مسیح اللہ خان جلال آبادی
محمد مسیح اللّٰہ خان شیروانی جلال آبادی (1911 یا 1912–1992ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم و شیخ ِ طریقت تھے۔ وہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفۂ اجل تھے۔ انھیں "مسیح الامت" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ طریقت کے ساتھ ساتھ صحیح البخاری کا درس بھی دیا کرتے تھے۔
محمد مسیح اللّٰہ خان شیروانی جلال آبادی | |
---|---|
لقب | مولانا، مسیح الامت |
ذاتی | |
پیدائش | 1911/1912ء سرائے برلہ، ضلع علی گڑھ، برطانوی ہند |
وفات | 13 نومبر 1992ء (عمر 79–81) |
مدفن | جلال آباد |
مذہب | اسلام |
قومیت | ہندوستانی |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | حنفی |
تحریک | دیوبندی |
بنیادی دلچسپی | تصوف |
قابل ذکر کام | شریعت و تصوف |
طریقت | چشتیہ-صابریہ-امدادیہ |
پیشہ | عالم، مرشد |
مرتبہ | |
استاذ | اشرف علی تھانوی (اِن کے خلیفہ تھے) |
متاثر |
ابتدائی و تعلیمی زندگی
ترمیمولادت و خاندان
ترمیمان کی پیدائش 1329 یا 1330ھ (1911/1912ء) کو سرائے برلہ، ضلع علی گڑھ، برطانوی ہند (موجودہ اتر پردیش، بھارت) میں ہوئی تھی۔ ان کا خاندان شیروانی قبیلہ سے تھا، جو ایک پشتونی قبیلہ تھا۔ ان کے والد کا نام احمد سعید خان تھا۔[1][2] سلسلۂ نسب یوں ہے: ’’محمد مسیح اللہ خاں بن بن سعید خان بن بن جیون خان بن شہباز خان بن ممریز خان بن صفات خان‘‘۔ [3]
تعلیم و تربیت
ترمیمخاندان میں انگریزی تعلیم کا چرچہ وغلبہ ہونے کی وجہ سے انگریزی اسکول میں داخلہ کرادیا گیا، درجہ ششم تک سرکاری اسکول میں پڑھے؛ لیکن چوں کہ بچپن ہی سے طبیعت دین کی طرف راغب تھی، نمازوں کی پابندی، اذکار و نوافل کا دھیان اور دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق دامن گیر تھا؛ اس لیے سرکاری اسکول سے بد دل ہوکر عصری تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا، والد صاحب نے مجبور ہوکر دینی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی، چناں چہ انھوں نے قرآن پاک قاری عبد اللہ شاہ سے پڑھا، علی گڑھ ہی میں آپ نے میاں جی عبد الرحمن صاحب مرحوم سے فارسی کی تعلیم حاصل کی، شرح جامی تک درس نظامی کی کتابیں اپنے وطن ہی کے مدرسہ اسلامیہ برلہ میں شرح جامی تک مولانا حکیم محفوظ علی دیوبندی سے اور جلالین شریف و ملا حسن تک مفتی سعید احمد صاحب لکھنوی سے پڑھی۔ [4] اس کے بعد 1348ھ (1928/1929ء) میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور کل چار سال وہاں رہے، دورۂحدیث کے بعد دو سال علوم وفنون کی تکمیل کے لیے وہیں مقیم رہے اور مختلف اساتذہ سے قاضی مبارک، میر زاہد، شرح التشریح، شرح چغمینی، سبع شداد وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ اور شعبان 1351ھ (1932ء) میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ [5]
