سید علی نقی نقوی نجفی
سید العلماء سید علی نقی نقوی نجفی معروف بہ نقن صاحب ، برصغیر کے ایک معروف شیعہ عالم دین تھے جنھوں نے 26 رجب المرجب سنہ 1323ھ کو ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی ـ
سید علی نقی نقوی نجفی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 26 دسمبر 1905ء [1] لکھنؤ |
وفات | 18 مئی 1988ء (83 سال)[1] لکھنؤ |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
پیشہ | الٰہیات دان |
درستی - ترمیم |
ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار اور بڑے بھائی سے حاصل کی پھر مزید علم حاصل کرنے کے لیے نجف تشریف لے گئے جہاں اپنی زندگی کا ایک نمایاں باب رقم کیا اور پانچ سال کی مدت میں اس دور کے بزرگ علما سے کسب فیض کے بعد بھارت واپس آ گئے ،ـ جہاں علوم اہل بیت اطہارعلیہم السلام کی تبلیغ و ترویج میں مشغول ہو گئے ـ
اس دوران آپ نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں ـ
آپ نے اپنی زندگی میں مختلف عناوین پر جو کتابیں یا رسالے تحریر کیے ان کی تعداد 411 کے قریب ہے جن میں سے کچھ عناوین کئی جلدوں پر مشتمل ہیں ـ
زندگی نامہ
ترمیمپیدائش
ترمیم26/ رجب سنہ 1323ھ مطابق سنہ 1905ء کو آپ ہندوستان کے شہرلکھنؤمیں ممتاز العلماء ابو الحسن منن صاحب کے یہاں پیدا ہوئے جوشمس العلماء سید ابراہیم بن جنت مآب سید تقی بن سید العلماء سید حسین علیین مکان ابن غفران مآب دلدار علی کے فرزند تھے ـ
نسب نامہ
ترمیمسید العلماء مولانا سید علی نقی نقوی عرف نقّن ابن ممتاز العلماء مولانا سید ابو الحسن عرف منّن ابن سید العلماء مولانا سید محمد ابراہیم فردوس مکان ابن ممتاز العلماء سید محمد تقی جنت مآب ابن سید العلماء مولانا سید حسین علیین مکان ابن مجدد الشریعۃ آیۃ اللہ مولانا سید دلدار علی المشہور بہ غفران مآب ابن سید محمد معین ابن سید عبد الہادی ابن سید ابراہیم ابن سید طالب ابن سید مصطفیٰ ابن سید محمد ابن سید ابراہیم ابن سید جلال الدین ابن سید زکریا ابن سید خضر ابن سید تاج الدین ابن سید نصیر الدین ابن سید علیم الدین ابن سید علم الدین ابن سید شرف الدین ابن سید نجم الدین سبزواری ابن سید علی ابن سید ابو علی ابن سید ابو یعلی محمد ابن سید حمزہ ابو طالب ابن سید محمد ابن سید طاہر ابن سید جعفر الزکی ابن امام علی النقی ع
تعلیم و تربیت
ترمیمآپ کے والد ماجد 1327ھ میں اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کراپنی مزید تعلیم اور تکمیل علوم کے لیے نجف تشریف لے گئے ـ
آپ کی عمر 9/ برس کی تھی جب سنہ 1332ھ میں آپ کے والد گرامی ہندوستان واپس آئے ـ اس وقت تک آپ کی صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں ختم ہوئی تھیں ـ
لکھنؤ واپس آکر آپ کے والد صاحب نے آپ کی تعلیم اپنے ذمہ رکھی ـ
والد کی علالت کے زمانے میں آپ کے برادر معظم مولانا سید محمد عرف میرن صاحب آپ کو پڑھاتے تھے ـ
