مائی جندو(1920-2022) (انگریزی: Mai Jindo) (پیدائش: 1920ء) پاکستان کے ٹنڈو بہاول کی ایک خاتوں ہے جس کے دو بیٹوں، داماد اور سات دیہاتیوں کو پاک فوج کے ایک دستے نے 1992ء کو قتل کر دیا تھا۔، بیٹوں کے نام بہادر اور منتھرا اور ان کا داماد حاجی اکرم تھا۔ [1][2] اس واقعہ کو ٹنڈو بہاول واقعہ بھی کہتے ہیں۔ مائی جندو انصاف کے لیے لڑتی رہی، ان کی دو بیٹیوں حاکمزادی اور زیب النسا نے اختیاریوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خودسوزی کرلی۔[1]

مائی جندو Mai Jindo
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1942ء (عمر 81–82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت پاکستانی
عملی زندگی
دور فعالیت 1992 سے 2000
وجۂ شہرت انصاف کے لیے لڑی

ٹنڈو بھاول واقعہ ترمیم

5 جون 1992ء[3] کو پاک فوج کے ایک دستہ نے، میجر ارشد جمیل کی سربراہی میں ٹنڈو بہاول کے ایک گائوں میں چھاپا مارا اور 9 دیہاتیوں کو اغوا کرنے کے بعد جامشورو کے قریب واقع دریاۓ سندھ کے کنارے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔[2] مرنے والوں میں مائی جندو کے دو بیٹے بہادر اور منٹھار، داماد حاجی اکرم شامل تھے۔[1] بعد ازاں فوج نے یہ الزام عائد کیا کہ مرنے والے دہشت گرد تھے اور ان کا تعلق ہندوستان کے خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ اینالائسس ونگ سے تھا۔ لیکن سندھی اخبارات نے ان الزامات کو مسترد کر دیا اور ثبوت پیش کیے کہ قتل کیے گئے کاشتکار تھے اور ان کا زمین پر جھگڑا چل رہا تھا۔[4]

ارشد جمیل کا کورٹ مارشل ترمیم

24 جولائی 1992ء کو جنرل آصف نواز اور نواز شریف نے جنرل ہیدکواٹر میں ملاقات کی اور ٹنڈو بہاول واقعے کے اصل حیقیقتوں سے دیر سے آشنا ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ اسی روز آصف نواز نے میجر ارشد جمیل کا کورٹ مارشل کرنے کا حکم دیا۔ جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ارشد جمیل کا ان کسانوں کے ساتھ زمین کا جھگڑا چل رہا تھا، جس کی وجہ سے اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا اور یوں 29 اکتوبر 1992ء کو فلیڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر ارشد جمیل کو سزائے موت اور 13 فوجی اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ میجرل ارشد جمیل نے پاک فوج کے سپہ سالار کو رحم کی اپیل کی لیکن وہ ۱۴ ستمبر 1993ء کو مسترد کردی گئی۔ 31 جولائی 1995ء کو صدر پاکستان فاروق لغاری نے بھی ارشد جمیل کے رحم کی اپیل مسترد تو کر دی مگر ساتھ ہی ساتھ سزا کو روکنے کی ہدایت کی۔ 4 اکتوبر 1995ء کو ارشد جمیل کے بھائی کی اپیل پر سپریم کورٹ کے جج سعید الزماں صدیقی نے حکم امتناع جاری کیا اور سزا پر عملدرآمد روک دیا۔[5] فیلڈ کورٹ مارشل کے سزا پر عملدرآمد نہ ہونے پر احتجاج کرتے ہوئے 11 ستمبر 1996ء کو دن 11:00 بجے مائی جندو کی دو بیٹیوں، حاکمزادی اور زیب النسأ نے حیدرآباد جی او آر کالونی میں واقع انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے سامنے خود پر پیٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگا لی۔ ان کو نازک حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا ،مگر وہ جانبر نہ ہو سکیں۔[6] جس کی وجہ سے پورے ملک میں ایک دفعہ پھر کہرام مچ گیا۔ آخر مائی جندو کی لازوال جدوجہد اور ان کی دو بیٹیوں کی خودسوزی کے بعد، 28 اکتوبر 1996ء کو، حیدرآباد سینٹرل جیل میں قتل ہونے والوں کے ورثا کے سامنے میجر ارشد جمیل کو پھانسی دے دی گئی۔[5]

ورثأ کی مدد ترمیم

کو حکومت سندھ نے مائی جندو اور دوسری متاثر خاندانوں کو ٹھٹہ کے قریب 24 ایکڑ ذررعی زمیں تقسیم کی، بعد ازاں مائی جندو نے کہا وہ زمیں بنجر ہیں۔ [2] 2006ء کو ضلعی ناظم کنور نوید جمیل نے متاثر ورثہ کو 55 ملین روپے دیے۔[7]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ "A mother's pain: Mai Jindo is not sure if it was all worth it"۔ The Express Tribune 
  2. ^ ا ب پ "Victims' mother threatens to immolate herself - Tando Bahawal case"۔ Dawn 
  3. "Boat Basin killing recalls Tando Bahawal carnage"۔ The Nation 
  4. "Civilian court takes uniformed killers to task for the first time"۔ Pakistan Today۔ 2011۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ November 14, 2016 
  5. ^ ا ب "ٽنڊو بهاول سانحو"۔ انسائيڪلوپيڊيا سنڌيانا (بزبان سندھی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2018 
  6. "TWO WOMEN TORCH THEMSELVES TO DEMAND JUSTICE IN BROTHERS´ DEATHS"۔ UCA News۔ 1996۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ November 14, 2016 
  7. "Tando Bahawal victims' heirs get compensation cheques"۔ Dawn۔ 2006۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ November 14, 2016