دار العلوم دیوبند میں ان کے اساتذۂ حدیث
ترمیمدار العلوم دیوبند میں ان کے اساتذۂ حدیث میں یہ حضرات شامل تھے:[6]
- حسین احمد مدنی سے انھوں نے صحیح بخاری و سنن ترمذی پڑھیں۔
- محمد اعزاز علی امروہی سے انھوں نے شمائل ترمذی پڑھی۔
- سید اصغر حسین دیوبندی سے انھوں نے سنن ابی داؤد پڑھی۔
- محمد ابراہیم بلیاوی سے انھوں نے نسائی شریف پڑھی۔
- رسول خان ہزاروی سے انھوں نے مسلم شریف پڑھی۔
- مرتضی حسن چاند پوری سے انھوں نے مؤطا امام محمد و طحاوی شریف پڑھیں۔
- محمد شفیع عثمانی انھوں نے سنن ابن ماجہ اور موطا امام مالک پڑھیں۔
بیعت و خلافت
ترمیمجس سال دار العلوم دیوبند میں داخلہ ہوا اسی سال وہ مولانا اشرف علی تھانوی سے بیعت ہوئے تھے اور فراغت کے بعد 25 شوال 1351ھ (فروری 1933ء) کو انھیں ان کے شیخ مولانا تھانوی سے خلافت و اجازتِ بیعت حاصل ہوئی۔ ان کی کم عمری کے باوجود مولانا تھانوی کو ان پر بھروسا و اعتماد تھا، چناں چہ مولانا تھانوی نے اپنے جن گیارہ مخصوص خلفاء کے نام ایک اعلان میں تحریر فرمائے تھے، اس میں لکھا تھا کہ ” اپنے چند مجازین کے نام لکھتا ہوں کہ جن کے طرزِ تعلیم پر مجھے اعتماد ہے، ان میں سے جس سے چاہیں اپنی تربیت متعلق کر لیں“۔ ان گیارہ مخصوص خلفاء میں ان کا نام بھی شامل تھا۔ درحقیقت وہ ان گیارہ میں دوسرے نمبر پر تھے، پہلے نمبر پروفیسر مولانا محمد عیسیٰ الہ آبادی تھے، جو مولانا تھانوی کے سب سے اجل خلیفہ تھے۔ مولانا تھانوی کو مسیح اللہ خان کی طریقۂ تربیت پر بھروسا تھا اور وہ تربیت کے لیے بعض اوقات اپنے مریدین کو مسیح اللہ خان کے پاس بھیج دیتے تھے۔[2][7][2][8] مفتی محمد تقی عثمانی ان کے سب سے ممتاز خلفا میں سے ایک ہیں۔[9]
عملی زندگی
ترمیماپنے مرشد مولانا تھانوی کی ہدایت پر 1357ھ (1938/1939ء) میں مسیح اللہ خان جلال آباد، ضلع مظفر نگر (موجودہ ضلع شاملی) کے ایک مدرسہ میں ایک استاد کی ضرورت کی وجہ سے منتقل ہو گئے۔ جلال آباد میں انھوں نے ایک چھوٹے سے دو کمروں والے مدرسہ مفتاح العلوم کی ذمہ داری سنبھالی۔ تیس سالوں کے اندر وہ چھوٹا سا مکتب؛ ایک بڑے مدرسہ میں تبدیل ہو گیا، جس میں ابتدائی تعلیم سے لے کر عالمیت اور افتا تک کی تعلیم دی جانے لگی۔[2][1][8] 1407ھ (1986/1987) میں انھوں نے مدرسہ چلانے کی ذمہ داری اپنے بیٹے (صفی اللّٰہ خان) کو سونپ دی، خود صرف صدر مہتمم رہے اور اپنے ذمہ صرف درس بخاری رکھی (جو تاحیات پندرہ سال ان سے متعلق رہی)؛ تاکہ وہ خود اپنے خانقاہ کے لیے زیادہ وقت دے سکیں، جہاں لوگوں کی بڑی تعداد تزکیہ و احسان کے لیے آ رہی تھی۔ ہر پیر اور جمعرات کو مسیح اللہ اپنے مریدین کو تلقین کرنے کے لیے دو سے تین گھنٹے کی مجلس منعقد کرتے۔ ہر جمعہ کو نماز جمعہ کے بعد عام لوگوں کے لیے ایک اجتماع ہوتا، جس میں جلال آباد اور گرد و نواح سے کئی سو لوگ شریک ہوتے۔[1]
بیعت و ارشاد اور خانقاہی فیضان
