطان سے بے پناہ محبت کرتے تھے چنانچہ سلطان کے انتقال کے بعد اتنے غمگین ہوئے کہ اسی سال یا اس کے دوسال بعد آپ نے بھی دار فانی کو الوداع کہا [12]۔

سید اشرف جہانگیر سمنانی سے پہلی ملاقات ترمیم

سلطان ابراہیم شرقی نے جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب دنیا میں جنید بغدادی اور شبلی جیسے فقرا موجود نہیں تو ایک شب انھیں خواب میں ہدایت ہوئی کہ اس زمانے میں بھی ایسے فقرا موجود ہیں مگر طلب شرط ہے صبح ہوتے ہی سلطان فقرا کی تلاش وجستجو میں نکل گیا اور ہر درویش و صوفی سے ملاقات شروع کر دی۔

ان ہی دنوں اشرف جہانگیر سمنانی اپنے خدام و احباب کے ساتھ کچھوچھہ سے جونپور تشریف لائے اور اٹالہ مسجد میں قیام فرمایا سلطان کو جب اس کی خبر ہوئی تو اپنی عادت کے مطابق شرف دیدار کا ارادہ کیا تو اس وقت قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے کہا :

اجنبی درویش ہیں جاننے والے بتارہے ہیں کہ کہ سید ہیں اور بڑے پایہ کے بزرگ ہیں لہذا بہتر یہ ہے کہ پہلے میں جاؤں اور طور طریقے اور مزاج سے واقفیت حاصل کروں تو اس سلطان نے اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہے آپ تشریف لے جائیں

قاضی صاحب نے اپنے ہمراہ چند علما کو لے کر حاضر ہوئے اور سید صاحب بھی ان کے استقبال کے لیے باہر تشریف لائے اور ملاقات ہوئی اور مختلف موضوعات پر دیر تک گفتگو ہوئی قاضی صاحب نے اپنے ہمراہیوں کو کچھ سوال کرنے پہلے ہی منع کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ خاموش تھے لیکن سب کے دلوں میں کوئی نہ کوئی سوال کھٹک رہا تھا اس مجلس میں سمنانی کے ایک مرید شیخ ابو الوفاء خوارزمی بھی موجود تھے انھوں نے سب کی دلیل کیفیت کو اپنے نور فراست سے جان کر ایک ایسی جامع تقریر فرمائی کہ تمام حاضرین مطمئن ہو گئے اور قاضی صاحب بھی بہت مسرور ہوئے۔

آخر میں قاضی صاحب نے عرض کیا کہ سلطان ابراہیم شرقی آج ملاقات کے لیے حاضر ہونا چاہتے تھے لیکن فقیر نے چاہا کہ آپ کا نیاز مندانہ دیدار پہلے کرلے ان شاء اللہ کے ہم سلطان کے ساتھ قدم بوسی کا شرف حاصل کریں گے قاضی صاحب کے جانے کے بعد اشرف جہانگیر سمنانی نے یوں فرمایا کہ ہندوستان اس قدر فضیلت والے بہت دیکھے ہیں [13]

سید اشرف جہانگیر سمنانی سے دوسری ملاقات ترمیم

دوسرے دن سلطان ابراہیم شرقی اپنے ہمراہ امرا، وزرا، فضلا اور علما کی ایک جماعت لے کر بڑی شان و شوکت کے ساتھ سمنانی کی زیارت کے ارادہ سے نکلا ساتھ ہی قاضی صاحب بھی تھے تو آپ نے فرمایا کہ یہ شاہانہ رویہ اور خدام کی بھیڑ کہیں سید صاحب کے لیے تکلیف کا باعث نہ ہوجائے تو سلطان امرا، وزرا اور ارباب فضل وکمال میں سے بیس لوگوں لے کر سید اشرف جہانگیر سمنانی کے دربار میں حاضر ہوئے اور ان کی بارگاہ کا اس قدر ادب واحترام کو ملحوظ رکھا کہ سید صاحب بہت خوش ہوئے۔

