پاکستان کے عام انتخابات، 2008ء
پاکستان میں 9ویں عام انتخابات کا انعقاد 18 فروری 2008ء کو ہوا۔
| |||||||||||||||||
ٹرن آؤٹ | 44.01 % ( 2.21%) | ||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
| |||||||||||||||||
نتائج | |||||||||||||||||
|
3 نومبر 2007ء کو صدر اور رئیسِ عملۂ فوج پرویز مشرف نے ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی۔ مشرف نے ملک کا آئین بھی معطل کرا دیا میڈیا پر بھی پابندی عائد کر دی۔ انتخابات ابتدائی طور پر غیر معینہ مدت تک ملتوی کر ديئے گئے؛[1] تاہم، بعد از انھیں مقررہ وقت پر ہی منعقد کرنے کا سوچا گیا۔[2] 8 نومبر 2007ء کو مشرف نے اعلان کیا کہ آئندہ انتخابات کی تاریخ 15 فروری 2008ء ہو گی۔[3] بعد از، انتخابات کی تاریخ کبھی 9 جنوری 2008ء،[4] تو کبھی بدل کر 8 جنوری 2008ء[5] کر دی گئی۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد، الیکشن کمیشن کے ایک اجلاس میں یہ طے پایا گیا کہ 8 جنوری 2008ء کو انتخابات ممکن نہیں اور یہ یقینی طور پر 18 فروری 2008ء کو ہی ہوں گے۔[6]
انتخابات کے بعد مشرف نے اِس بات کا اعتراف کیا کے انتخابی عمل آزادانہ اور منصفانہ تھا، جبکہ اِن کی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ق)، کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اِن انتخابات میں بڑے بڑے دعوے کرنے والے چودھریوں کو عام شکست ہوئی۔ مشرف نے مسلم لیگ (ق) کی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے نئی پارلیمان کے ساتھ کام کرنے کا وعدہ کیا۔ انتخابات کے لیے ووٹر ٹرن آؤٹ 35,170,435 (یعنی 44 فیصد) لوگوں کا تھا۔ 28 نشستوں (23 صوبائی اور 5 قومی نشستوں) کے لیے ضمنی انتخابات متعدد بار تاخیر کا شکار ہوتے رہے مگر بالآخر 26 جون 2008ء کو منعقد ہوئے۔
نتائج
ترمیمجماعتیں | قومی اسمبلی | پنجاب اسمبلی | سندھ اسمبلی | بلوچستان اسمبلی | سرحد اسمبلی |
---|---|---|---|---|---|
پیپلز پارٹی | 87 | 78 | 68 | 7 | 17 |
مسلم لیگ ن | 67 | 103 | 0 | 0 | 5 |
مسلم لیگ ق | 38 | 66 | 9 | 18 | 6 |
متحدہ قومی موومنٹ | 20 | 0 | 38 | 0 | 0 |
عوامی نیشنل پارٹی | 10 | 0 | 2 | 1 | 31 |
متحدہ مجلس عمل | 3 | 2 | 0 | 6 | 9 |
پاکستان مسلم لیگ ف | 4 | 3 | 7 | 0 | 0 |
بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی | 1 | 0 | 0 | 5 | 0 |
پیپلز پارٹی شیر پاؤ | 1 | 0 | 0 | 0 | 5 |
نیشنل پیپلز پارٹی | 2 | 0 | 3 | 0 | 0 |
آزاد | 27 | 35 | 1 | 10 | 18 |
کل نشستیں | 260 | 287 | 128 | 47 | 91 |
حکومتی تشکیل اور تنازعات
ترمیمدسمبر 2010ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے 2 وزراء، وزیر برائے بندرگاہ و جہاز رانی بابر غوری اور وزیر برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی فاروق ستار نے حکومتی اتحاد سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ اِس دستبرداری کی وجوہات بدعنوانی، امن و امان کی بگڑتی صورت حال اور بڑھتی ہوئی مہنگائی تھیں۔ ساتھ میں ایم کیو ایم کے وزراء نے اپنی پارٹی کے خلاف ذولفقار مرزا کے اُس وقت کے بیانات پر بھی شدید خدشات اور ناراضی کا اظہار کیا۔[7]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ (4 نومبر 2007ء) "اہم مخالفین اب پرویز مشرف کے زیر ہدف"۔ بی بی سی۔
- ↑ (5 نومبر 2007ء) "پاکستان میںانتخابات مقررہ وقت پر ہی منعقد ہوں گے"۔ بی بی سی۔
- ↑ (8 نومبر 2007ء) "مشرف نے فروری میں انتخابات کا وعدہ کر دیا"۔ بی بی سی۔
- ↑ (12 نومبر 2007ء) "بھٹو کی 'لانگ مارچ غیر قانونی'"۔ بی بی سی۔
- ↑ (19 نومبر 2007ء) "مشرف کی 8 جنوری کو انتخابات منعقد کرنے کی سفارش"۔ پیپلز روزنامہ۔
- ↑ (1 جنوری 2008ء) "پاکستان میں انتخابات میں تاخیر؛ تاریخ متوقع"۔ اسکائی نیوز۔
- ↑ (28 دسمبر 2010ء) "پاکستان کے وزراء کابینہ چھوڑ رہے ہیں"۔ الجزیرہ۔