لیبیا خانہ جنگی (2011ء)

(لیبیا جنگ 2011ء سے رجوع مکرر)

2011ء میں لبیا میں باغیوں کی طرف سے صدر قذافی کی فوجوں سے جھڑپیں شروع ہوئیں۔ تیونس اور مصر میں عوام کے مظاہروں سے حکومت بدلنے میں کامیابی کے بعد لبیا میں بعض گروہوں نے مسلح جنگ شروع کر کے لبیا کے بعض شہروں پر قبضہ کر لیا۔ قذافی کی فوجوں نے جوابی کارروائی کر کے اکثر علاقوں کو واپس لے لیا مگر بنغازی کے شہر پر باغیوں کا قبضہ برقرار تھا اور قریب تھا کہ سرکاری فوج اس کو بھی واپس حاصل کر لے۔ باغیوں کی حمایت کو بنیاد بنا کر فرانس، برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور یورپ کے دوسرے طفیلی ملکوں نے لبیا پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ امریکا نے خودکش صاروخوں سے حملے کا آغاز کیا۔[1] کینیڈا کے وزیر اعظم نے لبیا پر باقاعدہ "اعلان جنگ" کیا مگر سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا۔[2] مغربی ممالک نے حملوں سے پہلے اقوام متحدہ مجلسِ تحفظ سے قرارداد منظور کرائی۔ روسی وزیر اعظم پیوٹن نے اس قرارداد کو 'کروسیڈ کے لیے پکار' کی ماند قرار دیا۔[3] اطلاعات کے مطابق باغیوں کا ایک سربراہ امریکی سی آئی اے کا کارندہ ہے۔[4] باغی گروہوں میں سابق شاہ ادریس کے کچھ قبائلی اور امریکی القاعدہ کے لڑاکا شامل ہیں۔[5]

مسلم رجحانات

ترمیم

لیبیا پر قذافی کی حکومت کے بارے میں لیبیا کے عوام راضی ہیں یا نالاں یا یہ کہ دیگر مسلم ممالک کے مسلم عوام (بالخصوص شیعہ، سنی) قذافی کے بارے میں کیا رجحانات رکھتے ہیں اس بات سے قطع نظر کرتے ہوئے موجودہ فضائی حملوں کے بارے میں مسلم عوام میں اتفاقی رجحانات کم ہی نظر آتے ہیں؛ گویا قذافی کو رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ خود مسلم عوام کا حق تھا اور اپنی پسندیدہ یا غیر پسندیدہ شخصیت کی خواہش کو بنیاد بنا کر غیر مسلم ممالک کے حملے کو مسلمان جس نظر سے دیکھتے ہیں وہ الگ، خود حملہ آوروں میں شامل انگلستانی سیاست دان Boris Johnson کے مطابق NATO کے مستقل حملے قذافی کی حمایت میں اضافہ کریں گے۔[6] نفسیاتی طور پر افغانستان اور عراق سے خوفزدہ امریکی اور انگلستانوی، لیبیا پر حملے کو عالمگیری حمایت میں ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ہیں اور 29 مارچ کو ہونے والی موتمر لندنی۔[7] کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے[8]

جنگی مفادات

ترمیم

سفید گھر کے مطابق لیبیا پر فضائی حملے ایک ' محدود عسکری فعل ' کے زمرے میں رکھے گئے ہیں۔[9] اور دانشوروں کے مطابق اقوام متحدہ کی 1973 قرارداد نے امریکی انگلستانی حملہ آوروں کو اقوام متحدہ کی انسانیت کے نام پر جہاد کرنے والی عالمگیر افواج میں تبدیل کر دیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے متعدد جنگی مفادات حاصل ہوں گے ماسوائے شہریوں کی حفاظت کے [10][11]

امریکی-سعودی سودے بازی

ترمیم

asia times نامی آن لائن جریدے میں لیبیا پر امریکی اور سعودی سودے بازی کے انکشاف کو پیش کرنے کا دعوی کیا گیا ہے جس کے مطابق سعودی حکومت بحرین میں جمہوریت طلب تحریک کو کچلنے کے انعام کے طور پر قذافی سے چھٹکارا پا سکتی ہے۔ جریدے کے مطابق ؛ جامعہ الدول العربيہ کی جانب سے لیبیا پر نا-پرواز منطقہ (no-fly zone) کی منظوری ایک مذاق قرار دی گئی ہے جس میں 22 میں سے محض 11 ارکان نے شرکت اور صرف 9 نے اس کے لیے رائے دی، جریدے کے الفاظ میں

جامعہ الدول العربیہ کی جانب سے نا-پرواز منطقہ کی کامل تائید ایک افسانہ ہے۔ کل 22 ارکان میں سے صرف 11 رائے شماری پر موجود تھے۔ ان میں چھے، امریکی حمایت یافتہ خلیج شاہی سلطنتیں/شیخ سلطنتیں، خلیج تعاون تنظیم (GCC) ارکان تھے، جن میں سعودی عرب سب سے بڑا کتا ہے۔ شام اور الجزائر کی رائے مخالفت میں تھی۔ اجازت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب کو صرف تین دیگر ارکان کو ورغلانا پڑا۔[12]

