پنجابی ادب (انگریزی: Punjabi literature) بھارت اور پاکستان کے خطہ پنجاب اور بیرون پنجاب بسنے والے پنجابی ادیب اور شاعر کا پنجابی زبان کے کام سے عبارت ہے۔ پنجابی زبان کئی رسوم الخط میں لکھی جاتی ہے جن میں بالترتیب شاہ مکھی اور گرمکھی اہم ہیں۔

عہد وسطی ترمیم

پنجابی ادب کا آغاز بابا فرید الدین گنج شکر (1173ء–1266ء) کے کلام سے ہوتا ہے۔[1] ان کی وفات کے بعد گرو گرنتھ صاحب میں ان کا کلام شائع ہوا۔

مغلیہ اور سکھ عہد ترمیم

بابا فرید الدین کے بعد پنجابی زبان کا دوسرا بڑا شاعر سکھ مت کے بانی اور مہا گرو گرو نانک ((1469ء–1539ء) ہیں۔ انھوں نے خود سنسکرت، عربی فارسی اور جنوبی ایشیا کی دیگر زبانوں کے الفاظ ملا کر پنجابی زبان میں کچھ اشعار لکھے اور یوں گربانی کا بھی آغاز کیا۔ گرونانک کی زندگی اور کارناموں پر مبنی جنم ساکھی بھی پنجابی نثر کے ابتدائی نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگلی صدی میں پنجابی صوفی شاعری کا آغاز ہوا اور شاہ حسین (1538–1599)، سلطان بابو (1628–1691)، شاہ شرف (1640–1724، علی حیدر (1690–1785)، صالح محمد صفوری، میاں محمد بخش (1830-1907) اور بلھے شاہ (1680–1757) جیسے عظیم صوفی شاعر پیدا ہوئے۔ فارسی شاعری میں غزل کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی مگر پنجابی شاعروں نے کافی کو اپنایا اور پروان چڑھایا۔[2]

پنجابی شاعری نے ادب کی دیگر اصناف کو بھی متاثر کیا جیسے پنجابی قصے جو ہندوستانی، فارسی اور قرآنی متون پر مبنی ہوتے ہیں اور عموما رومانی ہوتے ہیں۔ پنجابی قصوں میں وارث شاہ(1706–1798) کا قصہ ہیر رانجھا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ دیگر پنجابی قصوں میں فضل شاہ کا سوہنی ماہیوال، حافظ برخوردار 1658–1707) کا مرزا صاحباں، ہاشم شاہ (1735?–1843?) کا سسی پنوں اور قادریار (1802–1892) کا قصہ پران بھگت شامل ہیں۔

پنجابی شفوی کہانیوں میں جنگ کی کہانیاں بہت مشہور اور روایتی ہیں۔ گرو گوبند سنگھ کی اساطیری کہانی پنجاب میں زبان زد عام و خاص ہے۔ مغلیہ عہد حکومت میں 1739ء میں نادر شاہ کے حملوں کی داستان نجابت نے نادر شاہ دی وار میں بیان کی ہے۔ مغلیہ عہد حکومت میں ہی شاہ محمد (1780–1862) کا جنگ نامہ پنجابی ادب کا حصہ بنا جس میں 1845ء-46ء کے پہلی اینگلو سکھ جنگ کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔

