پاکستان کے سیاسی وڈیرے (کتاب)
پاکستان کے سیاسی وڈیرے،عقیل عباس جعفری کی اردو تصنیف ہے جس میں آپ نے پاکستان کے سیاسی خاندانوں کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ "پاکستان کے سیاسی وڈیرے" سیاست کے موضوع پر ان کی پہلی کتاب ہے جس نے شائع ہوتے ہی تہلکہ مچا دیا۔ یہی وہ کتاب تھی جس نے سیاست کی دنیا میں "سیاسی وڈیرے" کی اصطلاح کو متعارف کروایا۔[1]
مصنف | عقیل عباس جعفری |
---|---|
ملک | پاکستان |
زبان | اردو |
موضوع | سیاسیات |
صنف | تاریخ پاکستان |
ناشر | ورثہ پبلی کیشنز، کراچی |
تاریخ اشاعت | اول: 1993ء / ہشتم: اگست2011ء |
طرز طباعت | مطبوعہ (مجلد) |
صفحات | 744 |
مواد
ترمیممصنف کی تحقیق و تفتیش کا انداز تقسیم ہند سے پہلے کے انگریز محققین جیسا معلوم ہوتا ہے اور وہ مضمون کے کسی پہلو کو بھی تشنہ چھوڑنے کے روا دار نہیں لگتے۔ صوبہ سرحد کے سیاسی خاندانوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے تو وہ ارباب، رند، بلور، ترین، تنولی، جدون اور خٹک خاندانوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے راجگان گکھڑ، شیر پاؤ، کنڈی، گنڈا پور اور محمد زئی تک آتے ہیں اور پھر ہمیں میاں گُل، ناصر، ہوتی اور یوسف زئی خانوادوں سے متعارف کراتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ترتیب زمانی نہیں بلکہ ابجدی ہے، تاکہ حوالہ تلاش کرنے میں آسانی رہے۔
بلوچستان کی طرف بڑھتے ہیں تو اسی الفبائی ترتیب میں ہمیں اچکزئی، بزنجو، بگٹی، جام، جمالی، جوگیزئی، خاندانوں سے ملواتے ہوئے خان آف قلات، ڈومکی، رند، رئیسانی، زہری، کھوسہ، کھیتران خاندانوں تک لے جاتے ہیں اور وہاں سے محمد حسنی، مری، مگسی، مینگل اور نوشیروانی خاندان تک ہمیں اپنا ہم سفر بناتے ہیں۔
صوبہ سندھ کے جن سیاسی خاندانوں پر عقیل عباس جعفری نے خامہ فرسائی کی ہے ان میں ارباب، انڑ، بجارانی، بھٹو، پٹھان، پگاڑا، پیرزادہ، تالپور، شاہ (تھر پارکر)، جام، جاموٹ، جتوئی، جونیجو، چانڈیو، شاہ (خیر پور)، زرداری، سید (سن)، سومرو، پیر (سہیون) شیرازی، عباسی، قاضی، کھوڑو، گبول، لوند، شاہ (مٹیاری)، مخدوم، مری، ملک، مہر، شاہ (نواب شاہ)، وسان اور ہارون خاندان شامل ہیں[2]۔
خاندانوں کی سب سے بڑی تعداد قابلِ فہم طور پر پنجاب کے حصّے میں آئی ہے جن میں الپیال، بابر پٹھان، پراچے، ٹوانے، جنجوعے، چٹھے، چوہدری، چیمے، خلف زئی پٹھان، دریشک، دستی، دولتانے، ڈاہا، روکڑی، رئیس، سردار، سیّد، عباسی، قریشی، قصوری، نواب آف کالا باغ، کھٹڑ، کھر، کھرل، کھوسہ، گردیزی، گیلانی، لغاری، مخدوم زادے، مزاری، موکل، نوابزادے، نکئی، نون، وٹو اور وریو خاندان شامل ہیں[2]۔
یہ فہرستیں یقیناً مرعوب کن ہیں لیکن مصنف کا مقصد اِن اعداد و شمار تک محدود نہیں ہے۔ وہ پاکستانی عوام کی اِس اُلجھن کو سلجھانے کا جتن کر رہے ہیں کہ ’انتخاب ہو یا انقلاب، جمہوری سیاست کا دور آئے یا مارشل لاء کے ڈانڈے کی حکمرانی، ہر صورت میں قیادت جاگیردار طبقے کی ہوتی ہے۔ کبھی یہ ری پبلِکن کا نام اختیار کرتے ہیں، کبھی کنونشن لیگ کے پرچم تلے جمع ہوجاتے ہیں، کبھی بھٹو کی اسلامی سوشلزم میں محفل جماتے ہیں، کبھی ضیاء الحق کی مجلسِ شوریٰ میں نظر آتے ہیں اور کبھی نواز شریف کا نفسِ ناطقہ بن جاتے ہیں عرض ہر عہد اور ہر اُلٹ پھیر میں انھی کا سِکہ رواں ہوتا ہے اور حد یہ ہے کہ حزبِ اقتدار ہی نہیں، حزبِ اختلاف بھی انہی سرداروں، وڈیروں، نوابوں اور خانوں پر مشتمل ہوتا ہے[2]۔
اِن سیاسی قبیلوں کی جڑوں کو کھوجتے ہوئے عقیل عباس بر صغیر کی تاریخ میں صدیوں تک پیچھے چلے جاتے ہیں اور بعض اوقات نئے برگ و بار کی رونمائی کے لیے انھیں کئی ذیلی قبیلوں اور شاخ در شاخ پھیلے ہوئے کنبوں کو بھی احاطہء تحریر میں لانا پڑتا ہے، لیکن یہ سارا کام انتہائی محنت اور دیانتداری سے کیا گیا ہے۔ تحقیق کے اخلاقی اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر باب کے آخر میں مآخذ کا تفصیلی حوالہ دیا گیا ہے اور کتاب میں شامل تمام حوالہ جات کو جمع کیا جائے تو اُن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے[2]۔