سابق امریکی عہدے دار فلپ زیلیکوو نے یاددہانی کرائی کہ جنگ کا مقصد عرب دنیا کی تقسیمِ نو کرنا اور تیل کی دولت کو نجی ہاتھوں میں منتقل کرنا ہے۔[13]

اپریل 2011ء تک جنگ میں نتیجہ نہ نکلنے کے بعد امریکی اور مغربی رہنماؤں نے اوبامہ کو قذافی کو قتل کرنے کے مشورے دیے۔[14] 30 1پریل 2011ء کو امریکا نے قذافی کے بیٹے کے گھر فضائی حملہ کر کے قذافی کو قتل کرنے کی کوشش کی، جس میں قذافی کا بیٹا سیف العرب اور قذافی کے پوتے ہلاک ہو گئے۔[15] 12 مئی 2011ء کو امریکیوں نے قذافی کو قتل کرنے کے لیے دوسرا فضائی حملہ کیا مگر قتل میں ناکامی ہوئی۔[16] نیٹو فضائیہ شہروں پر بمباری کا دائرہ وسیع کرتی گئی۔ اوبامہ نے کہا کہ اسے قانوناً 60 دن گذر جانے کے بعد بھی جنگ جاری رکھنے کے لیے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ حملہ آور کو تیل کی دولت ہاتھ لگنے کے چکر میں اس معرکہ میں شامل ہیں۔[17] جون 2011ء تک کامیابی نہ ہونے پر مغربی اتحادیوں نے لیبیا کے دار الخلافہ طرابلس پر وحشیانہ بمباری کرتے ہوئے حکومتی عمارتوں کو تباہ کر دیا۔[18] جون 2011ء میں نیٹو کے ہوائی جہاز طرابلس میں لیبیا سپاہوں کے لیے پیغام بر پرچیاں گرا رہے تھے کہ اپنی چوکیاں چھوڑ دو یا بربادی کے لیے تیار ہو جاؤ۔[19] سرت پر نیٹو اور باغیوں نے قبضہ کرنے کے بعد صدر معمر القذافی کو قتل کر دیا۔

غارت

ترمیم

جولائی 2011ء میں مغربی ممالک نے لیبیا کی تیل کی تنصیبات پر فضائی حملے کر کے تباہ کرنا شروع کر دیا۔[20] اگست 2011ء فضائی حملے میں نیٹو نے درجنوں شہریوں کو قتل کر دیا۔[21] اگست 2011ء میں نیٹو کی بھر پور مدد سے باغی طرابلس میں داخل ہو کر قابض ہو گئے اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔[22] معمر قذافی روپوش ہو گیا۔ ستمبر 2011ء میں باغی، برطانوی، قطری اور کرائے کے لڑاکا نے سرت کا محاصرہ کر لیا اور نیٹو نے شہر پر فضائی بمباری شروع کر دی۔[23] جس سے شہر تباہ ہو گیا اور باسی پناہ گزیں بن گئے۔ تباہی کی خبریں مغربی ابلاغ نے چھپا کر باغیوں کی فتح قرار دیا۔[24] سرت میں باغی اور نیٹو اجتماعی قتل میں بھی مشغول رہے۔[25] ملک پر قبضہ کے بعد امریکا اور یورپ کی پشت پنہائی والے باغیوں نے لیبیا کے شہریوں کا انتقامی قتل کا بازار گرم کیا۔[26]

پروپیگندا

ترمیم

ماضی کی طرح مغربی سیاست دانوں اور ذرائع ابلاغ نے معمر قذافی کے خلاف من گھرت الزامات لگائے جو غلط ثابت ہوئے۔[27] جون 2011ء میں نیٹو کے لیبیا پر 100 دن کی بمباری کے بعد بین الاقوامی عدالت جرائم نے اعلان کیا کہ وہ لیبیا کے صدر معمر قذافی کو گرفتار کرنا چاہے ہے۔[28]

مالی قبضہ

ترمیم

جنگ کا آغاز کرتے ہوئے مغربی ممالک نے لیبیا کے کئی بلین ڈالر جو ان کے بنکوں میں جمع تھے پر قبضہ کر لیا، بعد میں اپنی مرضی سے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے باغیوں کو دینے کا وعدہ کیا۔[29] لیبیا پر نیٹو اور باغیوں کے قبضہ کے بعد یورپی کمپنیوں نے لیبیا کے تیل اور گیس کے زخائر پر قبضہ جمانا شروع کر دیا۔۔[30] اکتوبر 2011ء میں نیٹو اور باغیوں کے ہاتھوں معمر قذافی کے قتل کے بعد برطانوی حکومت نے اپنے سوداگروں کو تلقین کی کہ لیبیا کے سفر کا قصد باندھیں اور مالی لوٹ مار میں حصہ لیں۔[31]

