ریڈکلف لائن (Radcliffe Line) تقسیم ہند کے وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک خط تھا جو دونوں ملکوں کے مابین تعین حدود کرتا تھا جس کا اعلان 17 اگست 1947ء کو کیا گیا۔ اس خط کا نام سیریل ریڈکلف (Cyril Radcliffe) کے نام پر ہے جو تقسیم ہند کے وقت سرحد کمیشن کا چیئرمین تھا۔ سرحد کمیشن کو 88 ملین افراد کے ساتھ 175،000 مربع میل (450،000 مربع کلومیٹر) اراضی کی غیر جانب دارانہ اور منصفانہ تقسیم کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

تقسیم ہند

پس منظر ترمیم

15 جولائی 1947ء کو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے قانون آزادی ہند 1947 منظور کیا جس کے مطابق ہندوستان پر برطانوی راج ایک ماہ بعد 15 اگست 1947ء کو ختم ہو جائے گا۔ قانون آزادی ہند 1947 میں یہ کہا گیا تھا کہ ہندستان دو زیر برطانیہ دو خود مختار ڈومنین یا مملکتوں مملکت پاکستان اور مملکت بھارت میں تقسیم ہو گا۔

تقسیم سے پہلے ہندوستان کے تقریباً 40 فیصد علاقے پر نوابی ریاستیں قائم تھیں۔ نوابی ریاستیں چونکہ برطانوی راج کے ماتحت اتحاد میں شامل تھیں اور اپنے امور خارجہ کے خود ذمہ دار تھیں اس لیے یہ تقسیم ہند کا حصہ نہیں بنیں۔ اس طرح برطانیہ نہ تو انھیں آزادی اور نہ ہی تقسیم کر سکتا تھا۔ ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ اختیار حاصل تھا وہ نئے بننے والے ڈومنین میں سے ایک کے ساتھ الحاق کر لیں یا آزاد رہیں۔

اس صورت حال میں تقریباً تمام نوابی ریاستوں نے فوری طور پر بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ جبکہ ایک چھوٹی تعداد نے علاحدہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان ایک مسلم سر زمین کے طور پر سامنے آیا جبکہ بھارت ہندو اکثریت کے ساتھ سیکولر ریاست تھی۔ شمال میں مسلم اکثریتی برطانوی صوبے پاکستان کی بنیاد بنے۔

بلوچستان (مسلم 91،8٪) اور سندھ (مسلم 72.7٪) کے صوبے مکمل طور پر پاکستان کو دے دیے گئے۔ تاہم شمال مشرق میں بنگال (54.4٪ مسلم) شمال مغرب میں اور پنجاب (55.7٪ مسلم)، دو صوبوں میں بھاری اکثریت نہ ہونے کی صورت میں انھیں تقسیم کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں صوبہ پنجاب کا مغربی حصہ مغربی پاکستان کا صوبہ مغربی پنجاب (بعد میں پنجاب) بنا۔ جبکہ دوسرا حصہ بھارت کی ریاست مشرقی پیجاب بنا جسے بعد میں پنجاب اور دیگر دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ بنگال کو مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان میں) اور مغربی بنگال (بھارت میں) تقسیم کر دیا گیا۔ آزادی کے بعد شمال مغربی سرحدی صوبہ (جس کی سرحد افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کے تحت معین کی گئی تھی) میں ریفرنڈم کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔

طریقہ کار اور اہم شخصیات ترمیم

ایک خام سرحد پہلے سے ہی وائسرائے آرچیبالڈ ویول کے تحت نئے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے فروری 1947ء میں قلم دان سنبھالنے سے قبل تیار کر لی گئی تھی۔ برطانیہ نے دو سرحدی کمیشن پر سر سیریل ریڈکلف چیئرمین مقرر کیا ایک پنجاب اور ایک بنگال کے لیے۔[1]