ترمیمدرس وتدریس کے ساتھ اپنے شیخ و مرشد مولانا تھانوی کے طرز پر بیعت وارشاد کا سلسلہ بھی جاری رکھا، تقریباً 56 سال کے طویل عرصہ میں ہزاروں اور لاکھوں تشنگانِ سلوک وتصوف نے اس سرچشمۂ ہدایت سے اپنی پیاس بجھائی، خانقاہ امدادیہ کے طرز پر جلال آباد میں ایک خانقاہ قائم کی، جو ہند وبیرونِ ہند کے سالکینِ معرفت کے ذکر سے معمور رہا کرتی تھی، وہ تمام سالکین کی بذات خود نگرانی فرمایا کرتے تھے اور سالک کے روحانی مرض کے لیے نسخۂ شفا بھی تجویز کرتے، اصلاحی خطوط و کاپیوں کا باقاعدہ ایک سلسلہ رہتا، ان کے یہاں جمعہ کے دن بعد نماز جمعہ ایک عام مجلس ہوتی تھی، جس میں مدرسہ کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ گرد و نواح کے مریدین کا بڑا مجمع ہوتا تھا، جس میں وہ از خود اپنے مرشد کے ملفوظات ومواعظ پڑھ کر سناتے، اپنے شیخ کی احسانی تعلیمات کو عام کرتے، جب کہ خاص مجلس عصر بعد خانقاہ میں ہوتی تھی یہ سلسلہ اخیر عمر میں یہیں منحصر ہوکر رہ گیا تھا۔ تصوف وسلوک میں یہ مقام حاصل تھا کہ خود ان کے جلیل القدر استاذ گرامی مفتی سعید احمد صاحب لکھنوی نے بھی حضرت تھانوی کی وفات کے بعد اپنے اس شاگرد کے ہاتھ پر بیعت کی، اس کے علاوہ ایک کثیر تعداد ملکی و غیر ملکی طالبین رشد و ہدایت کی ایسی ہے کہ جو آپ کے حلقۂ ارادت سے وابستہ رہی، جنھوں نے ان کی تعلیم و تربیت سے فیض یاب کر عالَم کو فائدہ پہنچایا اور افادہ کا یہ سلسلہ واسطہ بلاوسطہ تاحال جاری و ساری ہے۔
قلمی خدمات
ترمیم- شریعت و تصوف[10] (نہایت اہمیت کی حامل کتاب ہے، جس میں انھوں نے عقلاً و نقلاً ثابت کیا ہے کہ شریعت وتصوف دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں؛ بلکہ دونوں باہم مربوط ہیں۔)
- شریعت و تصوف کا انگریزی ترجمہ (The Path to Perfection)[11]
- فضل الباری فی درس البخاری (ان کے دروسِ صحیح البخاری کا مجموعہ؛ جسے ان کے ایک تلمیذ خاص مولانا مفتی نصیر احمد صاحب نے پانچ جلدوں میں مرتب کیا ہے۔)
- اس کے علاوہ درجنوں مواعظ وملفوظات اور مجالس کے حصے بھی زیور طبع سے آراستہ ہوکر مقبول عام وخاص ہوئے۔
بعض مشہور تلامذہ
ترمیموہ ایک باکمال مرشد و منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب استاذ اور رجال ساز مربی و مصلح بھی تھے، چناں چہ ان کے دست نگر سے تیار ہونے والے مردمانِ باکمال کی ایک طویل فہرست ہے، جنھوں نے چہاردانگِ عالم میں اپنے استاذ کا فیض عام کیا۔ ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
- مولانا سلیم اللہ خان لوہاروی ثم کراچوی مہتمم جامعہ فاروقیہ وصدر وفاق المدارس العربیہ کراچی پاکستان
- علامہ رفیق احمد بھیسانوی شیخ الحدیث جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد۔
- مولانا مفتی نصیر احمد صاحب، سابق استاذ حدیث وفقہ و صدر مفتی جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد۔