اس زمانے میں سلطان کی فوج قلعہ جنادہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھی جس کا ذکر سلطان نے اشارۃً کیا سید صاحب نے بھی اسی انداز میں فتح کی بشارت دی اور جاتے ہوئے انھیں اپنا مسند عطا فرمایا جس سے سلطان بہت خوش ہوا اور یوں گویا ہوا :


سید صاحب کس عالی مرتبت اور پایہ کے بزرگ ہیں اللہ کا شکر ہے ہندوستان میں ایسے بزرگ تشریف لاچکے ہیں۔

اس واقعہ کے تین روز بعد فتح کی خوشخبری آئی تو سلطان چند لوگوں کے ہمراہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا :

ناچیز آپ کا دست مبارک تھام چکا ہے البتہ کچھ خام زادے ہیں یہ آپ کی بیعت و ارادت میں داخل ہونگے۔

چنانچہ اسی دن سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اسی دن دو تین شہزادوں کو شرف بیعت سے مشرف کیا اس کے بعد سلطان ابراہیم شرقی نے بہت خوب نذر پیش کیا لیکن سید صاحب نے قبول نہ فرمایا پھر سلطان نے جونپور میں قیام کے لیے اصرار کیا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا :

ہم سلطنت کے دیار سے باہر نہیں جائیں گے۔

سلطان ان کے اس جواب پر بہت خوش ہوا اور سید جہانگیر سمنانی نے بھی دو مہینے سے زیادہ جونپور میں قیام فرمایا اور وہاں کے اکابر و اصاغر آپ سے مستفید و مستفیض ہوئے اور آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے[14]۔

قاضی صاحب کی عقیدت و محبت ترمیم

اس مدت میں قاضی صاحب کی عقیدت اتنی بڑھ گئی کہ اگر روزانہ حاضر نہیں ہوپاتے تو دو یا تین دن بعد ضرور حاضر ہوتے اس درمیان میں قاضی صاحب نے اپنی تصانیف کا ایک نسخہ صاحب کو پیش کیا تو آپ نے بہت پسند فرمایا اور الإرشاد (جو فن نحو میں قاضی صاحب کی ایک عمدہ تصنیف ہے) دیکھ کر فرمایا :

کہتے ہیں کہ جادو ہندوستان سے نکلا ہے وہ جادو غالباً یہی ہے۔

اس سفر میں معاملہ یہیں تک رہا لیکن جب دوبارہ جونپور تشریف لائے تو قاضی صاحب کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا[15]۔

الناس كلهم عبد لعبدي کا واقعہ ترمیم

اشرف جہانگیر سمنانی جب دوبارہ جونپور تشریف لائے اور جونپور کی جامع مسجد میں قیام کیا اس وقت خدام میں قاضی رفیع الدین اودھی، شیخ ابو المکارم اور خواجہ ابو الوفا خوارزمی ساتھ تھے ان دنوں میں ایک دن مخدوم صاحب پر عجیب وجد و جذب کی کیفیت طاری تھی کہ حاضرین میں سے کسی کو لب کشائی کی مجال نہ تھی اسی عالم وجد و جذب میں یہ شعر زبان سے نکلا :

دلش چوں بحر عمان جوش کردہ دو گـــوہر ریختہ خاموش کـردہ

اس کے دل نے بحر عمان کی طرح جوش مارکر دو موتی گرائے پھر خاموش ہو گیا، پھر فرمایا الناس كلهم عبد لعبدي کہ سارے لوگ میرے غلام کے غلام ہیں حاضرین جو ان کے اسرار باطنی سے واقف تھے اس کا افشا اس خیال سے پسند نہیں فرمایا کہ بہت سے علماے ظاہر جو باطن سے واقف نہیں ہیں انکار کی روش اختیار کریں گے چنانچہ حاجی صدر الدین نامی ایک عالم تک یہ بات پہنچی تو معترض ہوکر اس کی تحقیق میں پڑ گئے شدہ شدہ یہ بات میر صدر جہاں اور قاضی شہاب الدین دولت آبادی تک پہنچی تو قاضی شہاب الدین نے کہا :