برطانوی عہد ترمیم

برطانوی راج میں پنجابی زبان میں برطانوی ادب داخل ہوا اور جدت پسند نے اپنی جگہ بنا لی۔ اسی بہانے وکٹورین ناول، ایلیزابیتھ ڈراما اور آزادی شاعری پنجابی ادب میں کا حصہ بنے۔ 1835ء میں مسیحی مشنری نے گرمکھی رسم الخط کا پہلا چھانہ خانہ لدھیانہ میں قائم کیا اور 1854ء میں ریورینڈ جے نیوٹن نے پہلا پنجابی لغت مرتب کیا۔ نانک سنگھ (1897–1971) اور ویر سنگھ نے پہلا پنجابی ناول لکھا ویر سنگھ سنگھ سبھا تحریک سے وابستہ تھا مگر اس نے تاریخٰ رومانی ناول بھی لکھے جیسے سندری، ستونت کور اور بابا نودھ سنگھ۔ نانک سنگھ نے شفوی قصوں کو تحریری شکل دی اور اور کئی ناول لکھے۔ انھوں نے سماجی اصلاحات کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ 20ویں صدی میں امرتا پریتم (1919–2005) نے پنجابی ادب کو ایک الگ بلندی عطا کی۔ انھوں نے ناول کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھے۔ وہ شاعرہ بھی تھیں۔ انھوں نے دیگر موضوعات کے ساتھ تقسیم ہند اور نسوانیت کو اپنی تحریروں میں خوب جگہ دی۔ برطانوی عہد میں پنجابی شاعری نے میں نت نئے تجربے ہوئے۔ پورن سنگھ (1881–1931) اس کے لیے بہت مشہور ہوئے۔ دھنی رام چترک (1876–1957)، دیوان سنگھ (1897–1944) اور استاد دامن (1911–1984) تحریک آزادی ہند کے متاثر ہو کر وطن پرستی اور قوم پرستی کو اپنا موضوع بنایا۔

موہن سنگھ (1905–78) اور شریف کنجاہی نے پنجابی شاعری میں جدت پسندی کو فروغ دیا۔

آزادی کے بعد ترمیم

مغربی پنجاب (پاکستان) ترمیم

1947ء میں تقسیم کے بعد پنجاب کا علاقہ بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا۔ مغربی پنجاب میں نجم حسین سید، فخر زمان اور افضل احسن نے پنجابی ادب میں خوب نام کمایا۔ ان کے علاوہ ادبی تنقید اور شاعری پر بھی خوب کام ہوا اور شفقت تنویر مرزااحمد سلیم]] اور نجم حسین سید مشہور ہوئے۔

زمان اور افضل احسن کو تقسیم کے بعد پنجابی زبان کی شناخت کو دوبارہ متعارف کرنے کا سہرا جاتا ہے۔ پاکستانی اکیڈمی آف لیٹرچرز نے علی کو ان کے افسانوی مجموعہ کہانی پراگ کے لیے وارث شاہ میموریل اعزاز سے 2005ء میں نوازا۔ 1987ء میں یہی اعزاز منشا یاد کو ان کے مجموعہ واگدہ پانی کے لیے دیا گیا۔ انھیں 1998ء میں ناول ٹاواں ٹاواں تارا اور 2004ء میں تمغئہ امتیاز سے نوازا گیا۔ دور جدید میں سب سے مقبول مصنف [[میر تنہا یوسی ہیں جنہیں 4 مرتبہ مسعود کھدر پوش اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔ انھوں نے بھارتی لوگوں کے لیے گرمکھی رسم الخط میں بھی اپنی کتابیں لکھوائی ہیں۔ اردو کے مشہور شاعر منیر نیازی (1928–2006) نے پنجابی میں بھی شاعری کی ہے۔

پیر ہادی عبد المنان نے پنجابی شاعری میں نئے ٹرینڈ کو متعارف کرایا اور انھوں نے اردو شاعری میں طبع آزمائی کی ہے۔

مشرقی پنجاب (بھارت) ترمیم

مشرقی پنجاب میں جن ادیبوں اور شاعروں میں نام کمایا ان میں امرتا پریتم (1919–2005)، جسونت سنگھ راہی (1930–1996)، شو کمار بٹالوی (1936–1973)، سرجیت پاتر (1944–) اور پاش (1950–1988) جیسے نام شامل ہیں۔ پریتم کو سنیہے کے لیے 1982ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز سے نوازا گیا۔ انھوں نے اس میں عورت کے سماجی حالات کی عکاسی کی ہے۔ 1965ء میں کمار کے شاہکار لونا کے لیے سایتیہ اکیڈمی اعزازملا۔ کچھ شاعروں میں سماج کو اپنا موضوع بنایا جیسے پوش، پابلو نرودا اور اوکٹاویو پاز وغیرہ۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Encyclopaedia of Indian Literature (Vol. 2)، Sahitya Akademi, p. 1263
  2. http://www.apnaorg.com/poetry/bullahn/