- مولانا محمد یاسین صاحب شیخ الحدیث سابق مفتاح العلوم جلال آباد۔
- مولانا عقیل الرحمن صاحب، موجودہ شیخ الحدیث مفتاح العلوم جلال آباد۔
- مولانا مفتی مہربان علی بڑوتی، سابق ناظم تعلیمات جامعہ امداد الاسلام ہرسولی۔
- حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی شیروانی لودھی، مقیم شہر بنگلور، کرناٹک الہند، بانی و مہتمم الجامعہ الاسلامیہ مسیح العلوم بیدواڈی، بنگلور
وفات
ترمیممسیح اللہ خان کا انتقال 17 جمادی الاولی 1413ھ مطابق 13 نومبر 1992ء کو رات سوا بارہ بجے ہوا۔ اسی روز نماز جمعہ کے بعد ان کی تدفین عمل میں آئی۔[12] نماز جنازہ مفتی عنایت اللہ نے پڑھائی اور ان کی نماز جنازہ میں 250,000 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ انھیں مدرسہ کے ساتھ والے قبرستان (جو اب ”مفتاح الجنۃ“ کے نام سے مشہور ہے) میں ان کے استاذ مفتی سعید احمد لکھنوی کے بازو میں سپرد خاک کیا گیا۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ A BRIEF BIOGRAPHY OF MASIH AL-UMMAH MUHAMMAD MASIHULLAH KHAN [مسیح الامہ محمد مسیح اللہ خان کی مختصر سوانح عمری] (PDF) (بزبان انگریزی)۔ 18 جون 2022 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2019
- ^ ا ب پ ت ٹ "Maulana Masihullah Khan Sherwani"۔ White Thread Press۔ 21 ستمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2019
- ↑ میواتی مفتاحی 1995, p. 57.
- ↑ میواتی مفتاحی 1995, p. 66-67.
- ↑ میواتی مفتاحی 1995, p. 70-72.
- ↑ میواتی مفتاحی 1995, p. 74-75.
- ↑ ڈاکٹر مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (اکتوبر 2020ء ایڈیشن)۔ شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم دیوبند۔ صفحہ: 732-733
- ^ ا ب سید محبوب رضوی۔ تاریخ دار العلوم دیوبند (جلد 2) (2005 ایڈیشن)۔ المیزان ناشران و تاجران کتب، الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور۔ صفحہ: 163-164۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2020
- ↑ "Mawlana Mohammad Taqi Usmani"۔ Ashrafiya.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2021
- ↑ Muhammad Masihullah Khan۔ Shariat-o-Tasawwuf۔ Maktaba Fakharia Khanquah Imdadia, Gilat Bazar, Varanasi Cantt, اتر پردیش
- ↑ Maulana Masihullah Khan۔ The Path to Perfection (بزبان انگریزی) (Jun 2005 Reprint 2009 ایڈیشن)۔ White Thread Press۔ ISBN 978-0-9728358-7-9۔ 23 جولائی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2019
- ↑ سید محمد غیاث الدین مظاہری الہ آبادی (فروری 2005)۔ سوانح مسیح الامت۔ جلال آباد، شاملی: شعبۂ نشر و اشاعت، جامعہ مفتاح العلوم۔ صفحہ: 152
کتابیات
ترمیم- مفتی رشید احمد قاسمی میواتی مفتاحی (1995)۔ حیات مسیح الامت (1 ایڈیشن)۔ مالپوری، ضلع فرید آباد، ہریانہ: ادارہ تالیفات مسیح الامت