یہ درویش ہیں معلوم نہیں انہوں نے کس معاملے میں اور کس حالت میں یہ بات کہی ہے اور کس وجہ سے یہ جملہ صادر ہوا ہے، بہتر یہ ہے کہ ہم اس کی تفتیش و تحقیق میں نہ پڑیں اور یوں بھی وجد و فکر کی باتوں پر غوروفکر کرنا مناسب نہیں ہے خصوصاً یہ سید صاحب بہت بلند حال اور بڑے باکمال ہیں مجھے تو بہادری ابھی کوئی ان کا ہم پلہ نظر نہیں آتا اور نہ کوئی شخص اپنے بازو میں اتنی طاقت رکھتا ہے کہ ان کا ہم پلہ ہوسکے۔

یہ سن کر ایک شخص نے کہا :

ایسے شہر میں جو متبحر علما، قابل فخر فضلا، ارباب علم و دانش اور درویشوں سے معمور ہو، عجیب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص تکبر آمیز اور سرکشی پیدا کرنے والی بات کہے۔

بالآخر یہ طے پایا کہ میر صدر جہاں اور محمود بھیا (جو سخت کلام اور درشت خو طالب علم تھا) کو حضرت کی خدمت میں بھیج کر جواب معلوم کریں

قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے کہا :

کہ محمود بھیا مشائخ کی مجلس کے آداب سے واقف نہیں ہے مبادا کوئی ایسی بات کہے جو حضرت کے خلاف طبع ہو ؛ اس لیے میں خود سید صاحب کی خدمت میں جاؤں گا اور مناسب انداز میں جیسا کہ مشائخ سے دریافت کرنے کا طریقہ ہے اس کلمہ کی حقیقت اور وضاحت طلب کروں گا تاکہ سید صاحب کی طبیعت پر بار نہ ہو۔

دوسرے دن قاضی صاحب، سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے سید صاحب اس وقت اوراد وظائف سے فارغ ہو کر حلقۂ احباب میں تشریف فرما تھے حسب عادت قاضی صاحب کا استقبال کیا، رسمی بات چیت کے بعد بعض فقہی مسائل پر گفتگو ہوئی پھر قاضی صاحب کی خاطر مدارت کی اور رخصت ہونا چاہتے تھے سید صاحب نے کشف سے سبب جان کر فرمایا :

فقیر کی کٹیا میں قاضی صاحب کی تشریف آوری کا مقصد کسی خاص کلام سے متعلق دریافت کرنا ہے۔

قاضی صاحب نے حیرانی سے ہاں میں جواب دیا اور عرض کیا:

کل یہاں کے بعض علما و فضلا نے میر صدر جہاں اور مجھ سے بیان کیا کہ ایک ایسی بات (الناس كلهم عبد لعبدي) حضرت سید صاحب کی زبان سے جاری ہوئی جو ظاہری اعتبار سے مبہم اور وضاحت طلب ہے اس بارے میں حضرت کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟

یہ سن کر سید صاحب نے برجستہ فرمایا :

اس کا مفہوم نہایت آسان ہے کیونکہ کلمہ الناس کلهم عبد لعبدي الف و لام سے شروع کیا ہے اور الف و لام عہد کے لیے بھی آتا ہے میں نے اپنا کلمہ اسی سے شروع کیا ہے؛ اس لیے کہ اس زمانے کے لوگ اپنی ہوا اور ہوس کے محکوم و غلام ہیں اور حق تعالیٰ نے میری ہواے نفس کو میرا محکوم و غلام بنایا ہے ؛ جب اہل دنیا ہواے نفس کے محکوم ہوئے تو گویا میرے غلام کے غلام ہیں اور عام نفسانی خواہشات کے اعتبار میرے محکوم کے محکوم ہیں۔

پھر تقریب فہم کے لیے اس کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک بادشاہ نے ایک درویش سے لکھا کہ ہم سے کچھ مانگو تو درویش نے جواب میں یہ رباعی لکھی :

از حرص وہوا دو بندہ دارم در ملک خداے پادشـــــاہم
تو بندۂ بندگـــــــان مائی از بندۂ بندگان چہ خواہم