اساتذہ
ترمیملکھنؤ میں مندرجہ ذیل حضرات سے آپ نے کسب فیض کیا :
1: آپ کے والد بزرگوار ممتاز العلماء ابو الحسن (عرف : منن صاحب)
2: مولانا سید محمد (عرف : میرن صاحب)
سفر عراق اور تحصیل علم
ترمیمسید العلماء اپنی زندگی میں دو مرتبہ عراق تشریف لے گئے ،ـ پہلی مرتبہ اپنے والد محترم کے ساتھ گئے اور دوسری مرتبہ سنہ 1345ھ مطابق 1927ء میں خود اپنی تعلیم کی تکمیل کے لیے گئے ـ
آپ نے عراق میں صرف پانچ سال کا عرصہ گزارا ،ـ اس پانچ برس میں آپ نے فقہ واصول فقہ میں وہ ملکہ پیدا کر لیا کہ اس دور میں آپ کی علمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس زمانے کے 3/ بزرگ مجتہدین یعنی آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی، آیت اللہ محمد حسین نائینی اور آیت اللہ سید ضیاء الدین عراقی نے آپ کو واضح الفاظ میں اجتہاد کے اجازے دے کر آپ کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ـ
علم کلام اور دفاع مذہب کی صلاحیت میں آپ کا لوہا علامہ سید محسن امین عاملی، شیخ جواد بلاغی، محمد حسین کاشف الغطاء اور سید عبد الحسین شرف الدین موسوی نے مانا ـ
اجازۂ اجتہاد
ترمیممندرجہ ذیل فقہاء نے آپ کو اجازۂ اجتہاد سے نوازا :
1: آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی
2: آیت اللہ محمد حسین نائینی
3: آیت اللہ سید ضیاء الدین عراقی
4: آیت اللہ شیخ عبد الکریم حائری یزدی(مؤسس حوزہ علمیہ قم)
6: آیت اللہ ابراہیم معروف بہ مرزائے شیرازی
7: آیت اللہ شیخ ہادی کاشف الغطاء
9: آیت اللہ شیخ محمد حسین تہرانی
وفات
ترمیمیکم شوال (بروز عید الفطر) سنہ 1408ھ مطابق 18 مئی سنہ 1988ء کو لکھنؤ میں آپ کا انتقال ہوا ،ـ اور وہیں آپ کو دفن کیا گیا ـ
علمی خدمات
ترمیمآپ بے پناہ علمی صلاحیتوں کے مالک تھے ـ ایک ہی وقت میں دو مدرسوں (مدرسہ ناظمیہ اور سلطان المدارس) میں پڑھتے تھے اور آپ نے مدرسہ ناظمیہ کے فاضل اور سلطان المدارس کے سند الافاضل کا ایک ہی ساتھ امتحان دیا ـ
پھر دوسرے سال دونوں درجوں کے ضمیموں کا اور تیسرے سال ممتاز الافاضل اور صدر الافاضل کا ایک ساتھ امتحان دیا ـ
طالب علمی میں ہی رسالہ سر فراز لکھنؤ، الواعظ لکھنؤ اور شیعہ لاہور میں آپ کے علمی مضامین شائع ہونے لگے تھے ـ
3 یا 4 کتابیں بھی عربی اور اردو میں اسی زمانے میں شائع ہوئیں ـ
تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا ،ـ کچھ عرصے تک بحثیت مدرس، مدرسہ ناظمیہ میں بھی معقولات کی تدریس کی ،ـ
آپ کے اس دور کے شاگردوں میں مولانا محمد بشیر (فاتح ٹیکسلا)، علامہ سید مجتبی حسن کامون پوری اورحیات اللہ انصاری قابل ذکر ہیں ـ
عربی ادب میں آپ کی مہارت اور فی البدیہہ قصائد ومراثی لکھنے کے اسی دور میں بہت سے مظاہرے ہوئے اور عربی شعر و ادب میں آپ کے اقتدار کو شام، مصر اور عراق کے علما نے قبول کیا ـ