کمیشن کو مسلمان اکثریتی علاقوں اور غیر مسلم علاقوں کی بنیاد پر پنجاب اور بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ہر کمیشن میں چار ہندوستان نمائندے تھے، دو آل انڈیا کانگریس سے اور دو آل انڈیا مسلم لیگ سے۔ دونوں فریقوں کے مفادات اور ان کے متعصبانہ رویوں کی وجہ سے تعطل کو دیکھتے ہوئے حتمی فیصلہ ریڈکلف کا تھا۔ 8 جولائی 1947ء کو ہندوستان پہنچنے کے بعد ریڈکلف کو سرحد پر فیصلہ کرنے کے لیے صرف پانچ ہفتوں کا وقت دیا گیا۔[2]

ریڈکلف نے جلد ہی اپنے کالج کے ساتھی سابق طالب علم لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ملاقات کی اور کمیشن کے ارکان کو ملنے کے لیے لاہور اور کلکتہ کا سفر کیا۔ بنیادی طور پر نہرو کانگریس اور جناح مسلم لیگ کے نمائندوں کے طور پر۔ سرحد پر فیصلہ صرف دو دن قبل کیا گیا لیکن اس کا اعلان 17 اگست 1947ء کو پاکستان اور بھارت کی آزادی کے دو دن بعد کیا گیا۔

طریقہ کار میں مشکلات ترمیم

سرحد سازی طریقہ کار ترمیم

 
ریڈکلف لائن، پنجاب

تمام وکلا بلحاظ پیشہ بشمول ریڈکلف اور دیگر کمشنروں کو اس مخصوص کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان کے پاس کوئی تجربہ کار مشیر بھی نہ تھا جو حد بندی کے معاملات میں بہتر طریقہ کار اور معلومات رکھتا ہو۔ اور نہ ہی سروے اور علاقائی معلومات جمع کرنے کا وقت تھا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ماہرین اور مشیروں کی عدم موجودگی، تاخیر سے بچنے کے لیے، جان بوجھ کر گئی تھی۔[3] جنگ کی وجہ سے قرض میں گھری ہوئی برطانیہ کی نئی "لیبر حکومت" اس قسم کے اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔[4][5]

سیاسی نمائندگی ترمیم

انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاست دانوں کو برابر نمائندگی دی گئی تا کہ توازن برقرار رہے لیکن یہ تعطل کا باعث بنی۔ ان کے باہمی تعلقات اتنے رجحانی تھے کہ جج "بمشکل ایک دوسرے سے بات کرنا گوارا کرتے تھے"۔

مقامی معلومات ترمیم

ریڈکلف کی ہندوستان میں تقرری سے پہلے نہ تو کبھی ہندوستان کا دورہ کیا اور نہ ہی وہ وہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔

جلدبازی اور بے حسی ترمیم

اگر کمیشن زیادہ محتاط ہوتا تقسیم میں ایسی فاش غلطیوں سے بچا جا سکتا تھا۔ ریڈکلف نے اس بات اعتراف یوں کیا کہ کچھ بھی کر لیتا پھر بھی مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اس سے نالاں رہتے۔[6]

رازداری ترمیم

تنازعات اور تاخیر سے بچنے کے لیے تقسیم کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ حتمی مسودہ 9 اگست اور 12 اگست کو تیار تھا لیکن اس کا اعلان آزادی کے دو دن بعد کیا گیا۔ ریڈ کے مطابق کچھ واقعاتی ثبوت ہیں جن کے مطابق نہرو اور پٹیل کو خفیہ طور پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن یا ریڈکلف کے بھارتی اسسٹنٹ سیکرٹری کی جانب سے 9 اگست یا 10 کو پنجاب کی تقسیم کے بارے میں مطلع کر دیا گیا تھا۔

عمل درآمد ترمیم

تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے نوخیز حکومتی سرحدوں پر عملدرآمد کی تمام ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اگست میں لاہور کے دورے کے بعد وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے لاہور میں امن برقرار رکھنے کے لیے عجلت میں ایک پنجاب سرحد فورس کا اہتمام کیا، لیکن 50،000 افراد ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے کے واقعات کے لیے کافی نہیں تھے جن میں سے 77 فیصد دیہی علاقوں میں تھے۔