وجوہات

ترمیم

لیبیا کے صدر معمر القذافی نے 2003ء میں امریکا اور مغربی ممالک کے مطالبات مان لیے تھے، اپنا جوہری پروگرامنگ بند کر دیا اور مغربی شراکتوں کو لیبیا میں کاروبار کرنے کی کھلی چھٹی دے دی، مگر 2009ء میں قذافی تیل کے زخائر قومیانے کی باتیں کرنے لگا اور مغربی حکومتوں کی طرف سے بے عزتی پر ان ملکوں کی شراکتوں پر پابندیاں لگانی شروع کر دی۔ ان وجوہات کی وجہ سے امریکی اور مغربی حکومتیں نے قذافی کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔[32]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Drones' Suicidal Cousins Lead Libya Attack"۔ وائرڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-03-22
  2. "Air strikes on Libya an 'act of war': PM Harper"۔ دی وانکورر سن۔ 19 مارچ 2011ء۔ 2011-03-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-03-20
  3. "Putin likens U.N. Libya resolution to crusade calls"۔ یاہو خبریں۔ 21 مارچ 2011ء۔ 2011-03-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-03-22
  4. پیٹرک مارٹن۔ "American media silent on CIA ties to Libya rebel commander"۔ عالمی اشتراکی موقع۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-03-30
  5. ویبسٹر ٹراپلے (4 اپریل 2011ء)۔ "Al Qaeda: Pawns of CIA Insurrection from Libya to Yemen"۔ پرزن پلینٹ۔ 2011-10-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-28
  6. "the telegraph: libya live 10:56AM BST 31 Mar 2011"۔ 2011-03-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-04-01
  7. london conference: bbc 29 March
  8. another colonial trick: khilafah[مردہ ربط]
  9. سفید گھر (white house) کے موقع پر بیان
  10. "asia time article"۔ 2011-04-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-04-01
  11. "conn hallinan: counterpunch"۔ 2011-05-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-04-01
  12. "exposed: the us-saudi libya deal, asia times"۔ 2011-04-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-04-05
  13. "Libya as a model for redividing the Middle East"۔ عالمی اشتراکی موقع۔ 24 اگست 2011ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-08-24
  14. "Libya: western leaders call for Nato to target Gaddafi"۔ دی ٹیلیگراف۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-04-25
  15. "Nato air strike 'kills Gaddafi's son'"۔ دی انڈپنڈنٹ۔ 2011-05-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-05-01
  16. "WRAPUP 9-NATO hits Gaddafi compound, rebels seek aid"۔ رائٹر۔ 12 مئی 2011ء۔ 2011-05-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-05-12
  17. "Walkom: The Libyan war that should not have been"۔ Toronto Star۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-05-26
  18. "NATO's terror bombing of Libya"۔ عالمی اشتراکی موقع۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-06-09
  19. "Tim Harper: Civility trumps clarity in Commons debate on Libya"۔ Toronto Star۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-06-15
  20. "Nato strikes at Libya's oil in bid to oust Gaddafi"۔ دی انڈپنڈنت۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-07-08
  21. "NATO airstrike kills dozens of civilians east of Tripoli"۔ عالمی اشتراکی موقع۔ 10 اگست 2011ء
  22. "The rape of Libya"۔ عالمی اشتراکی موقع۔ 26 اگست 2011ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-08-26
  23. "NATO prepares bloodbath in Sirte"۔ عالمی اشتراکی موقع۔ 1 ستمبر 2011ء
  24. "Sirte destroyed by NTC-NATO offensive in Libya"۔ عالمی اشتراکی موقع۔ 18 اکتوبر 2011ء
  25. "Bodies of 53 'executed' Gaddafi loyalists discovered"۔ انڈپنڈنت۔ 25 اکتوبر 2011ء۔ 2011-10-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  26. "Patrick Cockburn: This was always a civil war, and the victors are not merciful"۔ انڈپنڈنت۔ 24 نومبر 2011ء۔ 2011-11-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  27. "Amnesty questions claim that Gaddafi ordered rape as weapon of war"۔ دی انڈپنڈنٹ۔ 24 جون 2011ء۔ 2012-08-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-06-23
  28. "ICC orders arrest of Gaddafi as NATO bombings reach 100th day"۔ عالمی اشتراکی موقع۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-06-28
  29. "Harper to push release of frozen Libyan funds"۔ مانٹریال گزٹ۔ ا ستمبر 2011ء {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |date= (معاونت)[مردہ ربط]
  30. "Heritage Oil wastes no time in snapping up Libyan assets"۔ گارجین۔ 4 اکتوبر 2011ء
  31. "British firms urged to secure Libya contracts"۔ اندپندنت۔ 21 اکتوبر 2011ء۔ 2011-10-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  32. تھامس والکم (21 اکتوبر 2011ء)۔ "Walkom: What Harper and Co. get from the Libyan war"۔ ٹورانٹو اسٹار۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-29