خواہش اور لالچ میرے دو غلام ہیں اور میں خدا کے ملک کا بادشاہ ہوں، تو میرے غلاموں کا غلام ہے تو میں غلاموں کے غلام سے کیا مانگوں ؟ اس توضیح و تشریح کے بعد قاضی صاحب اور ان کے تمام رفقا مطمئن ہو گئے اور خوشی خوشی واپس تشریف لے گئے [16]۔

معاصر علما و مشائخ ترمیم

سلطان ابراہیم شرقی کے زمانے میں جونپور یگانۂ روزگار علما و فضلا اور مشائخ شریعت و طریقت سے معمور تھا، مختلف علوم و فنون کے اساتذہ اور مشیخت و طریقت کے عباقرہ وہاں جلوہ بار تھے ان سب کے درمیان میں قاضی صاحب کی شخصیت ممتاز اور نمایاں تھی قاضی القضاۃ کے عظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجود بہت متواضع اور خلیق تھے، ہمیشہ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرتے، مگر شریعت کے معاملات میں بہت سختی پیش آتے جس کی وجہ بعض علما سے بسا اوقات بحث و مباحثہ اور منصبی نوک جھوک ہوجاتی، عام طور سے ہر طبقہ کے علما و مشائخ سے ان کے خوشگوار تعلقات تھے اور ان کی علمی و دینی بالادستی کو سبھی تسلیم کرتے تھے مگر کچھ ایسے معاصرین بھی تھے جن سے کبھی کبھی تصادم بھی ہوجاتا تھا بعض لوگ سجدۂ تعظیمی کے نام پر شریعت کے مزاج کے خلاف عمل کرتے تھے بعضوں سے فقہی و کلامی مسائل پر بحث ہوتی تھی بدیع الدین قطب المدار کا طریقہ ان کی نظر میں نہایت قابل اعتراض تھا، شیخ کبیر ہندی کے افکار شریعت سے میل نہیں کھاتے تھے اس لیے قاضی صاحب کو ان شدید احتساب کرنا پڑتا تھا جو ان کے منصب کے لیے بے حد ضروری تھا کہ وہ ملک العلماء اور قاضی القضاۃ تھے اور سلطنت جونپور نے انھیں شریعت کے تحفظ کا ذمہ دار بنایا تھا، اگر وہ اس میں تعلقات کا اعتبار کرتے تو اپنے منصب میں کوتاہی کرتے ؛ اس لیے انھوں نے اپنے فرض کی ادایگی میں پوری مستعدی سے کام لیا ہے۔

وہ اپنے ذہن و مزاج کے اعتبار سے بہت بلند پایہ انسان تھے، اپنے تلامذہ تک سے بوقت ضرورت استفادہ کرنے میں گریز نہیں کرتے، شاہی دربار میں عظمت و رسوخ کے باوجود ہر شخص کے مرتبہ کا بھرپور خیال فرماتے، اہل علم کی حاجت روائی ان کا محبوب مشغلہ تھا، سلطان سے ان سفارش کرنے میں مشہور تھے، طلبہ پر شفقت کا یہ حال تھا کہ ان کے لیے مستقل کتابیں لکھا کرتے، ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں ہمہ وقت کوشاں رہتے۔

شریعت میں سختی کے باوجود حتیٰ الامکان مشائخ کی بعض باتوں کو اچھے معنوں پر محمول کرتے اور علما و مشائخ کے درمیان میں غلط فہمیوں کو دور کرتے۔

غرض قاضی صاحب نے سلطان ابراہیم شرقی کے ساتھ چالیس سال تک دینی علوم کے درس و تدریس اور علما و مشائخ میں اس طرح زندگی بسر کی کہ واقعی ملک العلماء کہنے کے لائق تھے، وہ سلطنت جونپور کے پورے دور میں اپنی جامعیت، افادیت، تدریسی و تصنیفی خدمات اور شان و وقار میں منفرد تھے اور یہ اوصاف و کمالات مجموعی طور پر ان ہی کا حصہ تھے [17]۔

