پاکستان کی 0.22% یا 2.2% آبادی احمدی ہے۔[1][2][3][4][5] دنیا بھر میں احمدی پاکستان میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ انگلستان منتقل ہونے سے قبل پنجاب کے شہر چناب نگر میں احمدی برادری کے عالمگیر صدر دفاتر ہوتے تھے۔ پاکستان میں احمدی برادری کو اکثر سنی اکثریت کی جانب سے پریشانی اور مذہبی وجہ تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تحریکِ احمدیہ کی ابتدا خطۂ پنجاب کے قادیان (موجودہ بھارت) سے ہوئی۔ آزادی پاکستان کے وقت جب مسلم اکثریت برصغیر سے علاحدہ ہوئی اور ایک الگ ریاست کا قیام عمل میں آیا تو احمدیوں کی اکثریت بھارت سے ہجرت کر کے نئی ریاست میں آ گئی۔ ملک میں احمدیہ ایک چھوٹی اقلیت سمجھی جاتی ہے۔ کچھ پاکستانی احمدی شخصیات قابل ذکر ہیں جن میں ملک کے پہلے نوبل انعام یافتہ عبد السلام اور پہلے وزارت خارجہ محمد ظفر اللہ خان شامل ہیں۔

تاریخ

آزادی سے پہلے کا دور

تحریک پاکستان کے حامی

قائد اعظم کی واپسی کے لیے تحریک

برادری کے دوسرے روحانی لیڈر مرزا بشیر الدین محمود احمد نے انگلستان کے احمدی مذہبی عالم عبد الرحیم درد کو حکم دیا کہ وہ محمد علی جناح سے ملاقات کریں۔ انھوں نے قائد اعظم سے تین گھنٹے کنگز بینچ واک لندن میں ملاقات کی۔[6] جناح رضامند ہو گئے اور وہ واپس ہند آ گئے۔

ہندوستان کے 1946ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت

محمد ظفر اللہ خان نے قرارداد پاکستان کا مسودہ تیار کیا،[7] مرزا بشیر الدین محمود احمد نے احمدیوں کو تاکید کی تھی کہ وہ 1945–6 کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کریں۔

خضر حیات خان ٹوانہ کا استعفا

محمد ظفر اللہ خان نے خضر حیات کو مخلصانہ مشورہ دیا کہ وہ وزارت سے استعفا دے دیں اور وہ مشورے و ہدایت کے مطابق مستعفی ہو گئے۔[8]

باؤنڈری کمیشن میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد

قیام پاکستان کے بعد اور ربوہ کا قیام

پاکستان کا قیام عمل میں آنے کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد کچھ احمدیوں کے ساتھ پاکستان آ گئے اور انھوں نے اپنا ایک نیا شہر بنایا جنہیں وہ میدان تیہ سمجھتے تھے۔

1953ء کے احمدی مخالف فسادات

احمدی مخالف گروہ و اسلام پسندوں (جماعت اسلامی) نے احمدیوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے شدید قسم کی تحریک چلائی۔ حکومت پاکستان نے تحریک کو دبانے کی کوشش کی اور اسی کہ نتیجے میں مجلس احرار الاسلام پر پابندی بھی لگائی گئی تھی۔

1974ء کے احمدی مخالف فسادات اور آئین پاکستان میں دوسری ترمیم

1974ء میں کئی اور اسلام پسند جماعتوں کی احمدی مخالف تحریکیں سرگرم ہو گئیں جن میں تحریک ختم نبوت اور پاسبان ختم نبوت شامل تھیں۔ ان تحریکوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیں۔

1984ء کی احمدیہ مخالف ترمیم

صدر ضیاء الحق کی سربراہی میں آئین پاکستان میں ضابطہ تشکیل دیا گیا جس کے تحت احمدیوں پر مذہبی آزادی کی پابندی لگائی گئی۔ اس قانون کے تحت احمدی خود کو 'براہ راست یا بالواسطہ مسلمان' نہیں کہہ سکتے ایسا کرنے کی صورت میں تین سال قید کی سزا ہے۔

صدر دفاتر کی لندن منتقلی

احمدیوں کے خلاف دو ترامیم کے بعد احمدی برادری کہ خلیفہ مرزا طاہر احمد نے مرکزی صدر دفاتر لندن منتقل کر دیے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. The 1998 Pakistani census states that there are 291,000 (0.22%) Ahmadis in Pakistan. However, the Ahmadiyya Muslim Community has boycotted the census since 1974 which renders official Pakistani figures to be inaccurate. Independent groups have estimated the Pakistani Ahmadiyya population to be somewhere between 2 million and 5 million Ahmadis. However, the 4 million figure is the most quoted figure and is approximately 2.2% of the country. See:
    • over 2 million: Immigration and Refugee Board of Canada (2008-12-04)۔ "Pakistan: The situation of Ahmadis, including legal status and political, education and employment rights; societal attitudes toward Ahmadis (2006 - Nov. 2008)"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2012 
    • 3 million: International Federation for Human Rights: International Fact-Finding Mission. Freedoms of Expression, of Association and of Assembly in Pakistan. Ausgabe 408/2, Januar 2005, S. 61 (PDF)
    • 3–4 million: Commission on International Religious Freedom: Annual Report of the United States Commission on International Religious Freedom. 2005, S. 130
    • 4.910.000: James Minahan: Encyclopedia of the stateless nations. Ethnic and national groups around the world. Greenwood Press . Westport 2002, page 52
    • "Pakistan: Situation of members of the Lahori Ahmadiyya Movement in Pakistan"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ April 30, 2014 
  2. over 2 million: Immigration and Refugee Board of Canada (2008-12-04)۔ "Pakistan: The situation of Ahmadis, including legal status and political, education and employment rights; societal attitudes toward Ahmadis (2006 - Nov. 2008)"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2012 
  3. 3 million: International Federation for Human Rights: International Fact-Finding Mission. Freedoms of Expression, of Association and of Assembly in Pakistan. Ausgabe 408/2, Januar 2005, S. 61 (PDF)
  4. 3–4 million: Commission on International Religious Freedom: Annual Report of the United States Commission on International Religious Freedom. 2005, S. 130
  5. 4.910.000: James Minahan: Encyclopedia of the stateless nations. Ethnic and national groups around the world. Greenwood Press . Westport 2002, page 52
  6. "Movement for returning Jinnah to India"۔ Perseuction.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2012 
  7. Khan, Wali۔ "Facts are Facts: The Untold Story of India's Partition" (PDF)۔ صفحہ: 40–42۔ 06 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ March 9, 2011 
  8. "Resignation of Malik Khizar Hayat Tiwana"۔ Persecution.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2012