اسی مہارت کو قبول کرتے ہوئے علامہ عبد الحسین امینی نے آپ کے قصائد کے مجموعے میں سے حضرت ابو طالب کی شان میں آپ کے قصیدے کو اپنی عظیم شاہکار کتاب (الغدیر) کی زینت قرار دیا ـ [2]
نیز آقا بزرگ تہرانی نے شیخ طوسی کے حالات کو آپ ہی کے لکھے ہوئے مرثیے پر ختم کیا ـ
اسی طرح آپ کی مزید علمی صلاحیتوں کا مشاہدہ عراق میں حصول علم کے ابتدائی ایام کی تالیفات سے کیا جا سکتا ہے جہاں آپ نے سب سے پہلے عربی میں وہابیت کے خلاف ایک کتاب تصنیف کی جو کشف النقاب عن عقائد ابن عبد الوهاب کے نام سے شائع ہوئی ـ [3][4]
عراق وایران کے مشہور اہل علم نے اس کتاب کو ایک شاہکار قرار دیا ـ
دوسری کتاب اقالۃ العاثر فی اقامۃ الشعائر امام حسین کی عزاداری کے جواز میں لکھی [5][6]
نیز تیسری کتاب چار سو صفحات پر مشتمل السیف الماضی علی عقائد الاباضی خوارج کے عقائد کی رد میں لکھی ـ [7]
خطابت
ترمیمسید العلماء کی خطابت کا ایک خاص رنگ تھا جو عبارت آرائی وسست نکتہ آفرینی کی بجائے علم اور تحقیق پر مبنی تھا ـ ایک گھنٹہ کی تقریر میں حقائق کے بے شمار دروازے وا ہوجاتے تھے ـ
آپ کی تقریر اور تحریر میں بہت کم فرق ہوتا تھا ـ
دوسری خاص بات آپ کی تقریر میں یہ تھی کہ ہرمذہب وملت کا ماننے والا اسے اطمینان قلب کے ساتھ سن سکتا تھا اور فیض یاب ہو سکتا تھا ـ کسی جملہ سے کسی کی دل آزاری کا خطر ہ نہیں تھا ـ
تدریس
ترمیملکھنؤ یونیورسٹی : عراق سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد سنہ 1932ء میں آپ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے وابستہ ہو گئے اور ستائیس سال تک طلاب کو فیض پہنچاتے رہے ـ
علی گڑھ یونیورسٹی : سنہ 1959ء میں علی گڑھ یونیورسٹی نے آپ کو شیعہ دینیات کے شعبے میں بحیثیت ریڈر مدعو کیا اور آپ علی گڑھ منتقل ہو گئے ـ پھر آپ شیعہ دینیات کے پروفیسر بنائے گئے ـ
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ نے مستقل طور پر علی گڑھ میں ہی سکونت اختیار کرلی ـ
سنہ 1977ء میں لکھنؤ کے کچھ شرپسندوں نے آپ کے لکھنؤ کے مکان میں آگ لگادی ،ـ جس میں ہزاروں قیمتی کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں ـ
اسی میں آپ کی عربی تصانیف کے غیر مطبوعہ مسودات بھی خاکستر ہو گئے جس کا آپ کو آخر عمر تک صدمہ رہا ـ
تصنیفات
ترمیمآپ دین کے نشر و اشاعت کے لیے خطابت کے بہ نسبت تدریس اور تحریر کو زیادہ ترجیح دیتے تھے جس کا اندازہ آپ کی کتب کی طویل فہرست کو دیکھ کر لگایا سکتا ہے ـ
آپ نے اپنی تمام مصروفیات کے باوجود، خاص طور پر اردو زبان میں نہایت اہم کتب، رسائل اور مضامین کا ذخیرہ آنے والی نسلوں کے لیے صدقۂ جاریہ کے عنوان سے چھوڑا ہے ـ
اس کے علاوہ عربی زبان میں بھی عمدہ کتابیں تصنیف کیں ـ
آپ کے قلم سے تحریر ہونے والی کتب، رسائل اور مضامین کی کل تعداد فہرست کتابچہ سید العلماء کے مطابق 141 بیان کی گئی ہے ـ [8]
حالانکہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ـ
اردو تحریریں
ترمیمعلامہ سید علی نقی اعلی اللہ مقامہ کی اردو کتب کی فہرست :
- (الف)
- آثار قدرت
- اصول دین اور قرآن
- اسلام کا پیغام پس افتادہ اقوام کے نام
- امامت ائمہ اثنا عشر اور قرآن
- اسلام دین عمل ہے۔
- اسلامی کلچر کیا ہے؟
- اسلامی نظریہ حکومت
- اسلامی تمدن
- اسلام اور انسانیت
- اسلام کی حکیمانہ زندگی
- اسلامی عقائد
- اصول اور ارکان دین
- الدین القیم
- اسوہ حسینی
- امام حسین کی شہادت اور دستور اسلامی کی حفاظت
- اسیری اہل حرم
- اثبات پردہ
- اشک ماتم
- اتحاد بین المسلمین (درد مندوں کی آوازیں)
- ابو الائمہ کے تعلیمات
- اگر واقعہ کربلا نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟
- استقامت علی الحق کا معیاری نمونہ
- التوائے حج پر شرعی نقطہ نظر سے بحث
- اسلام کی فکر حاضر میں موزونیت
- امام رضا
- امام منتظر
- امامت
- انصار حسین
- ایمان بالغیب
- اسلام کا نظریہ حکومت
- اسلامی قانون وراثت
|
- (ب)
- بنی امیہ کی عداوت اسلام کی مختصر تاریخ
- بین الاقوامی شہید اعظم حسین بن علی
- (پ)
- پانچویں امام
- پیغام حسین بہ عالم انسانیت (فارسی)
- (ت)
- توحید
- تقیہ
- تاریخ شیعہ کا مختصر خاکہ
- تاریخ تدوین حدیث
- تحقیق اذان
- تحفۃ العوام مطابق فتوائے سید العلماء
- تراجم قرآن پاک بزبان اردو (سولہ حصے)
- ترجمہ سید علی نقی بقلمہ (ہماں ص117و393)
- تذکرہ حفاظ شیعہ (دو جلدیں)
- تاجدار کعبہ
- تاریخ اسلام میں واقعہ کربلا کی اہمیت
- تاریخ اسلام (چار جلدوں میں)
- تعزیہ داری کی مخالفت کا اصل راز
- تحریف قرآن کی حقیقت
- تجارت اور اسلام
- تفسیر قرآن فصل الخطاب، (سات جلدوں میں)
- تقریرات بحث آیت اللہ نائینی فی الاصول
- (ث)
- ثنائے پروردگار (از کلام امیر المومنین)
|}
علم واعتقاد کی منزل میں
|
|
کلام رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاص انفرادیت
|
|
|
|
|
|
عربی تحریریں
ترمیمعلامہ سید علی نقی اعلی اللہ مقامہ کی عربی کتب کی فہرست :
- آیۃ اللہ النائینی وموقفہ العلمی بین الطائفہ(عربی)
- اقالۃ العاثر فی اقامۃ الشعائر (عربی)
- البیت المعمور فی عمارۃ القبور(عربی)
- پیغام حسین بعالم انسانیت (فارسی)
- تفسیر قرآن (عربی)
- تلخیص عماد الاسلام (عربی)
- جواب رسالۃ الی صاحب ھذہ المجموعۃ من صدیقہ العلامۃ الحجۃ السید علی نقی النقوی اللکھنوی(مکتبۃ بحرالعلوم 289)
- جہاد مختار
- الحجج والبینات (عربی)
- حجج ومعاذیر (عربی واردو)
- حاشیۃ الکفایہ فی مباحث الفاظ للعلامۃ المیرزا ابو الحسن المشکینی (عربی)
- حول کتاب اعیان الشیعہ (عربی)
- حواشی علی الرسائل (عربی)
- حواشی علی المکاسب (عربی)
- الراحل العظیم (عربی)
- الرد القرآنیہ علی الکتاب المسیحیۃ (عربی)
- رسالۃ ابی عبد اللہ الحسین(عربی)
- روح الادب شرح الامامیۃ العرب(عربی)