شیخ احمد عبد الحق ردولوی سے ملاقات ترمیم

شیخ العالم احمد عبد الحق ردولوی جب دوبارہ جونپور تشریف لائے تو قاضی صاحب سے ملاقات ہوئی، دونوں حضرات میں دینی و علمی گفتگو ہوئی، درمیان میں گفتگو انھوں نے معرفت و طریقت کی کوئی بات ارشاد فرمائی جسے سن قاضی صاحب نے کہا کہ ہم اہل ظاہر ہیں آپ کے علم تک جو الہی ہے پہنچنے سے قاصر ہیں۔

تو انھوں نے ارشاد فرمایا : ارے تو بے چارہ لہریا ہے، تجھ کو اس حال و مقال کی کیا خبر۔ الغرض قاضی صاحب کو پورا یقین ہو گیا اور انھوں نے طے کر لیا کہ سلطان ابراہیم شرقی سے ان کی ملاقات کرادیں[18]۔

قاضی نصیرالدین گنبدی سے ایک التماس ترمیم

جب قاضی صاحب نے کافیہ کی شرح المعافیہ فی شرح الکافیہ لکھی تو اسے قاضی نصیرالدین گنبدی کی خدمت میں بھیجا اور ان سے التماس کی کہ اگر وہ اسے اپنے یہاں درس میں شامل کر لیں تو دوسرے علما میں بھی مقبول ہوجائے گی، انھوں نے باطنی اشغال کی مصروفیات کے باعث سرسری نگاہ سے دیکھا اور فرمایا:

کتاب بہت اچھی ہے اسے میرے درس دینے کی حاجت نہیں [19]۔

قاضی نظام الدین کے ساتھ حسن سلوک ترمیم

قاضی نظام الدین بن صدر الدین حسین بن احمد بن محمد غزنوی ثم جونپوری غزنہ میں پیدا ہوئے، اپنے والد ماجد اور دیگر علما سے مروجہ علوم و فنون کی تکمیل و تحصیل کی، ان کے والد غزنہ میں قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز تھے، وہ بھی والد کے ساتھ غزنہ ہی میں قیام پزیر رہے، لیکن والد کے وفات کے بعد ہندوستان کا رخ کیا، اس زمانے میں سلطان ابراہیم شرقی علم دوستی اور علما نوازی سے بہت مشہور تھے اس لیے وہ بھی جونپور تشریف لے آئے، یہاں قاضی شہاب الدین دولت آبادی سے ملاقات ہوئی قاضی صاحب نے ان کا فضل و کمال دیکھ کر انھیں سلطان کے مقربین میں شامل کیا، سلطان نے انھیں مچھلی شہر کا قاضی مقرر کیا تو انھوں نے وہیں سکونت اختیار کرلی، ہندوستان میں ان کی اولاد خوب پھلی پھولی [20]۔

شیخ ابو الفتح جونپوری سے علمی و کلامی مباحثے ترمیم

ان کے اور قاضی صاحب کے درمیان میں اصول کلامیہ اور فروع فقہیہ میں مباحثے ہوئے، خصوصا ”زباد“ کے سلسلے میں جو بلی کے بدن سے ٹپکتا ہے ؛ شیخ ابو الفتح اسے نجس کہتے تھے اور قاضی صاحب اس کے پاکی قائل تھے [21]

مولانا فقیہ حیرتی سے ایک علمی مباحثہ ترمیم

قاضی صاحب کے معاصرین میں سے مولانا فقیہ حیرتی منقولات و معقولات کے زبردست عالم تھے درس وتدریس ان کا مشغلہ تھا بیسیوں بار اصول بزدوی کا درس دے چکے تھے ایک بار قاضی صاحب اور آپ کے درمیان ایک علمی مسئلے میں مباحثہ ہوا قاضی صاحب کو کامیابی حاصل ہوصل ہوئی اس موقع پر بھی قاضی صاحب نے اپنی علمی فروتنی اور اپنے تلامذہ کے فضل کا مظاہرہ کیا۔

اخبار الاصفیاء کی روایت کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ سلطان ابراہیم شرقی نے طے کیا کہ کل قاضی شہاب الدین اور فقیہ حیرتی سر دربار مباحثہ ومناظرہ کریں اور اس مناظرہ میں جو عالم غالب ہوگا وہی دربار کا صدر نشیں ہوگا ۔