ریڈکلف لائن پر تنازعات ترمیم

ریڈکلف لائن کے حوالے سے دو بڑے تنازعات تھے۔ چٹاگانگ پہاڑی علاقہ اور ضلع گرداسپور۔ جبکہ معمولی تنازعات بنگال کے اضلاع مالدا، کھلنا اور مرشدآباد اور آسام کے ضلع کریم گنج میں پیش آئے۔

چٹگانگ پہاڑی علاقہ ترمیم

چٹاگانگ پہاڑی علاق 97 فیصد غیر مسلم آبادی (بدھ مت پیروکارو) کی اکثریت تھی لیکن پاکستان کو دیا گیا۔ پاکستان کو چٹاگانگ پہاڑی علاقہ دینے کی وجہ بھارت کے لیے ناقابل رسائی علاقہ تھا۔

ضلع گرداسپور ترمیم

برطانوی راج کے تحت گرداسپر صوبہ پنجاب کا شمالی ترین ضلع تھا۔ ضلع کو انتظامی طور پر چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تحصیل شکر گڑھ، تحصیل گرداسپور، تحصیل بٹالا اور تحصیل پٹھان کوٹ۔ چار تحصیلوں میں سے صرف تحصیل شکر گڑھ جو دریائے راوی سے باقی ضلع سے جدا تھی پاکستان کو دی گئی۔ باقی تمام ضلع بھارت کی ریاست مشرقی پنجاب کا حصہ بنا۔

تقسیم کے وقت مردم شماری کے مطابق مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تقسیم مندرجہ ذیل تھی:

ضلع کا حصہ اکثریت % مسلم (احمدیہ سمیت)
تحصیل شکر گڑھ مسلم 51%
تحصیل گرداسپور مسلم 51%
تحصیل بٹالا مسلم 53%
تحصیل پٹھان کوٹ غیر -مسلم 33%
کل ضلع (تمام چار تحصیلیں) مسلم 50.6%
علاقہ بھارت کو دیا گیا غیر مسلم 50 فیصد سے کم

یہ تصور کیا جاتا ہے کہ گرداسپر کو بھارت کو دینے کے لیے مندرجہ ذیل دلائل لارڈ ماؤنٹبیٹن اور دیگر سرحد کمیشن کے سامنے پیش کیے گئے تھے۔

  1. ریاست کشمیر بھارت کے لیے قابل رسائی ہو جائے گی تا کہ اس کے حکمران بھارتی یونین کے ساتھ الحاق کر سکیں۔
  2. تحصیل پٹھان کوٹ وسطی پنجاب کے ملحقہ شہر ہوشیارپور اور کانگڑا کے ساتھ ایک براہ راست ریلوے سے منسلک تھا۔
  3. بٹالااور گرداسپور کی تحصیلیں سکھوں کے مقدس شہر امرتسر کے لیے ایک بفر فراہم کریں گی۔
  4. اگر دریائے راوی کے مشرقی علاقے کو ایک بلاک تصور کیا جائے تو یہ تھوڑا غیر مسلم اکثریتی علاقہ ہو گا۔ یہ بلاک امرتسر اور ضلع گرداسپور کی تمام تحصیلوں (شکرگڑھ کو چھوڑ کر) پر مشتمل ہو گا۔
  5. اس کے علاوہ اس طرح سے سکھ آبادی کی اکثریت (58 فیصد) مشرقی پنجاب میں شامل ہو جائے گی۔
  6. یہ مغربی پنجاب میں زمین کے بڑے علاقوں کو کھو دینے کے بعد سکھ آبادی کو پرسکون کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