- رسالۃ من ابن حسن نجفی (مکتبۃ بحر العلوم 199)
- رسالۃ الی السید محمد صادق بحرالعلوم (للسید محمد تقی بحرالعلوم) (مکتبۃ بحرالعلوم 199)
- عدۃ رسائل للسید محمد صادق بحرالعلوم وفیھا تواریخ لوفاۃ شیخھم الطھرانی (مکتبۃ بحرالعلوم 199)
- رسالۃ فی الاجتہاد والتقلید (عربی)
- رسالۃ المولف سید علی نقی 27 ذی القعدہ (مکتبۃ بحرالعلوم 203)
- رسالۃ السید علی نقی للشیخ الاوردبادی (مکتبۃ بحرالعلوم 203)
- رسالۃ السید علی نقی الی الشیخ الاوردبادی (مکتبۃ بحرالعلوم 205)
- رسالۃ السید علی نقی النقوی (مکتبۃ بحرالعلوم 206)
- رسالہ شریفہ فی تراجم مشاھیر علما الھند (ایضاً؛ ص115و392)
- رسالۃ فی نیت الصوم (عربی)
- زبدۃ الکلام او تلخص عماد الاسلام (عربی)
- السبطان فی موقفھما (عربی)
- السیف الماضی عن عقائد الاباضی (عربی) (فہرست بحرالعلوم ص68)
- شھادۃ بحق السید النقوی من الشیخ راضی آل یاسین (مکتبۃ بحرالعلوم 206)
- العقود الذھبیہ فی السلسلۃ النسبیہ (عربی اشعار) (ہماں ص117)
- السید علی نقی النقوی الکھنوی نثرا (مکتبۃ بحرالعلوم 242)
- السید علی نقی النقوی الکھنوی (مکتبۃ بحرالعلوم 248)
- الکلام علی الفقہ الرضوی (عربی)
- کتاب صدیقنا العلامۃ السید علی نقی النقوی اللکھنوی الذی کتبہ لنا من الھند یعزینا فیہ بوفاۃ ابن عمنا المرحوم السید علی وصدیقنا المیرزا محمد علی الاوردبادی وکانت وفاتھما متقاربۃ فی سنۃ 1380 (مکتبۃ بحرالعلوم282)
- الکراس الثالث (مکتبۃ بحرالعلوم 200)
- کشفالنقاب عن عقائد ابن عبد الوہاب (عربی) (یہ ان کی پہلی تصنیف تھی)
- لمحات حول السفور والحجاب (عربی)
- المتحف العربی من الادب العصری (عربی)
- المتحف العربی (عربی)
- مقدمہ تفسیر القرآن (عربی)
- متجمع التبثیر(عربی)
- مشقت النذیر فی المسئلۃ التصویر(عربی)
- مسئلۃ فی الخیر والشر(عربی)
- النجعۃ فی اثبات الرجعہ (عربی)
- نظرات بحاثہ فی الاخبار الثلاثہ (فہرست مکتبہ العلامہ السید محمد صادق بحرالعلوم ص108)
- نجف ام طف
- نقد الفرائد
- وجیزۃ الاحکام (عملیہ)
- الوضاعون للاحادیث فی مذمۃ علی علیہ السلام ومن کان منحرفا عنہ ومبغضا (مکتبۃ بحرالعلوم 289) [9]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb17112997p — بنام: ʿAlī Naqī al- Naqawī — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ الغدیر، ج: 7، ص: 405
- ↑ معجم المؤلفین، عمر کحالہ، ج: 10، ص: 270
- ↑ علی فی الکتاب و السنۃ، حاج حسین شاکری، ج: 5، ص: 229
- ↑ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ (آقا بزرگ تہرانی)، ج: 2، ص: 263
- ↑ معجم المطبوعات النجفیہ، محمد ہادی امینی، ص: 88
- ↑ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ (آقا بزرگ تہرانی)، ج: 12، ص: 288، ش: 1938
- ↑ خورشید خاور (تذکرہ علما ہند و پاک)، ص: 263 تا 268
- ^ ا ب مجلہ شش ماہی مآب، شمارہ: 1