اتفاق سے مولانا فقیہ حیرتی کے کئی تلامذہ اس وقت جونپور میں موجود تھے ، جو ان کو علمی مدد پہنچا سکتے تھے اور قاضی صاحب علم تازہ اور حوصلہ بلند رکھنے کے باوجود تنہا تھے ؛ اس لیے کچھ متفکر تھے ،خیال آیا کہ اپنے پرانے شاگرد شیخ محمد عیسی کے پاس چلنا چاہیے جو علم و روحانیت کے جامع ہیں اور ترک و تجرید کی زندگی اختیار کر چکے ہیں چنانچہ ان کے پاس جاکر فرمایا:

شاگرد اگر در چنیں روزگار بکار نآید ، بچہ کار آید ، وچوں تو آتش در اوراق کنج خمول گزیدۂ بارے توجہ باطن خود دریغ نہ دادی ۔

ترجمہ:شاگرد اگر ایسے حالات میں ہمارے کام نہیں آئے گا تو کس کام کا اور جب تم نے کتابوں کو آگ لگا کر تنہائی اختیار کر لی ہے تو اپنے باطنی توجہ سے دریغ نہ کرو (اور میری مدد کرو)۔ شیخ محمد عیسی نے عرض کیا :

امشب دست در صندوق کن وہر کتابے کہ بدست آید مطالعہ فرما ، ہمچنان در کتاب کافی ست ، ونصر از تست۔

ترجمہ:آج رات کتابوں کے صندوق میں ہاتھ ڈالیے اور جو کتاب ہاتھ لگے مطالعہ فرمایئے ، آپ کے لیے کتاب کا اتنا ہی مطالعہ کافی ہے اور آپ کو کامیابی ملے گی ۔ استاد نے شاگرد کے کہنے پر عمل کیا تو انھیں کی کتاب ”الارشاد“ ہاتھ میں آئی ، اس لیے ابتدا میں تامل ہوا ، پھر شیخ محمد عیسی کی ہدایت کے مطابق اس کا مطالعہ شروع کیا ، اتفاق سے ایک مشکل مقام آگیا جو دو گھنٹے میں حل ہوا ، پھر اصول بزدوی کا مطالعہ شروع کیا ، قاضی صاحب کا خیال تھا کہ مولانا فقیہ حیرتی اس کتاب کو تقریباً بیس بار پڑھا چکے ہیں ہو سکتا ہے کہ اسی کتاب کا کوئی مسئلہ زیر بحث آجائے ، دوران مطالعہ اس میں بھی ایک مشکل مقام آیا جو صبح ہوتے ہوتے حل ہوا ، دوسرے دن دربار میں علما ، فضلا جمع ہوئے اور سلطان ابراہیم کے سامنے دونوں میں مناظرہ و مباحثہ ہوا جس میں قاضی صاحب منصور و ظفریاب ہوئے ۔

یہ واقعہ بھی قاضی صاحب کے عالمانہ اخلاق کا آئینہ دار ہے ، اگر چہ آپ جملہ علوم و فنون کے مصنف تھے ، مگر جب آزمائش کا وقت آیا تو اپنے علم پر مغرور نہیں ہوئے ، بلکہ اپنے شاگرد سے علمی تعاون کے طلبگار ہوئے ، قاضی صاحب نے اسی شاگرد کے لیے ”شرح اصول بزدوی“ لکھی تھی[22] [23] ۔

قاضی صاحب کا سفر آخرت ترمیم

25 رجب المرجب 849ھ مطابق 27 اکتوبر 1445ء میں قاضی شہاب الدین دولت آبادی کی وفات ہوئی اور جونپور میں اٹالہ مسجد کے جنوب میں مدفون ہوئے[24]