ضلع فیروزپور ترمیم

ضلع گرداسپور کا زیادہ حصہ بھارت کو دیے جانے کو متوازن کرنے کے لیے ریڈکلف نے ضلع فیروزپور کی تحصیلیں فیروزپور اور زیرا پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کی، لیکن بیکانیر کے مہاراجا نے اس کی مخالفت کی کیونکہ ہاریکے ہیڈورکس جو دریائے ستلج اور دریائے بیاس سنگم پر واقع ہے جہاں سے نہریں شروع ہوتی ہیں اور یہ فیروز پور کو سیراب کرتا ہے۔ اور یہ بیکانیر کے مہاراجا کی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو دھمکی کے بعد کہ اگر ضلع فیروزپور مغربی پنجاب میں شامل کیا جاتا ہے تو وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کر لے گا۔ آخری وقت میں ضلع فیروزپور تبدیل کر کے پاکستان کی بجائے بھارت کو دے دیا گیا۔

ضلع مالدہ ترمیم

ریڈکلف کا ایک متنازع فیصلہ بنگال کے ضلع مالدہ کی تقسیم تھا۔ ضلع مجموعی طور پر ایک معمولی مسلم اکثریتی تھا لیکن اسے تقسیم کیا گیا اور زیادہ تر حصہ بشمول مالدہ شہر بھارت کو دے دیا گیا۔ ضلع 15 اگست 1947ء کے بعد 3-4 دنوں تک مشرقی پاکستان کی انتظامیہ کے تحت رہا۔

کھلنا اور مرشدآباد اضلاع ترمیم

ضلع مرشداباد جو 70 فیصد مسلم اکثریت کا علاقہ تھا بھارت کو دے دیا گیا جبکہ ضلع کھلنا جو 52 فیصد کا معمولی ہندو اکثریت علاقہ تھا مشرقی پاکستان کو دیا گیا۔

کریم گنج ترمیم

آسام کا صلع سلہٹ ایک رائے شماری کے ذریعے پاکستان میں شامل ہو گیا لیکن کریم گنج ایک مسلم اکثریت علاقہ اور سلہٹ ذیلی تقسیم لیکن سلہٹ سے منقطع بھارت کو دیا گیا۔ 2001ء کی بھارتی مردم شماری کے مطابق اب بھی کریم گنج میں 52۔3 فیصد مسلم اکثریت ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Frank Jacobs (July 3, 2012)۔ "Peacocks at Sunset"۔ Opinionator: Borderlines۔ نیو یارک ٹائمز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ July 15, 2012 
  2. How the Indo-Pakistani Border Came to Be - The New York Times
  3. Read, p.482: "After the obligatory wrangles, with Jinnah playing for time by suggesting calling in the United Nations, which could have delayed things for months if not years, it was decided to set up two boundary commissions, each with an independent chairman and four High Court judges, two nominated by Congress and two by the League."
  4. Mishra, para. 19: "Irrevocably enfeebled by the Second World War, the British belatedly realized that they had to leave the subcontinent, which had spiraled out of their control through the nineteen-forties. ... But in the British elections at the end of the war, the reactionaries unexpectedly lost to the Labour Party, and a new era in British politics began. As von Tunzelmann writes, 'By 1946, the subcontinent was a mess, with British civil and military officers desperate to leave, and a growing hostility to their presence among Indians.' ... The British could not now rely on brute force without imperiling their own sense of legitimacy. Besides, however much they 'preferred the illusion of imperial might to the admission of imperial failure,' as von Tunzelmann puts it, the country, deep in wartime debt, simply couldn’t afford to hold on to its increasingly unstable empire. Imperial disengagement appeared not just inevitable but urgent."
  5. Chester, Boundary Commission Format and Procedure section, para. 5
  6. Read, p.484: Years later, he told Leonard Mosley, "The heat is so appalling, that at noon it looks like the blackest night and feels like the mouth of hell. After a few days of it, I seriously began to wonder whether I would come out of it alive. I have thought ever since that the greatest achievement which I made as Chairman of the Boundary Commission was a physical one, in surviving."

بیرونی روابط ترمیم