حوالہ جات ترمیم

  1. جلد ثالث نزهة الخواطر (1999ء)۔ 1۔ بیروت: دار ابن حزم۔ صفحہ: 233 
  2. في آثار ہندوستان سبحۃ المرجان۔ 2۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی: معہد الدراسات الاسلامیہ۔ صفحہ: 95 
  3. جلد ثالث نزھة الخواطر (1999ء)۔ 3۔ بيروت: دار ابن حزم۔ صفحہ: 233 
  4. از ساجد علی مصباحی ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی۔ 4۔ حیدرآباد دکن: اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن۔ صفحہ: 33 
  5. از مولوی رحمان علی تذکرۂ علماے ہند (1914ء)۔ 5۔ لکھنؤ: مطبع منشی نولکشور۔ صفحہ: 88 
  6. از مولوی رحمان علی تذکرۂ علماے ہند۔ 6۔ لکھنؤ: مطبع منشی نولکشور۔ صفحہ: 88 
  7. از مولانا خیر الدین محمد جونپوری تذکرۃ العلماء۔ 7۔ بنیا پوکھر، کلکتہ: الطافی پریس نمبر 33۔ صفحہ: 13 
  8. جلد ثانی تاریخ فرشتہ۔ 8۔ لکھنؤ: مطبع منشی نولکشور۔ صفحہ: 306 
  9. از مولوی رحمان علی تذکرۂ علماے ہند۔ 9۔ لکھنؤ: مطبع منشی نولکشور۔ صفحہ: 13 
  10. از مولانا خیر الدین محمد جونپوری تذکرۃ العلماء۔ 10۔ بنیا پوکھر، کلکتہ: الطافی پریس نمبر 33۔ صفحہ: 13 
  11. از ملا قاسم ہندو شاہ تاریخ فرشتہ جلد ثانی۔ 11۔ لکھنؤ: مطبع منشی نولکشور۔ صفحہ: 306 
  12. از ملا قاسم ہندو شاہ تاریخ فرشتہ جلد ثانی۔ 12۔ لکھنؤ: مطبع منشی نولکشور۔ صفحہ: 306 
  13. فی بیان طوائف صوفی جلد 2 لطائف اشرفی۔ 13۔ فردوس کالونی کراچی: مکتبہ سمنانی 14/17۔ صفحہ: 104، 105 
  14. فی بیان طوائف صوفی جلد 2 لطائف اشرفی۔ 14۔ فردوس کالونی، کراچی: مکتبہ سمنانی 14/17۔ صفحہ: 105، 106 
  15. جلد 2 لطائف اشرفی۔ 15۔ فردوس کالونی کراچی: مکتبہ سمنانی 14/17۔ صفحہ: 106 
  16. جلد 1 لطائف اشرفی۔ 16۔ فردوس کالونی، کراچی: مکتبہ سمنانی 14/17۔ صفحہ: 207 ، 208 
  17. از اطہر مبارکپوری دیار پورب میں علم اور علما۔ 17۔ جامعہ نگر، دہلی 25: البلاغ پبلیکیشنز۔ صفحہ: 188 ، 189 
  18. از شیخ عبد القدوس گنگوہی انوار العیون فی اسرار المکنون۔ 18۔ لکھنؤ: مطبع گلزار محمدی۔ صفحہ: 33، 34 
  19. از مولانا خیر الدین محمد جونپوری تذکرۃ العلماء۔ 19۔ بنیاپوکھر، کلکتہ: الطافی پریس نمبر 33۔ صفحہ: 18 
  20. جلد 3 نزھۃ الخواطر (1999)۔ 20۔ بیروت: دار ابن حزم۔ صفحہ: 285 
  21. از شیخ عبد الحق محدث دہلوی اخبار الاخیار فی اسرار الابرار (1891ء)۔ 21۔ دہلی: مطبع مجتبائی۔ صفحہ: 70 
  22. دیار پورب میں علم اور علما۔ جامعہ نگر نئی دہلی 25: البلاغ پبلیکیشنز۔ صفحہ: 194 ، 195 
  23. عبد الحی رائے بریلوی (1999)۔ نزہۃ الخواطر۔ 3۔ بیروت ، لبنان: دار ابن حزم۔ صفحہ: 236 
  24. از مولوی رحمان علی تذکرۂ علماے ہند۔ 22۔ لکھنؤ: مطبع منشی نولکشور۔ صفحہ: 89